لوکس وائٹ،
نیو ایج اسلام
04 فروری 2023
'داعش کی دلہن' کی میڈیا میں
موجودہ تصویر کشی کس طرح مسلم خواتین سے متعلق نقصان دہ اسلامو فوبیائی دقیانوسی تصورات
کو مسلسل پیش کر رہی ہے۔
مقالے میں
زیر بحث اہم نکات:
· یہ 'داعش کی دلہنیں'
یا 'جہادی دلہنیں' کون ہیں؟
· مسلم خواتین اور اسلاموفوبیا
· مسلمانوں کو وحشیوں
اور مظلوموں سے الگ کرنا
...
"یہ گلے شکوے اور آنسو
تھے اور یہ ایک انتہائی جذباتی لمحہ تھا۔ اس وقت آپ جو محسوس کر رہے ہیں اسے الفاظ
میں بیان کرنا مشکل ہے، لیکن بہت بڑی خوشی ہے" کمالے ڈبوسی نے اپنی بیٹی اور پوتے
پوتیوں کو کئی برسوں کے بعد پہلی بار دیکھنے پر ایس بی ایس نیوز کو بتایا۔ لیکن خاندانی
ملاپ کے بارے میں ایک خوشگوار کہانی ہونےکے علاوہ، یہ ایک اور کہانی ہے جو نام نہاد
'داعش دلہنوں' یا 'جہادی دلہنوں' اور ان کے بچوں کی وطن واپسی کے بارے میں آسٹریلیا
کے موقف سے متعلق متنازعہ موضوع کو اجاگر کرتی ہے۔ 2022 کے اواخر تک، 4 خواتین اور
13 بچے شام سے واپس آچکے ہیں، جبکہ اس بارے میں مختلف رائیں پائی جا رہی ہیں کہ آیا
یہ خواتین وسیع تر آسٹریلیائی کمیونٹی کے لیے خطرہ ہیں یا خود انسانی اسمگلنگ کا شکار
ہیں، جن میں سے بہت سے اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ شام کا سفر کرنے کے لیے انہیں دھوکے
سے پھنسایا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ آپ کا یا ایک ہمدرد آسٹریلیائی باشندے کا اس
معاملے پر کیا موقف ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ان خواتین کو یا تو 'خطرناک مسلم جہادی دلہن'
کے طور پر پیش کیا جانا یا اسلام کا شکار ہونے والی خواتین کی دوسری مثال کے طور پر
پیش کیا جانا، ایک ایسے ملک میں مسلم خواتین کے متعلق دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتا
رہے گا جہاں وہ پہلے ہی زیادہ تر اسلامو فوبیائی واقعات کا سامنا کر رہی ہیں۔
یہ 'داعش
کی دلہنیں' یا 'جہادی دلہنیں' کون ہیں؟
جون 2014 میں، اس سے پہلے کہ جنوب
کی طرف بڑھیں اور بغداد کو دھمکیاں دیں، اسلام پسند انتہا پسندوں نے عراق کے دوسرے
سب سے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا۔ اسلامک اسٹیٹ (ISIS) کے نام سے مشہور ان
عسکریت پسندوں نے اسلامی ریاست یا خلافت کا اعلان کیا اور دنیا کی مسلم آبادی پر مکمل
مذہبی اور سیاسی قیادت کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد داعش نے شام میں کمزور سیاسی اور فوجی
گرفت کا فائدہ اٹھایا اور تیزی سے پورے خطے میں اپنے قدم جما لیے۔ لیکن ہمارے مغربی
باشندوں نے اسے مشرق وسطیٰ ایک اور تنازعہ سمجھ کر ایک بار پھر خوشی سے نظر انداز کر
دیا، دریں اثنا داعش کی رسائی پوری دنیا اور آسٹریلیا کے دھوپ والے ساحلی علاقوں تک
سے مغربی جنگجوؤں کو بھرتی کرنے میں کامیاب رہی۔ اگرچہ زیادہ تر مغربی ممالک سے بھرتی
ہونے والے نوجوان تقریبا بیس سال کے اس پاس کے تھے، لیکن داعش میں شامل ہونے والوں
میں تقریباً 18 فیصد خواتین تھیں۔ درحقیقت، 2013 سے 2018 کے درمیان عراق اور شام میں
داعش سے وابستہ کل 41,490 غیر ملکیوں میں سے 4761 خواتین تھیں۔ ان خواتین کو آنے والے
برسوں میں میڈیا میں سنسنی خیز انداز میں ان نوجوان خواتین کے طور پر پیش کیا گیا جو
مغرب میں عراق اور شام کے قتل و غارت گری کے میدانوں میں شامل ہونے کے لیے فرار ہو
گئیں۔ یا تو خواہش مند جہادی شراکت داروں کے طور پر جو ایک نئی خلافت کی تعمیر میں
شامل ہونا چاہتی ہیں، یا پھر اسلامک اسٹیٹ اور اسلام کی 'خیالی زن بیزار' فطرت یا اسمگلنگ
کے شکار کے طور پر۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم آسٹریلیا میں ان خواتین کی یہ تصویر دیکھ
رہے ہیں اور یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح ان خواتین کو اسلام کی 'غنڈی' یا 'مظلوم'
کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور اس سے اسلامو فوبیائی دقیانوسی تصورات کو مزید فروغ
مل رہا ہے جو اس ملک میں مسلم خواتین کے لیے بدستور پریشان کن ہیں۔ میڈیا کی جانب سے
منفی اور غیر متوازن رپورٹنگ کو بھی وسیع پیمانے پر آسٹریلیائی مسلمانوں کے خلاف اسلامو
فوبیا کے واقعات میں اضافہ کا سبب مانا جا رہا ہے۔ یہ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب میڈیا
کی ان تصویروں کو آسٹریلیائی عوام کی روزمرہ کی زندگی میں دہرایا جاتا ہے اور اسے تقویت
دی جاتی ہے، جس کا سبب یا تو آسٹریلیائی مسلمانوں کے تئیں ان کی لاعلمی یا بے حسی ہے۔
اب میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا
کہ شام سے وطن واپسی کے بعد یہ خواتین آسٹریلیا کے لیے خطرہ ہیں یا نہیں۔ شام میں نقل
مکانی کرنے والے کیمپوں میں موجودہ خواتین جہادیوں کے اقدامات اور محرکات کے بارے میں
تشویش کا باعث ہے۔ کیمپوں میں آئی ایس آئی ایس کے نظریات اور اصولوں کو برقرار رکھنے
کے لیے کچھ بنیاد پرست خواتین قتل تک کر رہی ہیں۔ تاہم، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ
ان خواتین پر مسلمان ہونے کی وجہ سے مقدمہ نہیں چلایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا
اپنی تصویر میں مسلسل کچھ بھول رہا ہے۔ یہ میڈیا کی، دانستہ طور پر یا نادانستہ طور
پر، ملزمان کو ان کے مذہب سے الگ کرنے میں ناکامی ہے جس سے آسٹریلیا میں مسلم خواتین
کی مضرت رساں اسلامو فوبیائی دقیانوسی تصورات کی حمایت ہوتی ہے۔ اس لیے اوسط مغربی
باشندوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پہچانیں اور یاد رکھیں کہ ان کا اس انداز میں پیش
کیا جانا ممکنہ طور پر نقصان دہ ہے۔
مسلم خواتین
اور اسلام فوبیا
بدقسمتی سے آسٹریلیا میں بہت سی
مسلمان خواتین اسلامو فوبیا کا شکار ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد مسلمان اسلام
فوبیا سے متاثر نہیں ہیں (بلکہ ہیں)، لیکن ایسا لگتا ہے کہ آسٹریلیائی اسلامی کمیونٹی
میں خواتین خاص طور پر اس کا شکار ہیں۔ بہت سی مسلم خواتین کو ان حالات کا سامنا کرنا
پڑتا ہے جسے 'تین گنا سزا' کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے
والی خواتین ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ہیں۔ مزید برآں، سر ڈھانپنے والی خواتین
اکثر بدسلوکی کا سب سے بڑا نشانہ بنتی ہیں کیونکہ ان کے مذہبی لباس انہیں عوام میں
'مسلمان' کے طور پر نمایاں کرتے ہیں۔ مزید برآں، ایسا لگتا ہے کہ مسلمان خواتین کی
مغربی نگاہوں میں دوہری تصویر ابھری ہے، جس میں سے کوئی بھی آسٹریلیا میں اسلامو فوبیا
کا مقابلہ کرنے میں مددگار نہیں ہے۔ بائنری کے ایک طرف، ہمارے پاس آسٹریلیائی عوامی
مباحثے ہیں جن میں مسلمان خواتین کو (اسلامی زن بیزاری یا نسلی تشدد کا شکار) بنا کر
پیش کیا گیا ہے، جو جبرا سر ڈھانپنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف، خاص طور پر عراق اور
شام میں آئی ایس آئی ایس کے زوال کے بعد سے، پردہ پوش مسلم خاتون کی شخصیت تیزی سے
ایک خطرے کی علامت بنتی جا رہی ہے، جو اب ایک بے بس مظلوم نہیں بلکہ ایک ولن ہے، اور
انتہاپسندوں کے مظالم کی شریک کار ہے۔
یقیناً، اس کا مطلب یہ نہیں ہے
کہ کچھ خواتین ایسی نہیں ہیں جو اسلام کی غلط تشریح کا شکار ہیں، یا یہ کہ مغرب میں
انتہا پسند مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تاہم، مسلم آبادی
انتہائی متنوع ہے، اور میڈیا میں نام نہاد 'داعش کی دلہن' کی تصویر کشی ان انتہاؤں
میں سے کسی ایک یا دوسری کے طور پر ہے جو کہ پریشان کن ہے، خاص طور پر جب کہ ان خواتین
کو عام طور پر مکمل مذہبی لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک تشویش کا باعث ہے کیونکہ
مذہبی لباس پہننے والی خواتین کے اسلامو فوبیا کا شکار ہونے کے امکانات پہلے سے کہیں
زیادہ ہیں۔ ایک بار پھر، یہ کہنا میرے بس میں نہیں ہے کہ آیا یہ 4 خواتین جنہیں حال
ہی میں شام سے آسٹریلیا واپس لایا گیا ہے، قصوروار ہیں یا نہیں۔ اگرچہ ان خواتین کو
قانون کی پاسداری کرنے والی، پرامن، آسٹریلیائی مسلم خواتین سے الگ کرنے کے لیے ان
کی موجودہ صورتحال کی زیادہ ذمہ داری اور باریک بینی سے رپورٹنگ کی جانی چاہیے۔ یہ
اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر کسی بھی ممکنہ اثر کو کم کرنا ہے۔
مسلمانوں
کو وحشیوں اور مظلوموں سے الگ کرنا
واپس آنے والی 'داعش کی دلہنیں'
فی الحال سرخیاں بن رہی ہیں، اور شام کے بے گھر کیمپوں میں تقریباً 40 آسٹریلیائیی
خواتین اور بچوں کو ابھی تک وطن واپس آنا باقی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ابھی کچھ دنوں تک
اور میڈیا میں ان خواتین کو دکھایا جاتا رہے گا اور کچھ دنوں تک اور وہ عوامی گفتگو
کا مرکز بنی رہیں گی۔ تاہم، اس سے میڈیا اور آسٹریلیائی عوام کو ان خواتین کو وسیع
تر مسلم کمیونٹی کے تناظر میں دیکھنے کے ان کے نظریات کو بدلنے کا موقع ملے گا۔ یہ
مسلم خواتین یا تو اسلام کا شکار ہیں یا خود اسلامی غنڈے ہیں، اور مغربی میڈیا کا مسلمانوں
کے بارے میں منفی یا غیر متوازن رپورٹنگ کا رجحان، یہ دونوں اسلامو فوبیا پر اثر انداز
ہونے والی اس صورت حال کے دو عوامل ہیں جو ایک طویل عرصے سے مغربی عوام کے ذہن میں
گھر کیے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ مذہب کو مشتبہ جرائم سے الگ کرنے
پر زور دینا ہے۔ "لیکن داعش اسلامی انتہا پسند ہے!" میں تصور کر سکتا ہوں
کہ آپ میں سے کچھ احتجاج کر رہے ہیں، "اسلام ان کہانیوں کا ایک لازمی عنصر ہے!"
ٹھیک ہے، ہاں اور نہیں۔ اگر یہ خواتین داعش کی طرف سے کیے جانے والے مظالم میں حصہ
دار تھیں، تو یہ ضروری ہے کہ میڈیا اور آسٹریلیائی عوام دونوں اس حقیقت کو تسلیم کریں
اور اس کی تشہیر کریں کہ یہ بنیاد پرست انتہا پسند ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی
نہیں کرتیں۔ مزید برآں، اگر وہ بدقسمتی سے انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئی ہیں، یا انہیں
دھوکہ دیا گیا ہے، تو یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ وہ اسلام کا شکار نہیں ہیں، بلکہ بنیاد
پرست انتہا پسندوں کے جرائم کا شکار ہیں۔ ان کہانیوں سے وسیع تر مسلم کمیونٹی پر کسی
بھی ممکنہ اسلامو فوبیا کے اپر کو دور کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی زبان انتہائی
اہم ہے۔ یہاں تک کہ "داعش کی دلہن" یا "جہادی دلہن" کی اصطلاحات
بھی مددگار نہیں ہیں کیونکہ یہ ان جرائم کو ایک خاص جنس سے جوڑ دیتی ہے، مزید یہ کہ
اس کی وجہ سے شام میں داعش کے مظالم اور آسٹریلیا میں تحفظ کے لیے عوامی تشویش کے بڑھتے
ہوئے جذبات کے ساتھ مسلم خواتین کو جوڑ دیا جاتا ہے، جو ممکنہ شدت پسندوں کی وطن واپسی
سے پیدا ہوتا ہے۔
اگر میڈیا اس تبدیلی کے ممکنہ فوائد
کو پہچان سکتا ہے کہ کس طرح وہ وطن واپس بھیجی جانے والی خواتین اور بچوں کو پیش کرتے
ہیں، تو میں امید کروں گا کہ اس سے ہماری کمیونٹیز میں مسلم خواتین کے خلاف اسلامو
فوبیا میں کسی بھی ممکنہ اضافے کے سد باب کا راستہ پیدا ہوگا، اور اس طرح ایک طویل عرصے سے آسٹریلیائی عوامی میں قائم
اس تصور کو ختم کرنے میں بھی معاون ہو گا کہ مسلم خواتین یا تو اسلامی دقیانوسیت کا
شکار ہیں یا اسلام کی غنڈی ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم بطور ایک آسٹریلیائی شہریوں
کے یہ سمجھیں کہ یہ نقطہ نظر ہمارے درمیان موجود ہے فعال بھی، یا تو ہمارے اپنے ذہن
میں یا اپنے دوستوں اور اہل کنبہ کے ساتھ گفتگو میں، جب اس طرح کے دقیانوسی تصورات
کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ چاہے آپ، ایک ہمدرد آسٹریلیائی کے طور پر، یہ سوچتے ہیں
یا نہیں کہ ان نام نہاد 'داعش کی دلہنوں' کا دوبارہ اس ملک میں خیر مقدم کیا جانا چاہیے،
یہ ضروری ہے کہ ہم سب میڈیا اور عوامی رجحان کو پہچانیں اور ان کی تشہیر جاری رکھیں
جو اسلامو فوبیا کو ختم کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بالعموم مسلم خواتین
اس ملک میں خوش آئند اور قابل تعریف محسوس کریں۔
English
Article: ISIS or Jihadi Brides: Villains or Victims?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism