گریس مبشر، نیو ایج اسلام
24 فروری 2024
کیرلا ہائی کورٹ کے فیصلے
کے مطابق شادیاں کروانے والی کمیٹیوں اور ان کے عہدے داروں کو بھی
خلع کے لیے پہل کرنی چاہیے۔
اہم نکات:
1۔ خلع سے متعلق کیرلا ہائی کورٹ کے 2023 میں دیے
گئے فیصلے کو اس پیچیدہ مسئلے کے حل کی
طرف ایک مثبت قدم مانا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کے مطابق اب مسلم خاتون کو
طلاق لینےکے لیے عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ان جیسے مسائل میں، بے جا
تاخیر سے بچنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔
2۔ اجیرن بن چکی ازدواجی زندگی میں پھنسے لوگوں نے اس عدالتی فیصلے
کا خیر مقدم کیا ہے۔
3۔ خلع اس طلاق کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف سے شروع کی جاتی ہے۔
4۔ امت مسلمہ اور علما اس
کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے خواتین کے حقوق دبا دیے جاتے ہیں۔
5۔ خلع شادی شدہ خواتین کا ایک انسانی حق ہے جو اسلام نے عطا کیا
ہے، اور عمائدین امت اور علمائے کرام مسلسل اس کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں اور ظالم
شوہر کو بے جا اختیارات دیتے رہے ہیں۔
------
کچھ سال قبل کیرلا ہائی
کورٹ میں ایک کیس آیا۔ پولیس نے کولم میں ایک نوجوان خاتون کے خلاف کریمنل مقدمہ درج کیا تھا۔ وہ اسے منسوخ کرانا چاہتے
تھے۔ اس خاتون کے پہلے شوہر کی شکایت پر اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جب
پہلے شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہو گیا تو خاتون نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ خاتون
کا ماننا تھا کہ اسلام نے عورت کو بھی اپنے شوہر کو چھوڑنے کا حق دیا ہے کیونکہ ہم
مسلم مذہبی اصول و قوانین کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اس نے اپنے گھر والوں کو
اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ اس معاملے کو محلو (مقامی مذہبی قیادت) کے سامنے بھی
رکھ دیا گیا جہاں نکاح ہوا تھا۔ محلو کے قاضیوں کی قیادت میں طلاق کامطالبہ
کیاگیا۔
اس کے بعد خاتون نے دوسری
شادی کی تیاری شروع کر دی۔ اب پہلا شوہر ازدواجی حقوق کا مطالبہ لیے واپس آ گیا۔
اس کی شکایت یہ تھی کہ وہ خاتون میری بیوی رہتے ہوئے کسی اور سے شادی کرنے جا رہی
ہے۔ اس کی شکایت میں یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے قانونی طلاق نہیں لی تھیں۔ شکایت
کنندہ نے یہ بھی کہا کہ اس خاتون پر دھوکہ دہی کے الزامات ہیں۔ اس پر پولیس نے
خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
خاتون کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ کیونکہ طلاق اسلامی
طریقے سے ہی مانگی گئی تھی۔ بعد ازاں دوسری شادی کی تیاری بھی مذہبی طور طریقے سے
ہی کی گئی تھی۔ پھر خاتون کا سوال یہ تھا کہ میرے خلاف
پولیس کیس کیوں درج کیا گیا ہے؟ مگر بعد میں خاتون کو یہ معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے مطابق طلاق دینا
صرف ایک مسلم مرد کا ہی حق ہے۔ اس لیے اگر کوئی عورت طلاق مانگتی ہے تو اس کے خلاف
مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، خاتون نے
اس کیس کو منسوخ کرنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
جب یہ مسئلہ میرے علم میں
آیا تو میرے ذہن میں فسخ (شرعی عدالت کی طرف سے بیوی کی درخواست پر تحلیل نکاح کا
حکم) کے اشتہارات گھومنے لگے، جو اکثر اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ درحقیقت، کچھ خواتین نے دعویٰ کیا کہ
انہوں نے اسلامی قانون کے مطابق اپنے شوہروں کو طلاق دے دی ہے۔ لیکن جب وہ قانونی
داؤ پیچ میں الجھے تب انہیں یہ معلوم
ہوا کہ یہ عمل غیر قانونی ہے ۔ ایسے
اشتہارات تو ہر کوئی ایک عرصے سے دیتا آ رہا تھا لیکن اس کی قانونی حیثیت کے بارے
میں کسی نے کچھ نہیں کہا۔
یہ 2023 میں کیرلا ہائی
کورٹ کے سامنے بھی ایک بہت بڑا قانونی مسئلہ تھا۔ اسلامی قانون کے تحت خواتین کو
طلاق لینے کا حق حاصل ہے۔ تاہم ہندوستان کا
قانونی اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اس تناظر میں، ہمیں مسلم خواتین کے حوالے سے ہائی
کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بارے میں ضرور جاننا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ ایک
مسلمان عورت اسلامی قانون کے مطابق ماورائے عدالت طلاق لے سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ کولم کی خاتون کو اسلامی طریقے سے طلاق لینے کا حق حاصل ہے۔ ہائی کورٹ کے اس
فیصلے کے ساتھ ہی 49 سال پرانی روایت کو اب بدل دیا گیا ہے۔ 49 سال تک ایک مسلم
خاتون کو اسلام کے عطا کردہ حق سے محروم رکھا گیا، اور وہ طلاق کے لیے عدالت سے
رجوع کرنے پر مجبور کی جاتی رہیں، کیونکہ اب تک طلاق لینے کے لیے انہیں مجسٹریٹ کو
مطمئن کرنا ضروری تھا۔ لیکن جب دونوں خاندانوں اور دونوں محلوں نے مداخلت کی، اور پیچیدگیوں
سے آزاد ہو کر طلاق لینے کی خاطر اسلامی قانون کو ختم کر دیا، تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ بھی پڑھنے کے
قابل ہے کہ جب کیرلا ہائی کورٹ کے ایک جج نے ایک مرتبہ کہا کہ طلاق دلانے والی
عدالت سے رجوع کرنا زیادہ مناسب ہوگا، تو کچھ کمیونٹی لیڈر بیدار ہوئے اور کام
کیا۔ عدالت نے خود یہ بات کہی کہ قوم مسلم
کے پدرسرانہ معاشرے نے صدیوں سے مسلم خواتین کو طلاق لینے کے لیے عدالت کا
محتاج بنائے رکھا ہے ۔ مرد ہمیشہ سے طلاق حاصل کرنے کے لیے تین طلاق جیسے غیر
قانونی نظام کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ لیکن خواتین کے لیے ایسا کوئی انتظام نہیں
رہا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہائی کورٹ نے خود کہا ہے کہ مسلم خواتین کو اب بھی
آئین ہند کے فراہم کردہ حقوق کے باوجود طلاق سے متعلق بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
ہمارے درمیان بہت سی ایسی
مسلم خواتین ہوں گی جنہوں نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد راحت کی سانس لی ہو گی۔
کوچی کی ایک ماں اور بیٹی اس کی ایک مثال ہیں۔ شوہر شرابی ہے جو اِدھر ادھر گھومتا
پھرتا ہے اور گھر پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ جیسے جیسے اس کی بیٹی بڑی ہوتی گئی، ماں
کی فکر بھی بڑھتی چلی گئی ۔ اس وقت ان کی سب سے بڑی ضرورت ایک گھر تھی۔ محلو کے
کچھ نیک لوگوں نے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ٹھانی۔ اور ماں اور بیٹی کو سلیقے
کا گھر بنا کر دیا۔ ایک ایسا شوہر جس کی
اصلاح کی کوئی امید نہیں بچی تھی، اب اس عورت کے لئے درد سر بنا ہوا تھا۔ بیٹی اپنے باپ سے ڈرتی
تھی۔ انہیں جس چیز کا ڈر تھا وہ یہ تھا کہ اگر اس کا شوہر اس کے اور اس کی بیٹی کے
مکان پر دعویٰ کرنے آ گیا تو وہ کیا کرے گا۔ اس لیے کہ اگر شوہر اپنے حق کا دعویٰ کرتا ہوا آ
دھمکا تو اسے اس کا حق حاصل ہوگا۔ درحقیقت
اس عورت کے لیے عدالت جانا اور اس عقد نکاح سے رہائی حاصل کرنا ناممکن تھا۔ یہیں
سے انہوں نے اسلامی طریقے سے علیحدگی حاصل کرنے کا من بنا لیا۔ محلو کو مطلع کر کے
کھادی کی قیادت میں آسانی سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اب کہا جا سکتا
ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے ان کا مسئلہ
حل ہو گیا ہے۔
ایک لڑکی جو خود ایک
ڈاکٹر ہے، اس نے کیرلا ہائی کورٹ کے فیصلے
سے قبل طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ وہ اپنے شوہر کے ظلم سے تنگ آ کراس
فیصلے پر پہونچی تھی ۔ جب ہراسانی کا
سلسلہ ختم ہونے کے بجائے یونہی جاری رہا تو اس نے عدالت سے رجوع کیا۔ تاہم شوہر نے کہا کہ وہ عدالت میں طلاق لینے پر راضی نہیں
ہے۔ کیس بغیر کسی فیصلے کے یونہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ لڑکی کا کہنا یہ تھا کہ مجھے
معاوضے میں کچھ نہیں چاہیے، صرف طلاق مل جائے یہی کافی ہے۔ تاہم اس میں بہت سی
قانونی رکاوٹیں حائل تھیں۔ وہ ملازمت سے محروم ہوتی رہی اور یوں اس کا دائرہ حیات
تنگ ہوتا گیا۔ ایسے ہی ایک مرحلے پر اس لڑکی کے ذہن میں بھی اسلامی طلاق کا خیال آیا۔ اور وہ اس
میں بھی ناکام ہوئی۔ لیکن عدالتی فیصلے نے اسے مقامی کھادی کی مدد سے طلاق حاصل
کرنے میں مدد کی۔
اکثر ہمارا معاشرہ اور
ہمارے خاندان، خواتین کی طرف سے شروع کی گئی کسی بھی طلاق کے عمل کو قبول کرنے سے
گریزاں پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر اگر لڑکیاں تھوڑی بہت برداشت کرنے والی ہوں تو
ٹھیک ہی ہے، گھر والے بھی یہی چاہیں گے کہ وہ طلاق نہ لیں۔ کوٹائم میں ایک لڑکی کو
جب پتہ چلا کہ اس کے شوہر کے کئی دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں تو اس نے
اس کا انکشاف گھر والوں پر کیا۔ لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ معلوم ہو رہا تھا کہ
خاندان میں اس پر مصالحت ہو سکتی ہے۔ ایک دن یہ لڑکی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ تب جا کر اس کے گھر والوں کو یہ اندازہ ہوا کہ مسئلہ کچھ زیادہ
ہی سنگین ہے۔ اب لڑکی کے گھر چھوڑنے کے بعد اس کے شوہر نے بھی یہ کہہ دیا کہ میں
اسے نہیں رکھنا چاہتا۔ بعد میں لڑکی نے خود ہی پہل کی، اور دونوں نے اپنی باہمی
رضامندی سے بڑی آسانی کے ساتھ اسلامی طریقے سے طلاق حاصل کر لیے۔ اسلامی قانون کی
روشنی میں طلاق کا یہی وہ عمل تھا جس کی وجہ سے مخدوش عقد نکاح سے آزادی حاصل کرنا
اور بآسانی طلاق حاصل کرنا ممکن ہوا۔ مسلم خواتین اس وقت تک عدالتوں کے دروازے پر
آتی رہیں جب تک یہ قانونی نظام موجود تھا کہ جو چیز مطابقت نہیں رکھتی اسے شامل نہ
کیا جائے۔
لیکن ایسے کئی معاملات
ہیں جن میں مسلم خواتین کو عدالت کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال لکشدیپ
میں امینی سب کورٹ (Sub Court) کا طلاق سے متعلق فیصلہ ہے۔ امینی کے ایک 34 سالہ شخص نے اپنی 30
سالہ بیوی کو طلاق دے دی۔ ان کی شادی نو سال قبل ہوئی تھی۔ امینی کے اس نوجوان کی
قربت ایسی لڑکی کے ساتھ پیدا ہو گئی جس کے ساتھ وہ کام کیا کرتا تھا۔ اس معاملے
سے اس کی بیوی اور اس کے گھر والے آگاہ
تھے۔ بعد میں اس معاملے کو لیکر ان کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ 2019 میں اس
نوجوان نے پہلی بار اپنی بیوی کو طلاق دی۔ بعد ازاں، دوسری طلاق، شرعی قانون کے
مقرر کردہ وقفے کا سختی سے لحاظ کرنے کے بعد دی گئی۔ مقامی کھادی سے طلاق کا
سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا گیا جس میں یہ مذکور تھا کہ طلاق کی کارروائی مکمل ہو گئی
ہے۔
اس معاملے میں امینی سب
کورٹ کے جج نے حکم دیا کہ کھادی کی طرف سے جاری کردہ طلاق سرٹیفکیٹ کی کوئی قانونی
حیثیت نہیں ہے۔ شوہر نے شرعی وقفے کا لحاظ کرتے ہوئے تین طلاقیں دیں۔ لیکن شرعی
حکم کے مطابق طلاق دینے سے پہلے میاں بیوی کے گھر والوں کے درمیان ثالثی ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد پہلی طلاق دی جائے
اور ثالثی کے بعد دوسری طلاق دی جائے۔ لیکن اس معاملے میں طلاق تو دیا گیا لیکن
کسی بھی مرحلے میں ثالثی پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ ثالثی کا مقصد یہ ہے کہ اگر
کسی طرح بھی زوجین کے درمیان مصالحت ممکن ہو تو صلح کرانا ضروری ہے۔ امینی عدالت
کی دلیل تھی کہ سپریم کورٹ نے خود سائرہ بانو کیس میں واضح کیا تھا کہ ثالثی کے
بغیر دیے گئے طلاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ایسے میں خواتین کو خود عدالت سے
رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لہذا، اگر خواتین
اسلامی قانون کے مطابق طلاق مانگتی ہیں، اور اگر اس کے تمام شرائط پر عمل نہیں
کرتیں، تو ان سے عدالت میں باز پرس ہوگی۔
اسلام تو مسلم خواتین کو
عزت و وقار کی کرسی پر بٹھاتا ہے، لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہاں کا نظام
اس کے لیے سازگارہے؟ معاشرہ اپنی سوچ سے بدلتا ہے، اپنی روش بدلتا ہے۔ مسلم خواتین
کے لیے یہ سوچنا بہت بڑی غلطی ہے کہ اگر وہ خود کو اس میں شامل کر لیں تو کوئی بھی
اس میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔
مسلم خواتین کے حقوق کو
اتنے عرصے سے اس جھوٹے دعوے کے سہارے دبایا جاتا رہا کہ خواتین کی ذہنی حالت بدلتی
رہتی ہے، اور ان پر ایسے حالات بھی آتے ہیں کہ جب ایک عورت درست فیصلہ لینے کی
حالت میں نہیں رہتی۔ یہ بات تسلی دینے کے لیے اچھی ہے کہ مسلم خواتین کبھی کبھار
تقاریر میں مسلم خواتین کی تعریف کر دیتی ہیں اور یہ کہہ کر اپنی منافقت کے دائرے
سے باہر آتی ہیں، کہ جب آپ گھر آئیں تو باورچی خانہ آپ کا ہے۔ مسلم خواتین کو اس
حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ جن لوگوں نے چنددنوں قبل تین طلاق جیسے، اسلام میں در آنے
والے حقوق نسواں مخالف معمولات کو بحال کرنے کے لیے عدالتوں اور سڑکوں پر احتجاج
کیا، انھوں نے آگے بڑھنے کے خواتین کے حقوق سے صرف نظر کیا تھا۔
امت مسلمہ کو خلع کے ذریعے طلاق کو رواج بخشنا چاہیے
اسلام نے شروع میں ہی
خواتین کو ایسے ایسے شہری حقوق دیے ہیں جو آج بھی ہمارے دور میں حیران کر دینے
والے ہیں۔ کیونکہ ان کا دائرہ محض بعض
مذہبی حقوق تک ہی محدود نہیں ہے۔ عبادت کی آزادی، تعلیم کی آزادی، شریک حیات کے
انتخاب کی آزادی اور ازدواجی زندگی مشکل ہو جانے کی صورت میں شوہر سے طلاق حاصل
کرنے کی آزادی، جائیداد حاصل کرنے اور خرچ کرنے کی آزادی، حکمران منتخب کرنے کی
آزادی، تنقید کی آزادی، رائے کی آزادی وغیرہ۔
اسلام میں شادی ایک بہت
ہی مقدس اور ذمہ داری سے بھرا معاہدہ ہے۔ قرآن کی آیت، ' اور ان عورتوں نے تم سے
مضبوط عہد وپیمان لے رکھا ہے ' اسلام میں
شادی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ یہ ایک نہایت پختہ عہد ہے جس کے تحت عورت کو اس کے ولی، اس کی مرضی کو مدنظر رکھتے
ہوئے، دولہے کی ذمہ داری میں دیتے ہیں ۔
اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ عقد نکاح
محبت اور ہمدردی کے جذبات پر استوار کیا جائے۔ بعض اوقات کتنی ہی کوششوں کے
باوجود بھی ، ازدواجی زندگی توقع کے مطابق خوشگوار نہیں ہوتی۔ زوجین کے دمیان اختلافات
اور ناچاکیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مفاہمت کی کوششیں بھی بے نتیجہ ہو سکتی ہیں۔ یہ
بھی ہو سکتا ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک صلح کے لیے ہی تیار نہ ہو۔ وہ مرد بھی ہو
سکتا ہے اور عورت بھی۔ عورت کو طلاق کا وہی حق حاصل ہے جو مرد کو ایسے ناگزیر
حالات میں حاصل ہوتا ہے۔
یہ قانونی حق خود قانون
بنانے والے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ایک بار جب آپ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگ جاتے
ہیں تو ازدواجی زندگی ایک ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہے۔ زندگی بھر اس گھٹن بھرے
رشتے کے ساتھ جینے سے آزاد ہوجانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” یہ
طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے
اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ
اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو، اس لئے اگر
تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے
لئے کچھ دے ڈالے۔‘‘ (البقرۃ: 229)
دلچسپ بات یہ ہے کہ آیت
مذکورہ میں جہاں طلاق کا ذکر ہے وہاں عورت کی طرف سے طلاق سے متعلق قوانین کا بھی
ذکر ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے۔ لیکن عورت کو طلاق لینے کے لیے
اپنے شوہر کو کچھ تحفہ دینا ہوگا۔ اگر عورت جبر کے تحت طلاق مانگے تو مرد پر واجب
ہے کہ مہر واپس لے کر اسے طلاق دے دے۔ طلاق نہ دیکر عورت کو مشکل میں نہ ڈالا
جائے۔
خلع سے متعلق کیرلا ہائی
کورٹ کے 2023 میں دیے گئے فیصلے کو اس
پیچیدہ مسئلے کے حل کی طرف ایک مثبت قدم مانا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کے
مطابق اب مسلم خاتون کو طلاق لینےکے لیے عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ان
جیسے مسائل میں بے جا تاخیر سے بچنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔
خلع کو آسان بنانے کے لیے
مسلم معاشرے اور مذہبی قائدین کو آگے آنا چاہیے۔ اگر محلو کے لیڈران پر محلو کی
شادی کی ذمہ دار ہے، تو انہیں ہی خلع کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔ اگر محلو کے
لیڈران اس کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو یہ
مسلم خواتین کے لیے ایک بڑی راحت کی بات ہوگی ۔ اس اقدام سے عورتوں کو انصاف مل سکے گا۔ اگر طلاق کی ذمہ داری بھی
محلو کے لیڈران سنبھالیں تو اس سے اس شعبے
میں استحصال کا دروازہ بھی بند کیاجا سکتا ہے۔
English
Article: Khul’ Or Khula, Divorce Initiated By Muslim Women:
Victims Welcome Relief Offered By Kerala High Court
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism