پرویز
حفیظ
30 جولائی،2020
ہم سب جانتے ہیں کہ عرب
دنیا کی معیشت کی عمارت پٹرول کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ لیکن عرب ریگزاروں کی کوکھ سے
نکلنے والے جس خام تیل نے بہت کم عرصے میں پورے مشرق وسطیٰ کو مالا مال کردیا تھا،
آج اس بیش قیمت سیال کی قیمت دو کوڑی کی رہ گئی ہے۔ماہرین اقتصادیات کی وارننگ ہے
کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا میں جو کساد بازاری آرہی ہے وہ ۱۹۲۹ء کی کساد بازاری سے بھی
زیادہ تباہ کن ہوگی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس عالمی وبا کا سب سے تباہ کن اثر مشرق
وسطیٰ کی اکانومی پر پڑا ہے۔ پچھلے پانچ ماہ سے نقل و حمل اور ٹرانسپورٹ کے مفلوج
ہوجانے کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی کھپت بالکل کم ہوگئی ہے۔ تیل کی اس بے وقعتی
نے خلیجی ممالک کی آمدنی کے سب سے اہم ذریعہ کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ کورونا وائرس
کی تباہ کاریوں اور تیل کی قیمتوں کے انہدام کے دوہرے بحران کی وجہ سے پورے خطے
میں معاشی بحران آگیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق اس سال مشرق وسطیٰ
کو تیل کی تجارت میں ۲۷۰؍
بلین ڈالر کا خسارہ ہوگا جس کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر کئی خلیجی ریاستوں کی
شرح نمو سکڑ جائے گی۔
’’دی اکنامسٹ‘‘ نے پچھلے ہفتے یہ خوفناک پیشن گوئی کی ہے کہ عرب د
نیا میں پٹرولیم کی سلطنت کا آفتاب غروب ہونے والا ہے۔ اس مشہور برطانوی میگزین
میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے:
The end of the Arab world’s
oil age is nigh
(عرب دنیا کے تیل کے عہد کا خاتمہ نزدیک ہے)
اکنامسٹ کے مطابق کووڈ۔۱۹؍
کی قہرسامانیوں نے لوگوں کو گھروں میں مقید کردیا ہے اوراس کی وجہ سے تیل کی
قیمتیں زمین بوس ہوگئی ہیں۔ اب عالمی معیشتیں معدنی ایندھنوں سے کنارہ کشی اختیار
کررہی ہیں۔ تیل کی ضرورت سے زیادہ فراہمی اور متبادل صاف توانائی کے وسائل کی
بڑھتی مقبولیت کا مطلب ہے کہ مستقبل میں بھی تیل کی قیمت کے بڑھنے کی امید نہیں
ہے۔ عرب فرمانرواؤں کو علم ہوگیا تھا کہ تیل کی قیمتیں گر جائیں گی اسی لئے سعودی
ولی عہد محمد بن سلمان نے چار سال قبل ملک کی معیشت کو تیل کے انحصار سے نجات
دلانے کے لئے ’’وژن۔۲۰۳۰‘‘ کا
اعلان کیاتھا اورکئی پڑوسی ممالک نے بھی اس سے ملتے جلتے اقتصادی روڈ میپ بنائے
تھے۔ لیکن ان سب کی یہ منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی کیونکہ کورونا کی وجہ سے۲۰۳۰ ء دس سال پہلے ہی آگیا۔
سعودی عرب کی جی ڈی پی (شرح نمو) کا ۵۰؍
فیصد اور ایکسپورٹ کی آمدنی کے ۷۰؍
فیصد کا دارومدار تیل اور قدرتی گیس کی بکری پر ہے۔ ذرا تصور کریں کہ جب تیل کی
قیمت منہ کے بل گرگئی تو سعودی اکانومی کا کیاحال ہوا ہوگا۔ ویسے کورونا اور تیل
کی قیمتوں کے انہدام سے ۵۔۶؍
سال پہلے سے ہی سعودی معیشت سست روی کا شکار تھی۔ زرمبادلہ کا ذخیرہ ۷۵۰؍
بلین ڈالر سے گھٹ کر ۵۰۰؍ بلین ڈالر رہ گیا ہے اور شہریوں کی فی کس
آمدنی بھی کم ہوئی ہے۔
Middle East Eye لندن میں واقع ایک
معتبر آن لائن جریدہ ہے جس کی مشرق وسطیٰ پر اچھی پکڑ ہے۔ اس کے مدیر اعلیٰ ڈیوڈ
ہرسٹ کے مطابق سعودی معاشی زوال کے اسباب درج ذیل ہیں: یمن کی جنگ، مصر کی بغاوت
اور ساری عرب دنیا میں سعودی مداخلت، امریکہ (اور برطانیہ) سے جنگی سازو سامان کی
بھاری اور غیر ضروری خریداری۔ ان کے علاوہ سعودی عرب میں انقلابی تبدیلی لانے کے
لئے بے قرار شہزادے کا ’نیوم ‘نام کے ایک ماڈرن شہر کی تعمیر کا منصوبہ اور ان کی
ذاتی تفریح کے لئے تین تین پرتعیش بحری جہازوں، عالیشان محلات اور بیش قیمت
پینٹنگز کی خریداری سے بھی سعودی خزانہ خالی ہوا ہے۔ طویل لاک ڈاؤن اور حج اور
عمرہ پر لگی پابندیوں کی وجہ سے بھی سعودی حکومت کو اربوں ڈالر کا خسارہ اٹھانا
پڑا ہے۔ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدان نے اعتراف کیا ہے کہ ان کا ملک تاریخ کے سب
سے کربناک بحران سے دوچار ہے۔ سعودی حکومت نے اخراجات کم کرنے کی خاطر ملازمین کی
تنخواہوں میں بھاری کٹوتی اور ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔
اس وقت تیل کی قیمت ۴۰؍
ڈالر فی بیرل ہے۔ اگریہ قیمت ۸۵؍۔
۹۵؍ ڈالر ہو گی تب سعودی عرب کی سانس میں سانس آئے
گی۔ تیل کے بحران سے خطے کے ان ممالک کو بھی مصائب جھیلنا پڑے گا جو تیل پیدا نہیں
کرتے ہیں مثلاً مصر، اردن، لبنان، سوڈان، سیریا، تیونس صومالیہ اور فلسطین۔دی
اکنامسٹ نے انتباہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی معیشت جو کئی دہائیوں سے خطے کی معیشت
کا انجن بنی ہوئی تھی، کے منہ کے بل گرنے سے ان ممالک کی اکانومی بھی بری طرح
متاثر ہوگی۔ ان کے لاکھوں شہری تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک میں ملازمت کرتے ہیں
اوران کے بھیجے ہوئے زرمباد لہ سے ان کی اکانومی کو سہار ا ملتا ہے۔ تیل کا کھیل
ختم ہوجانے سے یہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ خطے کے علاوہ ہندوستان،
پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک کے جو باشندے خلیج میں کام کرتے ہیں،
ان سب کی نوکریاں بھی خطرے میں نظر آرہی ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر خطے کے
دیگر ممالک کی تجارت اور سیاحت کا بھی مکمل انحصار تھا۔ اب ان سب کی اکانومی بھی
بھنور میں پھنسنے والی ہے۔ دی اکنامسٹ کے
مطابق عالمی وبا کی ہلاکت خیزیوں اور معیشت کی زبوں حالی کے سبب پورے مشرق وسطیٰ
میں عام شہریوں کو مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ نہ صرف ان کی آمدنی کم
ہوجائے گی بلکہ ان کے اخراجات اور ٹیکس کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو گا۔ دوسرے خطوں
کی بہ نسبت مشرق وسطیٰ میں بے روزگار نوجوانوں کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ کورونا،
تیل کی بے توقیری اور معاشی بحران کی وجہ
سے خطے میں عوامی برہمی بڑھ رہی ہے۔ دی اکنامسٹ کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب،
عراق،الجیریا اور لبنان جیسے ممالک میں عوام کہیں دبی زبان سے اور کہیں کھل
کرحکمرانوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جو مزاحمت میں بدل سکتا ہے۔برطانوی جریدے کے
مطابق تیل کے موجودہ بحران کے سبب دنیا کی توانائی کی فراہمی میں مشرق وسطیٰ کا
رول اب مرکزی نہیں رہے گا اور اس لئے امریکہ کے لئے اب خطے کی اہمیت ہوجائے گی۔
عرب ممالک جب خوشحال نہیں رہیں گے تو چین خطے میں امریکہ کی جگہ لے لے گا۔ حال ہی
میں ایران کے راستے چین کے خطے میں داخلے کاآغاز ہوچکا ہے۔
30جولائی،2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-middle-east-oil-game/d/122523
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism