New Age Islam
Sat May 24 2025, 06:21 AM

Urdu Section ( 2 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Who Was Jalal Al-Din Rumi And What Makes Him Noteworthy? رومی کون؟

محمد حمید شاہد

2 فروری 2024

مولانا جلال الدین رومی ایسے عالم اور فقیہ تھے کہ زمانہ مانتا تھا۔ شریعت کا علم سیکھنے اور درپیش مسائل پر فتوے لینے کو لوگ دور دور سے آتے کہ وہ اپنے عہد کے سلطان العلما تھے اور سلطان الفقہا بھی۔ پھر یوں ہوا کہ ان کی ملاقات شاہ شمس الدین تبریزی سے ہو گئی اور کچھ یوں ہوئی کہ کایا کلپ ہو گئی؛ قال، حال میں منقلب ہوا اور ایک مولوی کی جگہ مولائے روم کا ظہور ہو گیا جو ”مثنوی معنوی“ کا شاعر ہے۔ اسی مثنوی کے بارے میں مولانا عبدالرحمن جامی کا کہنا تھا:

مثنوی مولوی معنوی

ہست قرآں در زبان پہلوی

یہیں دیوان شمس تبریزی کا ذکر بھی ہو جانا چاہیے کہ یہ بھی رومی ہی کا دیوان ہے۔ عبداللہ جاوید کی کتاب ”رومی کون؟“ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ آئندہ اس دیوان کو بھی ”دیوان رومی بنام شمس تبریزی“ لکھا جانا چاہیے۔ عبد اللہ جاوید نے اپنی زندگی ہی میں اس کتاب کا مسودہ تیار کر لیا تھا۔ ابھی کتاب چھپنے کی نوبت نہ آئی تھی کہ وہ چل بسے۔ خیر، وہ اپنی کتب کی اشاعت کے معاملے میں اپنی زندگی میں بھی متردد کہاں رہتے تھے۔

مولانا جلال الدین رومی

----------

یہ تو ان کی افسانہ نگار بیگم شہناز خانم عابدی تھیں جنہوں نے اس کام کا ذمہ لے رکھا تھا۔ یوں ایک ایک کر کے وہ شائع ہوتی چلی گئیں اور یہ سلسلہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔ عبداللہ جاوید کی اب تک شائع ہو چکی کتب میں ان کی شاعری کے تین مجموعے ہیں ؛ ”موج صد رنگ“ ، ”حصار امکاں“ اور ”خواب سماں۔ ان کے منتخب افسانوں کا مجموعہ“ بھاگتے لمحے ”کے نام سے شائع ہوا تھا۔ میر اور اقبال کے مطالعات پر مشتمل ان کی دو اہم کتابوں کے علاوہ“ تنہائی کے سو سال ”،“ دی جوک ”، اور“ آگ کا دریا ”کے تنقیدی مطالعات پر مشتمل تین کتب بھی پڑھے جانے کے لائق ہیں کہ یہ تخلیقات بہت سنجیدگی اور سلیقے سے موضوع ہوئی ہیں۔ ساری عمر لکھنے کی طرف راغب رہے۔ “ حصار امکاں ”کی ایک غزل میں ان کا کہنا ہے :

مرے اندر بھی کوئی ناچتا ہے

میں اس کے ساتھ پیارے، رقص میں ہوں

شاید اندر کا یہی رقص تھا جو انہیں رومی کی طرف لے گیا تھا۔ زیر نظر کتاب ”رومی کون؟“ میں رومی کی شخصیت کو کھوجا گیا ہے۔ وہ شخصیت جس کے بارے میں خود رومی کا کہنا تھا: ”من خود را نمی دانم“ ۔

عبد اللہ جاوید کہتے ہیں کہ جب وہ رومی کون؟ جیسے سوال کی جانب متوجہ ہوئے تو ان کی نگاہ ان کے اس کہے پر ٹھہر گئی تھی:

حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست

خام بدن، پختہ شدم، سوختم

وہ لکھتے ہیں :

”تیرہویں صدی میں طلوع ہونے والے اور روشن ہونے والے چاند حضرت محمد جلال الدین رومی نے ماند پڑنے کے بجائے لمحہ لمحہ روشن تر ہونے کا سلسلہ جاری رکھا اور ساتھ ہی اپنے سورج حضرت شمس الدین تبریزی کو اپنے اندر سمیٹ کر ، یا شاید ان میں سمٹ کر ، وقت کے ساتھ، روشنی کا سفر جاری رکھا اور عصر موجود یعنی اکیسویں صدی میں سارے ارضی گلوب کو اپنی روح پرور، ٹھنڈی دلآویز تابانی میں لپیٹ لیا ہے۔“

کہتے ہیں شمس پہلے شریعت کے پابند تھے پھر اپنے اطمینان کی خاطر اہل طریقت اور اہل فقر کے گروہ کا حصہ ہو گئے۔ دونوں گروہوں کی رفاقت کا تجربہ ایسا رہا کہ نامطمئن رہے۔ دونوں جانب خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی۔ لہٰذا وہ اپنی ذات میں سمٹتے چلے گئے۔ وہ ذات جو دوسروں پر ظاہر نہ تھی۔ جہاں اللہ کے عطا کردہ روحانی اسرار مخفی تھے۔ وہ فقیر اور مجذوب ہو کر یہاں وہاں گھومتے رہتے۔ جب وہ وقت آ پہنچا کہ یہ مخفی بوجھ ان سے سہارا نہ جا رہا تھا تو انہیں ایسے فرد کی تلاش رہنے لگی جس پر وہ اپنے روحانی اسرار افشا کر سکیں۔

شمس اور رومی کے درمیان جو تعلق بنا وہ بھی ایک بھید بن کر ظاہر ہو رہا تھا۔ رومی کے شاگرد بھی برہم تھے کہ ان کے اور ان کے استاد محترم کے درمیان شمس آ گئے تھے۔ رومی شہر کے سب سے بڑے عالم دین تھے۔ بے شمار شاگردوں کے علاوہ شہر کی اشرافیہ بھی ان کی معتقد تھی۔ ایک مجذوب سے اتنا گہرا تعلق کہ وہ سب سے لاتعلق ہو گئے تھے ؛ یہ ایسا تھا کہ لوگوں کو برہم کر رہا تھا۔ کتاب میں مختلف روایات کا ذکر ہے کہ کیسے شمس نے شہر چھوڑ دیا۔ انہیں تلاش کر کے واپس لایا گیا تو پھر عدم پتہ ہو گئے۔ کتاب میں ان کے قتل کا حوالہ بھی آیا کہ رومی کے چھوٹے بیٹے نے قتل کر کے لاش کنویں میں پھنکوا دی تھی۔ خیر، یہ عدم پتہ ہونا بھی اک بھید رہا۔ رومی کے لیے یہ جدائی شدید صدمے والی تھی اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں کیا جو امر ہو گیا۔

رومی کی شخصیت، ان کی زندگی میں اور اب تک کے مختلف زمانی عرصے میں کیسی بنی اور کیسی سمجھی جاتی رہی؛ یہ اس کتاب کا موضوع ہوا ہے۔ عبداللہ جاوید نے ایک محقق کی طرح اس کا تجزیہ کیا ہے کہ وہ کیا عوامل رہے کہ رومی کی ذات ملکوں ملکوں پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی رہی ہے۔ رنگ نسل، ثقافت، تہذیب، زبان، قوم، ملک غرض کچھ بھی ان آٹھ صدیوں میں مزاحم نہ ہوا۔ اس قبولیت اور مقبولیت کی حقیقت کو پانے کے لیے عبداللہ جاوید نے ہر اس کتاب کا مطالعہ کیا جس میں رومی موضوع بنے تھے۔

رالف والڈو ایمرسن، رینولڈ نکلسن، این میری شمل، علامہ شبلی نعمانی، ول ڈیوران اور ان جیسے اکتالیس نام آپ کو اس کتاب میں بار بار پڑھنے کو ملیں گے جن کے حوالہ جات مقتبس ہوتے رہے ہیں۔ کسی سے انہوں نے اتفاق کیا اور کسی کو رد۔ تاہم ان کا رویہ دونوں مرتبہ کسی نہ کسی جواز کے ساتھ رہا اور یہی ایک سنجیدہ محقق کی نشانی ہوا کرتی ہے۔

ایک امریکی مصنفہ لزلی وائنس کے مطابق 17 دسمبر 1273 کو جب رومی رخصت ہوئے تو قونیہ پر جیسے مکمل سکوت طاری ہو گیا تھا۔ رومی کا سوگ چالیس روز تک منایا جاتا رہا اور اس سوگ میں یہودی، عیسائی، مسلمان سب شریک تھے۔ ماتمی جلوس نکلے، گریبان چاک ہوئے اور سینہ کوبی ہوئی۔ لزلی وائنس کے مطابق رومی کی بلی کو بھی اتنا شدید صدمہ پہنچا تھا کہ اس کے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ہفتے کے اندر اندر مر گئی۔ بتایا گیا ہے کہ رومی کی بیٹی نے بلی کو قبر کے پاس ہی دفنا دیا تھا۔

اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب والوں کو رومی سے اتنی گہری دلچسپی ہو گئی تھی کہ وہ رومی کی زندگی سے وابستہ ہر واقعے کو اپنے ہاں محفوظ کرنے لگے تھے۔ مغرب والے رومی کے کلام سے ان کی شخصیت تک پہنچے تھے اور عبداللہ جاوید نے لزلی وائنس کو مقتبس کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغرب کا قاری رومی کے ہاں معمول سے ہٹے ہوئے استعاروں کا ذائقہ چکھ رہا تھا اور محبت اور عشق کو ظاہر کے بجائے باطن میں جانچ اور پرکھ رہا تھا۔

انسانی زندگی کو ہر طرح سے مقصد اور معانی سے تہی کرتے اقدار کی غیر یقینی صورت حال کے زمانے میں رومی اس لیے توجہ پا رہے تھے کہ یہاں اقدار متحرک تہذیب کی صورت میں ڈھلتی ہوئی موجود تھیں۔ اس کے مطابق ایسے قارئین کی کمی نہیں جو رومی کو اس کی اسپینی تاریخ سے الگ کر کے اپنا ہم زمان و ہم مکاں (ہم عصر) سمجھ بیٹھے ہیں۔

مغرب میں رومی کو یاد کرنے اور برتنے کے جو مظاہر لزلی وائنس نے نوٹ کیے وہ کچھ یوں ہیں :

1۔ نیو یارک کے لباس ڈیزائنر ڈونا کرن کے موسم بہار کے ملبوسات کی تقریب 1998ء میں اور دیپک چوپڑا کا عقب میں رومی کی شاعری پر موسیقی پیش کرنا۔

2۔ موسیقار فلپ گلاس اور رابرٹ ولسن کا اوپرا ”مونسٹرس آف گریس“ جس کو مشہور شاعر اور رومی کے ممتاز مترجم کو لمین بارکس کی ترجمہ کی ہوئی رومی کی منظومات کی اساس پر مرتب کیا گیا تھا اور جس کو دیکھنے کے لیے تین ڈائی مینشن والی عینکوں کی ضرورت پڑتی تھی۔

3۔ ماہ بہ ماہ رومی کارڈز کا اجراء۔ ان کی کتابوں کی دکانوں میں فروخت اور ان سے قسمت کا حال دریافت کرنے کا دل چسپ شوق اور مشغلہ۔

4۔ رومی سے معنون ویب سائٹس کا اجرا

5۔ رومی کا کاروباری استعمال

6۔ رومی بہ طور شاعر عشق و محبت۔

7۔ رومی کی شمس تبریزی سے محبت اور تعلق۔

8۔ ایک صاحب اسرار کے طور پر رومی کی شناخت

9۔ بندے کا دیگر بندوں سے مجازی عشقیہ ربط برائے حصول عشق حقیقی و معرفت و جذب

عبد اللہ جاوید کے مطابق مسلم دنیا کا قاری جس رومی سے والہانہ انس و عقیدت استوار کرتا ہے وہ ایک مختلف رومی ہے۔ اس رومی کو مغربی ذہن گرفت میں لینے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ وہ این میری شمل کا تیرہویں صدی کے مسلم سماج کے حوالے سے یہ بیان مقتبس کرتے ہوئے شاید وہ آج کے مشرق کو بھی رومی کے باب میں کچھ سجھانا چاہتے ہیں۔

”یہ خاصا تعجب خیز ہے کہ سیاسی تباہی کا یہ دہشت انگیز عہد ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ ترین مذہبی اور طریقتی گہما گہمی کا عہد ثابت ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیوی سطح پر مکمل تاریکی نے روحانی سطح پر حیران کن ردعمل کی صورت میں ایسی روشنی پیدا کی جس سے دنیا اس سے قبل آگاہ نہیں تھی۔“

آئرن ملنکوف کا کہنا ہے کہ ”اگر اقوام عالم رومی کی تصانیف کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کریں اور ان کو پڑھیں تو دنیا میں نہ تو جنگ ہو، نہ نزاعات اور نہ ہی نفرت۔“ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا رومی دہشت کے رواں منظر نامے میں مسلم معاشروں کے اندر نزاعات کو ختم کر کے روحانی سطح پر ایسی روشنی پیدا کر سکتے ہیں جو این میری شمل کے لیے تعجب خیز ہو گئی تھی۔

2 فروری 2024 ، بشکریہ:روزنامہ چٹان سرینگر

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/jalal-al-din-rumi-makes-noteworthy/d/131639

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..