گریس مبشر، نیو ایج اسلام
13 دسمبر 2023
انتہاپسندی کی تبلیغ کرنے
والوں نے حکومت کے خلاف اٹھنے اور انتشار کے بیج بونے کے لیے غلط اسلامی سیاسی
نظریات کا استعمال کیا ہے۔ بہر حال، اسلامی تنظیمیں اور جہادی مبلغین اکثر لوگوں
کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر ابھارتے ہیں۔ القاعدہ، حزب المجاہدین، آئی ایس آئی
ایس وغیرہ نے اسی نظریہ کا استعمال کیا ہے۔ اس مضمون میں کلاسیکی اور جدید دونوں
طبقے کے علماء کے نقطہ نظر سے ایسے سیاسی نظریات کی تردید کی گئی ہے۔
اہم نکات:
1. کلاسیکی علماء نے
حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے منع کیا ہے اگر ایسا کرنا انارکی اور تباہی و
بربادی کا سبب بنے۔
2. بحث کا بنیادی محور یہ
ہے کہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو حکمرانوں کی دینداری نہ سمجھی جائے۔
3. جدید جہادی تنظیموں نے اسلام کے سیاسی نظریات میں ابہام کا
فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم اور کھوکھلے اقدامات کے جواز کی صورت نکالی ہے۔
------
کلاسیکی اسلامی نظریہ
امامت کا مسئلہ دین کا ایک
جزو لانیفک ہے۔ بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر روشنی ڈالتی ہیں۔ امام
تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ اجماع سے ثابت ہے کہ امام کی تقرری واجب ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دین اور دنیا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ
جڑے ہوئے ہیں۔ دین بنیاد ہے اور سلطان اس کا نگہبان ہے… اس میں کوئی اختلاف نہیں
کہ امامت کا قیام مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے۔‘‘
تاہم، یہ کبھی بھی ایمان
یعنی (اسلام کے اصولیات) کا حصہ نہی ریا ہے، جیسے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
لانا، بلکہ یہ اختیاری امور یعنی فروعیات میں سے ہے۔ لہذا، یہ ایک فطری امر ہے کہ
ان امور پر علماء کے درمیان اختلاف رائے پائی جائے۔ یہ اہل سنت کا مسلم موقف ہے کہ
اس طرح کے اختلاف رائے کبھی بھی ارتداد کے الزام کی بنیاد نہیں بنتے۔
امامت کو علماء نے بنیادی
طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا ہے:
1. ایک صالح مسلم حکمران
2. ایک متشدد مسلم حکمران
3. کافر/ مرتد حکمران
علماء نے مذکورہ بالا
زمروں میں سے ہر ایک پر مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ ذیل میں ان کی مختصر وضاحت کی گئی
ہے۔
1) ایک صالح مسلم حکمران
ایک عادل مسلمان حکمران کی
اطاعت اسلام میں واجب ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
"اے ایمان والو! حکم
مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم
میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ اور رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ اور
قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔‘‘ (سورۃ النساء،
59)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ جس نے میری نافرمانی
کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔ اور
جس نے امیر کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی ہے۔ (البخاری 2956)
امرا ء وسلاطین کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی
ایسا کرتا ہے تو وہ کافر تو نہیں ہوتا لیکن گنہگار ضرور ہے ہے، اور فقہ کی اصطلاح
میں ایسے لوگوں کو باغی کہا گیا ہے۔ یعنی ناانصافی اور باطل کے طرفدار حکمرانوں سے
لڑنا بغی کے دائرہ میں نہیں آتا، لیکن جب کوئی نیک اور منصف حاکم کے خلاف علم
بغاوت بلند کرتا ہے تو وہ باغی سمجھتا جاتا ہے۔ باغیی کی سرکوبی جائز ہے۔ لیکن اس
کا یہ مطلب نہیں کہ حکمرانوں کی کوئی غلطی ظاہر ہو تو خاموشی اختیار کی جائے۔ یہ
امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی اصلاح کرے، انہیں نیکی کی طرف بلائے اور ان کے لیے
دعا کرے۔
2) ظالم وجابر مسلم حکمران
نیکی کا حکم دینا اور
برائی سے روکنا امت مسلمہ کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’تم بہتر ہو ان امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور
برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (آل عمران، 115) یہ آیت واضح
کرتی ہے کہ اسلام کا سماجی و سیاسی نظام خلافت پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی
محور امت ہے امام جوینی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں: "اسلامی قانون کے
مخاطَب مسلمان ہیں۔ جب قانون کی پیروی کی بات آتی ہے تو امام بھی عوام میں ہی شامل
ہے۔ لیکن وہ ایک مقرر کردہ حاکم ہے جس کا کام قانون کو نافذ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ،
عوامر انجم نے اپنی کتاب 'Politics, Law, and
Community
سیاست، قانون، اور برادری' میں "امت پر مبنی خلافت" کے تصور کی وضاحت کی
ہے۔ اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکمرانوں کے تشدد کو روکنا امت کی ذمہ داری ہے، یہی
وجہ ہے کہ تشدد سے بچنے کے بارے میں احادیث میں 'عوام' اور 'امت' جیسے الفاظ وارد
ہوئے ہیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے
"اگر لوگ ظالم کا
زمانہ پائیں اسے ظلم سے نہ روکیں تو اللہ ان پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا۔"
(14)
"اللہ اس امت کو پاک
نہیں کرے گا جو کمزوروں کا حق طاقتور سے حاصل نہیں کرتی۔" (ابن ماجہ، 2426)
بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر
حکمران ظلم و جبر پر اتر آئے تو اسے معزول کر کے اس کی جگہ کوئی صالح شخص مقرر کیا
جائے۔ اس بنیادی تصور کی بنیاد پر ہی ابتدائی دور میں عظیم اسلامی شخصیات نے، جن
میں حسین ابن علی اور عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ شامل تھے، انقلابی
تحریکوں کی قیادت اور حمایت کی۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ (رحمۃ
اللہ علیہ) اور امام مالک (رحمۃ اللہ علیہ) جیسے علماء نے حکومت مخالف تحریکوں کی
حمایت کی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حاکم تشدد اور حرامکاری سے خود بخود
معزول ہو جاتا ہے۔ ابن حجر عسقلانی کے مطابق، ''ظالم حکمران کے خلاف سلف کے طرز پر
مسلح تحریکیں چلائی جانی چاہیے۔ تاہم، سلف نے یہ دیکھتے ہوئے یہ موقف ترک کر دیا
کہ اس سے بڑی مشکلات پیدا ہوں گی۔" اگر حاکم ظالم ہے تو امت پر دو میں سے ایک
فیصلہ کرنا واجب ہے: یا تو اسے معزول کر دیا جائے اے اسے سیدھا کر دیا جائے۔
تاہم سلف کے موقف سے بعد
کے علماء کے موقف میں بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ امام نسفی کہتے ہیں: تشدد اور زنا
سے حاکم معزول نہیں ہوتے۔ امام طحاوی کا موقف ہے کہ حکمرانوں کے خلاف فوجی
کارروائی پرتشدد نہیں ہونا چاہئے، اگر چہ حاکم متشدد ہی کیوں نہ ہو۔ امام ابن
تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ حاکم نیک ہو یا بد
اخلاق، اس کی پیروی واجب ہے، خواہ مشکل ہو یا آسان۔ ذیل میں اہلسنت کے بڑے ائمہ کے
تین اہم اقوال پیش کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا نہ صرف ان رائے کو شاز شمار کرنا ممکن ہے
بلکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد کے اکثر علماء اسی موقف کے حامل رہے ہیں۔ بشمول
امام نووی کے، بعض علماء کی رائے ہے کہ اس موضوع پر اجماع ہے۔(23)
مزاحمت سے وفاداری کی طرف
رائے کی تبدیلی
بعد کے علماء نے حکمران کے
ظالم و بدکردار ہونے کی صورت میں اس کی معزولی کی رائے کیوں اختیار کیا؟ قدیم سلف
اور صحابہ نے باغی فوجی تحریکیں (الخورة) کیوں چلائیں، جبکہ بعد کے علماء نے اسے
حرام قرار دیا؟
مستشرقین نے اس کا جواب یہ
دیا ہے کہ ابتدائی مسلم علماء آئیڈیلسٹ (نظریہ پرست) تھے لیکن بعد کے علماء اپنے
عصری حالات کے مطابق حقیقت پسند اور خاموشی پسند بن گئے۔ H.
A. R. Gibb کے
خیال میں، "مسلم تاریخ کی پہلی دو صدیوں میں رونما ہونے والی مسلسل ریاستی
بغاوتیں اور خانہ جنگیاں، خوارج کے عدم تحفظ اور اقربا پروری کی وجہ سے جنم لینے
والی لڑائیاں، سبھی نے علماء کو ریاست کی مکمل اطاعت کے خیال کی طرف راغب کیا،
خواہ حاکم نیک ہو یا نہیں؟ علماء نے نہ صرف بغاوتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے
والوں کو قبول کیا بلکہ ان کی اطاعت کو بھی جائز اور فرض قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی
ریاست کے خلاف لڑنا مسلمانوں کی فکر میں سب سے گھناؤنا جرم بن گیا۔ مختصر یہ کہ
مسلم علماء جو ابتدائی دور میں آئیڈیلسٹ تھے موجودہ تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے
ہوئے حقیقت پسند بن گئے۔ اس طرح علماء نے ریاست کو مکمل طور پر قبول کیا اور
خاموشی اختیار کی جس سے ظالم حکمران کے خلاف جدوجہد بھی مسترد کردیا گیا۔ گِب نے
انہیں "آئیڈیلسٹ" قرار دیا ہے کیونکہ بہت سی عظیم ہستیاں مثلا حسین بن
علی، عبداللہ بن زبیر، ابن عباس وغیرہ نے اسلام کے ابتدائی ادوار میں خلافت کی
بحالی کے لیے انقلابی تحریکیں چلائیں ۔
امام غزالی بحیثیت خاموش
پسند
خالد ابو الفضل کے مطابق،
فقہاء کے لسانی طرز عمل سے ناواقفیت نے انہیں اس طرح کے فیصلے لینے پر مجبور کیا۔
تمام مضامین کی طرح فقہ کی بھی اپنی زبان اور اپنا ایک طرز عمل ہے۔ ان سے لاعلمی
بڑی بڑی غلط فہمیوں اور گمراہیوں کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر، مستشرقین امام
غزالی کو ایک سرکردہ خاموش پسند عالم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنی دلیل کی
تائید میں ان کے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں
امام غزالی کا کیا موقف تھا۔
امام غزالی فرماتے ہیں:
’’ایک متشدد حکمران کو
اقتدار سے معزول کیا جانا چاہیے۔ اس کا خاتمہ لازمی ہے۔ درحقیقت وہ حاکم ہے ہی
نہیں۔" وہ آگے کہتے ہیں: "اگر کسی جارح حکمران کو اقتدار حاصل ہو جائے
اور اسے معزول کرنا مشکل ہو اور اگر اس کی جگہ کسی دوسرے کو لانے سے فتنے کا
اندیشہ ہو تو اس کی اطاعت واجب ہے۔"
اگر دیکھا جائے تو امام
غزالی کی بات متضاد معلوم ہوتی ہے، لیکن ان دونوں کے معانی الگ الگ ہیں۔ پہلے میں
وہ بنیادی شرعی اصول بیان کرتے ہیں اور دوسرے میں وہ اپنے زمانے کے تقاضوں کی طرف
اشارہ کرتے ہیں۔ فقیہ کیسے خاموش ہو سکتا ہے جب اسے یہ معلوم ہو کہ ظلم اور بد
کرداری انسان کو اقتدار سے معزول کر سکتی ہے، لیکن وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے
حالات کو سمجھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ ایسے حاکم کو عارضی طور پر قبول کرنا اس کے
خلاف علم بغاوت بلند کرنے سے بہتر ہے۔
مزید برآں، امام ابن القیم
کہتے ہیں کہ "فقیہ" وہ ہے جو بیک وقت اسلامی احکام (فقه الواجب) اور
اپنے زمانے کے حالات (فقه الوقع) پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے فقہاء
نے ہمیشہ اختیار کیا ہے۔ ابتدائی اسلاف نے اس طریقہ کار کو اختیار کیا اور حکومت
کے باغیانہ اقدامات کی حمایت کی، جبکہ بعد میں آنے والوں نے اس کی حوصلہ شکنی کی۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گروہ آئیڈیلسٹ اور دوسرا گروہ حقیقت پسند ہو جائے جب
کہ دونوں گروہ تصور (اسلامی اصول) اور حقیقت (موجودہ حالات) کے حوالے سے مختلف
نظریات کے حامل ہیں؟ تو جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، یہاں بھی فقہ کے طریق کار اور
اس کی زبان و بیان سے ناواقفیت نظر آتی ہے۔ آخر کار یورپی اہل علم اسلامی علماء کو
'خاموشی پسند' اور 'آئیڈیلسٹ وحقیقت پسند' جیسی اصطلاحات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا علمی سرمایہ صرف انہی حقائق تک محدود نہیں ہے۔
ریاست کے حوالے سے علمائے
اسلام کے رویہ میں تبدیلی کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ذیل میں چند اہم بیان کی
جا رہی ہیں:-
یہ نہ صرف اسلامی تاریخ
میں کسی بھی سابقہ حکومتی بغاوت سے زیادہ ناکام تھی، بلکہ اس کا انجام بھی کافی
افسوسناک تھا۔ اس میں صرف چند ہی انقلابی تحریکیں کامیاب رہیں، جیسے عباسی انقلاب۔
اس کے نتیجے میں امت مسلمہ کے بڑے بڑے علماء میں شدید مایوسی اور تشویش کا ماحول
پیدا ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اسلامی اقدار کے دوبارہ قیام کی نیت سے اس
طرح کی جدوجہد کو فتنہ قرار دیا۔ جب اسلامی اقدار کے بجائے بادشاہ کی مرضی کے
مطابق حکومت چلائی جانے لگی تو علماء دو میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے پر مجبور ہو
گئے - یا تو شیرازۂ امت اور اس کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے موجودہ نظام حکومت
کو قبول کیا جائے یا اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے ایسے بادشاہ اسلام کے خلاف
علم بغاوت بلند کیا جائے۔ امت کا اتحاد اور بقائے باہمی اکثر فقہا کی اولین ترجیح
رہی ہے۔ ملک میں عدم تحفظ پیدا ہونے کے خوف سے، وہ بادشاہ کی اطاعت کو ہی ترجیح
دیتے ہیں۔ اسی خوف اور مایوسی کے احساس نے انہیں کبھی کبھی سیاست سے دور رہنے پر
مجبور بھی کیا ہے۔
2. اسلامی سیاسی تاریخ اور اس وقت کے علماء کے
موقف سے واضح ہے کہ فقہ المقاصد (شریعت کا بنیادی مقصد) اور فقہ المآلات (اعمال کے
نتائج کا علم) ہی عملی طور پر شرعی جواز کے بغیر ایک متشدد حکومت یا حکمران کے
خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی بنیاد ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا
کہ امام طحاوی کا موقف یہ ہے کہ حاکم خواہ ظالم اور جابر ہی کیوں نہ ہو اسے معزول
نہیں کیا جائے گا۔ علماء بیان کرتے ہیں کہ امام طحاوی نے نسبتاً بڑے حرج سے بچنے
کے لیے چھوٹے حرج کو اختیار کرنے کے فقہی اصول کی بنیاد پر ہی یہ موقف اختیار کیا
ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے بڑی مصیبت اور امت کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ شیخ الاسلام
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب فائدے اور نقصان میں ٹکراؤ ہو جائے تو
عام اصول یہ ہے کہ ان میں سے چھوٹا بڑے پر غالب ہو۔
3. فقہا نے یہ نظریہ پیش
کیا ہے کہ سیاسی برائی کو مٹانے کے قابل ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے شرعی
مصلحت (خیر) حاصل کرنا اور اسے عظیم مفسدات (برائی) کا سبب بننے سے روکنا ضروری
ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: " الاستطاعة الشریعۃ" کا مطلب زیادہ
کاروائی کرنے کے قابل ہونا نہیں ہے۔ بلکہ قانون دینے والے کی نظر اس کے نتائج پر
ہوتی ہے۔ اگر کوئی کام کیا بھی جا سکتا ہے تو شریعت اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی
اگر اس میں فتنہ زیادہ ہو۔" یعنی علمائے کرام نے فقہ المقاصد اور فقہ المآلات
کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام مضامین کی طرح اس موضوع پر ایک موقف پیش کیا ہے۔
4. مجبوری حرام کو مباح
بنا دیتی ہے (التعرفات تبيح المحزورة) فقہ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ جن علماء نے (فقہ
المقاصد اور فقہ المآلات کو نظر میں رکھ کر) یہ تسلیم کیا کہ حکومت کا مروجہ نظام
اگر چہ غیر اسلامی ہی کیوں نہ ہو، اگر اسے قبول نہ کرنا بڑے پیمانے پر تباہی اور
فتنہ وفساد کا سبب بنے تو اسے قبول کرنا حالات کی رعایت مانا جائے گا۔ اسی لیے
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے حکمران کی اطاعت کو جو شریعت کا نافذ کرنے والا
نہ ہو، مجبوری میں مردار کھانے سے تشبیہ دی ہے۔
امام ابن تیمیہ فرماتے
ہیں: اس فقہی اصول کی بنا پر (کہ جبر حرام کو حلال کر دیتا ہے) بعض اوقات خلفاء
راشدین کا سنت سے انحراف جائز ہوتا ہے۔ گویا کچھ شرعی احکام کو ترک کرنا اور کچھ
حرام کا ارتکاب کرنا جائز ہے۔ اس لیے کہ وہ بعض سنتوں پر عمل کرنے سے قاصر ہیں، یا
جبر کی صورت میں، ریاست سے متعلقہ فرائض کی انجام دہی میں نقصانات اور تکلیفات کو
کم کیا جانا چاہیے۔"
تاہم، امام ابن حجر
عسقلانی کا حوالہ دیتے ہوئے، مختار سنقیطی نے لکھا ہے کہ جب فقہا نے حالات کے
استثنیٰ کو ایک طویل عرصے تک استعمال کیا تو مذکورہ استثنیٰ کو غلطی سے بنیادی
قانون (العزیمة) سمجھ لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومتی نظام کو قبول کر لیا
گیا خواہ وہ کتنا ہی غیر اسلامی کیوں نہ ہو۔ اور یہ صورتحال ایسی ہی ہے گویا کہ
مجبوری کی صورتحال ختم ہو جانے کے بعد بھی کوئی مردار کھائے۔ رفتہ رفتہ اس حقیقت
کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ فتنہ کا بنیادی سرچشمہ ظلم اور سیاسی تشدد ہے۔
قرآن میں فتنہ کے تکنیکی
معنی کے بارے میں امام ابو زھرہ فرماتے ہیں: "اصل فتنہ یہ ہے کہ ایک مومن جسے
حق مانتا ہے اسے حق ماننا ترک کر دے۔" جو لوگ فطری طور پر تشدد کے عادی ہیں
ان کے لیے ظالم کا راستہ روکنا فتنہ نہیں ہے۔ قاتل حکمرانوں کے خلاف لڑنا اور
بغاوت کرنا فتنہ نہیں ہے بلکہ فتنے کو روکنا ہے۔
3) کافر/مرتد حکمران
اگر کوئی حکمران کافر/مرتد
ہو جائے تو اس کی اطاعت جائز نہیں۔
جنادہ بن ابی امیہ سے
روایت ہے کہ ہم "عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس گئے جب وہ بیمار
تھے۔ کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، جس سے اللہ آپ کو نفع پہنچائے۔ تو انہوں نے کہا،
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
بیعت کی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے جن باتوں کا عہد لیا ان میں
سے یہ بھی ہے کہ ہم خوشی و ناخوشی تنگی اور کشادگی اور یہاں تک کہ حق تلفی کی صورت
میں بھی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے، اور یہ کہ امور سلطنت میں حکمرانوں سے اس
وقت تک نہیں جھگڑے گے جب تک کہ انہیں اعلانیہ کفر کرتا ہوا نہ دیکھ لیں۔ اور آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم انہیں اعلانیہ کفر کرتا ہوا پاؤ تو تمہیں
اللہ کی طرف سے واضح دلیل مل گئی۔‘‘ (بخاری، 7055)
اس حدیث کی تشریح میں امام
ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: "اگر کوئی حاکم کافر ہو جائے تو اس کی اطاعت
جائز نہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ اس کے خلاف جہاد کریں۔ البتہ
اس کے خلاف بغاوت کرتے وقت بھی فقہ المقاصد اور فقہ المآلات کو زیر غور رکھنا
چاہیے۔ امام علاؤالدین العجی فرماتے ہیں: جب کسی حکمران کو زبردستی ہٹایا جائے۔
لیکن اگر اس سے فتنے اندیشہ ہو تو اس کے بجائے نسبتاً چھوٹے حرج (أخف العربین) کو
قبول کر لینا چاہیے۔
اب تک کی گفتگو سے یہ واضح
ہو گیا کہ علماء نے اسلام میں ریاست کے خلاف جدوجہد کو کس نظر سے دیکھا ہے۔واضح
طور پر یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ کلاسیکی علماء نے اس بات کی تردید کی ہے کہ
حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی جائے، اور یہ اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ انسانی حقوق کا
تحفظ کرتے رہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو حکمرانوں کی
دینداری نہ سمجھی جائے۔ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا ممنوع ہے اگر ایسا کرنا
انارکی اور تباہی و بربادی کا سبب بنے۔ کلاسیکی علماء نے جو تدارکی طریق کار پیش
کیے ہیں اسی کا سہارا لینا بہترین حل ہے۔ جدید جہادی تنظیموں نے اسلام کے سیاسی
نظریات میں ابہام کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم اور کھوکھلے اقدامات کے جواز کی راہ
نکالی ہے۔
English Article: Islam And Rebellion: The Islamic Tradition Prohibits
Revolt Even Against Despotic States (First Part)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism