New Age Islam
Tue May 13 2025, 09:55 PM

Urdu Section ( 29 Jun 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Women's Testimony in Islamic Jurisprudence اسلامی فقہ میں خواتین کی گواہی - قرآن کی پائیدار حکمت اور سماج کے بدلتے حالات سے نمٹنے میں اس کی صلاحیت

وی .اے. محمد اشرف، نیو ایج اسلام

20 جون 2024

قرون وسطی کے علماء سے قرآن کی آیت 2:282 کی تعبیر و تشریح میں جو خطا ہوئی، اس سے یہ رائے قائم ہوئی، کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں کم ذہین ہیں، اس لیے ایک مرد گواہ کے برابر ہونے کے لیے، دو خواتین گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ آیت مذکورہ کی اس تشریح نے قرآن کا حقیقی مقصد تو پورا نہیں کیا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ مروجہ سماجی تعصبات کو جنم دیا۔

-------

قرآنی آیات کی تعبیر و تشریح صدیوں سے اسلامی قانون کی بنیاد رہی ہے۔ تاہم، کچھ تشریحات میں خطائیں سرزد ہوئی ہیں او روہ قرآن کی اصل روح کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کی ایک سب سے بڑی مثال خواتین کی قانونی شہادتوں کو سمجھنے میں مفسرین کی خطاء ہے، خاص طور پر مالی معاملات میں۔ قرآن کی ایک آیت (2:282) کو توڑ مروڑ کر یہ رائے قائم کر لی گئی ہے، کہ عورت کی ایک گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی ہے۔

اس مقالے میں اسی مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور آیت مذکور کو مقاصد شریعت کے وسیع فریم ورک میں جانچا اور پرکھا گیا ہے۔ آیت کے تاریخی سیاق و سباق کی چھان بین کرنے، اور اسے قرآن کی بنیادی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے بعد ، ہم آج مسلمانوں کے لیے قرآن کی مبنی بر مساوات تعبیر و تشریح کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

قرون وسطی کے علماء سے قران کی آیت 2:282 کی تعبیر و تشریح میں جو خطا ہوئی، اس سے یہ رائے قائم ہوئی کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں کم ذہین ہیں، اس لیے ایک مرد گواہ کے برابر ہونے کے لیے، دو خواتین گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ آیت مذکورہ کی اس تشریح نے قرآن کا حقیقی مقصد تو پورا نہیں کیا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ مروجہ سماجی تعصبات کو جنم دیا۔ مذکورہ آیت میں عورت کی گواہی کو ناقص نہیں گردانا گیا ہے۔ بلکہ یہ آیت اس دور کی سماجی حقیقتوں کی آئینہ دار ہے۔ اس وقت، خواتین عام طور پر مالی لین دین کی عادی نہیں تھیں۔ اور قرآن نے اس معاملے میں دو عورتوں کی گواہی اس لیے ضروری قرار دیا، کہ لین دین کے معاملے میں کوئی گڑبڑی نہ ہو، نہ کہ اس کا مقصد عورتوں کو نیچا دکھانا تھا۔

عصر حاضر کی ایک مشہور اسکالر آمنہ ودود بھی اسی تشریح کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں، کہ وہ آیت خاص طور پر مالی معاملات سے متعلق ہے۔ ان کا استدلال ہے، کہ لین دین کے معاملات میں، ایک اضافی عورت کا کردار ایک معاون کا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتی ہے، کہ مرکزی گواہ کی گواہی بالکل درست ہے، اور اس میں کوئی خطاء واقع نہیں ہوئی ہے، اور اس میں بالخصوص اس وقت کے مالی معاملات میں، خواتین کے محدود کردار کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس حفاظتی اقدام کے ذریعہ، قرآن  مالی لین دین سے خواتین کی ناواقفیت کو اجاگر کرتا ہے، نہ کہ ان کی ذہنی صلاحیت کو۔ (ودود، 1999:85)۔

خالد ابو الفضل جیسے علماء،یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف مالی لین دین میں مرد اور عورت گواہوں کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ابو الفضل کا کہنا ہے کہ جملہ "تاکہ اگر ان میں سے ایک غلطی کرے تو دوسرا اسے یاد دلائے" عورتوں کے ناقص العقل ہونے کی نہیں، بلکہ ایک مخصوص صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دور میں خواتین، زیادہ تر ناخواندہ اور لین دین کے معاملات سے ناواقف تھیں، مالی معاملات کی گواہی کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔ قرآن کے اس حکمت بھرے اقدام سے، اس بات کی عکاسی ہوتی ہے، کہ قرآن لین دین کے معاملات میں کسی بھی دھاندھلی کے خطرے کو ختم کرتے ہوئے، قانونی عمل میں خواتین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ (فضل، ص 157-158)

یہاں تک کہ، ایک عظیم قدامت پسند عالم ابن القیم الجوزیہ (متوفی 1350)، نے اس کی ایک مزید مساویانہ تشریح پیش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، کہ آیت کے مخصوص سیاق و سباق کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جانا چاہیے، کہ عورت کی قانونی گواہی فطری طور پر مرد سے کمتر ہے۔ روایت حدیث سے، جہاں خواتین کی شہادتیں بغیر کسی سوال کے قبول کر لی جاتی ہیں، اگر وہ اس کے معیارات پر پورا اترتی ہیں، اس نظریے کو مزید تقویت ملتی ہے، کہ خواتین کی شہادتیں فطری طور پر مردوں سے کمتر نہیں ہیں۔ (فضل، صفحہ 198-199)

آیت 2:282 کے حوالے سے مقاصد شرعیہ پر مبنی نقطہ نظرسے، معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے، قرآن کی ترقی پسند سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ عورتوں کو مالی معاملات سے الگ رکھنے کے بجائے، مذکورہ آیت ان کے تاریخی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہیں مالی معاملات میں شامل کرتی ہے۔ اور قرآن نے اس معاملے میں دو عورتوں کی گواہی اس لیے ضروری قرار دیا، کہ لین دین کے معاملے میں کوئی گڑبڑی نہ ہو، نہ کہ اس کا مقصد عورتوں کو نیچا دکھانا تھا۔ آج، چونکہ خواتین معاشرے کے تمام معاملات میں، بشمول مالی معاملات کے، تیزی سے شامل ہو رہی ہیں، جس سے آیت 2:282 کا تاریخی تناظر اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ دو خواتین گواہوں کی ضرورت، اب اس دور جدید میں نہیں رہی، جہاں مردوں کی طرح خواتین بھی، مالی معاملات میں تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔ لہٰذا، جدید اسلامی فقہ کے اندر بھی تمام معاملات میں، خواتین کی شہادتوں کو مردوں کے مساوی تسلیم کرتے ہوئے، اس ترقی یافتہ تفہیم کی عکاسی کرنی چاہیے۔

جیفری لینگ کہتے ہیں کہ، قرآن کے 8 حوالوں میں سے، جو کہ قسمیں کھانے اور گواہی دینے سے متعلق ہیں (2:282؛ 4:6؛ 4:15؛ 5:109؛ 5:110؛ 24:4؛ 9-24:6؛ 65:2)، صرف 2:282 میں گواہوں کی جنس کا ذکر ہے۔ (لینگ، صفحہ 165-166)

مشتبہ کفر کے خلاف بیوی کے اپنے دفاع کے معاملے میں، بیوی کی گواہی شوہر کی گواہی پر سبقت لے جاتی ہے (24:6-9)۔

مزید برآں، جب بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے، اور ذخیرہ حدیث کو جمع کرنے کی آتی ہے، جو کہ قرآن کے بعد اسلامی قانون کا دوسرا سب سے بڑا ماخذ ہے، تو اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیاہے۔ کسی بھی راوی کے حدیث کا راوی بننے کے لیے بس دو ہی باتیں ضروری تھیں — ضروری نہیں کہ ان کا پورا کرنا آسان ہو — عادل ہونا، اور ذہین ہونا۔ (ندوی، صفحہ 18)۔ یہ حقیقت ابتدا ہی سے اسلامی علوم میں غیر متنازعہ رہی ہے، اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار، حدیث کے سرفہرست پانچ راویوں میں کیا جاتا تھا۔ اکرم ندوی نے آٹھ ہزار سے زائد ایسی خواتین کے نام اور ان کی کہانیاں درج کی ہیں،جو نہ صرف محدثہ اور حدیث کی راویہ ہیں، بلکہ تاریخ اسلام کے چند بااثر مرد علماء کی اساتذہ بھی ہیں۔ عروہ بن الزبیر جیسے مردوں نے گواہی دی، کہ عائشہ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ علم والی تھیں، اور بہت سے معاملات میں انہوں نے ابو ہریرہ یا ابن عمر جیسے دوسرے صحابہ کی حدیث کی تردید اور تصحیح بھی کی، اور تاریخ اسلام میں کبھی کسی فقیہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا، کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گواہی، ہم سے کم تھی کیونکہ وہ ایک عورت تھیں۔

مصری اصلاح پسند محمد عبدہ نے اس آیت کے حکم کو، اس دور کے مختلف صنفی کرداروں اور زندگی کے تجربات کے ساتھ مشروط مانا ہے، نہ کہ خواتین کو فطری طور پر کمتر ذہنی صلاحیتوں کا حامل مانا ہے، جس کی بنیاد پر، اس اصول کو آفاقی نہیں مانا جا سکتا۔ (فضل، صفحہ 187)

قرآن کی ترقی پسند روح، سماجی معاملات میں خواتین کو جگہ دینے سے واضح ہے۔ آیت صرف مرد گواہوں کی گواہی ہی لازم قرار دے سکتی تھی، لیکن اس کے بجائے، قرآن نے سماجی معاملات میں خواتین کو بھی شامل کیا یا قانونی عمل میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا۔ ان معاملات میں خواتین کا شامل کیا جانا، اگر چہ اضافی حمایت کے ساتھ ہی سہی، اپنے دور کا ایک انقلابی قدم تھا، اور صنفی مساوات کے حوالے سے، قرآن کے عزم کا منھ بولتا ثبوت۔

آیت 2:282 کو اس کے تاریخی سیاق و سباق اور انصاف اور مساوات کے، قرآن کے اعلیٰ ترین اصولوں کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ مالی لین دین میں دو خواتین گواہوں کا ہونا ضروری قرار دیا جانا، اس وقت کے معاشرتی حالات کے مطابق ایک عملی حل تھا، نہ کہ خواتین کی کمتری کا دعویٰ۔ اب جیسا کہ عصر حاضر کے علماء اور فقہاء ان تشریحات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں، یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے، کہ قرآن، اسلام کی ترقی پسند اور مساوی اقدار کے مطابق، خواتین کی شمولیت اور مساوی حقوق کی وکالت کرتا ہے۔ یہ آیت قرآن کی پائیدار حکمت، اور بدلتے ہوئے سماجی حالات کا حل پیش کرنے کی، قرآن کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔

حوالہ جات:

Fadel, Mohammad, "Two Women, One Man: Knowledge, Power, and Gender in Medieval Sunni Legal Thought", International Journal of Middle East Studies, 1997, 29 (2)

Fadl, Abou El, Khaled M, Speaking in God’s Name: Islamic Law, Authority and Women. Oxford: Oneworld Publications, 2003

Lang, Jaffrey, Struggling to Surrender, 2nd edition, Beltsville, Maryland: Amana Publications, 1994

Nadwi, Mohammad Akram, al-Muhaddithat: The Women Scholars in Islam, Oxford: Interface Publications, 2007

Nasr, Seyyed Hossein (ed), The Study Quran, a new translation and commentary, New York: HarperOne, 2015

Wadud, Amia, Quran and Woman: Rereading the Sacred Text from a Woman’s Perspective, New York, NY: Oxford University Press, 1999

-----

English Article: Women's Testimony in Islamic Jurisprudence-Quran’s Enduring Wisdom And Its Capacity To Address And Evolve With Changing Social Contexts

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islamic-jurisprudencequranwisdom-social-contexts/d/132602

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..