حسن کمال
18 اکتوبر 2023
ذرا غور فرمائیں۔ اسرائیل
اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے وہ سنگدل شہباز ہے جس کی چونچ مظلوم فلسطینیوں کے
خون سے سرخ ہے ، جس کے پنجے میں فلسطینیوں سے زبردستی چھینی ہوئی سرزمین پھنسی
ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں تقریباً نہتے حماس کی حیثیت بے دست و پا ممولے جیسی ہے، لیکن اس ممولے نے
شہباز کے تن بدن پر وہ وار کیا ہے کہ اس کے بازو اکھڑ چکے ہیں۔ ہمیں لاشوں کی
تعداد گننے سے کوئی فائدہ نظرنہیں آتا ، لیکن حالت اور واقعات بتا رہے ہیں کہ
اسرائیلی فوج کے جتنے فوجی ان چند دنوں میں ہلاک ہوئے ہیں ،اسرائیلی افواج کا کہنا
ہے کہ اتنے اسرائیلی تو آج تک کسی جنگ میں نہیں مرے تھے۔ حماس نے اسرائیلی فوج کے
سپاہیوں کو بھی بطور یرغمال اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ ان میں اسرائیلی افواج کے
کئی بڑے افسر تک شامل ہیں،ان میں سے ایک کرنل کا نام، میری یاد کے مطابق ، نمرود
المونی بھی ہے۔ فلسطینی ریاست کے پروانوں نے ’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘
کی داستان بھی دوہرا دی ہے۔
حماس کے اس اچانک حملے نے
دنیا کی بڑی بڑی سراغرساں ایجنسیوں کو بھی ششدر اور مبہوت کر دیا ہے، موساد اور
امریکی ایجنسی سی آئی اے کے نام سے کون نہیں واقف ہے۔ آج ان کے سربراہ سر جوڑے
بیٹھے ہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ وہ اس طرح سرجوڑ کر بیٹھے ہیں کہ ان کی صف میں
دراڑیں پڑ چکی ہیں، لیکن مسئلہ کا حل نہیں مل رہا ہے۔ غزوۂ خندق کا نام تو آپ کو
یاد ہے نا؟ غزہ میں فلسطینی ایک عرصہ سے سرنگیں کھود رہے تھے، لوگوں کو بلکہ موساد
جیسی ایجنسی کو بھی یہ خیال تھا کہ فلسطینی یہ سرنگیں اس لئے کھود رہے ہیں کہ کسی
اچانک اسرائیلی حملے کے وقت،جو عام طور پر ہر دن ہوا کرتے تھے، وہ اپنی جانیں بچا
سکیں۔ بس کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ حماس نے یہ سرنگیں زمین کے اندر بیس بائیس
فٹ تک کھود لی ہیں اور ہر سرنگ ہر دوسری سرنگ سے جا ملتی ہے۔ ان کی شکل بھول
بھلیوں کی طرح تھی۔ حماس نے یہ سرنگیں اس طرح کھودیں کہ کسی کوبھنک بھی نہیں ملی۔
انہوں نے یہ کام کئی برسوں میں کیا تھا۔
اس بات کی کسی کو کی خبر نہ ہو، حماس نے اپنی سرگرمیوں سے ایک دوسرے
کوآگاہ کرنے کے لئے کسی موبائیل ، کسی ٹی وی یا کسی دوسرے برقی رابطے بھی نہیں
استعمال کئے، وہ ایک دوسرے کو صرف انسانوں کے ذریعہ پیغامات لیتے اور دیتے رہے۔
حماس نے ان سرنگوں کو اسی سرنگوں کے جال میں پگھلا دیا ہے۔ اس لئے اگر اسرائیل
کوئی فوجی کارروائی کرتا ہے تو ان کی جان پر بھی بن جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ
اسرائیل کوئی بڑی جنگی کارروائی نہیں کررہا ہے۔ یاد کیجئے جب تین سال پہلے لبنان،
حزب اللہ نے دو یہودی سپاہی مار لئے تھے تو اسرائیل کو ان کی لاشیں لینے کیلئے جزب
اللہ کے ہاتھ پاؤں جوڑنا پڑے تھے۔ ظالم دوسروں کو قتل
کرنے میں رعایت سے کام نہیں لیتا۔ لیکن اسرائیل اپنی مقتول عوام کو دکھانے سے ڈرتا
ہے۔ اسرائیل سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ یہ یرغمالی کام آئے تو اس کا کام تمام ہوجائے
گا، نا قابل تسخیر ہونے کا خواب پاش پاش ہو چکاہے۔
دنیا کو دنگ کر دینے کا
سبب کیا تھا ،سب سے پہلے تو اس وقت اس کی ضرورت اس لئے تھی کہ آج دنیا یہ بھول
چکی ہے کہ ۴۲
کلو میٹر اور۱۴
کلو میٹر چوڑے غزہ پٹی میں ۲۳
؍لاکھ ایسے انسانوں کی
بستی ہے، جس کے بارے میں پچاس سال سے
زیادہ عرصہ سے اسرئیل نے مہذب دنیا کو یقین دلا دیا تھا کہ یہ لوگ جیتے جاگتے انسان
ہیں حیوان نہیں ہیں، اسرائیل کے کئی لیڈروں نے ان فلسطینیوں کے بارے میں کہا بھی
ہے کہ یہ حیوان نما انسان ہیں۔ آج فلسطینیوں نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ وہ صرف
انسان نہیں ہیں بلکہ ایسے انسان ہیں جو دنیا میں حسرت اور آزادی کے جمال کی وہ
تصویر ہیں جن کی بابت ان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، آج انہوں نے دنیا بھر
میں بسے ہوئے مسلمانوں کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ ان کے قبلہ ٔاول کے محافظ ہیں،
آج انہوں نے سارے عرب اقوام کو جتلا دیا ہے کہ ہم میں ہمیت اور غیرت زندہ ہے۔
۱۹۴۷ء
میں اقوام متحدہ میں پاس کی جانے والی بیلفورڈ تجویز نے دنیا کے ہٹلر زدہ یہودیوں
کی بہبودی کیلئے ان کے پرانے مطالبہ ارض موعودہ دلانے کیلئے از راہ ہمدردی فلسطین
کا ایک حصہ ان کے حوالے کر دیا تھا، بیلفورڈ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بقیہ
فلسطین ان بنی ابراہیم کا حق ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ اسرئیل بن گیا لیکن
فلسطین اب بھی شرمندہ ٔتعبیر ہے۔ اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے اسرائیلی دنیا میں
حسب توقع موجودہیں لیکن فلسطین کےپاس نہ کوئی گھر ہے نہ ڈر ہے۔
جب بھی یہ پوچھا جاتاہے
کہ یہ سب سچ سہی لیکن یہ سب اس وقت کیوں ہوا ؟ ا س کی وجہ سمجھئے۔ اکیسویں صدی میں
داخل ہوتے ہی عرب حکمرانوں کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی تیل کی وہ دولت جس کی وجہ سے
انہیں دنیا میں افتخار اور وقار حاصل ہے تیزی سے ختم ہونے والا ہے، عرب حکمراں
چاہتے تھے کہ انہیں دنیا سے سرمایہ کاری حاصل ہو جائے، انہیں معلوم تھا کہ دنیا کے
سب سے بڑے سرمایہ کار ان کے پڑوس میں واقع ہیں۔ اسرائیلی بھی اس حقیقت سے واقف
تھے، وہ بھی عرب میں پیسہ لگانا چاہتے تھے، یوں بھی کئی عرب اور یہودی چپکے چپکے
باتوں میں شریک ہیں، لیکن اسرئیل کو معلوم تھا کہ جب تک فلسطینی جدو جہد زندہ ہے ،
وہ دنیا کو کبھی تسلیم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے عرب حکمرانوں کے سامنے
یہ شرط رکھی کہ وہ اگر فلسطین کو بھول جائیں تو یہودی سرمایہ کاری کریں گے، عرب
حکمراں بھی یہی چاہتے تھے، لیکن انہیں عوام کی حساسیت کا علم تھا، اس کھیل سے سب
سے زیادہ فائدہ اٹھایا، انہوں نے اس کیلئے عرب کے ولی عہد محمدبن سلمان اور دوبئی
کےشیخ زاید بن نہیال کو متحد کیا۔ یہ دبئی تھی کہ یہ دونوں استعمال ہوئے، چند ہی
دن بعد بائیڈن نے سعودی عرب سے ایک نیوکلائی معاہدہ کرنا طے کیا تھا۔ دوبئی کے شیخ
زاید بن نہیال سب سے پہلے تھے جو کھیل میں شامل تھے ، کئی دوسری عرب ریاستیں بھی
اس کھیل میں شامل تھیں لیکن فلسطینیوں کے اس طوفان ِ اقصیٰ نے ، فلسطینیوں نے
موجودہ جنگ کو یہی نام دیاہے، اس نے عرب حکمرانوں کے ان منصوبوں کوغرق کر دیا ہے۔
دیکھنا ہے کہ اب محمد بن
سلمان کےاوردوبئی کے زاید بن نہیان کی حد سے بڑھی اسرائیل دوستی کاکیا حشر ہوتا
ہے، سچ پوچھئے تو ہم بھی نہیں چاہتے کہ یہ علاقہ خون سے لبریز ہوجس کا تعلق حبیب
اللہ، روح اللہ اور کلیم اللہ سےہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ جنگ بندی ہو لیکن اس وقت ہو
جب فلسطین کے قیام کی واضح نشانیاں سامنے آجائیں۔
18 اکتوبر 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism