مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
22 مئی 2023
اسلامی عقائد اور شریعت
اور ثقافت
مصنف: پروفیسر حامد نسیم
رفیع آبادی
ناشر: حاجی شیخ غلام محمد
اینڈ سنز، سری نگر، کشمیر
صفحات: 444، قیمت: 995
روپے
------
اسلام کے مختلف پہلوؤں پر
لاکھوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
اسلام ایک ارب سے زیادہ لوگوں کا مذہب ہے، اس لیے لاکھوں لوگ اپنے ایمان کو کافی
سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو اسلام سے متعلق مختلف مسائل کو سمجھنے کے
لیے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسلام کے اندر جو لچک ہے وو اس بات کو ممکن بناتی ہے کہ
وہ اپنے پیروکاروں کو ہر اس چیز کے بارے میں تعلیمات کے ساتھ رہنمائی کرے جو ان کے
لیے ضروری ہے۔ اسلام کوئی مائیکرو مینجمنٹ تکنیک نہیں فراہم کرتا، بلکہ یہ ایک
ایسا وسیع فریم ورک فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے ہماری زندگیوں میں اسلام کی روح کی
پیروی کی جا سکتی ہے۔ جنہوں نے اسلام کے بیانیے کی اشاعت کی، اور زندگی کے ہر پہلو
بشمول سیاست، سائنس، تاریخ اور معاشیات کے بارے میں پوری تفصیلات اور رہنمائی
فراہم کی، وہ مسلمانوں اور اسلام دونوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔ اسلام کی توجہ آج کل
کے انسانوں کے مسائل کو حل کرنا نہیں ہے، حالانکہ یہ کچھ ایسی اقدار فراہم کرتا ہے
جن کی وہ مسلمانوں سے پیروی کی توقع کرتا ہے۔ تاہم دنیا ایک ناقض جگہ ہے، یہاں
کمال کی توقع کرنا حماقت کی بات ہے۔ انسانوں کا کام اسلام کے عقائد کے اقدار اور
تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امتحان پاس کرنا، اور اپنے اعمال کی بنیاد پر آخرت میں
جزا یا سزا پانا ہے۔
پروفیسر حامد نسیم رفیع
آبادی، ایک نامور مصنف اور عالم دین ہیں۔ یہ کتاب ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو
انہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں لکھے ہیں۔ ان مضامین میں بے شمار مسائل، مبادیات
اور ثقافت پر گفتگو کی گئی ہے جن کا تصور اسلام پیش کرتا ہے۔ اس کتاب میں اسلام کے
بنیادی عقائد، توحید اور شرک کی مخالفت پر توجہ دی گئی ہے۔ زیادہ تر مضامین اس
سیاق و سباق کی عکاسی کرتے ہیں جس میں وہ لکھے گئے تھے، جب اسلامی ریاست کا قیام
ایک پسندیدہ خیال تھا۔ اس کے علاوہ، جواں سال رفیع آبادی، جوانی کے ان ایام میں
کافی انقلابی نظر آتے ہیں، جیسا کہ ان کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے۔ اسلامی انقلاب
پر یقین رکھنے کے باوجود، وہ ایک نئے نظریے کو برقرار رکھتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی
انقلاب کے لیے زمین آخرت پر یقین کو مضبوط کر کے تیار کی جاتی ہے (ص-32)۔ زیادہ تر
احیاء پسند تحریکوں میں، آخرت کا عقیدہ کسی حد تک پس منظر میں چلا جاتا ہے، کیونکہ
ظاہری اور نتیجہ خیز اسلامی خدمات پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ نتیجہ برآمد
کرنے والی اسلامی سرگرمی، جو تحریکوں کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، ریاستوں پر ایسے
قوانین منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے جو اسلام کے مخالف نہ ہوں اور بالآخر
انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر کے اسلامی ریاست کے خواب کو ایک حقیقت
بناتی ہے۔ تاہم، اسلام موت کے بعد کی زندگی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ یہ زندگی
موت کے بعد کی زندگی کے لیے کھیتی ہے، لیکن مادیت پرستی کی طرح، اسلامی تحریکیں
بھی مذہبی مادیت کی ایک مختلف شکل میں اس قدر گھر چکی ہیں، کہ جس میں زیادہ تر زور
اس زندگی اور اس کے نتائج اسی دنیا میں حاصل کرنے پر صرف کیا جاتا ہے۔
بشکل شورش کے جہاد میں، یو
ایس ایس آر کے خلاف امریکہ کے کردار کے پیش نظر اضافہ ہوا، جو انہوں نے جنت، جہاد
اور انصاف کے اسلامی تصورات کا استحصال کرتے ہوئے چیھڑا۔ لہذا، ہمیں جہاد اور
اسلامی قیادت کے عنوان سے چند موضوعات ملتے ہیں، جب کہ بظاہر مسلم دنیا بحران کا
شکار نظر آتی ہے، بلکہ یہ اب بھی بحران سے دوچار ہے، جو ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید
گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ جہاد پر علامہ یوسف القرضاوی اور شیخ بن باز کے لکھے گئے چند
عربی مضامین کا رفیع آبادی نے ترجمہ کیا ہے اور اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ مسلم
قیادت کیونکر ایسے فیصلوں پر عمل درآمد کرے جو مسلمانوں کے حق میں ہیں، کتاب میں
اس موضوع پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن اسلام کے عروج کے بعد سے مسلم حکمرانوں
نے ہمیشہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے، اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور ذاتی منصوبوں کو
مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر ترجیح دی ہے۔ لہٰذا، یہ اقدار زیادہ تر
مثالی رہیں، جن کی پیروی مسلم رہنماؤں اور حکمرانوں نے بہت کم ہی کی ہے۔
منافقت جیسے انسانی طرز
عمل کی قرآن نے بار بار مذمت کی ہے۔ ہمیں مدینہ میں مسلمانوں کی صفوں میں منافقین
کی اچھی خاصی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، جن کے طرز عمل کی بار بار مذمت کی گئی ہے۔
لیکن پروفیسر رفیع آبادی کا اس سوال سے گریز کرنا اس حقیقت کو واضح نہیں کرتا کہ کیا
ہم بھی منافق ہیں؟ کیونکہ ہم مانتے کچھ اور ہیں لیکن کرتے کچھ اور ہیں۔ کیا یہ
منافقت ہے یا محض کوئی مجبوری، جو ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس طرح کے موقف
کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ عام لوگوں کی بات نہ کریں، علماء میں بھی یہ
منافقت پائی جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد، اللہ کی خاطر ہجرت اور اسلامی انقلاب
پر اس کے اثرات اور قرآن کے معجزات جیسے عنوانات بھی اس کتاب کے اہم موضوع ہیں۔
اس کے بعد کتاب میں ایک
طویل باب ہے جس میں ایک طالب علم کے طور پر مصنف نے اپنے سفر، پھر جے این یو،
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، ہمدرد نگر سمیت ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں
میں داخلہ لینے، ان کی علمی مشاغل اور تحریروں کی روداد بیان کی گئی ہے۔ قارئین کو
ان اداروں کے تعلیمی ماحول اور ہندو طلباء کے ساتھ مصنف کے معاملات سے آگاہ کیا
گیا ہے، ان میں سے اشرافیہ نے کمیونزم کو بطور نظام حیات قبول کر لیا تھا۔ لیکن
رفیع آبادی کے مطابق وہ صرف زبانی انقلابی تھے۔ کتاب میں دہلی کے اردو بازار اور
اس کی دلکشی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ علم کے حصول کے لیے مختلف اسکالروں، ادیبوں
اور فلسفیوں کی جدوجہد کو بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
کچھ مضامین جدید مسائل سے
متعلق ہیں، مثلاً جانوروں کے حقوق اور اسلام میں ان کا تحفظ، امت مسلمہ کے زوال کی
وجوہات، خدا کی عبادت کے بجائے بڑی ہستیوں کی عبادت کے خطرات۔ رفیع آبادی کی پہلی
شائع شدہ تحریروں میں سے ایک مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور نوجوانوں کے بارے میں ہے۔
وہ مودودی کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کو عام لوگوں کے لیے بہت آسان
انداز میں پیش کیا، نہ کہ کسی ایسی شئی کے طور پر جسے صرف علمائے کرام اور اہل علم
ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی تفسیر قرآن اور اسلام پر دیگر تصانیف کو عام مسلمان بھی
بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ رفیع آبادی ان نوجوانوں کی سرزنش بھی کرتے ہوئے نظر
آتے ہیں جو فلموں، سنیما اور اس طرح کی دیگر فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے
ہیں، کیوں کہ ان کی زندگی کسی عظیم مقصد کے لیے وقف ہونی چاہیے۔ وہ فرائیڈ، ڈارون
اور مارکس پر تنقید کرتے ہوئے مودودی کی تعریف کرتے ہیں، جس سے ان کی تحریروں پر
مودودی کے گہرے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
اگر رفیع آبادی آج انہی
موضوعات پر لکھتے تو ان کے افکار اور تحریریں ان کے ارتقاء اور غور و فکر کے پیش
نظر مختلف نوعیت کی ہوتیں۔ لیکن ان تحریروں کا بھی اپنا جوہر اور اپنی ایک الگ
علمی خوبی ہے۔ ان میں سے کچھ موضوعات جن پر انہوں نے خامہ فرسائی کی ہے وہ اب بھی
کافی اہمیت کے حامل ہیں، اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جس کا انگریزی میں ترجمہ
کیا جانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچ سکیں۔ مصنف اور ناشر دونوں کو
اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس طرح کی جامع کتاب کو منظر عام پر لانے کے
لیے شکریہ۔
English
Article: Islamic Fundamentals: Sharia and Culture
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism