عبدالرحمن حمزہ ، نیو ایج اسلام
”دنیا کے ہر مدرسے میں یہ پڑھایا جاتاہے کہ قرآن خدا کی طرح ہی غیر تخلیق شدہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن کی کسی بھی آیت کی ؔآفاقیت پر سوال نہیں اٹھایاجاسکتا۔ اور ابد تک ان کاا تباع ضروری ہے۔ اور ہر ہدایت کا مسلمانوں پر ہمیشہ کے لئے اطلاق ہوگا۔ اب اس فہم کے مطابق کوئی بھی شخص جہادیوں کی نیت پر سوال کیسے اٹھاسکتاہے جب وہ سورہ توبہ، سورہ انفال اور دیگر سورتوں میں سے دوران جنگ نازل ہونے والی آیا ت حرب کا حوالہ دیتے ہیں۔ “
”یہ اقتباس جناب سلطان شاہین کی تقریر کا ہے جو انہوں نے 19 نومبر2019 کو جینوا میں اقوم متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی طر ف سے منعقد کی جانے والی کانفرنس میں پیش کی جس کا عنوان تھا، ہندوستانی مسلم علماء داعش پروپیگنڈے کا تو ڑ کرینگے۔ لیکن انہیں لفظی شعبدہ بازیوں سے اوپر اٹھ کر ایک صحیح جوابی بیانیہ کی تشکیل دینی ہوگی جو روایتی اسلامی فقہ پر مبنی جہاد یت کا رد کرے۔ “
میں مسلمانوں کو قعرمذلت سے نکالنے اور ایک بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی کی غرض سے انکے روئیے میں ایک ترقی پسندانہ تبدیلی لانے کے لئے سلطان شاہین کی انتھک محنت کی ستائش کرتاہوں پھر بھی قرآن کے ایک گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ اگر ہم ایمانداری اور سنجیدگی سے مسلم طرز فکر میں کوئی پر معنی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی مخلوقیت یا غیر مخلوقیت کی بحث سے بھی آگے نکلنا ہوگا
سب سے پہلے ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ کیا قرآن واقعی خدا کا کلام ہے یا حضرت محمد ﷺ نے اپنے اصلاحی مشن پر عمل درآمد کے لئے وحی کا استعمال کیا جو ان کے خیال میں غیر مہذب عرب معاشرے کی اصلاح کے لئے ضروری تھا۔ وہ جس دور اور جس ماحول میں رہ رہے تھے اس میں وحی کا دعوی شاید چودہ سو سال پہلے کے ریگستان میں گزر بسرکرنے والے ان پڑھ بدوؤں کے دل ودماغ کو متاثر کرنے کا طاقتور ترین وسیلہ تھا۔ جب تک ہم اس بنیادی مسئلے کو سب سے پہلے بحث و تمحیص کے ذریعہ حل نہ کرلیں تب تک مسلمانوں کے نقطہ نگاہ میں کسی بھی قسم کی اصلاح ممکن معلوم نہیں ہوتی۔ اگر ہم حضرت محمد ﷺ کو اپنے وقت کا ایک عظیم مصلح تسلیم کرلیں تو قرآن کی مخلوقیت اور غیر مخلوقیت کا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔
ہمیں قرآن میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کی قرآن کی وہ آیتیں کسی واقعے سے پیداہونے والی صورت حال کے جواب میں نازل ہوئیں۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ آیتیں لوح محفوظ میں تخلیق کائنات سے پہلے سے تحریر شدہ تھیں جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت کا عقیدہ ہے۔ مثلاً کچھ آیتیں اپنے مخالفین سے لفظی جنگ کے دوران حضرت محمد ﷺ کے بیانات ہیں تو کچھ آیتیں انکے قریبی اصحاب اور انکی ازواج مطہرات کی خواہشات ، تجاویز اور بیانات ہیں جن پر اللہ (یاحضرت محمدﷺ) نے مہر تصدیق ثبت کردی۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔
نوٹ: ان تمام آیتوں کے نزول کے مواقع کا ذکر قرآن کے ذیل میں پڑھائی جانے والی زیادہ تر مستند کتابوں میں موجود ہے جیسے الاتقان فی علوم القران از علامہ جلال الدین سیوطی، تفسیر ابن کثیر وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا مودودی، مولانا شبیر عثمانی اور دیگر مفسرین نے قرآن پر بحث و تمحیص کے دوران ان کے ذکر سے پوری طرح احتراز کیاہے۔ اس کے اسباب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
پہلی مثال: البقرہ: 125
وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى
”اور مقام ابراہیم کو قبلہ کی جگہ بنالو ۔“ یعنی یہاں باربار آؤ۔
عمر بن خطاب نے فرمایا ”میں نے تین باتوں میں اللہ سے اتفاق کیا یا میرے اللہ نے مجھ سے اتفاق کیا ۔ مین نے کہا،”یا رسول اللہ ﷺ میری خواہش ہے کہ آپ مقام ابراہیم کو قبلہ کی جگہ بنا لیں اس پر “ یہ آیت ”مقام ابراہیم کو قبلہ کی جگہ بنالو ۔“ نازل ہوئی۔ پھر میں نے کہا، ”یا رسول اللہ ﷺ نیک و بد سبھی آپ کے گھر میں داخل ہوتے ہیں میں چاہتاہوں کہ آپ امہات المومینن کو حجاب کا حکم دیں۔ اللہ نے وہ آیت نازل کی جس میں حجاب کا حکم دیاگیاتھا۔ اور جب مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے ناراض ہیں تو میں ان کے پاس گیااور بولا ”تم جو کررہی ہو وہ نہ کرو ورنہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تم سے بہتر بیویاں عطا کرے گا‘۔ میں نے آپ ﷺ کی ایک بیوی کو صلاح دی تو انہوں نے کہا ”اے عمر کیا رسول اللہ ﷺ کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو کیا مشورہ دین کہ آپ کو انکی جگہ یہ کام کرنا پڑ رہاہے۔“ تب اللہ نے یہ آیت نازل کی۔“
عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
”اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کو خدا تم سے بہتر بیویاں عطاکرے گا۔“ (66:5)
تفسیر ابن کثیر میں مزید لکھاہے ۔ اس وقت عمر نے کہا۔ ”میں نے کہا یارسول اللہ آپ کو اپنی بیویوں سے کیا تکلیف ہے اگر آپ انہیں طلاق دے دیں تو اللہ آپ کے ساتھ ہے۔ اس کے فرشتے، جبرئیل، میکائیل، میں، ابوبکر اور تمام مومنین آپکے ساتھ ہیں۔“ اکثر جب میں بولتاتھا الحمد للہ مجھے امید ہوتی تھی کہ اللہ میری باتوں کی تائید کرے گا۔ اور پھر متبادل والی آیت نازل ہوئی۔۔ اللہ نے فرمایا ”اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کاخدا انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاکرے گا۔ا ور اگر تم ان کے خلاف ایک دوسرے کی مددگار بنوگی تو اللہ ان کا محافظ ہے اور جبرئیل، میکائیل، اور مومنین میں سے نیک اور پرہیزگار لوگ اور انکے بعد فرشتے ان کے مدد گار ہیں۔
یہ آیتیں ماریہ قبطیہ کے واقعہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔
دوسری مثال: (33:35)
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں،فرما برداری کرنے والے مرد اور فرما بردار عورتیں،راست بازمرداور راست بازعورتیں،صبر کرنے والے مرد اور صبرکرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں،روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں،اپنے نفس کی نگہبانی کرنے والے مرد اور نگہبانی کرنے والی عورتیں،بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے وسیع مغفرت اور بہت بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ (33:35)
شان نزول
خواتین کے لئے خصوصی آیت: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردو ں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا
پھر ایک دن جبکہ میں اپنے بالوں میں کنگھا کررہی تھی کہ آپ ﷺ منبر سے خطاب کررہے تھے۔ میں نے بالوں کا جوڑا باندھا اور اپنے کمرے میں گئی اور باہر کان لگاکر سننے لگی۔ آپ ﷺ منبر سے فرمارہے تھے۔
”اے لوگو بے شک اللہ تعالی فرماتاہے:
” مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، پرہیزگار مرد اور عورتیں، صادق مرد اور عورتیں، صابر مرد اور عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور عورتیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں۔۔ انکے لئے اللہ نے تیار رکھی ہے معافی اور عظیم اجر۔“(33:35)
تیسری مثال: (البقرہ: (97-98)
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ
”کہہ دیجئے اے محمد جو کوئی بھی جبریل کا دشمن ہے بے شک اس نے (جبریل نے) اس کو تمہارے سینے میں اتاراہے اللہ کے حکم سے۔ تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری اور ہدایت اور خوش خبری ایمان لانے والوں کے لئے۔ جو کوئی بھی اللہ کا ، اس کے فرشتوں کا، اس کے پیغمبروں کا، جبرئل کا اور میکائل کا دشمن ہے تو بے شک اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔“ (البقرہ: (97-98)
شان نزول
امام ابو جعفر بن جریر الطبری نے فرمایا ”مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت (البقرہ: (97-98) یہودیوں کے اس دعوے کے جواب میں نازل ہوئی کہ جبریل یہودیوں کے دشمن اور میکائیل ان کے دوست ہیں۔“
بخاری فرماتے ہیں: اللہ کہتاہے ’اے محمد کہہ دیجئے جو کوئی بھی ، اللہ کا دشمن ہے اس کے فرشتوں کا اس کے رسولوں کا جبریل اور میکائیل کا تو بے شک اللہ کافروں کا دشمن ہے۔“
علامہ جلال الدین سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت کی گئی ہے کہ عبدالرحمن بن ابی لیلی نے کہا کہ ایک دن ایک یہودی عمر بن خطاب سے ملا اور بولا۔”جبریل جس کا ذکر تمہارا دوست اکثر کرتا ہے ہمارا دشمن ہے۔“ عمر نے جواب دیا۔ ”جو کوئی بھی اللہ کا دشمن ہے، اس کے فرشتوں کا اس کے رسولوں کا، جبریل اور میکایئل کا دشمن ہے بے شک اللہ کافروں کا دشمن ہے۔“ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ عمر کے الفاظ کی تائید اللہ نے کردی اور یہ آیت نازل ہوئی۔
علامہ سیوطی نے بہت سی آیتوں کا ذکر کیاہے جو در اصل صحابہ کی زبان سے ادا ہوئی تھیں اور بعد میں اللہ کی طرف سے انکی تائید ہوئی اور وہ قرآن کا حصہ بن گئیں۔اس کے علاوہ کئی مثالیں ہیں جہاں وحی کے ذریعہ حضرت محمد ﷺ کو ایک یا دوسری پریشانی یا الجھن سے راحت دے دی گئی ایسے ہی ایک موقع پر آپ ﷺ کی عزیز ترین زوجہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ کہاتھا،”مجھے محسوس ہوتاہے کہ آپ کے خدا کو آپکی خواہشات اور تمناؤں کو پورا کرنے کی بہت جلدی رہتی ہے۔“
چوتھی مثال (البقرہ: 196)
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ
”اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ مکمل کرو اور اگر تمہیں روکا جائےتو ایک ھدی قربانی کرو جس کی تم میں استطاعت ہو۔اور اپنے سر تب تک نہ منڈواؤ جب تک تمہاری ھدی قربانی کی جگہ نہ پہنچ جائے۔ اور تم میں سے جو بھی بیمار ہو، یا سر میں کوئی تکلیف ہو (اور سر منڈوانا ضروری ہو) تو اسے چاہئے کہ وہ روزے یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دے دے ۔“
شان نزول :
بخاری نے روایت کی کہ عبدالرحمان بن اصبہانی نے کہا کہ انہوں نے عبداللہ بن معقل کو کہتے سنا کہ وہ کعب بن اجرہ کے ساتھ کوفہ (عراق) کی مسجد میں بیٹھے تھے ۔ پھر انہوں نے روزے کے فدیہ کے بارے میں پوچھا۔ کعب نے کہا ”یہ خصوصی طور پر میرے معاملے میں نازل ہوئی لیکن عمومی طور پر یہ تمہارے لئے بھی ہے۔مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حالت میں لے جایاگیا کہ جوئیں میرے چہرے پر بڑی تعدا دمیں گررہی تھیں۔رسول ﷺ نے فرمایا۔”مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ تمہاری بیماری اس حد تک پہنچ چکی ہے۔ کیا تم قربانی کرنے کی استطاعت رکھتے ہو۔؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا۔
”تین دن روزے رکھو، یا چھ انسانوں کو کھانا کھلاؤ ہر ایک کو ایک صاع کھانا کھلاؤ اور اپنا سرمنڈوالو۔“
لہذا، یہ ایک خاص معاملے سے اخذ کیا گیا عمومی فیصلہ ہے۔
پانچوی مثال:
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ
”مومنوں میں سے وہ جو بیٹھے رہتے ہیں (گھروں میں) "سوائے ان کے جو معذور ہیں" ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو جہاد کرتے ہیں اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے۔“(4:95(
ہمیں بر وقت وحی کی بے شمار مثالیں قرآن میں ملتی ہیں۔ مذکورہ بالا آیت انہیں میں سے ایک آیت ہے جس میں وحی کے ذریعہ رسول اللہ کو ایک الجھن سے نکال لیاگیا۔
بخاری میں اس آیت کی تشریح یوں ہے:
‘‘ البراء نے روایت کی: یہ آیت نازل ہوئی “لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ”
” مومنو میں سے وہ جو بیٹھے رہتے ہیں (گھروں میں) ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو جہاد کرتے ہیں اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے۔” (4:95(
یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”زید کو بلاؤ اور اس سے کہو کہ تختی اوردوات اور قلم لے کر آئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ ”لکھو، وہ مومن جو بیٹھے رہتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘ اور اسی وقت عمر بن ام مکتوم جو نابینا تھے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بیٹھے تھے۔انہوں نے کہا ”’یا رسول اللہ ﷺ، میرے متعلق آپ کا کیا حکم ہے (اس آیت کے تناظر میں) کیونکہ میں تو اندھا ہوں۔لہذا، مذکورہ بالا آیت کی جگہ مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔ ” لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ” غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ” وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ مومنوں میں سے جو لوگ بیٹھے رہتے ہیں "سوائے ان کے جو معذور ہیں" ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں َ (صحیح بخاری :6:61:512)
مذکورہ حدیث میں واقعات کی ترتیب پر غور کریں:
حضرت محمد ﷺ پرایک وحی نازل ہوتی ہے۔ جو 4:95 کا حصہ ہے۔ حضرت محمد ﷺ اس آیت کو صحابہ کے سامنے تلاوت کرتے ہیں اس میں بعد میں شامل کیا جانے والا ایک چھوٹاسا حصہ" غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ” ) سوائے ان کے جو معذور ہیں) موجود نہیں تھا۔پھر وہ زید کو وحی کی کتابت کے لئے بلاتے ہیں۔ اور زید کے سامنے اس آیت کی قرات شروع کرتے ہیں۔ جولوگ جہاد میں شریک نہیں ہوسکتے وہ جہاد میں شریک ہونے الوں سے کم تر ہیں۔“ ایک نابینا شخص پوچھتاہے کہ اس آیت کا اطلاق اس پر کیسے ہو سکتاہے جبکہ وہ اندھا ہے۔ حضرت محمد ﷺ پر پھربر وقت ایک وحی نازل ہوتی ہے جس میں معذوور اور نابینا افراد کو جہاد سے مستثنی قرار دے دیاجاتاہے۔
مشہور پاکستانی عالم مفتی محمد تقی عثمانی جومولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مفتی شفیع عثمانی کے بیٹے ہیں اپنی کتاب ”قرآن کی وحی کی ترتیب اور پس منظر“ میں لکھتے ہیں کہ قرآن کا سب سے چھوٹا حصہ " غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ” (سوائے انکے جو معذور ہیں) (النساء: 94)ہے جو ایک طویل آیت کا حصہ ہے۔
ان تمام واقعات کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ قرآن میں کون سی آیت اصل (آسمانی) ہے کون سی آیت altered ہے اور کون سی آیت انسانی اضافہ ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم کسی حتمی نتیجے تک پہنچیں ،مناسب ہوگا کہ ہم چندایسے اسلامی احکام پر نگاہ ڈال لیں جس میں حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن اسلام نے کچھ چیزوں کو بعینہ اور کچھ کو معمولی تبدیلی کے ساتھ باقی رکھا کیونکہ یہ چیزیں ما قبل اسلام عرب کے بدو قبائل میں رائج تھیں اور انہیں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
(1) زنا کی سزا: پہلے قر آن نے عورتوں کو عرب سماج کے مطابق تا حیات گھر میں قید کر دینے کا حکم دیا (4:15) بعد میں دوسرے حکم کے مطابق انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا جو کہ تورات کی سزا تھی۔
(2) چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا۔
(3) عورتوں کے ساتھ تشدد: قرآن بیوی کی طرف سے نافرمانی اور زبان درازی کرنے پر شوہر کو اس کی زدوکوب کی اجازت دیتا ہے اگر چہ ضرب ِ شدید یعنی ایسی پٹائی جس سے زخم یا چوٹ آجائے اس سے منع کرتا ہے شوہر کو پٹائی کی اجازت بیوی کو اطاعت پر مجبو ر کرنے کے لئے ہے۔حوالہ: مجموعہ قوانین اسلامی شائع کردہ مسلم پرسنل لاء بورڈ صفحہ 150دفعہ 214
(4) باپ داد کے ذریعہ نا بالغہ کی طے کی ہوئی شادی: اگر باپ یا دادا نے اپنی صوابدید پر خیر خواہی کے ساتھ نابالغہ کا نکاح ایسی جگہ کردیا جو معاشرت میں اس کے ہم پلّہ نہ ہو مثلاً شوہر ان پڑھ گنوار یا جاہل ہو جب کہ لڑکی مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانے سے ہو تو یہ نکاح منعقد بھی ہوگااور لازم بھی رہے گا۔ایسی صورت میں بالغ ہونے پر بھی لڑکی کو نکاح فسخ کرانے کا حق نہیں ہوگا۔لیکن اگر وہ لڑکی نکاح فسخ کرانے پر بضد ہو تو اسے قاضی کے سامنے شوہر کی ظلم و زیادتی ثابت کرنا ہوگی تب قاضی اپنی صوابدید ہر فیصلہ کرے گا کیونکہ اسلام میں نکاح عورت کی غلامی ہے اور نکاح کے بعد شوہر بیوی کے جسم کا مالک ہوجاتا ہے جیسے کہ باندی اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اسی لیے مہر کو اسلام میں مال بضع کہا گیاہے یعنی عورت کی شرم گاہ کی قیمت۔مجموعہ قوانین اسلامی صفحہ 238 دفعہ 323 مع عربی حاشیہ۔( عورت کے جسم کو خریدنے کا رواج اسلام آنے سے پہلے عرب سماج میں موجود تھا)
(5) اگر مرد پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کرلے اور پہلی بیوی اس صدمے کو برداشت نہ کرسکے اور وہ صرف خلع کا مطالبہ کرے تو اس بنیاد پر عورت کو خلع کا حق حاصل نہیں ہے۔
(6) اسلامی قانون قصاص کے معاملے میں کہتا ہے کے اگر کسی مسلمان نے کسی کافرکو قتل کردیا تو بدلے میں اس مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ مقتول کے ورثاء کو دیت لینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اور دیت کی رقم میں بھی بہت تفریق رکھی گئی ہے مثلاً سعودی عرب جہاں اسلامی قانون نافذ ہے وہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مقتول حضرات کی دیت اس طرح ہے۔
مسلمان مقتول کی دیت 100,000ریال
مسلمان عورت اور عیسائی مرد کی دیت 50,000 ریال
عیسائی عورت کی دیت 25000 ریال
ہندو مرد کی دیت 6,666 ریال
ہندو عورت کی دیت 3,333 ریال
(7) مرتد کی سزا قتل یا عمر قید۔ ایک شخص ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوتا ہے اس لئے وہ مسلمان کہلاتا ہے اس میں اس کے شعور کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ باشعور ہونے پر وہ پوری دیانت داری سے اسلام کا مطالعہ کرتا ہے، اپنے ہی بزرگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھتا ہے اور وہ اس مذہب سے مطمئن نہیں ہوتا تو تین دن تک توبہ کا موقع دینے کے بعد اگر وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوتا تو اسے قتل یا عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ یہ عمل آج کی دنیامیں آزادیئ مذہب اور ضمیر کی آزادی کے خلاف مانا جاتا ہے۔
(8) اگر کسی نابالغ لڑکی کا باپ مر گیا اور دادا بھی نہیں ہے تو اس کا چچا یا چچا کا بیٹا اس کا ولی بن جاتا ہے اب اگر اس نابالغ لڑکی کے نکاح کی مجبوری پیش آجائے تو اس کی ماں جس نے اسے پیداکیا وہ لڑکی کے شوہر کے انتخاب کاحق نہیں رکھتی بلکہ اس کے چچا یا چچا کے نہ ہونے کی صورت میں چچا کے بیٹے کو یہ حق حاصل ہوگا۔
(9)نا بالغ بچی کی شادی: اسلام میں نابالغ بچی کی شادی جائز ہے۔ یہاں تک کی تین چار سال کی بچی کانکاح بھی ہوسکتا ہے۔ علماء مشورہ دیتے ہیں کہ بالغ ہونے سے پہلے اس سے مباشرت نہ کی جائے لیکن اگر شوہر نے ایسا کر لیا اور اس کے نتیجے میں بچی زخمی ہوگئی یا اسے جسمانی نقصان پہنچ گیا تو شوہر اس کے علاج و معالجے کا ذمہ دار تو ہوگا لیکن نہ اسے دنیا میں کوئی سزا ملے گی نہ وہ خدا کی نگاہ میں گناہگا ر ہوگا۔
(10) اگر باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو قتل کر دے تو باپ سے قصاص نہیں لیا جائے گا خواہ مقتول بیٹے یا بیٹی کی ماں اس کا مطالبہ بھی کرے۔
(11) اگر چہ اب غلامی ختم ہو چکی ہے لیکن یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اگر آقا اپنے غلام کو قتل کردے تو آقا کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔اسلا م آنے سے پہلے بھی عرب سماج میں یہی رواج تھا جسے اسلام نے باقی رکھا۔
(12) اقدامی جہاد: داعش، بوکو حرام اور مختلف اسلامی تنظیموں کی طرف سے جو جہاد کی تحریک چل رہی ہے در حقیقت یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے خواہ ہمارے علماء لاکھ اس کے خلاف فتوے صادر کریں یا ان کے اس طریقے کو غیر اسلامی قراردیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مصر کے سید قطب، پاکستان کے مفتی شفیع عثمانی اور علامہ ابن کثیر کی تفاسیر کے مطالعہ کے بعدیہ بات واضح ہوجاتی ہے کی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 193 تمام مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق یعنی اسلام کے غلبہ کے لئے قیامت تک جہاد کرتے رہیں۔ البتہ فقہ اسلامی یہ گنجائش رکھتی ہے کہ جہاں مسلمان جنگ کی طاقت نہیں رکھتے وہاں غیر مسلموں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں لیکن اندر اندرخود کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں اورجب کسی خطے میں انہیں جنگ میں فتح کا یقین ہو جائے تو غیر مسلموں کی طرف سے دوستی کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے جہاد کریں اور شریعت نافذ کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس اقدامی جہاد کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے۔داعش اور بوکو حرام وغیرہ اسی پر عمل کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنی تحریک کےاسلامی ہونے کے ثبوت میں قرآن اور حدیث کا ہی حوالہ دے رہی ہیں۔
مذکورہ بالا اکثر امور وہ ہیں جو عرب سماج میں پہلے سے رائج تھے۔ حضرت محمد ؐ نے جس سماج میں آنکھ کھولی وہ ان پڑھ بدو قبائل پر مشتمل ایک قبائلی سماج تھا- ظاہر سی بات ہے کہ ایسے سماج کو سدھارنے کیلئے اسی سماجی ڈھانچے کے حدود میں رہ کر ہی ان کی اصلاح ممکن تھی۔ اس کے لئے ضروری تھا کی ان کے مزاج،اعتقادات اور عادات کا لحاظ رکھا جا تا ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں”جس طرح سابقہ امور کااثر حالات پر پڑتا ہے،اسی طرح شریعتوں میں قوم کے پاس مخزون و موجودعلوم، ان میں مخفی اعتقادات و عادات جو ان میں ا یسے سرایت کر جاتے ہیں جیسے کی مرض کلب سرایت کر جاتا ہے، ان سب کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے: حوالہ: حجتہ اللہ البالغہ، جلد اوّل صفحہ 224 باب 56 “
ان تمام حقائق کے روشنی میں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسلام کے تمام احکام ابدی اور آفاقی نہیں ہیں بلکہ اکثر احکام کا تعلق صرف اس وقت کی مخاطب قوم اور ایک معینہ مدت تک کے لئے ہوسکتے ہیں۔
یہ حقیقت بہر حال ناقابل تردید ہے کہ قرآن کی اکثر تعلیمات انسانیت کے لئے مفید اور قابل تقلیدہیں۔ لیکن ہمیں اس بات کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ حضرت محمد ﷺ عرب معاشرے میں جو تبدیلیاں لائے وہ اس علاقے اور معاشرے کے لئے محض ایک سدھار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انکے دور اور انکی نسل میں حضرت محمد ﷺ ایک سماجی مصلح تھے۔ انہوں نے سماجی تحفظ کا نیا نظام اور کنبہ کی ساخت کی تشکیل کی جو گزشتہ نظام میں سدھار لایا۔ ہم اس میں سے اچھی باتوں کو قبول کرسکتے ہیں اور جو باتیں اکیسویں صدی میں ہمارے لئے مضر ہیں مثلاً اقدامی جہاد، نابالغ بچی کی شادی،عورت پر تشدد وغیرہ انہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
لہٰذا زمان و مکان کی تبدیلی اس بات کا تقاضہ کرتی ہےکہ فقہ اسلامی میں نظر ثانی کرکے از سر نو ترامیم کی جائیں تاکہ وہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہونگےکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم سماجی مصلح تھے او رانہوں نے اپنی غیر مہذب قوم کی اصلاح کیلئے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس وقت سب سے زیادہ مناسب تھا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنے بارے میں یہ احسا س رکھتے تھے کہ انہیں اللہ نے اس کام کیلئے منتخب کیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت محمدؐ اور حضرت مریم کو حضرت جبریل کا نظر آنا اور حضرت محمدؐ کا معراج پہ جانا اور کچھ اسی طرح کے دوسرے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ہم ان تمام باتوں کو وجود حسی بھی مان سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب معاملہ (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم( کو محض اس کا احساس ہوا جیسا کہ نیند کی حالت یا بیماری میں ہوتا ہے جب کی خارج میں یعنی حقیقی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کی ہی لکھی ہوئی تصانیف میں یہ تمام معلومات موجود ہیں۔ علامہ سیوطی کی الاتقان تمام مدارس اسلامیہ میں خارجی مطالعہ کے لئے موجود ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ میں اسلامک اسٹیڈیز کے نصاب میں شامل ہے۔ حجۃاللہ البالغہ تو دارالعلوم دیوبند میں فراغت کے بعد تخصص کے نصاب میں پڑھائی جا رہی ہے۔ اسی الاتقان میں لکھا ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں جن میں آیتِ رجم اور سورہ احزاب کی بہت سی پتوں پر لکھی آیتیں تکیہ کے نیچے رکھی تھیں اور بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت جب کہ سب لوگ تجہیز اور تکفین میں مصروف تھے اس وقت گھر کی بکری انہیں کھا گئی لہٰذا قرآن کا کافی حصہ اب قرآن سے غائب ہو چکا ہے۔ اگر ایسا ہے تو خدا کی طرف سے قرآن کی حفاظت کے وعدہ کا کیا ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کی ان کتابوں کا وجود ہی نہ ہوتا یا اگر ہوگیا تھا تو شروع ہی میں انہیں نذر آتش کر دیا جاتا۔ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد فطری طور پر جو سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں ان کا اطمینان بخش جواب نہیں ملتا بلکہ سوال پوچھنے والے سے صرف یہ مطالبہ کیا جاتاہے کی ان سوالوں کو ذہن میں قطعی جگہ مت دو ورنہ نبوت پر سے ایمان ختم ہوجائے گا۔یہ کیسے ممکن ہے۔
درمیان قعرِ دریا تختہ بندم کردئی ۔۔۔۔باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیا ر باش
ترجمہ: ”مجھے دریاکے بیچو بیچ ایک تختے سے باندھ کر چھوڑ دیاگیاہے اور پھر کہا جارہاہے کہ دیکھو دامن تر نہ ہونے پائے، ہوشیار رہنا“
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/is-quran-word-god-sayings/d/121950
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-quran-word-god-sayings/d/122037
New
Age Islam, Islam
Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women in Islam, Islamic
Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam
Women and Feminism