New Age Islam
Fri Apr 25 2025, 10:12 AM

Urdu Section ( 24 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam and Democracy اسلام اور جمہوریت

ابھے کمار

23 جولائی،2024

اسلام کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں کو پیدا کرنے میں برطانوی امریکی مؤرخ برنارڈ لیوس کااہم کردار رہاہے۔ سال 2018 میں ان کاانتقال ایک سو ایک سال کی عمر میں ہوا۔ اپنے طویل تعلیمی کریئر کے دوران،اس مستشرق مصنف نے لاتعداد کتابیں لکھی ہیں اور ان کے سینکڑوں مضامین آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں کو امریکی اقتدار بہت غو ر سے پڑھتا تھا اور ان پر عمل بھی کرتا تھا۔ آسان لفظوں میں کہیں تو برنارڈلیوس نے اسلام کا مطالعہ ارباب اقتدار او رطاقتور لوگوں کے نقطہ نظر سے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان جیسے ایک باصلاحیت محقق سچائی کو بیان کرنے میں قاصر رہا۔ اس نے اسلام کے تئیں پوری دنیا میں کنفیوژن او ران کے خلاف تعصب پیدا کیا۔ یاد رہے کہ تہذیبوں کے مابین تصادم کا مفروضہ بھلے ہی سموئیل پی ہنٹنگٹن نے دیا ہو، مگر اس کے پیچھے بھیبرنارڈلیوس کو منفی سوچ کا م کررہی تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، دنیا میں جس طرح اسلام کو نشانہ بنایا گیاہے او راسے تشدد اور دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے اس میں برنارڈلیوس اور ان کے شاگرد مصنفوں کا بڑا رول رہاہے۔برنارڈلیوس کی تحریروں نے بھی اسلام کولبرل جمہوریت کے خلاف کھڑا کیاہے اور مسلم معاشرے کے رجعت پسندانہ عناصر کو اس سماج کا ترجمان بتلایا ہے۔

گہرائی سے دیکھا جائے تو برنارڈلیوس اور ان جیسے مستشرقینکی تحریروں کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ دین اسلام کو ایک منفرد مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ان میں یہ بتانے کی ہمت نہیں ہے کہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے بنیادی اصول بہت حد تک ملتے جلتے ہیں۔ اسی طرح مسلم اور غیر مسلم مشاعرے میں روشن خیال اور رجعت پسند دونوں طرح کے گروپ پائے جاتے ہیں، مگر برنارڈلیوس کو مسلم معاشرے میں مذہبی جنون کے علاوہ او رکچھ نہیں دکھتا۔ انہیں وہاں مزدور، کسان اور خواتین کی لڑائیاں بالکل بھی نہیں دکھتیں۔ مسلم معاشرے کے اندر مساوات کے لئے چل رہی لڑائیوں سے بھی انہیں کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔استعماری طاقتوں نے مسلم ممالک کا کس حد تک استحصال کیاہے او رجمہوری اقدار پر چوٹ کی ہے، یہ برنارڈلیوس کی تحریروں میں پوری طرح غائب ہے۔ برنارڈلیوس او ران جیسے دیگر مستشرقین کاہدف یہی ہوتاہے کہ وہ مسلم معاشرے کو یہودیت، عیسائیت او رمغربی تہذیب کے بگاڑ کے طور پر پیش کریں اور ان کے مابین موجود رائی جیسے اختلاف کو پہاڑ جیسا بناکر پیش کریں۔ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے والے مصنفین کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہودیوں، عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان تنازعہ کی تاریخ بہت ہی چھوٹی ہے، جب کہ ان کے درمیان تعاون، ہم آہنگی کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ دکھ کاعالم یہ ہے کہ جس فلسطین میں یہودی ارباب اقتدار مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھ کر حملہ کررہے ہیں، وہ یہ نہیں سمجھناچاہتے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں نے ہمیشہ سے دوستانہ سلوک کیا ہے او رمسلم ممالک میں انہیں تحفظات ملے ہیں، جب کہ ان کے خلاف ظلم مغربی ممالک میں ہوئے ہیں۔

اسی تعصب کی وجہ سے برنارڈلیوس نے لبرل جمہوریت اور اسلام کے بیچ اختلاف دکھایاہے۔ فروری،1993ء میں انہوں نے ’دی اٹلانٹک منتھلی‘ جرنل میں ’اسلام اینڈ لبرل ڈیموکریسی‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔اپنی تحریر کی شروعات کرتے ہوئے لیوس نے کہا کہ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ترکی کو چھوڑ کر باقی مسلم ممالک میں لبرل جمہوریت نہیں پائی جاتی ہے۔ اپنی دلیل کو ثابت کرنے کیلئے لیوس نے مسلم معاشرے میں اسلامی شدت پسندوں کو ہی پورے معاشرے کا ترجمان بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا کہ ایسے عناصر کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو ہر قسم کے مغربی نظریات جیسے سوشلزم، نیشلزم او رلبرل ازم کو ترک کردینا چاہئے اور انہیں غیر مسلمانوں کے قانون او راداروں کو اپنانے سے گریز کرناچاہئے۔

لیوس نے مزیدکہا کہ ایسے شدت پسند جمہوریت کو بھی اسلامی معاشرے کے لئے مو زوں نہیں سمجھتے۔ یہ ممکن ہے کہ اسلامی معاشرے میں کچھ ایسے افراد یا کچھ ایسی تنظیمیں ہوں، جن کو رائے جمہوریت کے خلاف ہو۔ مگر ایسے عناصر تو ہر سماج میں پائے جاتے ہیں، جو یہ نہیں چاہتے کہ عوام کو بااختیار بنایا جائے۔ خو دمغربی دنیا میں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی طاقت بڑھ رہی ہے، جو جمہوریت او رمساوات کے مخالف ہیں۔مگر کوئی بھی ایماندار اسکالر ایسے عناصر کو مغربی ممالک یا تہذیب کا نمائندہ نہیں مانتا۔ مگر برنارڈلیوس او ران کے چیلو ں نے اسلامی معاشرے کے سب سے شدت پسندعناصر کو ہی اسلام کا ترجمان بنا کر پیش کیا ہے۔ لیوس کو دلیل کی دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے فروغ کے لیے صرف او رصرف’یہودی عیسائی مذہب او ریونانی۔ رومن ریاستی دستکاری اورقانون‘ کو کریڈٹ دینا چاہتے ہیں۔آسان لفظوں میں کہیں تودنیا بھر میں جو کچھ بھی ترقی ہوئی ہے وہ یہودی، عیسائی،یونانی اور رومی معاشرے کے بطن سے ہوئی ہے۔ مگر تاریخی سچائی یہ ہے کہ انسانی ترقی میں پوری دنیا کی خدمات رہی ہیں۔ چین، عرب، ہندوستان، افریقہ او رلاطینی امریکہ جیسے علاقوں سے بھی بہت سارے مثبت کام ہوئے ہیں۔برنارڈلیوس کی تنگ نظری کاعالم یہ ہے کہ وہ ایشیا ء افریقہ او ر لاطینی امریکہ کی خدمت کو سراہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات ہائی اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بھی معلوم ہے کہ یہودیت اورعیسائیت کی جائے پیدائش ایشیا ہی رہی ہے۔ یہودیت، عیسائیت او راسلام کے مابین ہم آہنگی زیادہ اور اختلاف کم ہیں۔جو اختلاف ابھرکر سامنے بھی آئے ہیں، ان کا تعلق سیاست سے زیادہ ہے اور دین سے کم ہے۔ غیر جانبدار مؤرخین کایہ بھی کہنا ہے کہ جس یونان کو مغربی تہذیب کاگہوارا کہا جارہاہے، اسے ایک وقت تک افریقہ کاحصہ سمجھا جاتاتھا او راس کے مراسم ایشیاء کے ممالک سے زیادہ تھے۔ جس نشاۃ ثانیہ کو یورپ کی جدیدیت اور ترقی کا پہلا باب سمجھا جاتاہے اس میں بھی مسلم مصنفوں کا بہت بڑا رول ہے۔انہوں نے ہی یونانی فلسفیوں کی تحریروں کو عربی میں ترجمہ کرکے محفوظ رکھا تھا، جس کا ترجمہ کرکے یورپی مصنف ان کو دوبارہ سے جان سکے۔ میرا یہ ہرگز بھی کہنا نہیں ہے کہ دنیا میں ساری ترقی مسلم ممالک میں ہوئی یا سب کچھ مثبت ایشیا میں ہوا۔میری برنارڈلیوس کے شاگردوں سے یہی اختلاف ہے کہ وہ ایک مخصوص سیاست کے زیر اثر دنیا کے ایک حصے کو مہذب، جمہوری، لبرل اور روشن خیال دکھلاتے ہیں اور باقی دنیا کو غیر مہذب اور جنونی کہہ کر بدنام کرتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے۔ یونان میں جو جمہوری نظام دوہزار سال سے پہلے پایا جاتا تھا، وہ آج کے امریکی او ربرطانوی جمہوریت سے کافی الگ ہے۔ ہندوستان جیسے ملک جو دوسوسال سے نوآباد یاتی نظام کا شکار رہا ہے، وہاں بھی جمہوریت کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ بھارت کی جمہوریت نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ صنعتی ترقی، خواندگی کی بلندشرح، جمہوریت کی شرط نہیں ہے، بلکہ مساوات کی جستجو ہی جمہوریت کی کامیابی کی اصل قوت ہے۔مزدوروں او رخواتین کی تحریکوں نے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔ ان کی لڑائیوں کا اثر تھا کہ ووٹ دینے کے حقوق سب کو فراہم کیے گئے، جو کل صرف مالدار لوگوں تک محدود تھے۔ آج بھی جمہوری نظام میں سب کچھ اچھا نہیں چل رہا ہے اور اس کے سر پر پیسے والے اور اعلیٰ ذات کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے کمزور طبقات او راقلیتوں کے حقوق مارے جارہے ہیں۔ مسلم معاشرے میں بھی جمہوری طاقتیں بہت مضبوط ہیں، مگر دنیا کی استعماری طاقتیں نہیں چاہتیں کہ مسلم معاشرے سے کوئی زمینی اور عوامی لیڈر ابھر ے۔ یہ وجہ ہے کہ مغرب کی بڑی طاقتیں ہمیشہ آمرانہ طاقتوں کو پس پردہ حمایت دیتی ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات کو پورا کرسکیں۔ مؤرخ برنارڈلیوس اور ان کے شاگردوں کی تنگ نظری ان مسلم اور اسلام مخالف مفروضوں کی اہم وجہ ہے۔

23جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islam-democracy/d/132777

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..