عظمت علی
5 دسمبر،2022
ترقی پسند تحریک کے
نمائندے اور نقیب صدائے انقلاب کا اگر تذکرہ کیا جائے تو جوش ملیح آبادی کا شمار
صف اول میں ہوگا۔ انہوں نے آزادی ہند کی خاطر زبان و قلم سے وہ انقلاب برپا کردیا
تھا کہ غاصب انگریز حکومت کی نیندیں حرام ہوگئیں او ران کے پرجوش و انقلابی کلام
نے وطن کے متوالوں میں اس طرح روح احرار جگادی کہ موالیان ہند نے غاصب حکومت کی
اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی ۔ جو ش کااصل نام شبیر حسن خاں تھا اور ابتدائی تخلص شبیر
جو بعد میں جوش ہوگیا، ان کے والد بشیر احمد خان نے ان کا نام شبیر خان رکھا تھا
،لیکن انہو ں نے 1907 ء میں اپنا نام تبدیل کرکے شبیر حسن خان رکھ لیا۔
جوش ملیح آبادی
-----
جوش کی پیدائش 5 دسمبر،
1896 ء میں ملح آباد کے محلہ مرزا گنج کے ایک متمول و ادبی گھرانہ میں صبح چار بجے
ہوئی۔ ان کے دادا محمد احمد خاں احمد ، صاحب دیوان شاعر تھے، ان کے دیوان کا نام ‘
مخزن آلام’ ہے ، ان کے پر دادا فقیر محمد خاں گویا بھی اپنے دور کے عظیم ادباء میں
شمار ہوتے تھے اور دیوان گویا ان کا مجموعہ کلام ہے۔ جوش ملیح آبادی کو اردو ادب ،
میراث میں ملا تھا، ان کے لیے ان کا شاعری سے شغف پیدا ہوجانا بالکل فطری سی بات
تھی، چونکہ گھرانہ شاعرانہ فضا سے معمور تھا اسی سبب انہوں نے نو برس کی عمر سے ہی
شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ اپنی ایک غزل میں اس کو نظم کرتے ہیں۔
جب سے مرنے کی جی میں
ٹھانی ہے
کس قدر ہم کو شادمانی ہے
شاعری کیوں نہ راس آئے
مجھے
یہ مرا فن خاندانی ہے
کیوں لب التجا کو دو جنبش
تم نہ مانوگے او رنہ مانی
ہے
آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا
مہربانی ہے مہربانی ہے
دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا
تلخ ان سب کی زندگانی ہے
کوئی صدمہ ضرور پہنچے گا
آج کچھ دل کو شادمانی ہے
اس غزل میں خود شاعرنے
واضح کردیا کہ شاعری ان کو ورثے میں ملی ہے ۔ اس لیے شاعرانہ طبیعت کی جانب میلان
پیدا ہوجانا واضح سی بات ہے۔ بنیادی طور پر جوش غزل کے شاعر تھے مگر 1914ء میں سلیم
پانی پتی کے کہنے پر انہوں نے نظم گوئی کی بھی ابتدا کردی اور اپنی پہلی نظم ‘
ہلال محرم’ نام سے تحریر فرمائی۔
ان کی تعلیم دراصل گھر سے
شروع ہوئی ،مگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے سیتا پور ، آگرہ ، لکھنو اور علی
گڑھ کاسفر کرنا پڑا۔ 1914 ء میں آگرہ کا رخ کیا اور وہاں سینٹ پیٹرس کالج آگرہ سے
سینٹر آگرہ کیمبرج کا امتحان پاس کیا ، اس کے بعد کچھ مدت کے لیے عربی، فارسی کی
تعلیم میں مشغول ہوگئے اور تقریباً چھ ماہ کی مدت، سنسکرت تمدن سے متعلقہ امور کو
سمجھنے کے واسطے ٹیگور یونیورسٹی میں بسر کی ۔مگر دوبرس بعد یعنی 1916 ء میں والد
کی وفات نے ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے اور یوں تعلیمی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں
حائل ہوگئیں ، اس لیے وہ اپنی تعلیمی سرگرمی کو مزید آگے نہ بڑھا سکے، چنانچہ
انہوں نے اپنے ما سلف آباء و اجداد کی روش پر چلتے ہوئے شعر و شاعری کی سخنوری کے
ساتھ ساتھ انگریزی اور فارسی مضامین کو اردو قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔
جوش حصول ملاز مت کی غرض
سے 1924ء میں حیدر آباد گئے او رآئندہ برس 1925ء میں دارالترجمہ حیدر آباد سے
منسلک ہوگئے ۔ وہاں انہوں نے میڈیسن کی کتابوں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کیا اور
دیگر خدمات میں بھی انجام دیں۔ قریب قریب دس برس وہاں خدمات انجام دیں، مگر ورثہ
میں ملی انقلابی طبیعت کو ہیجان پیدا ہوا او رآخر کار نظام حیدر آباد کی طرز
حکمرانی کے خلاف ایک نظم کہہ ڈالی جس کی پاداش میں انہیں ریاست بدر کردیا گیا۔
ریاست بدری کے بعد انہو ں
نے دہلی کی جانب سفر کیا او روہاں سے 1936 ء میں ماہنامہ رسالہ ‘کلیم’ کا اجراء
کردیا۔ رانا عبدالباقی اپنے مضمون اردو کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی میں
رقمطراز ہیں کہ ( اس رسالہ میں ) انہوں نے تواتر سے اردو زبان کی ترقی اور
ہندوستان کی برٹش راج سے آزادی کی حمایت میں مضامین لکھے۔ اسی ارتقائی دورمیں جوش
کی شاعری میں نکھار آتا چلا گیا۔ ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں شروع ہونے پر
انہوں نے اپنے انقلابی کلام کے ذریعے ہندوستان میں آزادی کی اُمنگ بیدار کرنے کے
لئے کئی مضامین او رنظمیں لکھیں۔ سیاسی اُتار چڑھاؤ کے اسی دور میں جوش کی طبیعت
مرثیہ نگاری پر مائل ہوئی، چنانچہ انہیں شہرہ آفاق نظمیں بالخصوص ، حسین او
رانقلاب، لکھنے پر شاعر انقلاب کا درجہ دیا گیا لیکن بہر صورت اردو زبان کی ترقی
سے جوش کا دامن ہمیشہ ہی جڑا رہا۔
اس سے سبکدوش ہوتے ہی
سرکاری رسالہ ماہنامہ ‘ آجکل’ کے مدیر مقرر ہوگئے ۔ 1948ء تا 1955 ء علمی و ادبی
خدمات انجام دیں اوریکم جنوری 1957ء کو ترک سکونت کرکے پاکستان ہجرت کرگئے۔
پاکستان میں ابتدائی طور پر انجمن ترقی اردو کے بانی مولوی عبدالحق کے ہمراہ اردو
زبان کی لغت کی تیاری میں خاطر خواہ کام کیا، اس کے علاوہ رسالہ‘ اردو نامہ’ کی
بھی ادارت کی۔ بعض لوگوں کے خیال میں جوش اپنے مشکل الفاظ کے استعمال کے سبب زیادہ
مورد قبول قرار نہ پائے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ یہی مشکل الفاظ کااستعمال
انہیں دوسروں سے ممتاز بنا گیا ۔ ان کی شعری صلاحیت کا اندازہ فراق گورکھپوری کی
ان باتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جوش ملیح آبادی کو اپنا استاد
تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کیا تھا۔
انہیں اپنی غزل مکمل کرنے کے لیے ایک مناسب لفظ کی تلاش تھی،کافی مشقت کے بعد بھی
انہیں کامیابی نہ ملی تو جھجھکتے ہوئے جوش کے پاس گئے اور ان کی زبان سے وہ لفظ
ایک رتن کی مانند برآمد ہوا۔ جوش ملیح آبادی کی رگوں میں خون آزادی گردش کررہا تھا
۔آزادی وطن کی خاطر انہیں بڑی سے بڑی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ ان کے کلام میں
جہاں صدائے انقلاب کی بازگشت سنائی دیتی ہے وہیں ادب کا حسین مرقع بھی نمایاں طور
پر نظر آتاہے۔ اسی باعث انہیں مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنے اخبار ‘ ہند’
کلکتہ میں 1938ء میں پہلی مرتبہ جوش کو ‘ شاعر انقلاب’ کے لقب سے نوازا۔ شاعر
انقلاب نے دونوں اصناف سخن نظم اور نثر میں طبع آزمائی کی اور بحسن وخوبی اسے
نبھایا ۔ ان کے شعری مجموعے روح ادب ، شاعر کی راتیں ، نقش ونگار ، شعلہ وشبنم ،
فکر و نشاط ، جنون و حکمت ، حرف و حکایت ، آیات و نغمات ، عرش و فرش ، رامش و رنگ
، سنبل و سلاسل وسیف وسبو، سرودو سروش، سموم وصبا، طلوع فکر ،الہام و افکار، موحد
و مفکر، نجوم وجواہر، آوازہ حق ، پیغمبر اسلام، حسین و انقلاب ، قطرہ ، قلزم ،
نوادر جوش، جوش کے مرثیے ، عروس ادب حصہ اول و دوم ، محراب و مضراب ، دیوان جوش،
عرفانیات جوش وغیرہ ہیں۔ ان نثری کتابیں مقالات زریں ، اوراق سحر، اشارات ، اردو
زبان کے بے مثال نقیب جو ش ملیح آبادی ، جذبات فطرت ، مقالات جوش ، مکالمات جوش
اور یادوں کی بارات وغیرہ ہیں۔
وزیر اعظم جواہر لعل
نہروانتہائی قریبی دوست ہونے کے ناطے وہ جوش کا بہت احترام کرتے تھے اور جوش کے
پرجوش پرستار تھے۔ شاعری جوش کے قلم سے اس طرح بہتی ہے جیسے چشمے سے پانی۔ جوش
فطرتاً باغیانہ تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے اور زندگی بھر دولت کی غیر
مساوی تقسیم کے خلاف ہر فورم پر اپنی تحریر وں میں زبردست طریقے سے سرمایہ داروں
کی مذمت کرتے رہے۔ جوش کے الفاظ کا انتخاب ایسا تھا کہ ان کی اردو نثر یا شاعری
پڑھتے ہوئے تعریف ہی کی جاسکتی ہے ، کیونکہ ان کے پاس اردو الفاظ کا خزانہ تھا۔
ہندوستان سے آپ کے پسندیدہ شعر اور لکھاریوں میں کنور مہندر سنگھ بیدی ، فراق
گورکھپوری ، ساحر لدھیانو ی اور کرشن چندر تھے۔ وہ ایک نرم دل اور ہمدرد دل کے
مالک تھے او رمعاشرے کے غریب طبقے کے دکھوں او رپریشانیوں سے باخبر رہا کرتے تھے ،
ملک کے پسماندہ حالات اور معاشرے امیر طبقے کے لاتعلق رویوں سے رنجیدہ ہوا کرتے
تھے۔ جوش زندگی کو قدرت کا سب سے قیمتی تحفہ مانتے تھے۔ آپ نے کہا تھا کہ اردو
زبان میں گرامر کی سنگین خلاف ورزیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ آپ علاقائی زبان کے الفاظ
استعمال کرسکتے ہیں لیکن آپ کو گرامر کا خیال رکھناچاہئے لسانی بگاڑ ناخواندگی کی
وجہ سے ہے۔ یونیورسٹی کی ڈگری نوکری کی التجا کرنے والے بھکاری کے پیالے سے زیادہ
نہیں ۔ علم اب صرف پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے دماغ کو پالنے کے لیے نہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ میں سچ بولتا ہوں او رسچ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں ،ایک خطرناک
چیز ہے۔ لیکن میں نے اپنے نظریات او راپنے نظریے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جوش نے
ایک بار فیض پرتبصرہ کیا تھا، ‘‘ میں اردو شاعروں کی پیش گوئی کے بارے میں اچھی
رائے نہیں رکھتا ، وہ ایک دوسرے کے برا بھلا کہتے ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں
صرف تین چار اچھے شاعر دیکھے ہیں اور فیض ان میں سے ایک ہیں۔ جوش کو میر تقی میر
کے بعد اردو زبان کی لغت اور ذخیرہ الفاظ میں بھرپوراضافے کے لیے دوسرے نمبر پر
سمجھا جاتاہے۔
جوش نے ادب کی ہر صنف میں
خود کوبہترین ثابت کیا۔ اپنے ابتدائی سالوں میں انہوں نے خوبصورت غزلیں لکھیں تاہم
بعد کی زندگی میں انہوں نے نظم کو اپنی پسندیدہ صنف کے طور پر منتخب کیا۔جوش نے
اپنی مرثیہ نگاری کے ذریعے ایک مقام بنایا، وہ اس صنف کو جدید بنانا چاہتے تھے۔
انہوں نے ایک اندازے کے مطابق اپنی زندگی میں ایک لاکھ سے زیادہ خوبصورت اشعار او
رہزار سے زیادہ رباعیات لکھیں۔ ان کی سوانح عمری یادوں کی برات کو اردو میں اب تک
کی بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتاہے کیونکہ یہ بے تکلفانہ انداز میں لکھی
گئی ہے۔ ماہر القادری جوش کے بارے میں کہتے ہیں ، میرے محدود علم کے مطابق کوئی
بھی بڑاشاعر اپنی زندگی کو قلمبند کرنے میں اتناصاف گو نہیں ہوا۔ انہیں 1954 ء میں
پدم بھوشن او رپاکستان میں 2013میں ہلال امتیاز سے نوازاگیا ۔ اردو ادب کا یہ درخشاں
ستارہ 22 فروری،1982ء کو انتقال کرگیا۔
5دسمبر، 2022 ، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism