گریس مبشر، نیو ایج اسلام
6 مارچ 2024
مسلم معاشروں کے اندر بڑھتی
ہوئی اسلام پرستی، تکثیریت اور بقائے باہمی پر مبنی اسلام کے بنیادی پیغامات کے لیے
خطرہ ہے۔
اہم نکات:
1. فرقہ وارانہ کشیدگی اور اہانت کے قوانین مذہبی آزادی کو مزید محدود
کر سکتے ہیں۔
2. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ اسلامی ریاست تکثیری
قدروں پر مبنی تھی۔
3. اقدار کا پورا مجموعہ جو اسلام پیش کرتا ہے وہ انسانیت پر مبنی ہے۔
اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے تمام نیک لوگوں
نے انہیں قبول کیا ہے۔
4. ہندوستان جیسے سیکولر اور تکثیری معاشرے میں اسلام کے سیاسی نمائندوں
کو سماجی انصاف بھی قائم کرنا چاہیے۔
------
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک
نئی رپورٹ کے مطابق، 2023 میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے علاقوں میں، اہانت
اور ارتداد کے قوانین کا استعمال تعصب کے ساتھ کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے 20 مئی کو کہا،
"یہ قوانین اکثر اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے، سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور
ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔" سعودی عرب میں مبینہ طور پر کارکنوں
کو گرفتار کیا گیا اور ان پر ارتداد اور اہانت کے الزامات لگائے گئے۔ مصر کے نئے آئین
کے تحت، سرکاری وکلاء ،اہانت مذہب کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات کی پیروی
کرتے تھے۔ فرقہ وارانہ تشدد نے بحرین، عراق، لبنان اور شام سمیت کئی ممالک کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن، اصولی طور پر، یہ خلاف ورزیاں اسلامی نہیں ہیں۔
اگرچہ، اسلام خود ابراہیمی
مذاہب کے احترام کو فروغ دیتا ہے، کچھ مسلم اکثریتی ممالک میں مذہبی عدم برداشت اب
بھی پایا جاتا ہے۔ اس عدم برداشت کا دائرہ ،اقلیتوں کو درپیش سماجی تعصب و تنگ نظری
سے لے کر ان کی عبادت گاہوں کے محدود کیے جانے تک، وسیع ہو سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی
اور اہانت کے قوانین مذہبی آزادی کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے
کہ یہ کوئی انوکھا مسئلہ نہیں ہے - کچھ ممالک کی مذہبی بقائے باہمی کی ایک شاندار تاریخ
رہی ہے۔
آج دنیا کا قدیم ترین نظام
حکومت اسلام کا ہے۔ چودہ صدیوں بعد بھی، یہ آج تک یونہی قائم و دائم ہے۔ اگرچہ اس کے
اندر بہت سی خامیاں ہیں۔
پیغمبر اسلام نے اسلامی ریاست
اور حکومت قائم کی۔ اس کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے احکامات کی تکمیل
کر رہے تھے۔ اس کی راجدھانی یثرب (مدینہ) تھا۔ جب وہاں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو مسلمان،
پندرہ فیصد سے بھی کم، ایک چھوٹی سی اقلیت تھے۔
یثرب میں پندرہ سو سے بھی کم مسلمان تھے ، جبکہ وہاں کے باشندوں کی تعداد دس
ہزار سے زیادہ تھی۔ پھر بھی وہاں ایک اسلامی ریاست کیسے قائم ہو گئی، جس کے حاکم حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے؟
یثرب اور اس کے اطراف میں
بائیس قبیلے تھے۔ وہ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدال میں مشغول تھے۔ جنگ
و جدل اور خونریزی نے وہاں کی شہری زندگی کو تباہ کر رکھا تھا۔ نت نئے تنازعات نے کبھی
نہ ختم ہونے والے سانحات اور مصائب کے دروازے کھول رکھے تھے۔ اس لیے ہر کوئی جنگ سے
نفرت کرتا تھا۔ اور وہاں کے لوگ امن چاہتے تھے۔
اسی دوران یثرب سے ایک جماعت
حج کے لیے مکہ مکرمہ پہنچی۔ ان کی جان پہچان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ انہوں نے آپ ﷺ کو یثرب کا حال بیان کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختصار کے ساتھ
ان کے سامنے اسلام پیش کیا۔ انہوں نے ان کی بات مانی اور اسلام قبول کیا۔ ان
کا تعلق خضرج قبیلے سے تھا۔ گھر واپس آ کر، انہوں نے وہاں کے مقامی لوگوں سے پیغمبر
اسلام ﷺ اور اسلام کا تعارف کرایا۔ ان میں سے بارہ لوگ اگلے سال مکہ آئے اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر کو ان
کے ساتھ یثرب میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے لیے بھیجا۔
آئندہ سال پچھتر مومنین جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں،
عقبہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ انہوں نے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو یثرب آنے کی دعوت دی۔
انہوں نے ہر لحاظ سے آپ ﷺ
کی مدد اور تحفظ کی پیشکش کی۔ اور اسی کے ساتھ ہی ہجرت کا پس منظر ترتیب دیا گیا۔
عقبہ کے دوسرے معاہدے کے بعد،
جب آپ ﷺ یثرب پہنچے تو اس وقت لوگوں نے پورے
دھوم دھام اور کر و فر کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا۔ اور اپنے شہر کا نام 'مدینہ النبی'
رکھا جس کا مطلب ہے، نبی کا شہر۔ اس کے بعد ان سب نے آپ ﷺ کو اپنے ملک کا رہنما اور
حکمران مقرر کر دیا۔
تکثیری ریاست کا آئین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے مدینہ کے باشندوں کو اکٹھا کیا اور ان سے تفصیلی معاہدہ کیا۔ ایک دستاویز تیار کی
گئی، جس میں ہر ایک کے حقوق اور فرائض کی تفصیل درج کی گئی۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا
تحریری آئین تھا، جسے 'میثاق مدینہ ' کہا جاتا ہے۔ جدید اسلامی اسکالروں نے میثاق مدینہ کو جدید آئین میں شامل کیا ہے۔ لیکن
جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اس میں کچھ بھی حذف و اضافہ نہیں کیا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر
اسلام کی قائم کردہ اسلامی ریاست تکثیریت پر مبنی تھی۔ ان کے بنائے ہوئے اسلامی آئین
میں ملک کے تمام لوگوں کے حقوق و فرائض واضح اور جامع انداز میں لکھ دیے گئے تھے۔ اس
میں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ کسی کے مذہب، عبادت،
رسم و رواج، عمل یا ذاتی قوانین کی آزادی میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ تاریخ گواہ ہے
کہ مسلم ممالک اور حکومتوں نے پیغمبر اسلام ﷺکے دور سے لے کر آج تک، غیر اسلامی گروہوں
کو مکمل آزادی دے رکھی ہے۔
مصر میں، جس پر چودہ صدیوں
تک مسلمانوں کی حکومت رہی، اب بھی تقریباً نو فیصد قبطی عیسائی اور پانچ سو قبطی چرچ
ہیں۔ Boutros Boutros-Ghali جو کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے، ایک مصری قبطی عیسائی ہیں۔ عراق کے سابق وزیر طارق
عزیز بھی عیسائی ہیں۔ عراق میں بھی ایک عیسائی فرقہ پایا جاتا ہے۔ اس فہرست میں دوسرا
نام ملک شام کا ہے۔ لبنان میں چالیس فیصد سے زیادہ عیسائی ہیں۔ یہ بات ناقابل تردید
ہے کہ اسلام، پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک ایک تکثیری قوم رہا ہے۔ اسلام
کبھی بھی مذہبی ریاست نہیں تھا۔
انسانی حقوق کا تحفظ
اسلامی نقطہ نظر سے انسان
انتہائی باعزت اور باوقار ہے۔ اس کی جان روئے زمین پر سب سے قیمتی ہے۔ قرآن کا اعلان
ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے (17:70، 5:32)۔ لہٰذا،
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی عزت
و وقار اور جان و مال کی حفاظت کے لیے کھڑے رہیں، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن
میں۔
انسانی زندگی کی طرح انسان
کی عزت و وقار کا بھی احترام ہے۔ اسے ہر حال
میں محفوظ کیا جائے۔ اسے کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے (قرآن 49:11، 104:1)۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اسلامی
معاشرہ انسانی وقار کے تحفظ کے لیے کھڑا ہو، اور لوگوں کو جائیداد حاصل کرنے ، رکھنے
اور خرچ کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔
خدا کے مقرر کردہ سماجی مفادات
کے حق میں، اس آزادی کی حفاظت کی جانی چاہیے۔
یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ سماجی مفادات کی خلاف ورزی نہ ہو۔ لہٰذا ہر قسم کے معاشی
استحصال، مثلاً؛ فریب، دھوکہ دہی، غبن، ذخیرہ
اندوزی، بدعنوانی، سود خوری اور دھاندلی وغیرہ، کے خاتمے کے لیے سیاسی طاقت اور دباؤ
کا استعمال کیاجانا چاہیے۔
اسلامی نقطہ نظر سے، مذہبی
تکثیریت خدا کے مقرر کردہ فطری قانون کا حصہ ہے۔ اس لیے تبدیلی مذہب کے لیےکسی قسم
کی طاقت یا دباؤ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مذہب کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔
اس کی مکمل حفاظت ہونی چاہیے (قرآن 2:256، 18:29، 10:99)۔
عبادت کی آزادی بھی اتنی ہی
اہم ہے جتنی کہ مذہب کی آزادی۔ قرآن حکم دیتا ہے کہ کسی کی عبادت کی تحقیر یا تذلیل
نہ کی جائے (6:108)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیحی برادری کے ساتھ جو معاہدہ
کیا تھا وہ کچھ یوں ہے: "نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہم وطنوں کے لیے اللہ کی
پناہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہے، ان کی جان، دین، زمین، مال
و دولت، جو لوگ ان میں موجود ہیں اور جو غائب
ہیں، ان کے اونٹ، قربان گاہیں، اور مذہبی علامتیں مثلاًصلیب اور چرچ وغیرہ سب کو اس
کی ضمانت حاصل ہے۔ ان کی موجودہ صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، ان کے حقوق
اور مذہبی علامات میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ان کے پادری یا چرچ کے خادم کو
ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا۔"
اسلام میں طاقت کا توازن برقرار
رکھنے کے لیے جنگ کی اجازت ہے۔ اگر نہیں، تو قرآن کہتا کہ خانقاہوں، گرجا گھروں، عبادت
گاہوں اور مساجد جہاں خدا کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے تباہ کیے جا سکتے ہیں
(22:39,40)۔ اس سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ ضروری ہے۔
سیاسی اسلام اس طرح مددگار ثابت ہوگا، اسلامی معاشرہ انسانوں کے تمام بنیادی حقوق کے
تحفظ کے لیے کوشش کرنے کا پابند ہے۔ ان کی سیاسی نمائندگی اور سیاسی سرگرمی ،اس میں مددگار ہونی چاہیے۔
بنیادی ضروریات کی تکمیل
خوراک، لباس، رہائش، تعلیم،
علاج، پانی اور روشنی جیسی بنیادی ضروریات تمام انسانوں کے بنیادی حقوق ہیں۔ یہ ملک
کے ہر شہری کے پاس ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر معاشرے میں کوئی ایسا ہے جو ان بنیادی حقوق
سے محروم ہے تو امیروں کی جائیداد ان کی نہیں مانی جائے گی۔ یہ غریبوں اور مسکینوں
کی میراث بن جائے گی (قرآن 51:19، 17:26، 107:1-3)۔ دولت صرف مالداروں تک محدود نہیں ہونی چاہیے (59:7)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: جس کے پاس ضرورت سے زیادہ سواریاں
ہوں وہ اسے دے دے جس کے پاس نہیں ہے۔
امام ابن حزم کہتے ہیں:
"ہر ملک کے امیروں کو غریبوں کی مدد کرنا چاہیے، اگر زکوٰۃ اور دیگر وسائل کافی
نہ ہوں تو حکومت ان کو اس سے زیادہ دینے پر مجبور کرے، غریبوں کے حقوق ہیں خوراک، سردیوں
اور گرمیوں کے لباس، اور ایسا گھر جو بارش، دھوپ، سردی اور راہگیروں کی اذیت رسانی
سے محفوظ رکھے۔'' (المحلہ، حصہ 6، صفحہ 156)۔
حکومت ملک کے تمام شہریوں
کی بنیادی ضروریات پوری کرے
اوراس کے لیے اگر سرکاری خزانے
میں پیسہ نہ ہو تو اسے امیروں سے اکٹھا کر کے غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس طرح
کے نظام حکومت کے قیام یا نظام حکومت کی تبدیلی میں، اسلامی برادری کی سیاسی شراکت
اور نمائندگی کار آمد ہوگی۔ خلفائے راشدین کو اس بات کی فکر لگی رہتی تھی کہ ان کے
علاقے میں نہ صرف انسان بلکہ مویشی بھی بھوکے نہ مریں۔
انصاف کا راج
انصاف کا راج قائم کرنا کسی بھی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اسلام
عدل کو کافی اہمیت دیتا ہے۔ قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ انبیاء کے مبعوث کیے جانے
اور صحیفے نازل کیے جانے کا مقصد، عدل قائم کرنا ہے ۔ اس میں یہ بھی شرط ہے کہ معاشی
مفادات، انصاف کا راج قائم کرنے میں رکاوٹ
نہ بنیں۔
"اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی
موﻻ کے لئے سچی گواہی دینے والے
بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے،
وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے
تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی
کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے"
(4:135)۔
جس چیز نے خلیفہ دوم حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کو اتنا قابل ذکر بنا دیا، وہ انصاف کا راج قائم کرنے
میں ان کا ملکہ تھا۔ تاریخ میں آپ سے، سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا کوئی مسلمان نہیں
بلکہ ایک قبطی عیسائی ہے۔ خلیفہ اسلام عمر فاروق کے مصری گورنر عمرو بن اسود کے بیٹے
محمد نے ایک قبطی عیسائی کو مارا۔ جب مقدمہ خلیفہ کے سامنے آیا اور وہ مجرم قرار پائے،
تو عیسائی کو بھی گورنر کے بیٹے کو مارنے کا موقع مل گیا۔ سزا مکمل ہو جانے کے بعد
عمرفاروق نے گورنر اور ان کے بیٹے سے پوچھا: "تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا
شروع کر دیا؟ جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنم دیا ہے۔"
اس طرح اسلامی معاشرے کی سیاسی
مداخلت کو، غیر جانبداری اور دیانتداری سے انصاف کے قیام کے لیے، استعمال کیا جانا
چاہیے۔
اقدار
اقدار کا پورا مجموعہ جو اسلام
پیش کرتا ہے وہ انسانیت پر مبنی ہے۔ اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے تمام نیک لوگوں نے انہیں قبول کیا ہے ۔ تمام خیر خواہ لوگ ذات، مذہب اور
برادری سے بالاتر ہو کر، مشترکہ اخلاقی اقدار پر متفق ہو سکتے ہیں۔ ایک غیر جانبدار
سماجی مزاج، ہمیشہ شراب، منشیات، جنسی انارکی، ڈکیتی، قتل، رشوت، دھوکہ دہی اور استحصال
جیسی سماجی برائیوں کے خلاف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک اور اس دور کا سب سے
سنگین چیلنج اور سب سے بڑا بحران، عوامی زندگی، سیاست اور نظام حکومت سے ان اقدار کا
ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے سیاسی اسلام کے اہم مقاصد میں سے ایک، عوامی زندگی، سیاست اور
قوم کی قدر کرنا ہے۔
اور یہ اس طرح ممکن ہو سکتا
ہے کہ سیاسی قائدین اور حکمران وہ بنائے جائیں
جو اخلاقی اقدار پر کاربند ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو حکمران عوام سے بیگانہ، ان کی رسائی سے دور یا مراعات یافتہ نہیں ہوں گے۔ یہ کہاوت بھی
باطل ہو جائے گی کہ عوامی لیڈر عوام کے خادم ہوتے ہیں۔ سیاسی قائدین اور منتظمین کو
ان کی عوامی خدمت کی سرگرمیوں اور عوام کے لیے دی گئی قربانیوں کے لیے یاد کیا جائے
گا۔ اس کے برعکس یہ تکبر اور غرور کے نام پر نہیں ہوگا۔
عوامی منتظمین کو چاہیے کہ
وہ عوامی فنڈ کے استعمال میں غیر معمولی احتیاط برتیں اور عام شہریوں کو بھی ان کی
نگرانی کرنے کا درس دیں، تاکہ ان کی دیکھ بھال کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ تبھی ممکن
ہو سکتا ہے جب ملک کے شہری اعلیٰ شہری سوچ کے حامل ہو جائیں۔
مظلوموں کی آزادی
ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ
اور مظلوموں کو نجات عطاء کرنا اسلام کے عظیم مقاصد میں سے ہے۔ مظلوموں کو نجات عطاء
کرنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت کئی
انبیاء مبعوث ہوئے۔ قرآن اور سنت نبوی میں مختلف قسم کی آزادیوں کے لیے محنت کرنے کا
حکم دیا گیا ہے۔
وہ اسلامی ریاست اور وہ معاشرہ
جس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور جس کی قیادت خلفائے راشدین نے کی، وہ تکثیریت پر مبنی تھی۔ ان کے دور میں لوگوں نے مکمل سماجی انصاف کا
تجربہ کیا اور بنیادی حقوق کے تحفظ اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کا لطف اٹھایا ۔ تمام
شہریوں کو بلا تفریق ذات پات، مذہب، پارٹی اور تعصب کے، مکمل انصاف ملا۔ ہر قسم کے عدم مساوات کا خاتمہ ہوا۔ کوئی تفریق اور امتیاز
کی بو بھی نہیں بچی۔ ایک ایسا سماجی نظام قائم
کیا گیا جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، تشدد یا استحصال کی کوئی گنجائش نہیں
رہی۔ حکمران عوام کے ساتھ انہیں میں سے ایک
بن کر رہتے۔ عوامی زندگی میں سچائی، دھرم، نیکی اور انصاف کا راج تھا۔
ہندوستان جیسے سیکولر اور
تکثیری معاشرے میں اسلام کے سیاسی نمائندوں کو سماجی انصاف بھی قائم کرنا چاہیے۔ یہ
بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور مظلوموں کی فریاد رسی کے لیے ہونا چاہیے۔ پسماندہ افراد کو آگے کیا جائے،
ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور ہر قسم کے استحصال اور تشدد کا خاتمہ کیا
جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سیاست اور قوم کی قدر بھی کی جائے۔
ان اہداف کے حصول کے لیے،
جن پر ہر وہ شخص متفق ہو سکتا ہے جو معاشرے کی بھلائی اور ملک کی بھلائی کا خواہاں
ہو، پوری خیر خواہی اور تعاون کے ساتھ کوشش
کی جانی چاہیے۔ آج کا دور ہم سے اسی نقطہ نظر کا مطالبہ کرتا ہے۔
English
Article: Political Islam And Islamism Pose A Threat To Islam's
Core Messages Of Pluralism And Co-existence
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism