New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 04:50 PM

Urdu Section ( 21 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Knowledge Leads To Salvation علم سے انسان کے درجات بلند ہوتے ییں

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

21مارچ،2024

موجودہ دور کتابوں کادور ہے۔ آج جتنی بڑی تعداد میں پوری دنیا میں کتابیں شائع ہورہی ییں شاید پچھلی صدیوں میں اتنی کتابیں شائع نہیں ہوئی ہونگی۔اگرچہ آج کل انٹرنیٹ پر بھی علمی مواد افراط سے دستیاب ہے پھر بھی کتابوں کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے کیونکہ کتابوں کی اپنی افادیت ہے۔ 30 سال قبل جب انٹرنیٹ کے دور کا آغاز ہوا تھا اس وقت یہ قیاس کیا گیا تھا کہ اس سے کاغذی کتابوں کی اہمیت کم ہوگی لیکن اٹرنیٹ یا ڈیجیٹل کتابیں کاغزی کتابوں کا پوری طرح سے متبادل نہیں بن سکی ہیں۔ آج بھی کتابی میلے لگتے ہیں اور کروڑوں روپئے کی کاغذی کتابیں فروخت ہوتی ہیں

لیکن اس منظرنامے کا تاریک پہلو یہ ہے کہ اہل اردو میں کتابوں کے تئیں دلچسپی بتدریج کم ہوئی ہے ۔ اہل اردو کی نئی نسل میں ذوق مطالعہ کا فقدان ہے جبکہ دوسری لسانی قومیتوں میں نئی نسل میں بھی کتابوں کے مطالعہ کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ حال ہی میں اختتام پذیر کولکاتا کتاب میلے کی رپورٹ میں یہ ذکر کیا گیا کہ نئی نسل کی بھی ایک بڑی تعداد کتاب میلے میں آئی اور کتابیں خریدیں۔لیکن اہل اردو کی نئی اور پرانی نسل دونوں میں ذوق مطالعہ مایوس کن حد تک مفقود ہے۔ اہل اردو میں کتابوں کے مطالعے میں عدم دلچسپی کے اسباب کا پتہ لگانا ایک مشکل کام ہے ۔ اہل اردو میں کتابوں سے دوری کا یہ منظرنامہ بہت پرانا نہیں ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی تک اہل اردو میں کتابوں اور رسائل کے مطالعے کا ذوق و شوق دوسری لسانی قوموں سے کم نہیں تھا۔ اس دور میں مختلف قسم کے رسائل ، ناول ، اور مختلف موضوعات پر دلچسپ ، معلوماتی اور معرکہ آراء کتابیں شائع ہوتی تھیں۔ اس دور میں اہل اردو میں خواندگی کم تھی کیونکہ اسکول اور کالج کم تھے لیکن اس کے باوجود اہل اردو میں کتابوں اور رسائل کے مطالعہ کا ذوق موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور کے اردو ادب میں تنوع تھا اور رسائل کے ضخیم نمبر اور خاص شمارے شائع ہوتے تھے جو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آج جبکہ تعلیم نسواں عام ہے اردو ادب میں خواتین قلمکاروں کی موجودگی باعث حیرت نہیں لیکن 60ء 70ء اور 80ء کی دہائی میں خواتین قلمکاروں کی موجودگی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس دور میں ادب کا مطالعہ عام تھا اور ادب کے مطالعہ نے ہی ان خواتین میں ادب کے ذوق کی پرورش کی تھی۔

اس دور میں اہل اردو کے ذوق مطالعہ کو دیکھتے ہوئے لائبریریاں قائم کی گئیں جہاں شام کو رونق رہتی۔بچے جوان اور بزرگ ان لائبریریوں میں اپنی شامیں گزارتے تھے۔ خواتین ان لائبریریوں سے ناول اور کتابیں منگواکر پڑھتی تھیں۔ مشاعروں میں بھی عوام کی گہری دلچسپی تھی۔ ایک ایک کل ہند مشاعرے کی تشہیر مہینوں پہلے سے پوتی تھی اور ایک کل ہند مشاعرہ اس علاقے کا ایک غیر معمولی واقعہ ہوتا تھا۔

لیکن حیرت کی بات ہے کہ جب نوے کی دہائی سے مسلمانوں خصوصاً اہل اردو میں تعلیم کو فروغ ہوا ، نئے نئے اسکول اور کالج قائم ہونے لگے اور مسلمانوں کی شرح خواندگی میں اضافہ ہونے لگا تو مسلمانوں اور خصوصاً اہل اردو میں ذوق مطالعہ کم ہونے لگا۔ لائبریریاں ویران ہونے لگیں اور رسائل بند ہونے لگے۔ مشاعروں میں بھیڑ کم ہونے لگی اور کتابوں میں دلچسپی نہ کے برابر رہ گئی۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جب 90ء کی دہائی سے مسلمانوں میں تعلیم کو غیر معمولی فروغ ہوا تو اسی کے ساتھ مسلمانوں میں مذہبی مزاج کو بھی فروغ ہوا۔ یہ ایک متوازی رجحان تھا جو مسلم معاشرے میں فروغ پارہا تھا۔ اب تک مسلم لڑکیاں اسکول اور کالج برقع میں نہیں جاتی تھیں لیکن اکیسویں صدی کے اوائل سے مسلم لڑکیوں میں برقع کا چلن اسی رجحان کے تحت بڑھا۔ جب مسلم معاشرے میں مذہبیت کو فروغ ہوا تو ناول اور ادبی رسالے اور کتابوں کے مطالعہ کو بھی غیر اسلامی اور مخرب اخلاق سمجھا جانے لگا۔ اور یہیں سے مسلمانوں خصوصاً اہل اردو میں ادب ، تاریخ اور فلسفہ سے دوری پیدا ہونے لگی۔ یہ دراصل مذہب کی غلط تعبیر و تاویل کی وجہ سے ہوا ورنہ اسلام صحت مند ادب اور شاعری کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی تاریخ اور سائنس کے مطالعہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ بلکہ قرآن کی کئی آیتوں میں مسلمانوں کو سائنسی طرز فکر اپنانے اور سائنسی تحقیق میں دلچسپی لینے کی تلقین کی گئی ہے۔اسی طرح قرآن میں مسلمانوں کو تاریخ کا مطالعہ کرنے اور پچھلی قوموں سے عبرت حاصل کرنےکی بھی تلقین کی گئی ہے۔ مسلمانوں نے علم البیان بھی قرآن سے ہی سیکھا۔

علم کو قرآن میں بہت اہمیت دی گئی ہے اور اس کو دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کا وسیلہ بتایا گیا ہے۔اسی لئے قرآن میں روحانیات کے ساتھ ساتھ سائنس اور تاریخ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے۔:

۔"جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجات بلند کردے گا۔۔"(المجادلہ:11)۔

علم سے درجات کی بلندی کا تصور دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی ہے۔بودھ مذہب کے عقیدے کے مطابق انسان مرنے کے بعد دوسرا جنم لیتا ہے اور اس کا اگلا جنم اس کے موجودہ جنم کے کرموں کے نتیجے میں اچھا یابرا ہوتا ہے۔اس کے اگلے جنم میں اس کے درجات کی بلندی یا پستی اس کے علم پر بھی بہت حد تک منحصر ہوتی ہے۔اس جنم میں ایک انسان جتنا زیادہ علم حاصل کرتا ہے اتنا ہی وہ اگلے جنم میں اچھی زندگی پاتا ہے۔یہ عقیدہ بودھوں اور دوسری قوموں میں آخری سانس تک علم حاؒصل کرنے کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کے لوگ کتابوں کے مطالعہ کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔

لیکن مذہب کی غلط تعبیر وتاویل کی وجہ سے مسلمانوں میں سائنس ، ادب اور تاریخ کے مطالعہ کی حوصلہ شکنی کی گئی جس کی وجہ سے مسلمان دنیاوی علوم کی کتابوں میں کم دلچسپی لینے لگے۔خواتین میں بھی گھروں میں ناول اور ادبی رسائل کےمطالعہ کا چلن کم ہوتا گیا اور پھر

رفتہ رفتہ بالکل اٹھ گیا۔چند سال قبل تک مسلم گھروں میں ھدی اور خاتون مشرق جیسے رسالے آتے تھے اب وہ بھی آنابند ہوگئے۔ گھر کے بزرگ نشیمن شوق سے پڑھتے تھے۔ ان بزرگوں کے ساتھ اردو کا نشیمن بھی اٹھ گیا۔ اب اردو داں مسلمانوں کے گھروں میں مذہبی رسالے اور کتابیں بھی نہیں ملتیں لے دے کے چند اردو اخبارات مسلم اکثریتی علاقوں میں آتے ہیں جن سے چند تشنگان زبان وادب اپنی تشنگی بجھاتے ہیں۔ان اخباروں ہی میں انہیں اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے ادبی ، تاریخی اور مذہبی مواد مل جاتا ہے۔۔حیات و کائنات کا ایک محدود ٹصور رکھنے والی قوم کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/knowledge-leads-salvation/d/131970

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..