New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 04:33 PM

Urdu Section ( 26 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Judge Khaled Kabub's Appointment As Supreme Court Judge in Israel Holds an Example for Islamic Countries مسلمان جج خالد کبوب کی اسرائیلی عدالت عظمی میں بطور جج تقرری اسلامی ممالک کے لیے ایک مثال ہے

مسلم جج خالد کبوب  کی تقرری نے اسرائیل کے سیکولر عدالتی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے

اہم نکات:

1.     قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں تمام اہل کتاب کو مذہبی حقوق فراہم کریں

2.     اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے لیے جانا جاتا ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے

3.     اس سے قبل ایک اور مسلمان جج عبدالرحمن زوئمی کو بھی بطور جج مقرر کیا گیا تھا لیکن ان کی تقرری ایک سال کی عارضی مدت کے لیے تھی

4.     مسٹر خالد کبوب نے تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ، قانون اور اسلام کی تعلیم حاصل کی ہے

-----

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

23 فروری 2022

Israel on Monday named Khaled Kabub as its first Muslim judge to gain a permanent seat on the Supreme Court. PHOTO: TWITTER/@IsraelinGermany

----

اسرائیل فلسطینیوں پر اپنے مظالم کی وجہ سے تمام مسلم ممالک اور دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں میں مشہور ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے مسلم شہریوں کے ساتھ حکام اور انتہاپسند صہیونی طاقتیں ان کی مذہبی اور نسلی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرتی ہیں کیونکہ وہ عرب نژاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں ایک مسلمان جج کی تقرری عمل میں آئی تو اس سے حیرت و استعجاب کا ایک سما بندھ گیا۔

ایک عرب مسلمان،63  سالہ خالد کبوب کو  تین دیگر ججوں کے ساتھ اسرائیل کی عدالت عظمیٰ میں بطور جج منتخب کیا گیا ہے۔ ان کا انتخاب ججوں، وزراء، قانون سازوں اور وکلاء پر مشتمل ایک کمیٹی نے کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی سپریم کورٹ میں پہلے مسلمان جج ہیں جنہوں نے مستقل جج کے طور پر عرب اسرائیل نشست پر کی ہے۔ اس سے قبل ایک اور مسلم جج عبدالرحمن زومی کو بطور جج مقرر کیا گیا تھا لیکن ان کی تقرری ایک سال کی عارضی مدت کے لیے تھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی عرب مسلمان نے سپریم کورٹ کی عرب اسرائیل نشست کو پر کی ہو۔ اس نشست پر ہمیشہ عرب عیسائیوں کی تقرری ہوتی رہی ہے۔

اس اعلیٰ ترین عدالتی عہدے پر ان کی تقرری اسرائیل فلسطین تنازعے کے تناظر میں اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اسرائیلی افواج کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم کی متعدد شکایات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ شیخ جراح کا وہ معاملہ جس میں نچلی عدالت کے فیصلے کے بعد مسلمانوں کو زبردستی وہاں سے نکالا گیا تھا وہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ اس سے تمام تر سیاسی اور نسلی اختلافات کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے سیکولر اور منصفانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ خالد کی تقرری کی مخالفت صہیونیوں اور مسلم مخالف لابیوں نے نہ کی ہو۔ مذہبی صیہونی ایم کے سمچا نے جو سلیکشن کمیٹی کے رکن ہیں، ان کے انتخاب کے خلاف ووٹ دیا اور انتخاب کے عمل پر مایوسی کا اظہار کیا۔ لیکن، ایک جمہوری ملک ایسی انداز میں کام کرنا چاہئے جہاں تمام نقطہ نظر کو جگہ دی جائے۔

مسٹر خالد کبوب ملک کے سب سے سینئر ججوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ، قانون اور اسلام کی تعلیم حاصل کی اور تل ابیب کی ایک نچلی عدالت میں بطور جج کام کیا ہے۔

اس تقرری نے اسرائیل کے عدالتی نظام سے پردہ اٹھایا  ہے جو جمہوری ممالک اور بالخصوص اسلامی ممالک اور ہندوستان کے لیے ایک نمونہ ہے جہاں 14 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ اسرائیل میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد ہے۔

اسرائیل میں، عام اور سیکولر مسائل کے لیے سیکولر عدالتوں کے علاوہ، تمام مذہبی برادریوں بشمول اکثریتی یہودی برادری کے لیے بھی الگ الگ مذہبی عدالتیں ہیں۔ شادی، طلاق، مذہبی تنازعات، اور مذہبی اداروں یا مذہبی قیادت میں تنازعات سے متعلق مقدمات مذہبی عدالتوں کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔ یہاں یہودی عدالتیں، مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں اور دروز اور عیسائیوں کے لیے الگ الگ عدالتیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عیسائیوں کے تمام دس فرقوں کے لیے بھی الگ الگ عدالتیں ہیں --- یونانی آرتھوڈوکس، لاطینی کیتھولک، آرمینیائی آرتھوڈوکس، آرمینیائی کیتھولک، سریاک کیتھولک، کلڈین کیتھولک، میلکائٹ یونانی کیتھولک، مارونائٹ کیتھولک، سیریاک آرتھوڈوکس اور ایوینجلیکل ایپیسکوپین---اور یہ تمام عدالتیں حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ ہیں۔ شرعی عدالتوں کے جج جو مسلمان ہوتے ہیں ان کا انتخاب بھی حکومت کرتی ہے۔

یہ ابراہیمی مذاہب کی حقیقی روح کے عین  مطابق ہے کیونکہ قرآن مجید نے ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کو ایک خدا پت ایمان رکھنے والا مانا ہے  اور اسرائیلی یہودی عرب مسلمانوں کو اپنے چچا زاد بھائی مانتے ہیں: مسلمان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں جو کہ حضرت یعقوب کے بھائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مسلمانوں کو اپنے ملک میں تمام اہل کتاب کو مذہبی حقوق فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔

تم فرمادو، اے کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا، (المائدہ: 68)

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک مسلمانوں کو اختلافات کے باوجود تمام برادریوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے:

’’ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (حجرات:9)

قرآن دو مواقع پر یہ بھی حکم دیتا ہے کہ لوگوں کا دوسروں کے ساتھ سلوک نسلی یا سیاسی تعصب پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔

’’تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ۔ (المائدہ: 2)

’’تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘(المائدہ: 8)

پہلی آیت میں تاریخی تصادم کی بنیاد پر دشمنی کی مذمت کی گئی ہے اور دوسری آیت میں عصری سماجی، سیاسی اور نسلی بنیادوں پر کسی بھی برادری سے دشمنی کی مذمت کی گئی ہے۔

لہٰذا، مسٹر خالد کبوب کی یہودی اکثریتی ریاست اور اسرائیل کے پورے عدالتی نظام میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری حقیقی ابراہیمی روح پر مبنی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب اسرائیل فلسطین تنازع اپنے عروج پر ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیلی عرب مسلمانوں پر  ظلم و ستم اور ناانصافی کی شکایات اسرائیلی سپریم کورٹ میں زیر سماعت  ہیں، اس اعلیٰ ترین عہدے پر ایک مسلمان جج کی تقرری اہمیت کی حامل ہے۔

دوم، اسرائیل میں مسلمانوں سمیت تمام اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کے لیے شرعی عدالتوں کی فراہمی مسلم اور غیر مسلم دونوں ممالک کے لیے ایک چشم کشا نمونہ ہو سکتی ہے کیونکہ شرعی عدالتوں کی موجودگی کو ملک کے عدالتی نظام کا اسلامائزیشن مانا جاتا ہے۔ اور ملک کی سیاست میں اسلامی برادری کے غلبہ کے طور پر دیکھا جاتا ہو یا بہت سے ممالک میں اقلیتوں کی اپیزمنٹ مانا جاتا ہے۔

یہ اسلامی ممالک کو ان ممالک کو بھی آئینہ دکھاتا ہے جو اپنی سرزمین پر اقلیتوں کو ان کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔

مختصراً، مسٹر کبوب  کی اسرائیلی عدالت عظمیٰ  میں تقرری قابل ستائش ہے اور مسلم اور غیر مسلم دونوں ممالک کے لیے خود احتسابی کا ایک لمحہ بھی۔ اس کی بنیاد پر  غیر مسلم ممالک میں اقلیتوں کے لیے شرعی عدالتوں یا مذہبی عدالتوں کے قیام پر بحث شروع ہو سکتی ہے۔ ایک نئی بحث یہ شروع ہو سکتی ہے کہ آیا ایسی مذہبی عدالتیں واقعی سیکولر ممالک کے آئینی تانے بانے میں خلل ڈالتی ہیں یا اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے تحت آتی ہیں۔ سیکولر عدالتی نظام کے متوازی کیا یہ مذہبی عدالتیں مذہبی اقلیت کو اضافی مذہبی استحقاق فراہم کرتی ہیں جیسا کہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے یا وہ ملک کی عدلیہ کو ایک بڑے بھاری بوجھ سے نجات عطا کرتی ہیں جہاں لاکھوں مقدمات برسہا برس تک زیر التوا رہتے ہیں۔

English Article:  Muslim Judge Khaled Kabub's Appointment As Supreme Court Judge in Israel Holds an Example for Islamic Countries

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/kabub-supreme-court-israel-islamic-countries/d/126454

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..