New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 04:32 AM

Urdu Section ( 30 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam Asserts That Treating Everyone with Love and Tenderness Is a Fundamental Human Duty اسلامی نقطۂ نظر سے تمام نوع انسانی سے رحمدلی و نرمی سے پیش آنا انسانی فریضہ ہے

ڈاکٹر محمد احمد نعیمی

29دسمبر،2023

قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسانی اقدار یا اخلاقی تعلیمات کا جو دستور پیش کیا ہے اس میں محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کا باہمی تعامل و ارتباط اور تعلقات سے گہرا تعلق ہے۔

بنیادی طور پر انسانی سماج میں چار قسم کے تعلقات پائے جاتے ہیں : (۱)سماجی تعلقات (۲) مذہبی تعلقات (۳) سیاسی تعلقات اور (۴) معاشی تعلقات۔ان چاروں اقسام کے تعلقات کے بارے میں اسلام نے جو تعلیمات و ہدایات پیش کی ہیں ان میں مذکورہ اخلاقی اقدار کی مستحکم و مضبوط بنیادیں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں ۔

ایک انسان کا دوسرے انسان کے لئے رحم دل ہونا، محبت و پیار کا جذبہ رکھنا اور مشکل اور پریشانی کے اوقات میں حتی الامکان مدد کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا بھی انسانی اقدار واخلاقی تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو ہے جس کے تعلق سے اسلام نے ایسے مثالی و روشن احکامات و قوانین مرتب کئے ہیں کہ جن کی پیروی میں پوری انسانی دنیا کی راحت و خوش حالی مضمر ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے ہر انسان پر ضروری ہے اور اس کا انسانی فریضہ ہے کہ وہ تمام نوع انسانی سے نرمی و رحم دلی سے پیش آئے اور اس سے محبت و پیار کا مظاہرہ کرے اور مصیبت و تکلیف کی صورت میں ہمدردی و معاونت کرے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

ــ’’اور نیکی و پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔‘‘(مائدہ:۲)

’’اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو ۔‘‘(انفال:۱)

’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے انصاف اور بھلائی کا اور رشتے داروں کے دینے کا۔‘‘ (النحل:۹۰)

اور نبی ٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن (اللہ تعالیٰ) رحم فرماتا ہے تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم لوگوں پر رحم فرمائے گا۔(سنن ترمذی)

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘ (مسند احمد)

’’ اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب التوحید)

 ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور تمام مخلوق میں اللہ کا سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)

 اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہےاس لئے محبت و ہمدردی کے علاوہ وہ اس بات کی بھی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم و زیادتی کرے یا اس کے رنج و خوف کا باعث بنے اور اس کو تکلیف و نقصان پہنچائے۔ کیونکہ ظلم و زیادتی کی وجہ سے انسان اور حیوان ہی نہیں بلکہ جمادات و نباتات وغیرہ بھی خائف رہتے ہیں ۔ پورا نظامِ امن درہم برہم ہو جاتا ہے اور انسانی معاشرہ و ماحول نت نئی آفات میں گرفتار ہو کر قلبی و ذہنی بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے اس کے سد باب اور روک تھام کے لئے بڑے سخت اور روشن قدم اٹھائے ہیں ، کہیں کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا ہے جس سے انسان فریب کھا کر ظلم و ستم کے بھیانک اور تاریک گڑھے میں اوندھے منہ گر سکے چنانچہ ظلم و ظالم کی مذمت کرتے ہوئے اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے :

 ’’اور ظلم کرنے والوں کا کوئی حمایتی و مددگار نہیں ۔‘‘(الشوریٰ:۸)

’’نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ (البقرہ:۲۷۹)

 قرآن کریم کی روشنی میں ظلم کتنا شدید گناہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس نے ایک انسان کی زندگی کو اتنی عظیم قدر و قیمت بخشی ہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر جرم عظیم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا ۔‘‘ (مائدہ:۳۲)۱

اس طرح قرآن نے ظلم کو بہت ہی عظیم گناہ قرار دیا ہے اور اس سے باز رہنے کی بڑی سخت ہدایت و نصیحت فرمائی ہے۔ اور صرف ظلم سے اجتناب و احتراز کی تاکید نہیں فرمائی ہے بلکہ اگر کسی نے آپ پر ظلم کیا ہے تو اس کے جواب میں ظالم و مجرم کے ساتھ انتقامی طور پر بھی انصاف سے تجاوز کرنے کو ناپسند کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ایسی صورت میں بھی اسی حد تک انتقام ضروری ہے کہ جتنا ظلم آپ کے ساتھ کیا گیا ہےچنانچہ ارشاد ہے:

’’پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی۔‘‘

(البقرہ:۱۹۴)

 قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ رب العالمین کسی حال اور کسی صورت میں ظلم کو پسند نہیں فرماتا۔ مقام غور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خالق و مالک اور حاکم ہونے کے باوجود کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا تو پھر انسان اور اس کی مخلوق و محکوم کے لئے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اسی کے عطا کردہ اختیارات اور طاقتوں کو دوسروں پر ظلم ڈھانے کے لئے استعمال کرے؟

آیات قرآنی کے علاوہ احادیث رسول ﷺ میں بھی ظلم و ستم کے تعلق سے بڑی نصیحت آمیز اور بصیرت افروز تعلیمات و ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں جن میں بڑی شدت و تاکید کے ساتھ ظلم و زیادتی سے لوگوں کو منع فرمایا گیا ہے :

’’حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اس کو حرام ٹھہرایا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘

’’ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص ظالم کو طاقت پہنچانے کیلئے اس کے ساتھ چلتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

 (مسلم شریف، مشکوٰۃ المصابیح)

’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں صحیح ہے لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی کیسے مدد کروں ؟ فرمایا اس کو ظلم سے باز رکھو یا فرمایا اس کو روکو کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس طرح اسلام نے ظلم کا سدباب کرنے کے لئے بڑی سخت ہدایت و نصیحت فرمائی ہے اس لئے کہ اگر ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے تو معاشرہ میں ظلم و زیادتی عام ہو جاتی ہے، غلط عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں اور جرائم میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے اور پورے انسانی سماج کا امن و امان اور محبت وہمد ردی کا ماحول تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔

کفر و شرک اسلامی شریعت اور اس کے دستور میں سب سے بڑا گناہ و جرم ہے۔ لیکن اس گناہ و جرم کے مرتکبین کو بھی اسلام نے انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا ہے۔ ان کے لئے بھی بنا کسی فرق و امتیاز کے حقوق کی خاص رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے یہاں تک کہ غریبوں ، مسکینوں اور مفلسوں کی مالی اعانت، پریشاں حالوں و مجبوروں کی مدد کے سلسلے میں مسلم و غیر مسلم کی کوئی قید نہیں رکھی ہے بلکہ سب کے ساتھ یکساں حسن سلوک سے پیش آنے کی نصیحت کی گئی ہے اور انسانیت کے ناطے تمام ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا حکم دیا گیا ہے۔

 رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

’’جس نے کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کیا جس سے معاہدہ ہو چکا ہو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے محسوس ہوگی۔‘‘(صحیح بخاری)

’’خبردار! جس شخص نے کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کیا یا اس کی عیب جوئی کی یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس سے کام لیا اور اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے لی تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف رہوں گا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والفئی)

مختصر یہ کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے انسانی حقوق متعین کرنے میں کوئی جانب داری یا حق تلفی سے ہرگز کام نہیں لیا ہے بلکہ ان کے مال، خون اور عزت کو مسلمانوں ہی کی طرح محترم قرار دیا ہے اور مسلمانوں کی طرح ان کو بھی مذہبی، سماجی و معاشی اور نجی معاملات میں مساوات کا حق دیا ہے۔

 انسانی معاشرہ میں ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ کس طرح کا برتائو کرنا چاہئے، ملنے جلنے اور اٹھنے بیٹھنے کا کیا انداز ہونا چاہئے اور کس طرح بات چیت کرنی چاہئے، اس تعلق سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ان تمام صورتوں میں اخوت، بھائی چارہ اور دوستانہ و ہمدردانہ تعلقات استوار کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اور اسی جذبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے باہمی ملاقات، اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت کا انداز اپنانے کا سبق دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:

’’مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ (الحجرات:۱۰) ’’اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘ (التوبہ: ۷۱)۔ کلامِ الٰہی کی ان آیات سے بخوبی ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خواہ وہ کسی رنگ و نسل کا ہو اور کسی بھی ملک کا باشندہ ہو، دوسرے مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ اپنے بھائی اور دوست جیسے حسن سلوک سے پیش آئے کیونکہ وہ جملہ مسلمانوں کا دینی و ایمانی بھائی اور دوست ہے۔

 قرآن مقدس کے علاوہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں اخوت و ہمدردی کے ساتھ، مل جل کر رہنا چاہئے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے رنج و تکلیف کا احساس ہونا چاہئے اور مشکل وقت میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ نبی ٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

 ’’مسلمان مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کیلئے سہارا بنتا ہے۔ پھر آپؐ نے مثال دیتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں ۔ یعنی مسلمانوں کو اس طرح مل جل کر رہنا چاہئے کہ وہ مصیبت و پریشانی کے حالات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں ۔‘‘ (صحیح بخاری)

 ’’تمام مسلمان ایک آدمی کی طرح ہیں ، اگر آنکھ دکھتی ہے تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے، اگر سر میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم بے چینی اور پریشانی کا احساس کرتاہے۔‘‘(صحیح بخاری)

 اسلامی نقطۂ نظر سے انسانی معاشرہ میں اخوت و ہمدردی کا ماحول قائم کرنا کتنا اہم اور ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس کو ایمان کی تکمیل اور مسلمان کی بھلائی کا سبب قرار دیا ہے۔نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

 ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان نہ لائو اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الایمان)۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)

  غالباً یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایک انسان کے دوسرے انسان پر جو سماجی حقوق اور اخلاقی احکام و آداب متعین کئے ہیں ، مثلاً ملاقات، سلام، مصافحہ، معانقہ، مزاج پرسی، قبولِ دعوت اور جنازہ میں شرکت وغیرہ، ان میں بھی اس کو پیش پیش رکھا ہے اور ان کا یہی مقصد بیان کیا ہے کہ ان سے باہمی محبت وہمدردی، بھائی چارگی، انسان دوستی اوررواداری کو فروغ ملتا ہے۔ اسی طرح اسلام دنیا کے غیر مسلموں کے ساتھ بھی محبت اور انسان دوستی کی تعلیم دیتا ہے۔(جاری)

29دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islam-treating-fundamental-human/d/131419

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..