غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
قسط دوم
20 جنوری 2023
خلع کے جواز اور عدم جواز
کی صورتوں پر ثبوت
خلع کے جواز کا ثبوت قرآن
مجید کی اس آیت میں ہے : (فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ فَلاَ
جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ) ترجمہ ‘‘پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں
اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے ، سو (اس صورت میں) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی
(خود) کچھ بدلہ دے کر (اس رشتہ زوجیت سے) آزادی لے لے ’’۔ (سورہ بقرہ ۲:۲۲۹)
بدلہ دے کر رشتہ زوجیت سے
آزادی لینے کے عمل کو ہی خلع کہا جاتا ہے ۔ آیت کریمہ غور کرنے سے صاف عیاں ہے کہ
خلع کی جواز کی شرط متعین ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ جب میاں بیوی دونوں اللہ کے حدود
کو قائم نہ رکھ سکیں یعنی ایک دوسرے کے تئیں مقررہ حقوق کو ادا کرنے سے جب دونوں قاصر
ہوں تو ان کے لیے خلع میں کوئی گناہ نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ بلا ضرورت شرعی خلع لینا
ممنوع ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے عام حالات میں خلع کو مکروہ کہا ہے۔
مذکورہ آیت کی تفاسیر اور
کتب فقہ کے مطالعے کی روشنی میں راقم الحروف وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا کرنے کی صورت میں اللہ
کے حدود سے تجاوز کرنے کی نوبت آجائے تو دونوں کے لیے جھگڑے کی نوبت کے تمام ممکنات
سے بچنے کے لیے ایک دوسرے سے خلاصی اور آپسی ذمہ داریوں اور حقوق وفرائض سے یکبارگی
چھٹاکارا پانے کے لیے طلاق یا خلع کے ذریعہ آزادی دینے یا پانے کا اختیار ہے۔ یاد
رہے کہ طلاق کا حق مردوں کو فطری طور پر ملا ہوا ہے اور عورتوں کو خلع لینے کی مانگ
کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اگر نکاح کے وقت مرد اگر عورت کو طلاق تفویض
کرتا ہے تو اس صورت میں عورت بھی طلاق کو اپنے اوپر نافذ کرنے کی مالکہ بن جائے گی
مگر جتنی طلاق مرد تفویض کرے گا عورت اتنی طلاق کی ہی مالکہ بنے گی، اگر ایک طلاق کا
حق ملا ہے تو عورت ایک طلاق کو ہی نافذ کرنے کی مالکہ بن پائے گی، اگر دو یا تین تو
اسی طرح دو یا تین کی مالکہ بنے گی۔ یہ حقوق من جانب اللہ متعین ہوئے ہیں اور ان کے
بتائے علم سے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے احکامات بیان فرمائے
ہیں، جن کی روشنی میں فقہائے کرام نے بیان کیا ہے کہ دوران خلع اگر نافرمانی و ظلم
و زیادتی مرد کی جانب سے ہوئی ہو تو اسلام نے ایسے ظالم و نافرمان مرد کے لیے اس بات
کو مکروہ بنا دیا ہے کہ وہ عورتوں کو خلع دیتے وقت بدل خلع کے طور پر کچھ مال کا تقاضا
کرے مگر پھر بھی جائز تو بنا دیا ہے کہ عورت ایسے مکروہ عمل کرنے والے مرد سے نجات مانگ سکتی ہے چاہے تو
اسے کچھ مال ہی دینا پڑ جائے ۔
خلع کے جواز کا ثبوت اس حدیث
پاک سے بھی ملتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (إِنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، مَا
أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ، وَلٰکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الإِسْلَامِ.
فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَہٗ.
قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اقْبَلِ الْحَدِیقَةَ
وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَۃً) ترجمہ: حضرت ثابت بن قیس کی بیوی حضورنبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسول اللہ! میں کسی بات
کی بنا پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ اُن کے اخلاق سے اور نہ اُن کے دین سے،
لیکن میں مسلمان ہو کر احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟
وہ عرض گزار ہوئیں: جی ہاں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا باغ دے دو اور اُن سے ایک طلاق لے لو۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الخلع
و کیف الطلاق فیہ، 5: 2021، رقم: 4971)
مذکورہ حدیث کے الفاظ ’اسلام کے بعد کفر میں داخل ہونے کو ناپسند
کرتی ہوں‘ کا مطلب ہے کہ اسلام لانے کے بعد
حضرت ثابت بن قیس کی بیوی کو یہ بات ناپسند
تھی کہ اسلام کے منافی کوئی کام ہو۔ وہ بیوی کی حیثیت سے اپنے مذکور شوہر کی نافرمانی
کرنے اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کو اسلام کے منافی عمل سمجھتی تھیں ، یہی وجہ تھی
کہ انہوں نے خلاف شرع کام کرنے سے بچنے کے
لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلع کے مسائل پوچھنے گئیں اور پھر اس علم سے بہرہ
ہر ہوئیں کہ اگر انہیں اللہ کے حدوو سے تجاوز کرنے کا اندیشہ ہو یا پھر کسی جانب سے
حقوق الزوجین ادا نہ ہونے کا یقین ہو تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ خلع اور عوض بالمال کے ذریعے ان خطرات سے نجات پا
لیں ۔
خلع کے جواز اور عدم جواز
کی شرط
مال کے بدلے طلاق لینے کے
عمل کو ہی خلع کہتے ہیں جس کے جواز کا ثبوت مذکورہ بالا آیت اور حدیث سے ظاہر ہے ۔ لیکن یہ یاد رکھنا
ضروری ہے کہ خلع کے جواز کے لیے شریعت نے ایک شرط متعین کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب دونوں
کو یقین ہو جائے ایک دوسرے کے حقوق کو ادا نہ کرکے اللہ تعالی کے حدود سے تجاوز کریں
گے ۔مذکورہ شرط کے نہ پائے جانے کی صورت میں ، یعنی بلا وجود شرط شرعی خلع
لینا جائز نہیں ۔ اس بات کا علم مذکورہ حدیث سے بھی حاصل ہوتا ہے : رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے بلا جواز شرعی خلع سے منع
فرمایا ہے ۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: أَیُّمَا امْرَأَةٍ
سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَیْهَا رَائِحَةُ
الْجَنَّۃِ.
ترجمہ: جس عورت نے بھی اپنے
شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
(ترمذی، الصحیح، کتاب الطلاق، باب ما جاء فی المختلعات، 3: 493، رقم:
1187)
(جاری)
…………
غلام غوث صدیقی نیو ایج اسلام
کے مستقل کالم نگار ، علوم دینیہ کے طالب اور ہندی ، انگریزی ، اردو کے مترجم ہیں ۔
------------
Urdu Article: What Does Islam Think Of The Expanding Trend Of Khula
by Muslim Women? Part -1 خلع کا بڑھتا چلن مگر دین اسلام کیا کہتا ہے ؟
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism