حسینہ عارف کاظمی
5 مئی 2023
خواتین انسانی معاشرے کا
ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ جبکہ زمانہ جاہلیت میں جزیرۃ العرب میں عورت
کیلئے کوئی قابل ذکر حقوق نہیں تھے۔ عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اس کو
معاشرہ میں زندہ بھی رہنے کا حق بھی نہیں تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام
ناپسندیدہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا
ہے
’’اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ
ہمارے مَردوں کے لئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کردیا گیا ہے، اور اگر وہ
(بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عنقریب
وہ انہیں ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے
والا ہے۔‘‘ (سور ۃ الانعام:۱۳۹)
یہی نہیں بلکہ عورت کی
حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا
جاتاتھا۔ اس لئے وہ لوگ لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن
کردیا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرزِ عمل کی عکاسی یوں کی گئی ہے:
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے
تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا
ہے اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے
ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دَبا دے (یعنی زندہ درگور کر
دے)، خبردار! کتنا بُرا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ النحل: ۵۹۔۵۸)
اس آیت مبارکہ میں اللہ
تعالیٰ نے دورِ جاہلیت کی اس غلط رسم کو بیان فرمایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ اسی
طرح اسلام سے قبل دُنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہم
اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے
محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی،
رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی دیگر تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی
حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا مگر اسلام نے اس ناانصافی کو روکا اور عورت
کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا
واضح تصور پیش کیا۔ اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ
جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا اور عورت کو وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ
مستحق تھی۔
اسلام میں عورت کا مقام و
مرتبہ
اسلام نے عورت کو مختلف
نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان تسلیم کرنے کی ترغیب دی
اور عورت کو مرد کے مساوی درجہ دیا۔ اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب،
جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرہ میں اس کو مقام و مرتبہ دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے، ہمیشہ
عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی
وجہ ہے کہ دُنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام کو عورت کیلئے سیکڑوں قانون بنانے پڑے
اس کے باوجود عورت کو اسلام کے سوا کہیں اور اپنے حقوق نہیں ملے۔
عصر حاضر کی جدید علمی
تہذیب نے اسے ایک اٹل حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔لیکن جہاں عورت کا وجود مرد کی زندگی
کے نشو و ارتقاء میں ایک حسین اور مؤثر محرک تھا، وہاں مردوں نے عورت کو ہمیشہ
اپنی عیش کوشی اور عشرت پرستی کا ادنیٰ حربہ اور ذریعہ تصور کیا اور یوں معاشرے
میں اس کی حیثیت ایک زر خرید کنیز کی سی بن گئی۔ اسلام نے عورت کو وہ حیثیت عطا کی
جس سے وہ معاشرہ میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اللہ
تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا۔ اسی طرح
انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک
جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھران دونوں میں سے بکثرت مردوں اور
عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘ (سورۃ النساء:۱)
اسلام کی یہ شان بھی
ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ کے ہاں نیک عمل کا اجر دونوں کیلئے برابر قرار پایا ہے کہ
جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی، اس کو پاکیزہ زندگی
اور جنت میں داخلے کی خوش خبری ملے گی، ارشاد ربانی ہے:
’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو
ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے،اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی)
عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔‘‘ (النحل:۹۷)
دنیا و آخرت میں اللہ
تعالیٰ نے اپنی رضا اور پاکیزہ زندگی عطا کئے جانے کی خوشخبری کو عمل صالحہ کے
ساتھ مشروط کیا، جس طرح دوسرے مقام پر عملِ صالحہ کو جنت کے داخلے اور رزقِ کثیر
کے ساتھ مشروط کیا۔ ارشاد فرمایا:
’’جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائیگا مگر صرف اسی قدر،
اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل
ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائیگا۔‘‘ (سورۃ المومن: ۴۰)
اس طرح دین اسلام نے مرد و
عورت کو برابر کا مقام عطا فرمایا بلکہ عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی
قدیم اور جدید تہذیب نے نہیں دیا۔ کیا مسلمان ان حقائق کو دل سے مانتے ہیں؟ کیا
اپنے معاشرہ میں عورت کو مقام و مرتبہ دیتے ہیں؟
05 مئی 2023 ،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism