غلام غوث صدیقی، نیو ایج
اسلام
25 اکتوبر 2023
7 اکتوبر کو حماس نے بین
الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی اور اسرائیلی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا پھر
عالمی سطح پر اس عمل کی مذمت بھی کی گئی۔ لیکن اسرائیل جو ہر دن ایسی ظالمانہ
حرکتیں انجام دے رہا ہے اس کی مذمت کہاں ہے؟ اس نے نہ صرف گھروں پر بمباری کی،
7,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا اور 60,000 کو زخمی، بلکہ فلسطین پر قبضہ،
غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، ایک نسل پرست حکومت کو فروغ دیکر اور ہر روز فلسطینی
شہریوں کو قتل کر کے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کر
رہا ہے۔ اسرائیل کی یہ روش رہی ہے کہ وہ ہر حملے کے بعد اپنے دفاع کے حق کا اعادہ
کرتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ عملی طور پر نہتے شہریوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دیگر
شہری عمارتوں پر بمباری کرنے کے حق کا دعوی کرتا ہے ۔ غزہ اور مغربی کنارے پر
متعدد اسرائیلی حملوں کے باوجود، مغربی ممالک کے کسی بھی لیڈر یا نمائندے نے ایک
بار بھی یہ نہیں کہا کہ "فلسطین کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے"۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود، کیا بین الاقوامی قوانین اسرائیل کو
فلسطینیوں کے قتل اور ان پر تشدد سے روک سکتے ہیں ؟
اہم نکات
1. غزہ پٹی میں ایک عیسائی ہسپتال پر اسرائیل کی صرف ایک بمباری
میں 500 سے زیادہ افراد مارے گئے اور اسرائیل-حماس تنازعہ کے نتیجے میں 5,000 سے
زیادہ فلسطینی اور 1,400 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
2. یہودیوں کی آمد ہی فلسطین میں موجودہ ظلم و ستم کی بنیاد ہے۔
3. اسرائیل غزہ پر اپنے حملوں کو تیز کر رہا ہے، جس سے پانی، بجلی
اور دیگر ضروری وسائل تک عوام کی رسائی میں نمایاں طور پر رکاوٹیں پیدا ہو رہی
ہیں۔
4. بشمول آئرش شن فین کے لیڈر Matt
Carthy
کے Dáil Éireann، دیگر رہنماؤں اور دانشوروں نے مباحثے میں غزہ کی حمایت اور
اسرائیل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ان مسائل کو حل کرنے میں عوامی اور سیاسی
قوت ارادی کی عدم موجودگی کو اجاگر کیا ہے۔
5. اسرائیل کی پرتشدد کارروائیوں کو روکنے میں بین الاقوامی قوانین
کی اہلیت پر اب سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں، اور یہ بات اٹھنے لگی ہے کہ کیا وہ صرف
مذمت کرنے کے لیے ہیں۔
۔۔۔۔
فائل فوٹو
----------
اسرائیل اور حماس کے
درمیان لڑائی میں بے شمار خواتین، بچے اور معصوم شہری اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق 4000 سے زائد بے قصور فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 1400 سے زائد
اسرائیلی بھی مبینہ طور پر اس میں ہلاک ہوئے ہیں۔ غزہ پٹی میں ایک عیسائی ہسپتال
پر اسرائیل کی صرف ایک بمباری میں 500 سے زیادہ افراد مارے گئے، جن میں بیمار
خواتین، بچے، ان کے رشتہ دار اور طبی عملہ شامل تھے۔
یہ خونریز تنازعہ فلسطین
کے اندر پہلی بار دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ یہ نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ اسرائیل
1948 میں تقریباً 3000 فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ 1956 میں ایک چھوٹے سے
فلسطینی گاؤں پر دس اسرائیلی بمباروں نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 100
افراد مارے گئے۔
1970 میں مصر کے ایک چھوٹے
سے پرائمری اسکول پر اسرائیلی حملے میں پچاس طلباء مارے گئے تھے۔
1982 میں صبرا اور شاتیلا
کے کیمپوں میں 3500 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ 1988 میں مسجد الاقصی کے اندر
ایک فوجی کارروائی میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے۔ ان تمام حقائق کے ہوتے ہوئے
امریکہ اور کینیڈا کی حکومتیں فلسطینیوں کو دہشت گرد کیسے کہہ سکتی ہیں؟ یہاں تک
کہ اقوام متحدہ مقبوضہ لوگوں کو مسلح کوششوں کے ذریعے بھی قبضے کے خلاف مزاحمت کا
حق دیتا ہے۔
شروع میں، مغربی ورلڈ نے
دعویٰ کیا کہ اسرائیلیوں پر ظلم کیا جا رہا ہے، لیکن جیسے جیسے لوگ حقیقت حال سے
زیادہ سے زیادہ واقف ہوتے گئے، وہ اس بات کو سمجھتے گئے کہ فلسطین میں یہودیوں کی
آمد ہی اس تباہی و بربادی کی اصل وجہ ہے، جسے فلسطینی 1948 کا نکبہ کہتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد
یہودی بے گھر ہوئے۔ یورپ اور برطانیہ کا ماننا تھا کہ فلسطینیوں کے پاس ان کی
ضرورت سے زیادہ زمین ہے۔ سابقہ فلسطینی علاقوں پر مصر اور اردن کی حکومت تھی جب
برطانیہ کو لیگ آف نیشنز نے اقتدار سنبھالنے کا حکم دیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد
عرب ممالک یہودیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تاہم بین الاقوامی دباؤ کے
نتیجے میں یہودیوں کو فلسطین کے علاقوں میں منتقل کیا گیا اور وہاں انہیں آباد کر
دیا گیا۔ یہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کا آغاز تھا۔ یہ 20ویں صدی کی یورپ کی
آبادکاری کی تھی، جو کئی سو سال پہلے امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی آباد کاری
استعماریت سے مختلف نہیں تھی، جن میں لاکھوں مقامی لوگوں کا بے دردی سے قتل عام
کیا گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں فلسطینی
علاقوں میں چھوٹی موٹی یہودی بستیاں قائم ہوتی رہی ہیں۔ تو اب اس کا حل کیا ہو
سکتا تھا؟ امریکہ سمیت زیادہ تر ممالک کا خیال تھا کہ دو الگ الگ ریاستیں بنائی
جائیں۔ دوسری طرف اسرائیل بھی تیار نہیں ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو
بھی خاطر میں نہیں لاتا۔
غزہ کی قیادت کرنے والے
حماس نے اسرائیل کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایک حتمی موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا
ہے۔ یعنی انہوں نے اسرائیل پر اس انداز میں حملہ کیا جس سے دنیا بھر میں ایک ہلچل
مچ گئی۔ اسرائیل جب تک خود کو سنبھال پاتا، دو دنوں تک اس کا کافی نقصان ہو چکا
تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک نہیں رک سکا۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم حماس کے اس حملے میں ہلاک ہونے والے
اسرائیلیوں کا بدلہ لینے کے لیے تمام فلسطینیوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں، اور ایسا
لگتا ہے کہ ان کا منصوبہ کام کر گیا۔
کچھ لوگ اس بات کو لیکر
پریشان ہیں کہ حماس کو اس حملے کی اتنی جلد بازی کیوں محسوس ہوئی۔ کیا حماس کے
اندر اسرائیل کے اس سخت ترین ردعمل کو برداشت کرنے کی طاقت تھی؟ حماس کے پاس ٹینک
اور بم دونوں کی کمی تھی۔ پھر اس نے اس تصادم کی تیاری کیسے کی؟ وہ ممالک کہاں گئے
جو فلسطین سے دوستی کا دم بھرتے تھے اور جن سے امید تھی کہ اب وہ فلسطین کی مدد
کریں گے؟ "دوستوں" میں وہ لوگ شامل ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے اور
اسرائیل کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چونکہ متعدد ممالک، خاص طور
پر متحدہ عرب امارات، نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں، ایسا
لگتا ہے کہ امریکہ پر بھی یہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد حماس نے ان
اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے اچانک جنگ چھیڑ دی۔
یہ بات کہ فلسطینی آپس میں
لڑ رہے ہیں ایک الگ مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں میں بھی دو دھڑے ہیں۔ الفتح، جس کی قیادت
محمود عباس کرتے ہیں، جسے اکثر فلسطین کا صدر مانا جاتا ہے، اور مغربی کنارے پر
اسی کی حکومت ہے۔ یہ تنظیم فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو کامیابی کی طرف لے جانے
کے لیے بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم حماس اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے طاقت کا
استعمال کرنا چاہتا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ حماس کی حمایت کرتی ہے۔ امریکہ نے حزب
اللہ کے ممکنہ حملے کے پیش نظر اپنا بحری بیڑہ اس علاقے میں بھیج دیا ہے تاکہ
ایران اور حزب اللہ کو اس جنگ میں کودنے سے روکا جا سکے۔
اسرائیل اس وقت غزہ پر
حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور اب تو غزہ کے باشندے پانی اور بجلی سے بھی محروم ہو
گئے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لیکر محمود عباس کو وہاں کا حکمران
مقرر کرنا چاہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کبھی کہا جاتا تھا کہ اسرائیل نے حماس کی
بنیاد ایسے وقت میں رکھی جب اسے الفتح سے خطرہ تھا۔ مزید برآں، امریکی صدر کے اس
دعوے کے باوجود کہ حماس فلسطینیوں کے حق کی بات نہیں کرتی، حماس وہ جماعت ہے جسے
غزہ کے باشندوں نے اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے۔ چونکہ زیادہ تر مسلم ممالک اسرائیل
کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اس لیے یہ واضح ہے کہ ان میں سے کسی
کے اندر اتنی ہمت نہیں کہ اسرائیل اور حماس کے ساتھ لڑائی میں شامل ہو سکیں۔
تمام عالم اسلام غزہ پر
اسرائیل کے ان خوفناک حملوں کی مذمت میں لگا ہوا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف
عالمی سطح پر احتجاجی مظاہروں کی ہوا چل رہی ہے، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں،
اگرچہ وہ زیادہ موثر نظر نہیں آتے۔
زیادہ تر لوگ فلسطینی عوام
کی حفاظت اور سلامتی کے لیے دعا کرنے کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ
وہ جانتے ہیں کہ عراق، افغانستان اور لیبیا میں نیٹو افواج کی جنگوں کے خلاف
امریکا اور یورپ دونوں ممالک میں زبردست احتجاج کے باوجود امریکہ یا اس کے
اتحادیوں پر کچھ خاص اثر نہیں ہوا۔
نہ صرف عوام بلکہ بڑے بڑے
لیڈر اور دانشور بھی غزہ کے لیے ہمدردی اور اسرائیل کے خلاف غم و غصہ کے اظہار کے
علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ کئی لیڈروں اور سیاست دانوں نے 18 اکتوبر 2023 کو
Dáil
Éireann کے
مکالمے میں شرکت کی، اور ان میں سے اکثر نے صرف غزہ کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت
کی۔
اپنی تقریر میں، آئرش شن
فین کے رہنما Matt Carthy نے کچھ اطمینان بخش نکات پیش کیے جن کی وجہ سے دنیا حقیقت حال سے
آگاہ ہوئی:
’’ میں دوٹوک انداز میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حماس نے 7 اکتوبر کو
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی۔ اس نے انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی طریقے
سے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا اور دنیا بھر میں صحیح العقل اور سلیم الطبع
لوگوں نے حماس کے ان اقدامات کی بجا طور پر مذمت کی ہے۔ تاہم ہمیں یہ بھی نہیں
بھولنا چاہیے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد سے نہ صرف ہر روز بلکہ کئی دہائیوں سے
عملی طور پر ہر ایک دن بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل فلسطینی
اراضی پر ناجائز طریقے سے قابض ہے، وہ فلسطین میں ناکہ بندی کرتا ہے، غیر قانونی
بستیاں بساتا ہے، ایک نسل پرستانہ نظام حکومت نافذ کرتا ہے جس سے فلسطینیوں کی نقل
و حرکت متاثر ہوتی ہے اور ان کے بنیادی حقوق پر ضرب لگتی ہے، اور باقاعدگی کے ساتھ
اور منظم طریقے سے فلسطینی شہریوں پر حملے کرتا ہے اور ان کا قتل عام کرتا ہے، اور
بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔
"وہ سوال جس کا جواب ہم سب کو سیاسی زندگی میں دینا چاہیے۔ یہ
ہے کہ یہ دنیا بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر کیا جواب دیتی ہے؟
جب حماس کے بھیانک جنگی جرائم کی بات آتی ہے تو ردعمل کھل کر زور و شور کے ساتھ
آنا شروع ہو جاتا ہے۔ عالمی لیڈران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ۔ "اسرائیل کو اپنے
دفاع کا حق حاصل ہے"، یکے بعد دیگرے ہماری حکومت سمیت بڑے اور اچھے لوگوں نے
یہ کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ "اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل
ہے۔" ہر بیان اور ہر ٹویٹ میں یہی جملہ چھایا رہا۔ جبکہ یہ بات سب کو معلوم
ہے کہ یہ الفاظ آلودہ ہو چکے ہیں۔ "اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے"
کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو شہریوں پر بمباری کرنے اور اسکولوں،
ہسپتالوں اور دیگر شہری عمارتوں پر بمباری کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس سے اسرائیل کو
10 لاکھ افراد کو ایک کھلے جیل میں بند کرنے، محصور شہری آبادی کو خوراک، توانائی اور
طبی ساز و سامان کی فراہمی اور پانی سے محروم رکھنے کا لائسنس مل جاتا ہے تاکہ وہ
بچے، بیمار، معذور اور بوڑھے لوگ بھوکے پیاسے مر جائیں۔ "اسرائیل کو اپنے
دفاع کا حق حاصل ہے" کا مطلب اب یہ ہو چلا ہے کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ
وہ ہماری آنکھوں کے سامنے پوری کی پوری نسل انسانی کا صفایا کرتا رہے۔
"ہم نے کبھی یہ کیوں نہیں سنا کہ "فلسطین کو اپنے دفاع
کا حق حاصل ہے"؟ ہم نے یہ کیوں نہیں سنا جب غزہ میں ضروری سامان لانے والے
ایک امدادی بحری بیڑے پر فوجی حملہ ہوا تو اسرائیل کے ہاتھوں نو غیر مسلح کارکن
قتل کر دیے گئے؟ یا جب فلسطینیوں نے غیر قانونی ناکہ بندی کے خلاف پرامن احتجاجی
جلوس نکالا تو اور ایک بار پھر ان پر فوجی حملے ہوئے اور 300 لوگ قتل کر دیے گئے
یا جب اسرائیلی فورسز نے غزہ پر ان گنت بمباری کی تو بھی ہمیں یہ جملہ سننے کو
نہیں ملا۔ اور اسی طرح ہمیں اس وقت بھی یہ جملہ سننے کو نہیں ملا جب اسرائیل نے
ساحل سمندر پر فٹ بال کھیلنے والے چار ننھے فلسطینیوں کو نشانہ بنا کر ان کا قتل
کیا۔ یا جب فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور انہیں اپنے گھروں
کو منہدم ہوتے ہوئے دیکھنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ ان زمینوں پر نئے سرے سے غیر
قانونی اسرائیلی بستیوں کو بسایا جانا تھا جسے بین الاقوامی قانون میں واضح طور پر
فلسطین کا حصہ مانا گیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ یا مغربی کنارے کے لوگوں پر
لاتعداد جارحانہ حملوں کے بعد، ہم نے اس ایوان میں کسی کو یا کسی مغربی لیڈر کو یہ
کہتے ہوئی کبھی نہیں سنا کہ "فلسطین کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے"۔ آخر
کیوں؟
میں تنائیسٹ سے یہ الفاظ
کہنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، درحقیقت بہتر ہے کہ وہ ایسا نہ کریں، کیونکہ ہم سب
جانتے ہیں کہ فلسطین کے عوام دنیا کی ایک سب سے طاقتور فوجی قوت کے خلاف اپنا دفاع
نہیں کر سکتے جس کی پشت پناہی اس سے بھی زیادہ طاقتور فوجی قوت کر رہی ہے۔ حقیقت
یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو، اسرائیل کے معصوم لوگوں کی طرح، یہ حاجت نہیں ہے کہ
عالمی برادری انہیں یہ بتائے کہ ان کے لیڈروں کو مزید بم برسانے، درد اور تکلیف
پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی برادری یہ کہے کہ
اب بس، کہے کہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، اور کہے کہ بمباری، محاصرہ اور قتل عام
کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل سے کہے کہ وہ
ناکہ بندی، نسل پرستی اور نسل کشی بند کرے۔ انہیں ایسے ممالک کی ضرورت ہے جو اس
سمت میں پیش قدمی کریں۔
"آئرلینڈ کو سب سے
پہلے اس سمت میں قدم بڑھانا چاہئے۔ جس طرح ہم یہ جانتے ہیں کہ استعماریت، جبر اور
تنازعات کیا ہوتے ہیں اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح تنازعات کا حل، قیام
امن اور قوم کی تعمیر کی جاتی ہے۔ جو کچھ ہم جانتے ہیں، اور اپنی تاریخ سے ہم نے
جو کچھ سیکھا ہے، اس کی وجہ سے، ہمارا مطالبہ واضح ہونا چاہیے: فوری اور مکمل طور
پر جنگ بندی اور ایک فیصلہ کن بین الاقوامی مداخلت درکار ہے جو مذاکرات، ایک دیرپا
اور عدل و انصاف پر مبنی امن اور آخر میں، ایک دیرپا آزاد اور خودمختار فلسطین کی
طرف لے جائے۔"
[https://www.oireachtas.ie/en/debates/debate/dail/2023-10-18/19/]
اسرائیل تمام بین الاقوامی
قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے، جیسا کہ اس تقریر سے ظاہر ہے۔ تاہم، اب یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی قوانین میں اب بھی وہ دم خم باقی ہے کہ وہ
اسرائیل کو پرتشدد اور حیوانی کارروائیوں سے روک سکیں، یا اب اس کا کام صرف حماس
کی مذمت کرنا رہ گیا ہے۔
English Article: Do International Laws Only Give Israel The Right To
Defend Itself, Not Palestine?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism