ڈاکٹر یامین انصاری
17دسمبر،2023
دنیا کی تاریخ جنگ، تشدد
اور ظلم وبربریت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ان میں مارے جانے والوں کی تعداد بھی
ہزاروں او رلاکھوں میں ہے۔ ظالموں اور مظلومین کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔مگر غزہ
کی جنگ نے ظلم و بربریت او رسفاکیت کی
ساری حدوں کو پار کر دیاہے۔ کم وقت میں،کم آبادی والے علاقے میں اتنے بڑے پیمانے
پر تباہی بربادی اور جانی و مالی نقصان کے سبھی ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ عالمی اداروں
او ربین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ناجائز صہیونی ریاست نے سفاکیت کی نئی
تاریخ رقم کردی ہے۔ظلم و ناانصافی کی اس نئی داستان میں غاصب اسرائیل کیساتھ وہ
طاقتیں بھی شریک جرم میں جو براہ راست اس کے ساتھ کھڑی ہیں اور وہ طاقتیں بھی جو
اسرائیل کے سامنے خود کو بے بس پاتی ہیں۔ ان سبھی طاقتوں کے ہاتھ تقریباً 20ہزار
بے گناہ او رمظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ان میں نصف وہ بچے بھی شامل
ہیں،جن کی پیدائش سے پہلے موت کے سرٹیفکیٹ بن گئے او روہ نومولود اور شیر خوار بچے
بھی جنہوں نے اپنی زندگی کا آغاز موت کے رقص کے سامنے کیا۔انسانی حقوق او ربین
الاقوامی قوانین کی ایسی خلاف ورزی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔غزہ میں جو کچھ
ہورہاہے اس کو بیان کرنے کیلئے اب الفاظ نہیں ملتے الفاظ کی طاقت بھی بے معنی نظر
آتی ہے،کیونکہ زبان بھی ظلم کو ایک حد تک برداشت کرسکتی ہے۔ مگر نام نہاد ترقی
یافتہ انسانی تہذیب یہ سب دیکھ اور برداشت کررہی ہے۔
امریکہ او را سکے حواریوں
کی بھر پور مدد سے صہیونی فوج پوری کوشش کررہی ہے کہ ظلم وبربریت کی یہ نئی داستان
بھی غزہ کے ملبہ میں دفن ہوجائے، اس کی سفاکیت سے دنیا واقف نہ ہوسکے، اس کی سچائی
اور تصویریں سامنے نہ آسکیں۔ اس کے لئے غزہ کے صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے،
ان کے اہل خانہ کو قتل کیا جارہاہے،انہیں خبر گیری سے روکا جارہاہے، ان پر ٹینکوں
اور ڈرون سے حملے کئے جارہے ہیں۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق 7اکتوبر کے بعد سے اب تک
تقریباً 90 فلسطینی صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید کئے جاچکے ہیں۔
جب کہ بین الاقوامی صحافتی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے) کے مطابق
غزہ کی پٹی میں اب تک کل 63صحافیوں اور میڈیا اہلکاروں کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ان میں 56 فلسطینی،چار اسرائیلی اور تین لبنانی صحافی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ 11
صحافی زخمی ہوئے ہیں، تین کو لا پتہ قرار دیا گیا ہے اور 19 صحافیوں کو گرفتار
کرلیا گیا ہے۔ ان واقعات کے افراد کا قتل شامل ہیں۔ اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ جس
طرح اسرائیل نے مجموعی طور پر خونریزی کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں اسی طرح غزہ کے
صحافیوں کے لئے بھی یہ جنگ سب سے ہلاکت خیز ثابت ہوئی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں
کہ 1939 ء تا 1945ء دوسری جنگ عظیم کے دوران 67 صحافیوں کی موت ہوئی تھی۔ اس کے
بعد 1955ء تا 1975ء ویتنام جنگ میں 63 صحافیوں نے اپنی جان دی۔ ان سب کے باوجود
صحافت کے عالمی ادارے اور صحافت کی علمبردارتنظیمیں فلسطینی صحافیوں کے اعداد
وشمار جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔ جب یہ سطریں تحریر کی جارہی تھیں
اس سے کچھ گھنٹے پہلے ہی غزہ کے خان یونس علاقہ میں ہی الجزیرہ ٹی وی کیمرہ مین
سمیت دو صحافی شہید ہوئے۔الجزیرہ کے کیمرہ مین سامر ابودقہ اور فلسطینی نیوز پریس
ایجنسی کے رامے بدیر کو کوریج کے دوران براہ راست ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
سامر ابودقہ زخمی ہونے کیبعد چھ گھنٹے تک سڑک پرپڑے رہے،مگر قابض فوج نے ان تک طبی
امداد نہیں پہنچنے دی۔ الجزیرہ نیٹ ورک نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سوچا سمجھا قتل
قرار دیا ہے۔ اسی حملے میں الجزیرہ کے بیوروچیف وائل الحدوح جو 25 اکتوبر کو
اسرائیلی بمباری میں اپنے اہل خانہ کو کھوچکے ہیں وہ بھی شدید زخمیہیں۔ وائل نے
ابودقہ کیلئے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ ”غزہ میں جاری جنگ کے دوران غزہ کے
صحافی دنیا کے لئے ایک ’انسانی او رعظیم پیغام‘ لے کر جارہے ہیں،مگر اسرائیلی
جارحیت کے باوجود اپنا کام جاری رکھیں گئے“۔اس سے پہلے الجزیرہ کی ہی یمنی السعید
کو مع اہل خانہ شمالی غزہ چھوڑ دینے کا انتباہ دیا گیا تھا۔ صحافیوں کی شہادت پر
رد عمل دیتے ہوئے کمیٹی ٹوپروٹیکٹ جرنلسٹس نے لوگوں کو غزہ میں صحافیوں کے قتل عام
کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں کے قتل میں ملوث
طاقتوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے آزاد اور خود مختار بین الاقوامی تحقیقات
کی ضرورت ہے۔ انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے صحافیوں کی شہادت کے
واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی افواج کی
کارروائیوں میں جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، اب
یہ پریس فریڈم کا معاملہ بن چکا ہے، ہم جانتے ہیں کہ فلسطینی صحافیوں کو چن چن کر
نشانہ بنایا جارہا ہے“۔
اب تک غزہ کے جو حقائق او
رتصویریں دنیا کے سامنے آسکی ہیں وہ انہی جانباز فلسطینی صحافیوں کی قربانیوں کا
ہی نتیجہ ہیں۔اکثر عالمی صحافتی اداروں اور خبر رساں ایجنسیوں سے وابستہ صحافی یا
تو تل ابیب او ریروشلم جیسے محفوظ سمجھنے جانے والے علاقوں سے رپورٹنگ کررہے ہیں
یا پھر لبنان، مصر او رغزہ کے سرحدی علاقوں تک رسائی حاصل کرسکے ہیں۔کچھ صحافیوں
کو اسرائیلی فوج نے رپورٹنگ سے روکا ہے او رکچھ خود بھی غزہ میں داخل ہونے کی ہمت
نہیں کرسکے ہیں۔ لہٰذا غزہ کی صحیح صورت حال اگر سامنے آپارہی ہے تو وہ فلسطینی
صحافیوں کے ذریعہ ہی ممکن ہوئی ہے۔
غزہ کی تباہی کے ساتھ ساتھ
اسرائیل کے ظلم و بربریت کے نشان غزہ کے ذرہ ذرہ میں نظر آرہے ہیں۔جنگ میں اموات
ہوتی ہیں، لیکن فوجی ان اموات پر خوشیاں نہیں مناتے۔ایسے بہت سے ویڈیو سوشل میڈیا
پر گردش کررہے ہیں جن میں فلسطینیوں کو مارنے او رتباہ کرنے کے بعد اسرائیلی فوج
جشن منارہے ہیں۔فلسطین کے ان جانباز صحافیوں کی ہمت وحوصلے او رجذبے کو سلام ہے کہ
جنہوں نے اپنی زندگی کے سخت ترین او رناموافق حالات میں بھی اپنے فرائض منصبی کو
ادا کیا ہے۔ و رنہ دنیا یہ کیسے دیکھ پاتی کہ غزہ کے ہزاروں معصوم اور شیرخوار
بچوں کو شہید کرکے،ان کے گھروں،ہسپتالوں او راسکولوں کو بموں سے اڑا کر اسرائیلی
فوجی جشن منارہے ہیں۔ایک ویڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی اپنی یونٹ کی خاتون فوجی کو
ایک ایسی جگہ پر شادی کی پیشکش کررہا ہے جہاں کچھ دیر پہلے اسرائیل نے بمباری کرکے
گھروں کو زمین بوس کردیا ہے۔ اس تقریب کے لئے ریڈ کارپٹ کا بھی خصو صی انتظام کیا
گیا۔ ایک دوسرے ویڈیو میں ایک اسرائیلی ملبے سے ایک ہار دکھا رہاہے او رکہہ رہا ہے
کہ وہ اسے اپنی بیوی کے لئے بطور تحفہ لے رہا ہے۔ ایک او رفوجی خود کو ایک عمارت
کو اڑانے کی فلم بناتے ہوئے کہہ رہاہے کہ وہ اسے اپنی بیٹی کے لئے اس کی دوسری سالگرہ
پر تحفے کے طور پر دے رہاہے۔
اس طرح کے ویڈیو سفاکیت
کی انتہا ہیں۔ نام نہاد ترقی یافتہ سماج اورانسانی تہذیب پر بدنما داغ ہیں۔
فلسطینیوں کے گھروں کے ملبے پر اسرائیلی فوجیوں کے رقص، گانا او رجشن منانے کے
ویڈیو دیکھ کر دنیا کے امن اور انصاف پسند حیران ہیں۔ جنگ میں تشدد او راموات ہونا
تو فطری بات ہے، مگر کوئی انسان قتل عام سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ ان ہلاکتوں کا
بوجھ اس کے سینے پر رہتا ہے، لیکن اسرائیلی فوجیوں کے رویے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ
وہ سفاک ہی نہیں، بلکہ انسانیت کے دشمن او رذہنی مرض کا شکار ہیں۔ ان سے ظاہر
ہوتاہے کہ جو طاقتیں اس ظالم او رغاصب حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں وہ دراصل اس سے بڑی
قصوروار ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اصل مجرم تو یہی طاقتیں ہیں جو
کسی نہ کسی شکل میں اسرائیل کی مدد کررہی ہیں۔
17دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism