غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
2 اگست 2024
اس تحریر میں ہم علم
تفسیر و حدیث کے ممتاز اسکالر علامہ غلام
رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی تحقیق کو اجمالا
پیش کریں گے جس سے یہ معلوم ہوتا
ہے کہ آخر ایسے ماحول میں جبکہ جنگی قیدیوں کو
غلام اور لونڈی بنانے کا رواج عام
تھا اسلام نے بھی کیوں اسے جائز رکھا اور کیا موجودہ دور میں بھی اسلامی نظریہ کے
مطابق جنگی قیدیوں کو غلام یا لونڈی بنانے
کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ علامہ سعیدی نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم ج ۳ اور ج ۵ میں قرآن و حدیث کی
روشنی میں جو تحقیق پیش کی ہے اس سے ثابت
ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں جنگی قیدیوں کو غلام یا لونڈی بنانا جائز نہیں ۔اب یہ
سوال کہ کیا جنگی قیدیوں کو غلام بنانا
مباح تھا یا واجب ؟ مباح کا مطلب یہ ہے کہ
جس کے نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں اور واجب کا مطلب اسلام کا وہ حکم ہے جسے کرنا
ضروری ہے اور نہ کرنے پر سخت گناہ ہے
۔ علامہ سعیدی کی تحقیق سے یہ بات بھی
ثابت ہوتی ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام یا لونڈی بنانا مباح تھا واجب نہیں تھا اور
یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ یہ معاملہ سیاسی بصیرت کے پیش نظر مباح
تھا جبکہ قرآن کریم میں کہیں بھی انہیں
غلام یا لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ انہیں فدیہ لیکر یا بلا فدیہ آزاد
کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر احادیث صحیحہ سے
یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں کو فدیہ
لیکر یا بلا فدیہ رہا کرکے ایک عظیم مثال پیش کی جو کہ قرآن کریم کے صریح حکم کے
موافق ہے ۔
اسلام نے بھی جنگی قیدیوں
کو غلام بنانا کیوں جائز رکھا تھا؟
اس سوال کے جواب میں
پاکستان کے مشہور محقق ، علم تفسیر و حدیث کے ماہر ، علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے
ہیں:
’’غلاموں کے بارے میں اسلام نے جو احکام دیے ہیں ان کا مطالعہ کرنے
کے بعد ہر شخص پر یہ واضح ہوگا کہ اسلام کی نظر میں انسان کو انسان کا غلام بنانا
ایک ناپسندیدہ فعل ہے ۔ چونکہ اسلام سے پہلے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کا ایک عام
دستور تھا اور قیدیوں کے تبادلہ میں یا انہیں احسان کے طور پر رہا کرنے کا رواج
نہیں تھا ، اس لیے اسلام نے قیدیوں کے غلام بنانے کو اباحت کے درجہ میں جائز رکھا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ دو اور صورتیں بھی بیان کر دیں کہ مال کے بدلہ میں یا مسلمان
قیدیوں کے تبادلہ میں جنگی قیدی آزاد کرنے دیے جائیں یا بطور احسان بلا معاوضہ
جنگی قیدی چھوڑ دیے جائیں ۔ اس سلسلے میں تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی کافر ملک نے
مسلمان قیدیوں کو غلام بنایا ہو تو مسلمانوں کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ کافر ملک کے
جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیں کیونکہ ( وجزاء سيئة سيئة مثلها ) یعنی برائی کا بدلہ تو اسی کی مثل برائی ہے ۔
سورہ شوری ۴۰) اور اگر کافر ملک
نے مسلمان قیدیوں کو غلام نہ بنایا ہو بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو قید کر رکھا ہو
اور ان کی رہائی کے عوض وہ اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں تو تبادلہ
میں جنگی قیدی چھوڑ دینے چاہیے ۔ اور اگر کافروں نے مسلمان قیدیوں کو تبرعا بلا
معاوضہ چھوڑ دیا ہو تو ان کی بہ نسبت مکارم اخلاق سے متصف ہونے کے ہم زیادہ لائق
ہیں ۔ اس لیے ایسے موقع پر ہمیں بھی ان قیدیوں کو احسان اور تبرع کے طور پر بلا
معاوضہ چھوڑ دینا چاہیے ۔ اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ اسلام میں جنگی قیدیوں کو
لونڈی اور غلام بنانے کی عام اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو ایک ضرورت میں بوجہ مجبوری
جائز کیا گیا ہے ۔ ‘‘ (شرح صحیح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی ج ۳ ص ۵۱)
کیا موجودہ دور میں بھی
جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانا جائز ہے ؟
مذکورہ سوال کا جواب دیتے
ہوئے علامہ سعیدی لکھتے ہیں:
’’جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانا لازمی اور حتمی حکم نہیں ہے
بلکہ یہ امیر کی رائے اور صواب دید پر موقوف ہے اور اس کی اجازت اس لیے دی گئی تھی
کہ پہلے دنیا میں عام جنگی چلن یہی تھا کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے جنگی قیدیوں کو
لونڈی اور غلام بنا لیتی تھی اس لیے اسلام نے بھی یہ اجازت دی کہ اگر کوئی قوم
مسلمانوں کے جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بناتی ہے تو مسلمان بھی اس قوم کے جنگی
قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنا لیں کیونکہ ( وجزاء سيئة سيئة مثلها ) یعنی برائی کا بدلہ تو اسی کی مثل برائی ہے ۔
سورہ شوری ۴۰) لیکن
اب جبکہ دنیا سے غلامی کی لعنت ختم ہو چکی ہے اور کوئی قوم دوسری قوم کے جنگی
قیدیوں کو لونڈی اور غلام نہیں بناتی تو اب کسی مفتوح قوم کے جنگی قیدیوں کو لونڈی
اور غلام بنانے کی کوئی وجہ نہیں ہے اس لیے اب جنگی قیدیوں کو (قرآن کریم کی آیت
’’فاما منا بعد و اما فداء‘‘ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے فدیہ لے کر یا بغیر فدیہ کے
احسانا اور امتنانا چھوڑ دینا چاہیے۔ اور چونکہ اسلام انسانیت کے اعلی اقدار کا
داعی ہے اور عدل و احسان کا نقیب ہے اور حسن عمل اور کار خیر میں کافروں سے آگے
ہے اس لیے یہ کہنا بعید نہیں کہ جب فریق مخالف جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام
بنانا روا نہیں رکھتا تو مسلمانوں کے لیے بدرجہ اولی ان کے جنگی قیدیوں کو لونڈی
اور غلام بنانا جائز نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں پہلے سے بنائے ہوئے
لونڈیوں اور غلاموں کے متعلق احکام تو بیان کیے گئے ہیں لیکن جنگی قیدیوں کو لونڈی
اور غلام بنانے کی کہیں ہدایت نہیں دی ۔ اس کے بر خلاف ان کو فدیہ لیکر یا بلا
فدیہ رہا کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اور ہر چند کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
وقت کے جنگی چلن کے مطابق (بعض روایتوں کے مطابق) جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام
بھی بنایا تھا لیکن آپ نے بدر کے تمام جنگی قیدیوں کو رہا کرکے حسن عمل کی مثال
قائم کی اور بعض کو فدیہ لیکر رہا کیا اور بعض کو بلا فدیہ رہا کیا اور (قرآن
کریم کے حکم ) ’’فاما منا بعد واما فداء‘‘ پر پورا پورا عمل کیا ۔ بلکہ میں یہ
کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانا
رخصت پر عمل ہے اور انہیں فدیہ لیکر یا بلا فدیہ رہا کردینا عزیمت پر عمل ہے
جیساکہ آیت کریمہ سے ظاہر ہے :
وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ
سَيِّئَةٌ مِّثْلُـهَا
ۖ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ
فَاَجْرُهٝ
عَلَى اللّـٰهِ
ۚ اِنَّهٝ
لَا يُحِبُّ الظَّالِمِيْنَ
ترجمہ: ’’اور برائی کا
بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پس جس نے معاف کر دیا اور صلح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے
ذمہ ہے، بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (سورہ شوری ۴۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام
بناکر ( وجزاء سيئة سيئة مثلها ) یعنی
برائی کا بدلہ تو اسی کی مثل برائی ہے‘‘ پر عمل کیا اور انہیں آزاد کرکے فمن عفا
و اصلح (یعنی جس نے معاف کر دیا اور صلح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے) پر عمل
کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتداء جنگی قیدیوں کو رہا کرنے سے اختلاف کیا تھا
اور بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بالآخر نور رسالت ان پر
غالب آ گیا اور سواد عراق کے جنگی قیدیوں کو انہوں نے نہ قتل کیا نہ لونڈی نہ
غلام بنایا بلکہ ان سے جزیہ لیکر ان کو اہل ذمہ قرار دیا ۔ اسی واقعہ سے فقہائے
اسلام نے یہ استدلال کیا ہے کہ جنگی قیدیوں سے جزیہ لیکر ان کو اہل ذمہ بنانا جائز
ہے ۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں
:
إن شاء تركهم أحرارا ذمة
المسلمين لما بينا من أن عمر فعل ذالك في أهل السواد
یعنی ’’اور اگر مسلمانوں
کا امیر چاہے تو جنگی قیدیوں کو آزاد چھوڑ دے اور انہیں ذمی بنادے جیساکہ حضرت
عمر نے سواد عراق کے جنگی قیدیوں کے ساتھ معاملہ کیا تھا َ۔ علامہ بابرتی نے بھی
یہی لکھا ہے ۔‘‘
پھر علامہ غلام رسول
سعیدی مزید لکھتے ہیں:
’’ان دلائل سے یہ ثابت ہو گیا کہ ابتدائے اسلام میں جنگی قیدیوں کو
لونڈی بنانا اور غلام بنانا اس زمانہ کے مخصوص حالات کی بنا پر معمول تھا اور بعد
میں اس کو ترک کر دیا گیا اور اب جبکہ تمام دنیا میں جنگی قیدیوں کو لونڈی اور
غلام بنانے کا طریقہ متروک ہو چکا ہے بلکہ سرے سے غلامی کی لعنت ختم ہو چکی ہے اور
انسان کو غلام بنانا اب معیوب سمجھا جاتا ہے تو اب جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام
بنانے کے جواز کو اسلام کے ساتھ نتھی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ اسلام نے جنگی
قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانے کا کہیں حکم نہیں دیا ۔ اس کے جواز کو فقہا نے بعض
جزوی واقعات سے مستنبط کیا ہے اور یہ واقعات اخبار آحاد سے ثابت ہیں جو زیادہ سے
زیادہ ظنیت کا فائدہ دیتے ہیں ۔ اس کے بر خلاف جنگی قیدیوں کو فدیہ لیکر یا بلا
فدیہ رہا کرنا قرآن مجید کا حکم قطعی ہے ۔ لہذا بعض جزوی اور ظنی واقعات کی بنا
پر قرآن مجید کی نص قطعی کو ترک کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا عقل اور اصول کے خلاف
ہے ، جبکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی
قیدیوں کو فدیہ لیکر یا بلا فدیہ رہا کیا ہے تو انہیں احادیث پر عمل کرنا چاہیے جو
قرآن مجید کے صریح حکم کے مطابق ہیں اور جو احادیث اس حکم کے خلاف ہیں ان کی
توجیہ ہم بیان کر چکے ہیں اور اب جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانے کی وجہ باقی
نہیں رہی اس لیے اب اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ۔ ‘‘
(شرح صحیح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی، ج ۵ ، کتاب الجہاد ۳۳۵ تا ۳۳۶ )
تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ
اسلام نے جنگی قیدیوں کو غلام یا لونڈی
بنانے کی اجازت صرف ایک سیاسی صورتحال کے پیش نظر دی ، اور اسے امیر سلطنت کی رائے
اور صوابدید پر موقوف رکھا ، لیکن اسلام نے قرآن اور احادیث صحیحہ میں کہیں بھی
جنگی قیدیوں کو غلام یا لونڈی بنانے کو فرض یا واجب قرار نہیں دیا ۔ سیاسی صورتحال
کی توجیہ اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ چونکہ جنگی قیدیوں کو غلام یا لونڈی بنانے
کا چلن عام تھا اور دشمن کی طرف سے بھی مسلمانوں کو غلام بنانے کا رواج تھا ، اسی
کے پیش نظر اسلام نے اس صورت کو امیر سلطنت کی رائے اور اس کے اختیار کی حد تک
موقوف رکھا کہ اگر اسے جنگی قیدیوں کو آزاد چھوڑنے میں کسی طرح کے فتنے کا اندیشہ
یا فساد کا خوف ہوتا تو وہ اسے غلام بنا لیتا ۔ لیکن غلام یا لونڈی بنانے کی صورت
میں بھی اس پر لازم تھا کہ وہ ان کے حقوق کا خیال رکھے ۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کو حکما
واجب قرار نہیں دیا ۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو یا تو فدیہ لیکر بلا
فدیہ آزاد کر دیا جائے۔ اب چونکہ غلامی کے چلن کی لعنت ختم ہو گئی اس لیے انہیں
غلام یا لونڈی بنانے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اسلام حسن اخلاق میں
دوسروں سے کہیں آگے ہے ۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism