سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
2 فروری 2024
کولکاتا بین الاقوامی
کتاب میلہ اختتام پذیر ہوا۔اس میلے میں کتابوں کی فروخت اور شائقین کتب کی شرکت کے
اعداد و شمار بہت حوصلہ افزا ہیں۔ گلڈ کے مطابق امسال 29 لاکھ شائقین کتب میلے میں
آئے اور 29 کروڑ روپئے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ تعداد اور رقم گزشتہ سال کے
مقابلے میں زیادہ ہے۔ 2023ء کے کتاب میلے میں تقریباً 26 لاکھ شائقین کتب نے 25
کروڑ روپئے کی کتابیں خریدی تھیں۔ اس لحاظ سے مصنفین اور ناشرین کے لئے یہ قدرے
اطمینان کی بات ہے ۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے دائرے نے اس خیال کو تقویت پینچائی
تھی کہ اب کتابوں کے قارئیں کا حلقہ سکڑ رہا ہے۔ کووڈ کی پابندیوں کے بعد کے دور
میں کتابوں کے قارئین کتابوں کی طرف پھر سے واپس آرہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی رہی
ہو کہ لاک ڈاؤن کے دوران عوام کی رغبت کتابوں سے بڑھ گئی ہو اور وقت گزاری کے لئے
انہوں نے سوشل۔میڈیا کے ساتھ ساتھ کتابوں کا بھی سہارا لیا ہو۔
کولکاتا بین الاقوامی
کتاب میلہ
-----------
لیکن کولکاتا کتاب میلے
کے اعدادوشمار سے اردو داں طبقے میں کتب بینی کے رجحان کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ اس
بین الاقوامی کتاب میلے میں زیادہ تر کتاب اسٹال انگریزی اور بنگلہ زبان کی کتابوں
کے ہوتے ہیں۔تیسرے نمبر پر ہندی ہوتی ہے۔ اردو کے چند ناشرین ہی ہوتے ہیں۔ بنگلہ
داں طبقہ میں کتب بینی اور رسائل واخبارات کے مطالعہ کا شوق بہت زیادہ ہے ۔ انہیں
اپنی زبان اور کلچر سے جذباتی لگاؤ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ داں شائقین ادب بڑی
تعداد میں کتاب میلے کا دورہ کرتے ییں۔حتی کہ بنگلہ دیش کی کتابوں کے اسٹال بھی
بڑی تعداد میں ہوتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے لئے الگ سے ایک پویلین ہی ہوتا ہے۔ ببگلہ
دیش کے پویلین میں بھی ایک کروڑ روپئے سے زیادہ کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں اس
پویلین میں بنگلہ زبان میں اسلامی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے جو بنگال کے بنگالی
مسلمانوں کے لئے باعث کشش ہوتا ہے۔ کولکاتا کتاب میلے میں اردو ناشرین کی کم تعداد
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اردو داں طبقے میں کتب بینی کا رجحان بہت کم ہے ۔ یہ
دلیل کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اردو داں طبقے میں کتب بینی کا رجحان کم ہورہا ہے
غلط ہے ۔ کولکاتا کتاب میلے کے اعدادوشمار اس مفروضے کو غلط ثابت کرتے ہیں۔اردو
والوں میں کتب بینی کا شوق سوشل میڈیا کا دور آنے سے پہلے ہی ختم ہوچکا تھا قارئین
کی گھٹتی ہوئی تعداد کی وجہ سے کئی کثیرالاشاعت رسائل جیسے شمع ، خاتون مشرق ،
کھلونا ، ہما وغیرہ بند ہوگئے اور جو زندہ ہیں وہ نام کو شائع ہوتے ہیں۔گزشتہ دور
میں مختلف قسم کے رسائل کے قارئین کا اپنا الگ حلقہ تھا۔ نشیمن ایک خاص طبقے میں
بہت مقبول تھا۔خاتون مشرق اور بیسویں صدی بھی خواتین کے ایک خاص حلقے میں کافی
مقبول تھے۔ مجرم اورجاسوسی دنیا پڑھنے والوں کا الگ حلقہ تھا۔ ناول بھی 80ء کی
دہائی تک اردو داں طبقے میں کافی مقبول تھے اور ناول پڑھنے والوں کا بھی ایک الگ
حلقہ تھا۔ رضیہ بٹ ، واجدہ تبسم وغیرہ کے ناول اس دور میں بہت مقبول تھے اور ان کے
دم سے ہر شہر میں اردو لائبریریاں آباد تھیں۔ نسیم حجازی کی تلوار بھی خوب چمکتی
تھی اور کبھی کبھی ٹوٹ بھی جاتی تھی۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ اردو داں طبقہ
کتابوں اور رسائل سے دور ہونے لگا۔ رسائل ایک ایک کرکے بند ہوتے گئے۔ ناول پڑھنے
والا طبقہ بھی ختم ہوگیا۔اب تو اخبار پڑھنا بھی اردو داں طبقہ کسر شان سمجھتا ہے
اور کسی دکان یا گدی سے اٹھا کرایک نظر دیکھ لیتا ہے۔ ۔
لہذا، جو طبقہ اخبار
پڑھنے کا بھی سزاوار نہ ہو اس سے کتب بینی کی توقع فضول ہے۔اردو داں آبادی میں ایک
بڑی تعداد اساتذہء اردو کی ہے جو اردو زبان وادب کی تدریس کو صرف روزگار سمجھتا
ہیں۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو طلبہ
وطالبات کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ اس کے باوجود اردو کتابوں اور رسائل کی تعداد
فروخت مایوس کن ہے۔ کئی اردو کے ادبی رسائل قارئین کی کمی کی وجہ سے بند ہو چکے
ہیں اور کئی رسائل سرکاری سرپرستی کی وجہ سے ہی زندہ ہیں۔
دبستانوں اور دانشگاہوں
میں اردو کے اساتذہ اردو داں طلبہ میں کتب بینی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ضروری نہیں
کہ ہر استاذ ادب میں دلچسپی رکھے۔وہ سائنس ، تاریخ ، فلسفہ و دیگر موضوعات کی
کتابوں میں دلچسپی رکھ سکتا ہے اور اپنے پسندیدہ موضوعات کی کتابوں کا مطالعہ کرکے
اپنے طلبہ کو اپنے موضوع کو بہتر طورپڑھا سکتا ہے اور ان میں اس موضوع کے متعلق
دلچسپی میں اضافہ کرسکتا ہے۔ اساتذہ میں کتابوں کے مطالعہ کا شوق ہو تو وہ طلبہ کو
بھی کتب بینی کی ترغیب دے سکتے ہیں۔۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک طبقہ
خود کتب بینی سے بیزار ہے۔ انہیں درسی کتابوں کے علاوہ کچھ پڑھنے کا شوق نہیں ہے۔
ایسے میں وہ طلبہ میں کتب بینی کا شوق نہیں پیدا کرسکتے۔
آردو میں کتب بینی کے
فروغ کے لئے نچلی سطح سے کام شروع کرنا ہوگا۔ ہر محلے کی سطح پر کتاب کلچر کو فروغ
دینا یوگا۔ اسکولوں کے طلبہ میں بچوں کے رسائل کی تقسیم کرکے اور ان رسائل کے مواد
کی بنیاد پر کوئز اور دیگر انعامی مقابلے منعقد کرکے طلبہ میں کتابوں اور رسائل کے
مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا ہوگا۔کالج اور یونیورسٹی سطح پر بھی رسائل اور کتابوں کے
مطالعے کو فروغ دینے کے لئے میکانزم وضع کرنا ہوگا۔ والدین کا کردار بھی اس میں
اہم ہے۔ انہیں بھی اپنے بچوں کو کتابیں اور رسائل میں دلچسپی کو فروغ دینے کے لئے
کوشش کرنی ہوگی۔
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism