New Age Islam
Sun Jul 13 2025, 05:08 PM

Urdu Section ( 6 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

You Kill Or Perform A Miracle? تم قتل کرو ہوکہ کرامات کروہو

معصوم مرادآبادی

6 اپریل،2023

آزاد ہندوستان کی پیشانی کے بدنما داغوں میں سے ایک بڑا داغ 1987 کا میرٹھ او رملیانہ قتل عام ہے ۔ جب بھی میرٹھ او رملیانہ کانام آتا ہے تووہ سارے زخم تازہ ہونے لگتے ہیں جو اس دوران یہاں کے مظلوم باشندوں کو دیئے گئے اور انہیں تاریخ کے بدترین قتل عام سے گزرنا پڑا۔ تازہ زخم یہ ہے کہ ملیانہ میں 23 مئی 1987کو جن 72 مسلمانوں کو سفا کی او ربربریت کے ساتھ قتل کیا گیا تھا، ان کے سارے ملزمین ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے باعزت بری کردیئے گئے ہیں۔ 37 برسوں تک چلی عدالتی کارروائی کا نتیجہ صفر برآمد ہوا ہے۔ عدالت کاتازہ فرمان یقینا متاثر کے لیے ایک بڑاجھٹکا ہے جس کی ٹیس وہ تا زندگی محسوس کریں گے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ 1987میں جس وقت یہ قتل عام ہوا تھا ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ جن اپوزیشن لیڈروں نے وہاں جاکر متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی تھی، ان میں بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی بھی شامل تھے ۔آنجہانی وزیر اعظم وی پی سنگھ بھی ملیانہ گئے تھے۔ ان کے ساتھ ملیانہ جانے والے صحافیوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ملیانہ میں ہم نے مظلومو ں کی دلخراش داستانیں خود ان ہی زبان سنی تھیں۔وہاں ایک گہرا کنواں تھا جس میں پی اے سی کی مددسے درجنوں لوگوں کو مار مار کر ڈال دیا گیا تھا۔ آج جب ملیانہ قتل عام کے 40 ملزمین کو ایڈیشنل ضلع جج لکھویندر سود کی عدالت نے بڑی کیا ہے تو اس میں نہ تو موت کے اس کنویں کا کوئی ذکر ہے او رنہ ہی ان لوگوں کو جو اس قتل عام کے گواہ بنے تھے ۔ 36 سال کے تھکادینے والے بے سود عدالتی عمل کے بعدتمام ملزمان کی رہائی کو اگر کوئی عنوان دیا جاسکتا ہے تو ہ کلیم عاجز کا یہ شعر ہے:

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو

جس وقت سطریں لکھیں جارہی ہیں تو گجرات سے میرٹھ تک اس قسم کی خبروں کا ایک سلسلہ ہے۔یہ سب فسادات کے دوران ہونے والی سنگین وارداتوں کی دلخراش کہانیاں ہیں جن کے کردار ایک جیسے ہیں۔ ان کو سزا دلانے والوں کی شکلوں او رعمل میں حیرت انگیز مشابہت ہے۔ فسادات میں وحشیانہ طور پرقتل ہونے والوں کے چہرے لوگوں کی یادداشت میں محفوظ نہیں رہتے مگر ہم جیسے اخبارنویس جنہوں نے ان فسادات کو قریب سے دیکھا ہے او رانہیں کبھی بھلا نہیں سکتے ۔اپنی آنکھوں کے سامنے گولیاں او رخنجر چلتے ہوئے دیکھنا یا پھر مورچری میں لاشوں کے انباروں کی چشم دید رپورٹنگ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ 1987 میں میرٹھ کے ان فسادات کے دوران معروف انگریزی صحافی دوست سمتا گپتا او رمیں پی اے سی ے گولی سے بال بال بچے تھے۔ میرٹھ کی ایک گلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پی اے سی کے ظالم جوانوں نے ہمارے اوپر بندوقیں تان دی تھیں ۔ وہ اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کرناچاہتے تھے او رہمیں انہیں بے نقاب کرنے کی ضد تھی۔ اگر بروقت مجسٹریٹ کی گاڑی وہا ں نہیں پہنچتی تو کوئی انہونی بھی ہوسکتی تھی۔ سمتا اور میں آج بھی اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔

یکم فروری 1986 کو بابری مسجد کاتالا کھلنے کے بعد ملک میں جو زبردست اشتعال پھیلا تھا،میرٹھ او رملیانہ اس کی زد میں آنے والے دو سب سے بدنصیب علاقے تھے ۔میرٹھ کے ہاشم پورہ علاقہ سے پی اے سی کے جوانوں نے 40 مسلم نوجوانوں کو اغوا کرکے گولیوں سے بھون کران کی لاشیں ہنڈن ندی میں بہا دی تھیں۔ اس وقت وبھوتی نارائن رائے جیسا فرض شناس پولیس افسر اگر غازی آباد کا ایس ایس پی نہ ہوتا تو ہاشم پورہ کاقتل عام بھی منظر عام پر نہیں ہوتا۔ ان کی کوششوں سے ہی برسو بعد ہاشم پورہ کے قاتلوں کو سزاملی۔ انہوں نے ہاشم پورہ قتل عام کو حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات قرار دیا تھا۔ پولیس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وبھوتی نارائن رائے نے اس واقعہ پر ایک پوری کتاب ‘ہاشم پورہ 22 مئی’ لکھی جو اردو ،ہندی انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہوچکی ہے۔ ملیانہ کامعاملہ بھی سیشن کورٹ میں اٹکا ہوا تھا۔ وبھوتی نارائن رائے اور سینئر ہندی صحافی قربان علی نے دومتاثرین کو ساتھ لے کر 19 اپریل،2021 کو الہٰ آباد ہائی کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا او رملیانہ قتل عام کی جانچ ایس آئی ٹی سے کرانے کی اپیل کی تھی۔ اسی کے بعد عدالتی کارروائی میں تیزی آئی تھی۔ وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ‘ملیانہ میں ہندوؤں کے ایک مشعل ہجوم او رپی اے سی کے جوانوں نے درجنوں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کردیا ۔ ہاشم پورہ او رملیانہ میں فرق یہ تھا کہ ملیانہ کے متاثرین ہاشم پورہ کی طرح پولیس کی حراست میں نہیں تھے۔ ملیانہ کے حصہ میں ہاشم پورہ نے زیادہ بدنامی آئی۔’

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملیانہ قتل عام کی جانچ کے لیے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ نے مئی 1987کے آخری ہفتہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جی کے سریواستوں کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے جانچ بھی کی لیکن اس کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔ اگر آپ آزادی کے بعد برپا ہونے والے فسادات کی جانچ کرنے والے کمیشنوں پر نظر ڈالیں تو سب کا ایک کی انجام ہوا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی حکومت نے ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جو فساد برپا کرتے ہیں او ربے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فسادات کے دوران خود سرکاری مشنری کا رویہ فسادیوں سے مختلف نہیں ہوتا او رپولیس تو اس میں ایک اہم فریق ہوتی ہے۔ اگر اس کی حقیقت جانتی ہوتو آپ کو وبھوتی نارائن رائے کی کتاب ‘فرقہ وارانہ فسادات او رہندوستانی پولیس’’کامطالعہ کرنا چاہئے۔ جس میں انہوں نے خود اپنے ہی محکمہ کی جانبداریوں او رفرقہ وارانہ ذہنیت کو پوری جرات سے بے نقاب کردیا ہے۔

ملک کو جھنجھوڑنے والے ملیانہ قتل عام میں 72 بے قصور وں کو موت ہوئی ۔ اس میں 93 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے انہیں ملزم بنایا گیا۔ آٹھ سو سے زیادہ تاریخیں پڑیں۔ تیس ملزمین ابھی تک فرار بتائے جاتے ہیں، 23 ملزمین کو موت ہوچکی ہے او رباقی چالیس زندہ ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔ مقدمہ کی پیروی کررہے ایڈوکیٹ علاء الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ سبھی ملزمین بری ہونے کے بعد سوال یہ ہے کہ ملزم کون ہے؟ وہ اس معاملے میں اوپری عدالت میں اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اس کے علاوہ کربھی کیا سکتے ہیں۔

آزاد ہندستان میں ہر مسلم کش فساد کا مقدر یہی ہے ۔ہر فساد کے بعد اس کی عدالتی تحقیقات ہوتی ہے۔ ملزمین کے خلاف مقدمے بھی چلتے ہیں،لیکن نتیجہ کچھ برآمدنہیں ہوتا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں جو فسادات برپا ہوئے او ران میں ہزاروں بے گناہ مسلمان ہلاک ہوئے ان میں آج تک کسی ملزم کو کوئی سزا نہیں ملی۔خود دن کے اجالے میں بابری مسجد شہید کرنے والے باعزت بری ہوگئے ۔ اس سلسلہ کا سب سے خوفناک فساد 1992-93میں بمبئی میں ہوا تھا جس کی تحقیقات جسٹس سری کرشناکمیشن نے نہایت ایمانداری کے ساتھ کی تھی اور تمام مجرموں کو بے نقاب کردیا تھا۔ یہ شاید کسی فساد کی سب سے سچی تحقیقات رپورٹ تھی ،لیکن جب اسے اسمبلی میں پیش کیا گیا تو وہی لوگ اقتدار میں تھے جنہوں نے فساد برپا کیا تھا۔ اس وقت کی صوبائی حکومت نے اس رپورٹ کو نامنظور کردیا اور یہ آج تک خاک پھانک رہی ہے۔

6اپریل،2023 ، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/kill-perform-good-deeds/d/129500

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..