New Age Islam
Thu May 15 2025, 11:35 AM

Urdu Section ( 30 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic Mysticism and Indian Tantra اسلامی تصوف اور ہندوستانی تنتر

سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام

30 دسمبر،2022

ہندوستانی مذاہب میں تنتر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سادھو یا مرتاض ریاضت کے ذریعہ مختلف قسم۔کی سدھی حاصل کرتے ہیں اور کچھ مذہبی فرقے کے سادھک ریاضت کے ذریعہ جیون مکتی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریاضت کے ذریعہ سادھو مختلف قسم کی ذہنی و جسمانی قوتیں حاصل کرتے ہیں ۔ اس قوت یا جسمانی و ذہنی صلاحیت کو سدھی کہتے ہیں۔

سدھی یا مکتی حاصل کرنے میں جو ذہنی یا جسمانی طریقے معاون ہوتے ہیں ان کو مجموعی طور پر تنتر کہتے ہیں۔ تنتر کا معنی جال ہوتا ہے یا پھر نظام۔ یہ لفظ تن سے بنا ہے۔ تن کا معنی تاننا یا وسعت دینا ہوتا ہے۔ فارسی اور سنسکرت میں تن کا معنی جسم بھی ہوتا ہے۔ اس طرح تنتر کا معنی جسمانی و ذہنی ریاضت کا وہ نظام ہے جس کے ذریعہ مرتاض یا,سادھک اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو وسعت اور ترقی دے کر اسے مکتی یا سدھی حاصل کرنے کے لائق بناتا ہے۔ جو لوگ تنتر کے ماہر ہوتے ہیں انہیں تانترک کہا جاتا ہے۔

تنتر ریاضت دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک ظاہری اور دوسری باطنی۔ ظاہری تنتر میں جپ، یگیہ ، منتر پوجا پاٹ ، قربانی ہوگ ، زائچے وغیرہ شامل ہیں جبکہ باطنی تنتر میں مراقبہ اور سانسوں پر قابو کرکے اندرونی توانائی کو بیدار کیا جاتا ہے اور اسے ترقی دیکر مکتی یا,سدھی حاصل کی جاتی ہے۔

ہندوستان میں زمانہء قدیم سے ہی تبتر کا نظام موجود ہے اور یہ اتنا قدیم ہے کہ اس کے آغاز کے متعلق کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ محققین کی رائے میں ہندوستان میں تنتر کو بودھ مذہب کے سادھوؤں نے رواج دیا تو کچھ کے مطابق ہندو مذہب سے تنتر کا آغاز ہوا۔ ایک تیسرا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تنتر کا رواج ہندوستان میں آریوں کی آمد, سے قبل یہاں کے آدی واسیوں میں رائج تھا۔ جبکہ کچھ مغربی محققین کا یہ بھی خیال ہے ہے کہ تنتر کا آغاز ہندوستان میں ہوا ہی نہیں بلکہ اس کا آغاز چین یا بابل یا کسی دوسرے خطے میں ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں زمانہء قدیم سے ہی سانسوں کو قابو میں کرکے اور اندرونی توانائی کو منظم۔ کرکے روحانی طاقتوں کے,حصول کی ریاضت کی جاتی تھی۔ انہی ریاضت کے طریقوں کو مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے اپنے مذہبی نظریات اور عقائد کے مطابق ڈھال لیا اور اسے ترقی دے کر تنتر کا ایک امتیازی نظام۔وضع کرلیا اس طرح ہندو تنتر، اور بودھ تنتر وجود میں آئے جن میں بنیادی طریقے تو یکساں تھے اور اصطلاحات بھی یکساں تھیں لیکن ان کا مقصود اور نصب العین مختلف تھا۔ تنتر مذہبی نصب العین کو حاصل کرنے کا ایک وسیلہ تھا ۔

تنتر کے مطابق انسانی جسم میں روحانی قوت ریڑھ کی ہڈی کی بنیاد میں خوابیدہ حالت میں کنڈلی مارے ہوئے سانپ کی مانند ہوتی ہے۔ اس لئے اس قوت یا توانائی کوکنڈلنی شکتی کہتے ہیں۔ جب کوئ صوفی یا سادھک روحانی ریاضت شروع کرتا ہے تو یہ روحانی قوت بیدار ہوتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی سے اوپر کی سمت سفر شروع کرتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی یا اسپائنل کورڈ کے داہنی اور بازئیں طرف دو لطیف نلیاں ہوتی ہے جن کو اڑا اور پنگلا کہتے ہیں۔ اور ریڑھ کی ہڈی کے بیچوں بیچ ایک لطیف نلی ہوتی ہے جسے سشمنا کہتے ہیں ۔ایڑا اور پنگلا نلیاں ناک کی دونوں سوراخوں سے منسلک ہوتی ہیں۔ ایڑا اور پنگلا نلیوں میں توانائی کا بہاؤ نیچے کی طرف ہوتا ہے اور سشمنا میں توانایئ کا بہاؤ نیچے سے اوپر کی طرف ہوتا ہے۔ مرتاض ریاضت اور مراقبے کے دوران ناک کی دونوں سوراخوں کو انگلیوں سے دبا کر باری باری سے بند کرتا ہے تو ایڑا اور پنگلا میں نیچے کی طرف بہنے والی توانائی کا بہاؤ رک جاتا ہے اور وہ توانائی ریڑھ کی ہڈی کی بنیاد میں جمع ہوکر سشمنا سے اوپر کی طرف سفر شروع کرتی ہے۔ اور جب یہ توانائی اوپر کی طرف سفر کرتے ہوئے جسم۔کے مختلف حصوں میں موجود روحانی مقامات سے گزرتی ہے تو سالک کو روحانی تجربات ہوتے ہیں۔ان روحانی مقامات کو چکر کہتے ہیں جو جسم۔میں چھ ہوتے ہیں۔ بودھ تنتر میں صرف چار چکروں کو مانا گیا یے۔سر میں جو چکر ہوتا ہے وہاں روحانی توانائی کے پینچنے پر سالک یا مرتاض کو حقیقت کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔اور سالک عارف کا مقام حاصل کر لیتا ہے اور دنیاوی انسلاکات سے آزاد ہوکر آفاقی روح سے خود کو ہم آہنگ محسوس کرتا ہے۔

بودھ تانترک یا بودھ دھرم سے الگ ہونے والے فرقے ناتھ پنتھ کے پیروکار چونکہ مورتی پوجا کو نہیں مانتے اس لئے مسلم صوفیوں نے مراقبے اور جسمانی و ذہنی ریاضت کے طور طریقے بودھ تانترکوں یا ناتھ یوگیوں سے مستعار لئے۔ان طریقوں میں یوگ کے اعمال اور مراقبے کے طور طریقے شامل تھے۔ ان طور طریقوں پر عمل کرکے صوفیہ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے تھے۔بابا فرید ،، شاہ محمد غوث گوالیاری اور دیگر صوفیوں کے ناتھ یوگیوں سے روابط کا ذکر ملتا ہے۔ شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری سلسلے کے صوفی تھے اور انہوں نے ناتھ یوگیوں کے ریاضت کے طریقے باقاعدہ سیکھے۔ اور ان طریقوں کو ریاضت میں مفید پایا انہوں نے یوگا پر سنسکرت کی مشہور کتاب ا مرت کنڈ کا مطالعہ کیا ۔ اس کا ترجمہ عربی میں حوض الحیات کے نام سے پہلے سے موجود تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ابن عربی نے حوض الحیات کا مطالعہ کیا تھا اور ا س سے متاثر ہوئے تھے۔ شاہ محمد غوث گوالیاری نے امرت کنڈ کا ترجمہ فارسی میں بحرالحیات کے نام سے کیا۔ اس سے قبل امرت کنڈ کا فارسی میں ترجمہ بنگال کے قاضی رکن الدین نے کیا تھا لیکن وہ دستیاب نہیں ہے۔ محمد غوث گوالیاری نے امرت کنڈ کے ترجمے کے دوران ناتھ یوگیوں سے تبادلہء خیال کیا۔ اور اس کے نتیجے میں ناتھ پنتھ کے عقائد,و نظریات سے واقف ہوئے۔ انہوں نے یوگ کے اعمال کو,اسلامی تصوف میں متعارف کیا۔ اور ان میں سنسکرت کے اشلوکوں اور منتروں کو قرآنی کلمات سے مبدل کیا۔ ۔

شاہ محمد غوث گوالیاری کی ایک اور کتاب جواہر خمسہ ہے۔ اس میں مراقبے اور ریاضت کے طور طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں یوگ کے آسنوں کا,ذکر نقشے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور ان آسنوں کے فوائد بیان کئے گئے ہیں۔یہ کتاب بھی ایک سنسکرت کتاب کا فارسی ترجمہ ہے۔

محمد غوث گوالیاری نے اسلامی تصوف میں باقاعدہ طور پر ہندوستانی تنتر کے اعمسل کو متعارف کرایا۔ لیکن ہندوستانی صوفیوں میں تنتر کے اعمال کئی صدیوں پہلے سے مروج تھے۔

تصوف میں تنتر کی اصطلاحات کے صوفیانہ متبادل اصطلاحات کی تشکیل اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی تصوف نے ہندوستانی تنتر سے اثرات قبول کئے۔ پرانایام کے لئے پاس انفاس ہے۔ ریچک اور پورک کے لئے حصر نفس اور حبس دم ہے۔ کنڈلی شکتی جب جسم کے چھ چکروں سے گزرتی ہے تو مرتاض کو ان مقامات پر لطیف آوازیں سنائی دیتی ہے۔ اس آواز کو,یندو تنتر میں انہد ناد کہتے ہیں۔ اسلامی تصوف میں ان لطیف آوازوں کو لطائف کہتے ہیں اور چونکہ یہ لطائف چھ مقامات پر سنائی دیتی ہیں اس لئے انہیں لطائف ستہ کہتے ہیں۔ اسلامی تصوف میں لاہوت سب سے اعلی مقام ہے۔ بودھ مذہب میں اس مقام۔کو لہوتا کہتے ہیں۔ اور ہندو تنتر میں اس مقام کو توریا کہا جاتا ہے۔بودھ تنتر میں سادھک اپنی خودی کو آفاقی حقیقت میں تحلیل کر دیتا ہیے۔ اس مقام۔کو فنا کہتے ہیں سالک خود کو,آفاقی حقیقت میں فنا کرکے بقا حاصل کر لیتا ہے۔ فنا اور بقا کا یہ تصور بودھ مذہب اور ویدانت کے اثر سے اسلامی تصوف میں آیا ہے۔ ابن عربی کا فلسفہء وحدت الوجود اپنشد کے ادویت واد پر مبنی ہے۔ اپنشد بھی انسان کو اپنی انا کو برہما میں تحلیل کرکے مکتی اور مہا سکھ حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

لہذا یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی تصوف نے ہندوستانی تنتر اور اپنشد اور بودھ مذہب کے فلسفے سے اثر قبول کیا۔ اور صوفیوں نے مراقبے اور ریاضت کے اصول ہندوستانی تنتر سے مستعار لئے۔

-------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islamic-mysticism-indian-tantra/d/128752

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..