New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 02:49 PM

Urdu Section ( 21 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

When Israel Is Barbaric, Where Are The Human Rights Champions? اسرائیلی بربریت: حقوق انسانی کے علمبردار کہا ں ہیں؟

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

20اکتوبر،2023

کرہ ارض کا وہ مقدس علاقہ جہاں سید نا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لیکر چپے چپے پر انبیاء ورسل کی ایک بڑی جماعت کے قدم ہیں، ان کے روضے ہیں، قبلہ اوّل (بیت المقدس) او رمسجد اقصیٰ ہے جس میں وہ مقام اورمصلی موجود ہے جہاں ہمارے آقا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں انبیاء کی جماعت کی امامت فرمائی ہے، جہاں وہ مشترکہ مقامات مقدسہ بھی موجود ہیں جو یہودی، مسیحی او رمسلم تینوں کے لئے محترم،مقدم و متبرک ہیں۔ اس کے گردونواح اور اطراف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جو کلیم اللہ ہیں ان کے پیروکار انسانیت کو کس حد تک شرمسار کرسکتے ہیں، ان کو انسانی سوزی کہا تک لے جاسکتی ہے اور خوف خدا اور خوف آخرت سے اہل کتاب اتباع دین اور اخلاقیات کے معاملے میں کس پایہ کی مذموم بغاوت کرسکتے ہیں۔ اس کا مشترکہ اظہار غزہ کے معصوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی شکل میں ہورہا ہے۔قہر الہٰی و عذاب الہٰی کو دستک دی جارہی ہے کہ اے مالک بن ومکاں تیری زمین پر تیرے ہی ماننے والے کن جرائم انسانی میں براہ راست ملوث ہوکر تیرے غضب کو آواز دے رہے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ حملے کی شروعات حماس کی طرف سے ہوئی اور اس میں بے دریغ انسانی جانیں تلف ہوئیں، ایک خود مختار ملک پر بیرونی جارحیت ہوئی اور متعلقہ فریقین کو اپنے مشترکہ دفاع کا حق ملا مگر جنگ کے بھی کچھ اصول ہیں۔ جنگ جرنیلوں اورسپاہ گروں کے مابین بری،بحری وفضائی حدود میں ہوتی ہے۔ دشمن کی کمر ہر طرح او رہر سطح پر توڑنے کے لیے کی جاتی ہے، اسکے دانت کھٹے کرنے کے لیے کی جاتی ہے او را سکی قوت دفاع وسامان دفاع کو تہس نہس کرنے کے لئے کی جاتی ہے مگر یہ جنگجو ؤں کے مابین موقوف رہتی ہے۔ اس کو سول آبادی،عوامی سہولتوں، ترقیاتی اداروں، فلاحی مراکز، تعلیمی وحدتوں،ہسپتالوں او رایسے انفراشٹرکچر سے الگ رکھا جاتا ہے جس سے روز مرہ کی زندگی ومعمولات متاثر ہوں۔بچوں، نوجوانوں، بزرگوں، خواتین، کھڑی فصلوں، درختوں او رمعمول کی سرگرمیوں کو جنگ زد سے دور رکھا جاتاہے، ایسا دونوں فریقین پر لاگو ہوتاہے۔

یہ کونسی تہذیب وتمدن ہے جس میں دانستہ ان تمام انسانی، اخلاقی، سفارتی،جنگی، بین الاقوامی ضوابط، انسانی حقوق، آئین قانون کی بالادستی سب کو پیروں تلے روندا جارہا ہے اور وہ مہذب دنیا جو صبح شام اخلاقیات، انسانی حقوق، جمہوریت اور انسانی جان کی عظمت وحرمت پر لیکچر دیتے نہیں تھکتی، وہ اور اسکا سب سے بڑا آقا امریکہ آج کہاں او رکس کے ساتھ کھڑا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے جھوٹے بیانے کی تائید وتصدیق کررہاہے، اسے الاہلی جو کہ غزہ میں 141 سال پرانا ہسپتال تھا اور جس کو یروشلم اور مڈل ایسٹ نامی مسیحی تنظیم نے 1882 ء میں تعمیر کیا تھا اس پر اسرائیل فضا سے بمباری کرتا ہے اور اس ہسپتال کو زمین بوس کردیتا ہے۔ہسپتال میں کون ہوتا او رجنگ کی اس غیر معمولی صورتحال میں وہاں اس حملے کا کون شکار بنتاہے؟ وہ حاملہ خواتین جو دنیا میں اپنے بچے کی آمد وولادت کی منتظر تھیں، جن کے پیارے اپنی خیر و عافیت کی دعائیں مانگ رہے تھے، وہ زخمی معصوم شیر خوار بچے جنہیں بھی ظالموں نے نہ بخشا، وہ کینسر اور دل کے مریض جن کی سرجری ہونی تھی یا ہوچکی تھی، وہ زخمی نوجوان،بوڑھے اور بزرگ مرد وخواتین جو وہاں زیرعلاج تھے، وہ زخمی مجاہدین وغازی جو میدان جنگ میں زخمی ہوئے او رزیر علاج تھے یہ سب ہی نہیں بلکہ وہ ڈاکٹر، نرسیں،پیرامیڈیکل اسٹاف،خادم وخادما ئیں،دیگر عملہ، اپنے مریضوں کی دیکھ بھال وداد رسی کرنے والے عزیز واقارب،ظالموں نے اس بمباری سے پہلے کچھ بھی نہیں سوچا؟

اس حادثے پر کیا انسان اور انسانیت شرمسار ہوئے بغیر رہ سکتی ہے ہر گز نہیں! اسکا کوئی جواز دریافت کیا جاسکتا ہے ہر گزنہیں! مگر اس حد کو بھی پار کردیا گیا۔ امریکی صدر جو سب سے بڑی معیشت، سب سے پرانی جمہوریت، سب سے بڑے انسانی حقوق کے پیروکار اور انسانی عظمت و حرمت کے داعی بجائے اس کی مذمت کرنے،مہذب دنیا کے ساتھ کھڑے ہونیفلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے مہلوکین کے ورثاء سے تعزیت کرنے، ظالم اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کی تائید کرکے اپنا دروہ بدنام زمانہ پورا عملاً ادھورا کرکے واپس چلے گئے!

اتنا ہی نہیں غزہ کی ناکہ بندی،کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی، ادویہ کی قلت، ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی، آمد رفت،رسد ورسائی پر قدغن او راس کے اوپر سول آبادی پر مستقل بمباری ہزاروں معصوم انسانی جانوں کی ہلاکت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، لاکھوں زخمیوں کے لئے علاج کی ناکافی او رختم ہوتی سہولیات،زندگی کو اس حد تک تنگ کردینے کا منصوبہ کہ لوگ بھوک،پیاس، عدم علاج ودوا،قحط اور پیاس سے ایک دوسرے کے سامنے اپنی جانوں کو جاتے دیکھیں، کفن ودفن کے لئے بھی حالات اس تک تنگ ہوجائیں کہ جسم کے ٹکڑے زمینوں پر بکھرے پڑے ہوں اور کوئی انکا پرسان حال نہ ہو،ملبوں کے ڈھیر کے نیچے دبے ہوئے دم توڑتے معصوم بڑے او ربچے معذور جو اپنے جسم کے کئی حصے گنوا بیٹھے یہ تمام مناظرانسانیت کو کہا تک جھنجھوڑ رہے ہیں اس کا اندازہ کرنا کیا مشکل ہے جی نہیں!

اس ساری ظلم کی گردان کے پیچھے مسئلہ فلسطین او رآزاد، خود مختارریاست فلسطین کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق قیام ہے جس کے لئے فلسطینی جائز جدجہد کررہے ہیں اور اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں وہ علاقے جن پر 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے قبضے کر لیے تھے ان میں اس ریاست کا قیام اس مسئلے کا واحد حل ہے جو عالمی برادری،دنیائے عرب و اسلام، اقوام متحدہ کی بھاری اکثریت سے پاس ہوئی قرار دادیں اور عالمی رائے عامہ سب اسی پر متفق ہیں مگر پھر بھی یہ مسئلہ عملاً 75 اور 1967 سے لگا یا جائے تو 56 سالوں سے حل طلب ہے۔

وطن عزیز ہندوستان او رہماری تمام سیاسی وحدتیں،قومی وریاستی جماعتیں،ان کی قیادت، مہذب معاشرہ اور تمام حکومتیں اپنے اپنے دور میں فلسطین کی آزاد خود مختار ریاست کے قیام کی پرزور حامی اور وکیل رہی ہیں۔موجودہ حکومت کے موقف کو لیکر جو غلط فہمی ہوئی تھی اس کا فوری تدارک کیا گیا۔ وزیر اعظم مودی کی الاہلی ہسپتال پرکی گئی بمباری کی مذمت،مہلوکین او ران کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت وہمدردی،زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا، تنازعہ کے فوری حل او راشیائے خو ردنی کی رسد کوبحال رکھنے سے متعلق کیا گیاٹوئٹ ہماری روایتی پالیسی کا اعادہ ہے۔امریکہ او راس کے ہمنواو ں نے اسرائیل کی بہت ناز برداری کرلی۔ اب ان کے آخری امتحان کا وقت آلگا ہے کہ وہ جوکہتے ہیں صرف کہنے کے لئے کہتے ہیں یا اس کا کوئی مطلب بھی ہوتاہے۔عراق پر کیا گیا فرضی بنیادوں پرحملہ، لیبیا،یمن، سوڈان، نائیجریا، افغانستان کی تباہی،یوکرین روس جنگ،چین کے ساتھ تائیوان پرکھینچے ہوئے ہاتھ، اسرائیل حماس جنگ کہیں پورے خطے اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، دنیا کے تمام ممالک کی تباہ حال معیشتیں جس میں امریکہ اپنی دیوالیہ معیشت کو بچانے کے لئے تاریخ کے بدترین Bailout پر ہے،یوکرین او راب اس جنگ کی جو قیمت ہے وہ کہیں اس کی معیشت کا قلع قمع ہی نہ کردے اسرائیل او را سکی معیشت بھی طویل جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اس کی معیشت کا بھی حال خستہ ہے جنگ کے میدان میں جو ظلم وہ کررہا ہے دراصل اپنی معاشی تباہی کی وہ داستان خود رقم کررہا ہے، جس کی قیمت اسے کئی ایسے سمجھوتوں کو کرنے پر مجبور کردیگی جس سے اس کی بچی ساکھ کی پوری قلعی کھل جائیگی۔ یہ 2023 ہے، 1967 نہیں!

ہماری قومی قیادت اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی اس سارے معاملے کے درمیان خود آئیں اور عرب دنیا و اسرائیل دونوں میں ان کی جو ذاتی رسا یم ہے اسکا استعمال کریں۔ فوری جنگ بندی کروانے کے لئے سازگار عالمی رائے عامہ سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے ماہرین سفارتکاروں کو اس خطے میں امن،صلح وسلامتی کی نئی رقم کرنے کاموقع دیں۔ تشدد، جبر، استبداد کی ہر کیفیت کو اب لگام لگ جانی چاہئے۔تاریخ رقم کرنے کے مواقع کم آتے ہیں جوانہیں اپنی گرفت لیکر آگے بڑھ جاتا ہے و ہ ہی اسٹیٹسمین کہلاتا ہے۔آخری میں امریکہ، سعودی عرب، فلسطین اوراسرائیل کے مابین دوریاستی حل کی بنیاد پر اس تنازعہ کے حل کے تعلق سے جو عمل کامیابی سے قریب تر پہنچ رہا تھا اس کو جلد از دوبالا کریں اور دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے امکان سے بچائیں۔ انسانیت اب مزید جنگ وجدل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ امن اور خوشحالی لازم وملزوم ہیں! اب سب مل کر مصالحت ومفاہمت کی طرف بڑھیں اسی میں سب کی بقا وسلامتی کاراز پنہاں ہے۔

20 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/israel-barbaric-human-rights-champions/d/130942

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..