ڈاکٹر عظمیٰ خاتون، نیو ایج
اسلام
27 مارچ 2024
تعارف
اس مضمون میں اسلام کے اند
ربین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور اس سلسلے میں قرآن، سنت، اور
حضرت عمر جیسے ابتدائی مسلم رہنماؤں کے طرز عمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں متعدد
مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مکالمے، انصاف
اور مذہبی آزادی کے لیے اسلام کی تعلیمات کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اس کا مقصد ایک جامع
تجزیہ کے ذریعے، تنازعات کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنا اور مفاہمت کی حکمت عملی
تجویز کرنا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی آج کی ہنگامہ خیز دنیا میں امید پیدا کرتی ہے،
اور خاص طور پر ہندوستان جیسے متنوع ممالک میں قبولیت اور امن کو فروغ دیتی ہے۔ تنوعات
کو اپنانا اور ایک محتاط قرآن کی تفسیر پیش
کرنا، ہمیں باہمی افہام و تفہیم پر مبنی ایک مزید جامع معاشرے کی طرف لے جا سکتا ہے۔
اسلام کا بین المذاہب نقطہ
نظر
"ڈائیلاگ (dialogue)" کا لفظ یونانی لفظ "dialogos" سے ماخوذ ہے، جو
کہ "dia" ، بمعنیٰ"ذریعہ"
اور " logos " ، بمعنیٰ "لفظ(word)" سے مرکب ہے، جس
کا معنیٰ و مفہوم "لفظ کے ذریعے"بات چیت کرنا ہے ۔ اس میں علم بانٹنے اور
باہمی فائدے حاصل کرنے کے لیے، افراد یا افراد کی جماعت کے درمیان بات چیت اور مشاورت
کا مفہوم شامل ہے۔ بحث کے برعکس، جس کا مقصد جیتنا ہوتا ہے، مکالمہ کا مقصد، دوسرے
فریق کو سمجھنا، باہمی افہام و تفہیم، اور خاص طور پر بین مذہبی سیاق و سباق میں، باہمی
تعاون کو فروغ دینا ہوتا ہے ۔ اسلام مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان امن، ہم آہنگی
اور باہمی احترام کو فروغ دینے۔ اور انسانیت کی عظیم تر بھلائی کے لیے، اللہ کے منصوبے
کے ایک حصے کے طور پر تنوعات کو تسلیم کرتا ہے۔
اسلام، دنیا کے فطری تنوع
کو تسلیم کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ تنوع انسانوں کے وسیع تر فائدے کے
لیے، اللہ کے منصوبے کا حصہ ہے۔ قرآن نے اس
تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:
’’ اگر منظور مولیٰ ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا،‘‘ (القرآن
5:48)۔
مسلمانوں پر قرآن نے زور دیا
ہے، کہ وہ ان لوگوں سےمحبت، تعاون اور باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ مل جل کر رہیں،
جوان کے مذہبی عقائد کو نہیں مانتے۔ اسلام
کا اصل مقصد، امن اور ہم آہنگی کا فروغ ہے،
جو مسلمانوں کے سلام "السلام علیکم"
(ترمذی، 1998، صفحہ 349) سے واضح ہے، اور اس
بات سے بھی کہ پیغمبر اسلام کو "پوری دنیا کے لیے رحمت" قرار دیا گیاہے۔
"(القرآن 21:107)۔
اسلام تمام آسمانی وحی اور
انبیاء کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے، اور تمام انبیاء پر ایمان کو ایک بنیادی
عقیدہ قرار دیتا ہے (القرآن 4:136; 4:164)۔ اسلام خود کو پہلے سے تمام آسمانی مذاہب
کا ہی ایک تسلسل مانتاہے، اور نوح اور ابراہیم سمیت تمام سابقہ انبیاء کو اسلام کا
ہی پیغمبر تسلیم کرتا ہے (القرآن 10:72؛ 3:67)۔ اسلام کی جامعیت اس بات سے مزید واضح
ہوتی ہے کہ، یہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق اور وقار کو تسلیم کرتا ہے۔ پیغمبر اسلام
محمد کا کردار، اسلام کی اس جامعیت کی مثال ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے مختلف مذاہب کے لوگوں
کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور مدینہ میں غیر مسلموں پر اسلامی قوانین مسلط کرنے
سے گریز کیا (ترمذی، 1975، صفحہ 328)۔ اسلام متنوع مذہبی پس منظر کے لوگوں کے درمیان
افہام و تفہیم، قبولیت اور تعاون کو فروغ دینے کے ایک ذریعے کے طور پر، بین مذہبی مکالمے
کی بات کرتا ہے۔ مکالمے کے ذریعے، مسلمان قرآنی تعلیمات اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت کے مطابق، امن، ہم آہنگی اور باہمی احترام کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
کس طرح جدید قرآنی تفسیر ہندوستان
میں ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے
ہندوستان کے متنوع اور متحرک
منظر نامے میں، جدید تفسیر قرآن کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان ثقافتوں، مذاہب
اور شناختوں کا ایک گلدستہ ہے، جہاں تکثیریت
اور تنوع نہ صرف قابل قدر اقدار ہیں، بلکہ اس کی پہچان بھی ہیں۔ تاہم، تنوعات سے بھری
اس دنیا میں ، ایسے چیلنجز اورایسی رکاوٹیں موجود ہیں، جو سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کے لیے
خطرہ ہیں۔ یہاں میں آپ کو دو مثالوں سے سمجھاتی ہوں کہ جدید تفسیر قرآن اس ملک میں
ہم آہنگی کیسے لائے گی۔
امت میں جامعیت اور اتحاد
کو فروغ دینا
ہندوستان میں، ہمارا تنوع
ہی ہماری طاقت ہے، لیکن بعض اوقات سب کو متحد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہماری مقدس کتاب
قرآن کو سمجھنے کا ایک جدید طریقہ ہمیں متحد ہونے میں مدد کر سکتا ہے۔ ان چیزوں پر
توجہ مرکوز کرکے، جو ہم سب میں مشترک ہیں، اور ان قرآنی تعلیمات پر غور کر کے، جو سب
کے لیے اتحاد اور احترام کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، ہم بحیثیت قوم اتحاد کا ایک مضبوط
احساس پیدا کر سکتے ہیں۔ شناخت کی سیاست، جہاں لوگ ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں
جو انہیں مختلف بناتی ہیں، مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے، اور حالات کو مزید خراب کر
سکتی ہیں۔ لیکن اگر ہم قرآن کو ایک نئے انداز میں دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا،کہ یہ ہمیں ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک اور احترام
کے ساتھ پیش آنا سکھاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیرو ہو۔ اس سے ہم سب کے درمیان،
ایک بڑے ہندوستانی خاندان کے طور پر، مزید متحد ہونے کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔
قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے
کہ ہم سب ایک ہی جگہ سے آئے ہیں اور خدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ
ہم سب ایک ہی روح سے پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بہن جیسا سلوک
کرنا چاہیے۔ لہذا، ان تعلیمات کو سمجھ کر اور اس پر عمل کر کے، ہم ہندوستان میں ہر
ایک کے لیے مزید پرامن اور متحد معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
"اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے، پھر اسی سے اس کا
جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر وماده) اتارے وه تمہیں تمہاری
ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں،
یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اسی کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر
تم کہاں بہک رہے ہو" (قرآن 39:6)
قرآن "امت" کے تصور
پر کافی زور دیتا ہے، جس سے مراد ایک ایسا
گروہ ہے جس کا مذہبی عقیدہ ایک ہو۔ یہ ایک نبی کی قیادت میں ایک کمیونٹی کے طور پر
شروع ہوا، اور بعد میں اسلام کے تمام پیروکاروں کو اس میں شامل کر لیا گیا۔ امت کا
تصور وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھا، فتوحات کے ذریعے مختلف جگہوں پر پھیلتا گیا، اور
اس کی قیادت خلیفہ کہلانے والے قائدین نے کی۔ اس انداز میں امت مسلمہ پر حکومت کی گئی، اور اس کا نظم و نسق چلایا گیا۔ پیغمبر اسلام ﷺنے ابتدائی
مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دے کر اکٹھا کیا۔ مدینہ کے آئین نے، خاندانی رشتوں کی بجائے
مذہبی تعلق پر زور دے کر اس اتحاد کو مضبوط کیا۔ اس آئین مدینہ نے امت میں یہودی قبائل
کا بھی خیرمقدم کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جامعیت کتنی اہم شئی ہے۔ اس آئین کے
مطابق جس نے بھی محمد ﷺکو اپنا رہنما تسلیم کیا، وہ امت کا حصہ ہو سکتا ہے، چاہے وہ
کسی بھی مذہب سے ہو۔ وہاں امت کافی متنوع تھی، جس میں مختلف نسلوں، جنسوں اور سماجی
پس منظر کے لوگ شامل تھے۔ اس اعتبار سے ایک امت ایک مذہبی جماعت تھی، جو ابتدا میں
صرف اسلام تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس میں یہودی، مسلمان یا عیسائی وغیرہ سب شامل تھے،
جوکسی نہ کسی نبی کی امت تھے۔ محمد ﷺنے اسلامی اصولوں پر مبنی اخوت اور بھائی چارے
کا نظام تشکیل دے کر، جامعیت کی حوصلہ افزائی کی۔
آج عالمگیریت نے امت کے متعلق
ہمارا اندازِ نظر بدل دیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان بہتر ابلاغ و ترسیل نے امت کو مضبوط کیا ہے۔ لیکن عالمگیریت ایسے نئے
ثقافتی اثرات بھی پیدا کرتی ہے، جو اسلامی اقدار کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے
امت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں بھی
ہمارا نظریہ بدل دیا ہے، اور ہمیں اپنے مذہب کے بارے میں جاننے اور ا س سے جڑنے کے
نئے نئے طریقے بھی فراہم کیے ہیں۔ آج کے اس دورِ جدید میں امت کو سمجھنے کے لیے ہمیں
یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ، ہم 21ویں صدی میں متحد رہنے کے چیلنجوں سے کیسے نمٹتے ہیں،
اور ان کا کس طور پر سامنا کرتے ہیں ۔ جدید نقطہ نظر سے قرآن کو سمجھنے کا مقصد، کسی ملک کے لوگوں کو
یہ احساس دلا کر ایک ساتھ لانا ہے، کہ ہم سب ایک ہیں۔ اتحاد، تعاون اور ایک دوسرے کا
احترام کرنے کے بارے میں قرآن کی تعلیمات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، یہ نقطہ نظر ایک
مضبوط اور جامع قوم کی تعمیر میں مدد کر سکتا ہے، جہاں ہمارے اختلافات ہماری طاقت ہوں،
نہ کہ ہمارے اختلاف کی وجہ۔
انتہا پسندی اور بنیاد پرستی
کا مقابلہ:
حالیہ برسوں میں، بھارت کے
اندر مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں، جو اس ملک کے
سیکولر تانے بانے اور یہاں کی سماجی ہم آہنگی
کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ، مثلاً،القاعدہ، الشباب، بوکو حرام، اور آئی ایس
آئی ایس، اپنا اسلام نافظ کرنے کے لیے پرتشدد ذرائع کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ قرآن کا استعمال اپنے کرتوتوں
کے جواز کے لیے کرتے ہیں، حالانکہ وہ قرآن
کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے حملوں سے معصوم لوگوں کو نقصان
پہنچاتے ہیں، اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں،
وہ محض فتنہ و فساد برپا کرہے ہیں۔ ایک جدید
قوم پرست قرآنی تفسیر رواداری، اعتدال اور بقائے باہمی کے پیغام کو فروغ دے کر، انتہا
پسندانہ نظریات کے لیے ایک طاقتور تریاق کا کام کر سکتی ہے۔
قرآن دہشت گردی اور انتہا
پسندی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ یہ فتنہ و فساد اور انتشار کی مذمت کرتا ہے۔ قرآن
نے انتہا پسندوں کے لیے، موت یا ملک بدری جیسی سخت سزائیں بھی مقرر کر رکھا ہے۔ اس
کے باوجود یہ انتہا پسند، بےگناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی پرتشدد کارروائیاں
جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اعمال کا جواز پیش کرنے کے لیے، جنگ والی قرآنی آیات کا
غلط استعمال کرتے ہیں، لیکن اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں، کہ بے گناہ
بچوں اور مسلمانوں پر کیوں کائرانہ حملے کیے جا رہے ہیں۔
جہاد کے بارے میں اسلامی نقطہ
نظر اور اجتماعی عمل کے لیے جماعتوں کی تشکیل۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ اسلام کے مطابق، صرف ریاست کو ہی عملی
طور پر جنگ (جہاد) کا اعلان کرنے اور اسلامی قوانین قائم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ان
مقاصد کے لیے پارٹیاں بنانے والے غیر ریاستی عناصر کا استعمال حرام ہے۔ آیات قرآنیہ
کی روشنی میں ایسی جماعت کی تشکیل کا امکان موجود ہے، جو پرامن طریقوں پر سے نیکی کی
دعوت دینے اور پرامن ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کے لیے پرعزم ہو۔
اس طرح کے نظریات لوگوں کو تشدد کو جائز قرار دینے پر مجبور کر سکتے ہیں، مثلاً شہادت
کے نام پر خود کش بم دھماکے، لیکن بالآخر،
ایسے لوگ حقیقت کا سامنا کرنے پر، اپنے مفادات
کے تحفظ کے لیے منافقت کا سہارا لیتے ہیں۔
قرآن واضح طور پر دہشت گردی
اور انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے اور انہیں فساد قرار دیتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ کس طرح جدید دہشت گرد تنظیمیں قرآن کا سہارا لیکر خود کو نیک ظاہر کرنے، اور
معاشرتی اصلاح کا دعویٰ کرنے کے باوجود، خونریزی میں ملوث ہیں۔ قرآن نے شدت پسندوں
کے لیے سخت سزائیں تجویز کی ہیں، جن میں موت، قطع عضو یا ملک بدر کرنا شامل ہے۔ یہ
انتہا پسند، جو دور دراز علاقوں میں جلاوطن کیے گئے ہیں، بےگناہ شہریوں پر حملے شروع
کر دیتے ہیں۔ وہ جنگ کے وقت اور حالات کی آیات کی غلط تشریح کرکے، خود کو پیغمبر اسلام
ﷺکے دور کے مسلمانوں سے تشبیہ دے کر، اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہیں۔ تاہم، وہ یہ
بتانے میں ناکام رہتے ہیں کہ اگر ان کا دعویٰ اسلام کے مفاد میں کام کرنے کا ہے، تو
وہ کیوں چھپ کر رہتے ہیں اور بچوں اور مسلمانوں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ فسادی
ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہے۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ فساد پھیلانے والوں اور
بے گناہوں کے قاتلوں یا ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
"وہ حد سے بڑھنے والوں
کو پسند نہیں کرتا":(الاعراف: 55)
" اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان
ہے۔ اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں
داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے۔" (النساء: 29-30)
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں
آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت
دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ
وه اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل
کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘ (الحجرات:9)
نتیجہ
بین المذاہب مکالمہ مختلف
مذاہب کے لوگوں کو بات کرنے، ایک دوسرے کو سمجھنے اور مل کر کام کرنے میں مدد کرتا
ہے۔ یہ ہندوستان جیسے ممالک میں ضروری ہے،
جہاں بہت سے مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اب دو مذہب ماننے والوں کے درمیان ایسے کچھ مسائل پیدا
ہوئے ہیں، جن سے مزید مکالمے اور ایک دوسرے کے مذہبی کتاب مثلاً قرآن کو سمجھنے کی
ضرورت شدید ہو گئی ہے۔ ہندوستان کو بین المذاہب مکالمے پر توجہ دینا اور مذہبی کتابوں
کو بہتر طور پر سمجھنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس سے معاشرے کو مزید پرامن اور جامع بنانے
میں مدد ملے گی، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ باعزت طریقے سے ایک ساتھ رہ سکیں گے۔
English
Article: Interfaith Dialogue and Quranic Interpretation for
Harmony in India
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism