پروفیسر اخترالواسع
18کتوبر،2020
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے
اپنا وہ سفر جو 29 اکتوبر 1920 ء کو علی گڑھ میں خیموں کے شہر میں شروع کیا تھا،وہ
آج ایک صدی کا سفر طے کرکے جمنا کے کنارے اوکھلا کی بستی میں شاندار عمارتوں میں
الیستادہ ہے۔ جامعہ کا سفر محض ایک ادارے کا سفر نہیں ہے بلکہ ایک ایسی تحریک کی
پوری صدی پر محیط داستان ہے جس نے سامراجی استبداد کا مقابلہ کیا۔تحریک خلافت اور
عدم تعاون کے آندولن کے بطن سے جس ادارے نے جنم لیا،اسے مہاتما گاندھی کا
آشیرواد،شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی دعائیں حاصل تھیں تو دوسری طرف وہ
وقارالملک اور علامہ شبلی نعمانی کے خوابوں کی تعبیر بھی تھا۔ اس ادارے کو وجود
میں لانے کے لئے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر، مسیح الملک حکیم اجمل خان،
طبیب حاذق اور بلقان طبی مشن کے لیڈر ڈاکٹر مختار احمد انصاری،پنڈت جواہر لال نہرو
کے انگلینڈ میں ہم جماعت اور تحریک آزادی کے علم برداروں میں سے ایک اے ایم خواجہ
اور علی گڑھ کی نئی نسل کے سب سے جری روشن خیال اور بلند نوجوان ذاکر حسین کے جذبہ
صادق ایثار پیشگی،قربانی اور جواں ہمتی شامل تھی۔
جامعہ کے قائم کرنے والوں
کے ذہن میں تین بنیادی باتیں تھیں ایک یہ کہ ابھی اگر ملک آزاد نہیں ہوسکتا تو
اپنے نظام تعلیم کو تو کم از کم آزاد کرالیا جائے اور شبلی کے لفظوں میں ”ہماری
تعلیم ہمارے ہاتھوں میں ہونی چاہئے“۔ دوسرے مسلمانوں خاص طور سے نچلے متوسط درجے
کے مسلمانوں کی تعلیمی کفالت کی جاسکے تیسرے اس ادارے سے ایسے طالب علم پیدا کئے
جائیں جو اسلامیت اور ہندوستانیت کا بہترین نمونہ ہوں،جن کی امیدیں قلیل او رمقاصد
جلیل ہوں، جو کنارہ موج میں آسودگی ساحل کا مزہ لے سکیں۔ جن کا رہنما زندگی کی دوڑ
میں ان کا اپناضمیر ہو۔
پانچ سال علی گڑھ میں
رہنے کے بعد 1925 ء میں جامعہ دہلی کے قرول باغ میں کرائے کے مکانوں میں منتقل
ہوگئی۔ باوجود اس کے جامعہ ملیہ اسلامیہ ضروری وسائل کی محرومی کی وجہ سے ایک
آزمائشی دور سے گزر رہی تھی۔ جو مدد اِدھر اُدھر سے ملتی وہ بہت سود مند نہ تھی
مگر جامعہ والوں نے ہمت نہ ہاری۔کچھ لوگوں نے یہ مشورہ تک دے ڈالا کہ جامعہ کے نام
سے اسلامیہ ہٹا دیا جائے تو شاید چندے کی فراہمی میں کچھ سہولت ممکن ہوسکے۔ اس
تجویز کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مہاتما گاندھی نے اس کی شدید مخالفت کی اور یہاں تک
کہہ دیا کہ جامیہ ملیہ کے نام سے اسلامیہ ہٹا دیا تو اس سے الگ ہوجاؤں گا او رکوئی
تعلق نہ رکھوں گا۔ اسی بیچ ذاکر صاحب سمیت تین نوجوانوں نے جن میں سے ایک محمد
مجیب صاحب، دوسرے سید عابد حسین صاحب نے حکیم اجمل خاں سے جرمنی سے یہ درخواست کی
کہ ان کے آنے تک جامعہ کو بند نہ کیا جائے اور پھر 1926 ء کی وہ کون سی مبارک
ساعتیں تھی کہ یہ تین نوجوان آئے، انہوں نے جامعہ کی زمام کار اپنے ہاتھوں میں لے
لی اورپھر جامعہ ہندوستان کے تعلیمی نقشے میں اپنی ندرت اور امتیاز کیلئے پہچانی
جانے لگی۔ ہندوستانی نظام تعلیم کا کوئی خواب ایسا نہ تھا جس میں جامعہ والے شامل
نہ ہوں چاہئے وہ آزادی سے پہلے واردھا کی ایجوکیشن پالیسی ہو، خود جامعہ میں ادارہ
تعلیم و ترقی ہو یا پھر جامعہ کے اسکول میں نرسری سے ثانوی تک بچوں میں تعلیم کے
ساتھ تربیت او رعلی اُفق کی وسعت کے ساتھ سیرت کی تعمیر او رکردار سازی اور اسی
طرح استادوں کے مدرسہ (ٹیچرس ٹریننگ کالج)میں ایسے استاد تیار کرنا جن کی پیشانی
پر علم نہیں محبت کا عنوان ہوتا ہے۔ رورل انسٹیٹیوٹ کے ذریعہ بچوں میں عوامی خدمت
کا جذبہ پیدا کرنا اور ساتھ میں جامعہ کے آس پاس بسنے والے غریب دیہی عوام سے اپنا
ایسا مضبوط رشتہ قائم کرنا کہ ”من و تو“ کا ہر فرق مٹ جائے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ
آزادی ملتے ہی جامعہ کو اس کے 27 سالہ غیر معمولی خدمات کے صلے میں ایک بڑے تعلیمی
ادارے اورمرکزی یونیورسٹی کے طور پر تسلیم کرلیا جاتا مگر کچھ تو جامعہ والوں کا
انکسار او رستائش کی تمنا او رصلہ کی پروا سے ان کی بے نیازی نے ایسا نہ ہونے دیا۔
جامعہ والے سرکار کے سامنے دست طمع دراز کرنے کو تیار نہ تھے اور سرکاری ترجیحات
اس وقت دوسری تھیں۔
تقسیم وطن کے بعد فرقہ
وارانہ بارسموم کے جو جھکّڑ چلے وہ اس سے پہلے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی
لپیٹ میں لیتے،پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کی تجویز پر ذاکر صاحب جامعہ
سے علی گڑھ کو بچانے کیلئے وہاں چلے گئے او رجامعہ کی باگ ڈور مجیب صاحب کے حصے
میں آئی۔1949ء سے 1973 ء تک انہوں نے جامعہ کو ایک نئی علمی شناخت دینے کی بھرپور
کوشش کی۔ انہیں کے زمانے میں چھٹی دہائی کے اوائل میں جامعہ کو ڈیمڈ یونیورسٹی(Deemed
to be University)کا
درجہ ملا۔مجیب صاحب کے زمانے میں جامعہ نے علم کے ساتھ ادب،تہذیب اور ثقافت کے
میدانوں میں اپنی غیرمعمولی شناخت قائم کی۔ ستیش گجرال ہوں یا حبیب تنویر ہوں یا
برصغیر کا کوئی بڑے سے بڑا شاعر،ادیب اپنے کو اس وقت تک مستندنہیں سمجھتا تھا جب
تک کہ جامعہ اسے تسلیم نہ کرلے۔ اردو زبان کی جیسی خدمت صرف ادب میں نہیں بلکہ
مختلف علوم و فنون میں مکتبہ جامعہ نے کی، وہ آج تک بے نظیر ہے۔
مجیب صاحب کے بعد مشہور
ماہر لسانیات،ادب و نقاد پروفیسر مسعود حسین خاں جامعہ کے وائس چانسلر ہوکر آئے۔
انہوں نے بڑی حد تک جامعہ کو انہیں خطوط پر چلا یا جن پر ان کے چچا ڈاکٹر ذاکر
حسین اور استاد پروفیسر محمد مجیب نے آگے بڑھا یا تھا۔ مسعود حسین خاں کے بعد انور
جمال قدوائی شیخ الجامعہ بنے۔انہوں نے جامعہ کی حد بندی کی اور ملک کا کیا جنوبی
ایشیا کا سب سے بڑا ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر (ایم سی آر سی) قائم کرکے جامعہ
کو جاپان سے کینیڈا تک نہ صرف شہرت دی بلکہ بدلتی ہوئی دنیا میں آنے والے زمانے کے
جدید ذرائع ابلاغ کے انقلاب کے لئے سب سے پہلے تیار کردیا اور آج جدید ذرائع ابلاغ
ہوں یا فلمی جگت میں اہم شخصیت بنانے والوں میں جامعہ کے اس ادارے کے فارغین علی
اشرف جامعہ کے وائس چانسلر بنے۔ ان کے زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انجینئر
نگ کالج آیا۔ فیکلٹی سسٹم کو مستحکم کیا گیا۔’اکیڈمی آف تھرڈ ورلڈ اسٹڈیز‘بنی اور
سب سے بڑھ چڑھ کر یہ کہ اللہ غریق رحمت کرے جناب خورشید عالم خاں کو کہ ان کی
کوششوں سے 1988 ء میں راجیو گاندھی سرکار نے جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ
دیا۔ پروفیسر علی اشرف کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ’ڈیمڈ ٹوبی یونیورسٹی‘ کے آخری او
رمرکزی یونیورسٹی کی حیثیت ملنے پر پہلے وائس چانسلر بنے۔
پروفیسر علی اشرف صاحب کے
بعد نامور سائنس داں، بحری علوم کے ماہر ’آنٹا رکٹکا‘ میں پہلی مہماتی ہندوستانی
ٹیم کے لیڈر اور وہاں عصر جدید کی نئی ’گنگوتری‘ بنانے والے ڈاکٹر سید ظہور قاسم
نے جامعہ کی کمان سنبھالی لیکن انہیں جلدی ہی پلاننگ کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے
حکومت نے واپس بلا لیا اور پھر پروفیسر بشیر الدین احمد جامعہ کے وائس چانسلر
ہوئے۔ وہ بھی اپنی مدت کار پوری نہیں کرپائے، ان کا وائس چانسلر رہتے ہوئے انتقال
ہوگیا۔ بشیر الدین صاحب سماجی علوم کے ممتاز ماہرین میں سے تھے،جامعہ بھی وہ بہت
سے خواب لے کرآئے تھے لیکن ان کا زمانہ زیادہ تر ہنگامے کی نظر ہوگیا۔ بشیر الدین
احمد صاحب کے بعد جامعہ کی کمان لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ایم اے ذکی صاحب نے
سنبھالی۔ وہ بظاہر ایک بڑا سانحہ تھا اور ایسا لگا جیسے کہ سرکار جامعہ سے کوئی
انتقام لے رہی ہو لیکن نظم ونسق کے سدھار او رامن و امان کی بحالی تعلیمی نظام کو
صحیح رفتار و سمت عطا کرنے میں جنرل ذکی نے جو نمایاں کردار ادا کیا، وہ غیر
معمولی تھا۔ وہ بظاہر سخت گیر لگتے تھے لیکن سچ کتنا ہی کڑوا ہو،اس کو سننے میں
انہیں نہ کوئی تکلیف ہوتا تھا نہ تکدر۔ڈسپلن، دیانت، امانت اور فرض شناسی ان کا
کوئی جواب نہ تھا اور شرف اور امتیاز ذاکر صاحب کے بعد صرف انہیں کے حصے میں آیا
کہ وہ جامعہ کے شیخ الجامعہ بھی رہے اور امیر جامعہ بھی، جو بحیثیت شیخ الجامعہ ان
کی مثالی کار کردگی او رکارہائے نمایاں کا جامعہ برادری کی طرف سے ایک ادنا سا
اعتراف تھا۔
جنرل ذکی صاحب کے بعد سید
شاہد مہدی صاحب جامعہ کے وائس چانسلر ہوئے۔ ان کے دور میں جامعہ کے کئی کارناموں
میں ایک بڑا کارنامہ اپنے بعد کے وائس چانسلر کے لئے پروفیسر مشیر الحسن کا انتخاب
تھا۔ پروفیسر مشیر الحسن نے جامعہ کو بے شمار علمی مراکز عطا کئے،علمی استناد عطا
کیا اور ساتھ ہی جامعہ کی تزئین کاری میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی۔ جامعہ کی ذاکر
حسین لائبریری کی نئی عمارت ہو یا ڈینٹسٹری کی فیکلٹی، یہ سب ہمیں ہمیشہ ان کی یا
ددلاتے رہیں گے۔ مشیر صاحب کے بعد نجیب جنگ صاحب نے جامعہ کی باگ ڈور
سنبھالی۔انہوں نے نظم ونسق کوبہتر بنانے کے علاوہ اردو کے فروغ کے لئے جو کام کیا
او رمکتبہ جامعہ کو جونئی زندگی عطا کی وہ ناقابل فراموش ہے۔
نجیب جنگ کے بعد پروفیسر
طلعت احمد جامعہ کے شیخ الجامعہ بنے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اپنے ڈھنگ سے
بخوبی چلا یا اور ان کے بعد ہندوستان کی مرکزی یونیورسٹیوں میں جامعہ نے ایک
تاریخی امتیاز حاصل کیا جب پہلی مرتبہ کسی خاتون کو ہندوستان کی کسی مرکزی
یونیورسٹی کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا۔ پروفیسر نجمہ اختر تعلیمی نظم و نسق کا
عملی اور نظری دونوں کا بخوبی تجربہ رکھتی ہیں،وہ ماہر تعلیم بھی ہیں او رتعلیمی
انتظامیہ پر اپنی پکڑ کے لئے مشہور بھی۔ یہ بھی کم دلچسپ بات نہیں کہ ان کی
سربراہی میں جامعہ 100سال کا سفرپورا کرنے جارہی ہے۔دوسرے یہ بھی ان کے لئے فخر و
انبساط کا باعث ہے کہ جامعہ کو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں وزارت تعلیم کی
درجہ بندی میں اوّلیت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ پچھلے کچھ عرصے سے
جن آزمائشوں او ربحرانوں سے نکلی ہے،اس میں اپنی جرأت و ہمت سے پروفیسر نجمہ اختر
نے بڑاکام لیا ہے اور وہ قابل قدر ہے۔ جامعہ کا سوسال کا سفر پورا ہونے پر اگر اس
کی اختصاص کی بات کریں تو درج ذیل خصوصیات ہمارے سامنے اُبھر کر آئی ہیں:
(1) جامعہ میں کوئی طبقاتی کشمکش نہیں بلکہ ایک برادری کا تصور
ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔(2) جامعہ نے مسلمانوں کی تعلیم و ترقی میں دوسرے طبقوں کے
ساتھ اہم رول انجام دیا ہے۔(3) جامعہ نے آس پاس کی مقامی آبادیوں کے ساتھ اپنے
بہتر مراسم اور حسن عمل سے جو جگہ بنائی تھی اس کی ایک بار پھر تجدید ہونی
چاہئے۔(4) جامعہ نے مکتبہ جامعہ کے ذریعہ اردو زبان ادب کو مالا مال کرنے میں جو
رول انجام دیا اسے ایک بار پھر بحال ہوناچاہئے۔(5) ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ
جامعہ کی ایک بڑی پہچان اردو زبان کے حوالے سے رہی ہے اوراس کو آگے بھی باقی رہنا
چاہئے۔(6) اخیر میں جو بنیاد کا پتھر بھی ہے اور جامعہ کیلئے سنگ میل بھی وہ اس کے
اساتذہ کا غیرمعمولی علمی شغف،نمایاں تحقیقی سروکار اوراپنے طلبہ کی تعلیمی ترقی
او ربہتر مستقبل کے لئے انتھک جذبہ اورجد وجہد ہے۔ جامعہ آج جہاں ہے اس میں
درودیوار کے حسن انتظامیہ کی صلاحیت کے ساتھ دراصل اساتذہ کامثالی کردار اور ان
کافیضان نظر بھی ہے، جس کے بغیر کسی ’اسماعیل کو آداب فرزندی نصیب نہیں ہوتے‘۔ ایک
صدی کا سفر جامعہ کیلئے آخری منزل ہے بلکہ پہلا پڑاؤ ہے۔ جامعہ والوں کو اپنے سفر
کو جاری رکھنا ہے اس لئے کہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور
بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور
بھی ہیں
18اکتوبر،2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/jamia-millia-islamia-journey-century/d/123211
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab World
News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism