باپ کے ترکہ میں بیٹی کو بیٹے کا آدھا حصہ کیوں کا جواب
غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
5 جولائی 2023
اسلام کا نظام میراث عدل و
انصاف پر مبنی ہے، کیونکہ یہ نظام بندوں کا بنایا ہوا نہیں ہے، اس میں خطا کا کوئی
امکان نہیں ، بلکہ خالق حقیقی ، مالک ابدی نے اس نظام کو بندوں کی بھلائی اور بہتری
کے لیے بنایا ہے ۔ اب غور کا مقام یہ ہے کہ اسلام نے قرآن مجید کے واسطے سے پوری انسانیت
کو یہ پیغام دیا کہ لوگو! ایک خدا کی پوجا کرو، اس کے علاوہ کسی اور معبود کی پوجا
مت کرو ، تمہارا معبود ایک حقیقی معبود ہے اور محمد اللہ کے سچے رسول ہیں (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم)، لہذا ان کی نبوت و رسالت پر ایمان لاو، ان پر اتارے گئے قرآن مجید
پر ایمان لاو اور ان کی آیتوں کو اپنے لیے ہر چیز سے بہتر مانو ۔ ان بنیادی باتوں
کے ساتھ ساتھ اسلام نے پوری انسانیت کو یہ تعلیم دی کہ اللہ کے بنائے گئے نظام کائنات
میں بھی غور کریں کہ سورج ، چاند ، ستارے اور تمام پلانٹس کس طرح اللہ کے بنائے گئے
نظام کے مطابق اپنا اپنا کام بخوبی ادا کر رہے ہیں اور پھر بارش ، دھوپ ، گرمی ، سردی،
اور فصل بہار ، سب کی اپنی اپنی خوبیاں ہیں اور اللہ کے تمام بندوں کے لیے سب کے پاس
منفرد فوائد ہیں ۔ اگر پلانیٹس اپنے مقرر کردہ قدرتی نظام کے خلاف کام کرے تو کائنات
کا نظام درہم برہم ہو جائے گا ۔
قرآن مجید نے جن باتوں کو
بیان کیا ، اللہ تعالی کے جو احکامات لیکر آیا، وہ تمام کی تمام انسانوں کے حق میں
سب سے بہتر و مفید ہے مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض انسان ان باتوں کی حکمت کو عقل
و قلب کی نگاہ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ، جس کی وجہ مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ کبھی
انسان نفرت وعناد میں اس حد تک گزر جاتا ہے کہ اس کی عقل پر غفلت کا پردہ ، گھٹا ٹوپ
کا پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ اللہ کے احکام کو اپنی کوتاہ نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتا
ہے ، ان ربانی احکام کی شان میں طرح طرح کے اعتراضات کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ یہ در
اصل نفرت و عناد کا نتیجہ ہے کہ حق سمجھنے سے قاصر ۔ اگر وہ نفرت و عناد کے چشمے کو
اتارکر عقل و قلب کے دروازے کھول کر غور و فکر کرے تو اسے یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں
لگے گی کہ یقینا اللہ تعالی کے احکام میں بندوں کے لیے بہتری ہے ۔
بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں
جو اپنے دل و دماغ سے ایک خیال گڑھ کرکے یہ اعتراض پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں: ‘‘
اسلام نے اپنے نظام میراث میں بیٹے کو دو حصہ اور بیٹی کوصرف ایک حصہ دیکر قانون مساوات
کی مخالفت کی ہے ۔اس طرح کی تقسیم نظام ظلم کے موافق ہے ، لہذا بیٹے اور بیٹی دونوں
کو باپ کے ترکہ سے برابر کا حصہ ملنا چاہیے ، اگر بیٹے کو دو حصہ ملے تو بیٹی کو بھی
دو حصہ ملنا چاہیے ۔’’ اور پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں : ‘‘ اسلام نے اپنے نظام میراث کے
اس مقام پر قانون مساوات کی مخالفت کی ہے، لہذا اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے ’’
ہم نے پہلے ہی اشارہ کر دیا
تھا کہ قرآن کے احکام کے معانی اور ان کی اسپرٹ کو سمجھنے کے لیے نفرت و عناد کے ذہنی
جراثیم کو ختم کرکے غور و فکر کا دروازہ کھولنا بہت ضروری ہے ۔ قانون مساوات یقینا
نظام فطرت کا حصہ ہے مگر کبھی یہ نظام عدل سے متعارض بھی ہو جاتا ہے ، اس کی مثال یہ
فرض کیجیے کہ ایک طرف ایک طاقتور مرد مزدور ایک تیس چالیس اینٹوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے
ہے تو دوسری طرف ایک عورت اپنی استطاعت کے مطابق دس یا بیس اینٹ اٹھانے پر قدرت رکھتی
ہے اور پھر اس سے یہ کہہ دیا جائے کہ نظام مساوات کا یہ قانون ہے کہ اس عورت سے بھی
مرد کے برابر کا وزن اٹھوایا جائے اگر وہ اسے اٹھانے سے منع کرے تو اسے بھی قانون کے
کٹھگرے میں لایا جائے ۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ عورت پر یہ ایک ظلم ہوگا ۔ عورت اپنی
استطاعت کے مطابق جتنی اینٹ اٹھانا چاہے اٹھا لے ، کیونکہ یہی اس کے حق میں بہتر ہے
اگر اس موقع پر اس پر زبردستی کی جائے کہ مرد کے برابر وزن اٹھائے ورنہ اسے سزا دی
جائے گی ، تو یہ یقینا اس عورت پر ظلم ہوگا ۔
غور کیجیے اس مثال میں کہ
نظام مساوات اور نظام عدل کے درمیان یہاں تعارض پیدا ہو رہا ہے کہ ایک پر عمل کرنے
سے دوسرے کی مخالفت ہو رہی ہے ۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس تعارض کی صورت میں کس کو فوقیت
دی جائے ؟ نظام مساوات کو ؟ یا پھر نظام عدل کو ؟ مساوات کا تقاضا ہے کہ مرد و عورت
دونوں کے اوپر برابر ی کا بوجھ دیا جائے اور فطرت کے قانون عدل کا تقاضا ہے کہ عورت
کا یہاں احترام کیا جائے اس پر اس کی استطاعت سے زیادہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے ۔یقینا
جب نظام عدل اور نظام مساوات میں تصادم پیدا ہو جائے تو نظام عدل کو ترجیح دینا بہتر
ہوگا ۔اس ترجیح کی صرف اسی حالت میں ضرورت پیش آتی ہے، لہذا یہ اسی حالت کے ساتھ مشروط
رہے گی ، جبکہ بقیہ دیگر مقامات پر نظام مساوات کا خیال رکھنا بھی عین فطرت کا تقاضا
ہے ۔
اسلام کے نظام میراث پر جب
ہم غور کرتے ہیں تو ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں قانون مساوات اور قانون عدل کے درمیان
تعارض پیدا ہوتا ہے ۔ وہ صورت اس وقت پیش آتی ہے جب بیٹے اور بیٹی کے درمیان والد
کے ترکہ کی تقسیم ہوتی ہے ۔ قانون مساوات کا تقاضا ہے کہ بیٹے اور بیٹی دونوں کو برابری
کا حصہ ملنا چاہیے جبکہ قانون عدل کا تقاضا ہے کہ بیٹے کو زیادہ ملنا چاہیے اور بیٹی
کو کم ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میراث میں بیٹے کا سورس آف انکم (آمدنی کا حصہ ) کم ہے
جبکہ بیٹی کا سورس آف انکم متعدد ہے ۔بڑے سطح پر ایک مثال یہ لیجیے کہ بیٹے کو صرف
باپ کے ترکہ سے ملتا ہے تو بیٹی کو باپ کے ترکہ کے علاوہ شوہر کا مکمل نفقہ بھی لازمی
طور پر حاصل ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے تمام
فیملی نفقات کی ذمہ داری مرد کے کاندھوں پر ڈالی ہے ۔عورت کو جو انکم کا حصہ متعدد
سورسز سے ملتا ہے وہ سب سیبھنگ انکم کی شکل میں ہوتا ہے ۔ اولاد کی پرورش اور تعلیم
و تربیت، اولاد کے نکاح ، بالخصوص بیٹی کی شادی بیاہ کے خرچے سے لیکر والدین کے اخراجات
، فیملی کے تمام ممبران کی رہائش اور طعام و قیام کی مکمل ذمہ داری ایک مرد کے کاندھے
پر ہی ہوتی ہے جبکہ عورت کو اسلام نے تمام نفقاتی ذمہ داریوں سے آزاد رکھاہے ۔
میراث میں مرد کا سورس آف
انکم بہت کم ہے اور اس کے علاوہ اس کے کاندھے پر تمام نفقاتی ذمہ داریاں ۔ایسے میں
فطرت کے نظام عدل کا لازمی تقاضا تھا کہ کسی مقام پر اسے زیادہ کوانٹیٹی میں حصہ ملے
تاکہ وہ اپنی نفقاتی ذمہ داریوں کے بوجھ کو آسانی سے اٹھا سکے ۔ یہ تو فطرت کے نظام
عدل کا لازمی تقاضا ہے مگر قانون مساوات کہتا ہے کہ نفقاتی ذمہ داریوں کا لحاظ کیے
بغیر بیٹے اور بیٹی دونوں کو برابر کا حصہ ملے ۔یہاں قانون عدل قانون مساوات سے متعارض
ہے ۔ اس تعارض کی صورت میں اسلام نے قانون عدل کو ترجیح دی اور قانون مساوات کو دیگر
مقامات کے لیے ممکنہ طور باقی رکھا ۔
اب اگر کوئی کہتا ہے کہ اسلام
نے نظام میراث میں باپ کے ترکہ کی تقسیم کے دوران نظام عدل کے خلاف ظلم کیا ہے تو اسے
محض جھوٹ اور غفلت کا شکار سمجھا جائے گا ۔ اس کے بر عکس در حقیقت اسلام نے تو قانون
عدل کو ترجیح دی ہے ۔ اسلام نے عورت کو تمام نفقاتی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد رکھا
، عورت کے حصے کو سیبھنگ انکم قرار دے کر اس پر ایک عظیم احسان اور نظام عدل کی عمدہ
مثال پیش کی ہے ۔ اسلام نے جس طرح عورتوں کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا ہے اسی طرح مردوں
کو جب نفقاتی ذمہ داریوں کا بوجھ دیا تو اس کے حصہ کو بڑھاکر اس کے لیے راحت رسانی
کا کردار پیش کیا ہے ۔ یہ وہ عدل ہے جس کی مثال کوئی انسانی ذہن پیش نہیں کر سکتا ،
کیونکہ یہ خدا کا بنایا گیا عدل ہے ، خدا کا بنایا گیا قانون ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام
کا نظام میراث عدل پر مبنی ہے ۔ اعداد و شمار کی رو سے اسلام کے قانون میراث کا تجزیاتی
مطالعہ یہ نتیجہ دیتا ہے کہ کیفیت اور کمیت (یعنی کوالٹی اور کوانٹیٹی) دونوں اعتبار
سے عورت کا حصہ مرد کے حصہ سے زائد ہے ۔ میراث پانے کی جتنی بھی ممکنہ صورتیں ہیں ،
یعنی میراث پانے کے جتنے بھی سورسز ہیں ، اگر ان تمام پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا
ہے کہ اکثر سورسز ایسے ہیں جہاں عورت کو یا تو مرد کے برابر یا مرد سے زیادہ حصہ ملتا
ہے ۔ اس کے بر عکس صرف چار سورسز ایسے ہیں جہاں عورت کا حصہ مرد سے کم ہے ۔وہ یہ ہیں:
1. بیٹا اور بیٹی ہوں تو بیٹی کا حصہ بیٹے کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے
۔
2. والد اور والدہ ہوں تو والدہ کا حصہ والد کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے
۔
3. علاتی (باپ شریک) بھائی اور بہن ہوں تو علاتی بہن کا حصہ علاتی بھائی
کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے ۔
4. بیوی کی میراث میں شوہر کا جتنا حصہ ہے اس کا آدھا شوہر کی میراث
میں بیوی کا حصہ ہوتا ہے ۔
میراث کے پہلے درجہ کے جن
مستحقین کو اسلام نے مقرر کیا ہے ان میں مردوں کی تعداد چار ہے جبکہ عورتوں کی تعداد
آٹھ ہے۔اسی طرح اسلام نے جن چھ قسم کے حصوں کا بیان کیا ہے ان میں دو تہائی ، آدھا
، اور ایک تہائی جیسے بڑے حصے مردوں کے مقابلہ عورتوں کو زیادہ دیے گئے ہیں۔ اس طرح
کے حصوں کو پانے والی عورتوں کی تعداد دس ہے جبکہ ایسے حصوں کو پانے والے مردوں کی
تعداد صرف دو ہے ۔ پھر مجموعی طور پر ان چھ قسم کے حصوں کے مستحقین ۲۳ افراد
ہیں جن میں خواتین کی تعداد ۱۷
ہے تو مردوں کی تعداد صرف چھ ہے ۔
اسلام نے میراث کے سلسلہ میں
جو قانون بنایا ہے اس کا گہرا ربط و تعلق قانون نفقہ سے ہے ۔ عورت کو نہ صرف میراث
ملتی ہے بلکہ اس کے تمام ضروری خرچوں کا انتظام بھی مردوں کی ذمہ داری ہے ۔اسلام نے
یہاں عدل اور توازن کا مظاہرہ کیا کہ چونکہ عورت کا خرچہ دینے والے افراد زیادہ ہیں
اس لیے میراث میں اس کا حصہ کم ہے اور جن مقامات پر عورت کے خرچوں کی ذمہ داری اٹھانے
والے افراد کم ہوتے ہیں وہاں میراث میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ زیادہ ہو جاتا ہے
۔ یہ تو ایک وجہ ہوئی اور اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جن کی بنیاد پر یہ تسلیم کرنا
لازمی بنتا ہے کہ اسلام کے نظام میراث میں عدل و حکمت ہے کہ عورت کی میراث کو سیبھنگ
کی شکل میں رکھا اور مرد کو عورت کے تمام ضروری خرچوں کا ذمہ دار بھی بنایا تاکہ عورت
کو معاشی طور پر کئی لحاظ سے اختیار مل جائے ۔
--------------
اسلامک ریسرچ اسکالر غلام
غوث صدیقی، عالم و فاضل ، متخصص فی الادب العربی ، والعلوم الشرعیہ والنقلیہ ، اور
مشہور عالمی ویب سائٹ ‘‘نیو ایج اسلام’’ کے مستقل کالم نگار اور متعدد زبانوں ، بالخصوص
انگریزی ، عربی، اردو اور ہندی کے مترجم ہیں۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism