ثاقب سلیم،
نیو ایج اسلام
15 جولائی 2023
"ایک دو تین چار، بھولے
تیری جے جے کار"۔ ہر سال جولائی - اگست کے دوران میرے علاقے میں کھیلتے ہوئے چھوٹے
مسلمان بچوں کی چیخیں اسی طرح سنائی دیتی تھیں۔ وہ محلہ کوئی ہندو مسلم آبادی کا نہیں
تھا۔ محلے کا تقریباً ہر گھر مسلمانوں کا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے یا تو اسکول کے
بعد شام کے وقت قریبی مدرسے میں جاتے یا قرآن سیکھنے کے لیے گھر پر کسی اسلامی معلم
کی درسگاہ میں ہوتے۔
Kanwars
(Pilgrims) on their way to Haridwar
------
بہت سے قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے
کہ مسلمان بچے ہندو مذہبی نعرے کیوں لگا رہے ہیں اور یہ بھی کہ کسی بزرگ کو اس پر کوئی
اعتراض بھی نہیں۔ دہلی میں بیٹھے سیاسی مبصرین اور ہندوستانی معاشرے کا مطالعہ کرنے
والے ماہرین تعلیم اسے ’عجیب‘ یا ’استثنیٰ‘ قرار دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عام
بات تھی۔
ہر سال ساون کے مہینے میں، کانوڑیا
یعنی شیو کے لاکھوں بھکت ہندوستان بھر کے مختلف شیو مندروں میں گنگاجل لانے کے لیے
ہریدوار جاتے ہیں۔ یہ شیو بھکت میلوں پیدل چلتے ہیں اور ساون شیوراتری کی رسومات کے
مکمل ہونے تک چارپائیوں پر یا چھت کے نیچے نہیں سوتے ہیں۔
میرا تعلق مظفر نگر سے ہے، جس کی
سرحدیں ہریدوار اور سہارنپور کی اضلاع سے ملتی ہیں۔ کانوڑیا جس راستے سے جاتے ہیں وہ
میرے محلے سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہر سال ہم نے یہی دیکھا کہ ہماری سڑکیں بند ہیں اور اسکول
ایک ہفتے سے زیادہ کے لیے بند ہیں۔ ایک چھٹی کا سماں ہوتا تھا جہاں خاندان ایک ساتھ
وقت گزارتے تھے اور بچے سڑکوں پر کھیلتے اور مذہبی نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں سے گزرنے
والے عقیدت مندوں کی بھیڑ کو دیکھتے ہیں۔
آج کسی ملک یا میٹروپولیٹن شہر
میں بیٹھے سوشل میڈیا کے جنگجو لکھتے ہیں کہ یہ کانوڑ یاترا مسلمانوں کے لیے تکلیف
کا باعث ہے اور وہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ درحقیقت سجے دھجے ہوئے کانوڑوں نے مسلمانوں
کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہم سڑک کے کنارے کھڑے ان کانوڑوں کو کافی حسرت بھری
نظروں سے دیکھتے تھے۔
میں مسلمانوں کو جانتا ہوں، جن
میں میرے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں، جو کانوڑ سیوا شیویر کو چندہ دیا کرتے تھے۔
کئی مسلمان نوجوان اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ ہریدوار سے گنگا جل لینے کے لیے پیدل چلتے
تھے۔ ہمارا ایک مسلمان دوست ہر سال اپنے ایک دیندار ہندو دوست کے ساتھ ہریدوار جاتا
تھا۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا سوشل
میڈیا کے آنے کے بعد ہی شروع ہوئی اور ہندو 2014 سے پہلے مذہب پر عمل نہیں کرتے تھے
انہیں اپنے بزرگوں سے بات کرنی چاہیے۔ آج، ہم دیکھتے ہیں کہ چند بڑی مشہور شخصیات اسے
عوامی تقریب بنائے بغیر خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں یہ بات عام تھی کہ
لوگ کانوڑ لے جانے والی مشہور شخصیات کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیقرار رہتے تھے۔ سنیل
دت، گلشن کمار اور دیگر اس میں نمایاں تھے۔ کسی نے اس کا ڈھول نہیں پیٹا۔ بلکہ ان کی
کوشش ہوتی تھی کہ عوام کی توجہ ہماری طرف نہ ہو تو بہتر ہے۔ ان کے لیے، کانوڑ ان کے
اور بھگوان شیو کے درمیان آستھا کا معاملہ تھا۔
پرانی یادیں ہر شخص کا حق ہے۔ شاید
یہی وجہ ہے کہ مجھے وہ کانوڑ یاد آتے ہیں جہاں بڑے بڑے ڈی جے نہیں بجتے تھے، بلکہ لوگ
کانوڑوں کے قد کا موازنہ کرتے تھے۔ وہ موبائل فون سے پہلے کا زمانہ تھا، لوگوں کو معلوم
ہو جاتا تھا کہ ایک خاص وقت پر ایک شاندار کانوڑ فلاں جگہ سے گزرنے والا ہے۔ اس کنور
کو دیکھنے کے لیے لوگ چھتوں اور سڑکوں کے کناروں پر جمع ہوتے تھے۔ کبھی کبھی انتظار
گھنٹوں تک کا ہوتا تھا اور کبھی کبھی یہ خبر ہی غلط ہوا کرتی تھی۔
میں نے کبھی کسی مسلمان کو کانوڑیوں
سے کسی تکلیف پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ ان کی آستھا کا احترام کرتے تھے۔ لوگ، جس
میں ہندو، سکھ، جین اور مسلمان بھی شامل ہوتے تھے، بعض اوقات روٹ ڈائیورشن اور دیگر
مسائل سے متعلق انتظامی امور کے بارے میں شکایت کیا کرتے تھے۔
یہ ساون شیو راتری کا موسم ہے اور
میرے محلے میں بچے شیو بھجن اور نعرے لگا رہے ہوں گے اور میں جگجیت سنگھ کا مشہور گانا
سن رہا ہوں:
"یہ دولت بھی لے لو، یہ
شہرت بھی لے لو، بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھکو لوٹا دو بچپن کا ساون"
------------------
English
Article: Kanwar Yatra Is Part Of The Life For Muslims Of Muzaffarnagar
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism