New Age Islam
Tue Mar 25 2025, 11:21 PM

Urdu Section ( 21 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Marrying Non-Muslims: In Interfaith Marriages the Proselytization Process Should Be Stopped غیر مسلموں سے شادیاں: بین المذاہب شادیوں میں مذہب تبدیل کرنے کا عمل روکا جانا چاہیے

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 27 جولائی 2022

 مولانا مناظر احسن گیلانی اور شمس نوید عثمانی جیسے علماء نے اہل کتاب کا دائرہ بدھوں اور ہندوؤں تک بھی بیان کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اتنی بڑی ابادی اور اتنا وسیع خطہ خدا کے پیغمبروں سے خالی نہیں رہ سکتا۔

 اہم نکات:

1.      غیر مسلموں سے شادی، میاں بیوی، خاندانوں اور برادریوں کے لیے بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے

2.      شادی کے لیے تبدیلی مذہب کے عمل کو روکا جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

3.      بین المذاہب شادیاں مذہبی رسومات کے مطابق کرنے کے بجائے ان کا اندراج مقامی عدالتوں میں کیا جانا چاہیے۔

 -----

Designed by Gargi Singh)

---------

 اسلام میں شادی ایک مقدس نظام ہے۔ زیادہ تر مذاہب کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے اندر شادی کے بارے میں مخصوص اصول و ضوابط ہیں۔ حقوق، فرائض اور ذمہ داریاں خاص طور پر ان زوجین کے لیے متعین کیے گئے ہیں جو شادی کے پُرسکون بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ اسلام میں زوجین اور خاندانوں کی طرف سے مخصوص شرائط پوری ہونے کے بعد شادی کی جاتی ہے۔ پھر میاں بیوی دونوں کے لیے مخصوص ہدایات ہیں۔ بعد میں اگر تنازعات پیدا ہوں تو ان کے حل کا عمل بھی بیان کیا گیا ہے، اسی طرح نکاح کو ختم کرنے کے لیے طلاق کا بھی عمل متعین ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان مصالحت نہ ہو سکے تو طلاق ناگزیر ہو جاتی ہے۔ یہ شادی، اس کے نتیجہ یا انجام کا ایک عمومی عمل ہے۔

 جنوبی ایشیا میں اگر بین المذاہب شادیاں ہوں تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظر میں مسلمان مرد نوجوان ہندو خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں، انہیں اپنے پیار کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور پھر ان سے شادی کرنے کے بعد انہیں اسلام میں داخل کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس سارے عمل کو لو جہاد کا نام دیا جاتا ہے، اور یہ ایک ایسی اصطلاح جس کی اصلیت ابھی تک نامعلوم ہے۔ لو جہاد کا استعمال ہندوستان میں اسلامو فوبیا کو تقویت دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ پاکستان میں، ہندو اقلیتوں کا ہمیشہ یہ الزام رہتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں، انہیں زبردستی اسلام میں داخل کرتے ہیں اور پھر ان کی شادی مسلمانوں سے کردی جاتی ہے، جو پھر مسلمان بچوں کو جنم دیتی ہیں اور ان کی پرورش کرتی ہیں۔ اسی طرح کے معاملات دوسرے ممالک میں ہیں جہاں مسلمان الزام لگاتے ہیں کہ غیر مسلم ان کی خواتین کو اغوا کرتے ہیں، ان کا مذہب تبدیل کرتے ہیں اور ان سے شادی کرتے ہیں۔

 شادی ایک ایسی چیز ہے جو مخصوص برادری اور مذہب کے افراد کے اندر ہوتی تھی۔ اس کی بنیاد جنوبی ایشیا میں مخصوص ذات پات، علاقائی اور مذہبی خطوط پر تھی۔ یہ عوامل اب بھی جنوبی ایشیا میں ایک معمول کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن مواصلات کے جدید ذرائع کی وجہ سے، تعلیم اور معاشی عوامل، بین ذاتی، مذہبی اور علاقائی شادیوں کے ذریعے مخالف جنسوں کے درمیان تعامل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس طرح کی شادیاں زیادہ تر ردعمل اور تصادم کا باعث بنتی ہیں۔ بعض اوقات میاں بیوی کو قتل کر دیا جاتا ہے اور یہ قتل ان کے خاندان والے عزت و ناموس بچانے کے نام پر کرواتے ہیں۔ بعض اوقات، مخالف خاندان والے پورے خاندان اور برادری کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب ہندوستان کی چند ریاستیں بھی تبدیلی مذہب اور بین المذاہب شادیوں کے خلاف قانون لے کر آئی ہیں۔

 قرآن پاک مسلمانوں کو نیک مردوں اور عورتوں سے شادی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ "اور پاک عورتیں پاک مردوں کے ئق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے ئق ہیں۔" (القرآن 24:26) اسی طرح قرآن مسلمان مردوں کو اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے(القرآن 5:5)۔ ہندوستان میں مولانا مناظر احسن گیلانی اور شمس نوید عثمانی جیسے بعض علماء نے اہل کتاب کا دائرہ بدھ مت اور ہندوؤں تک بھی وسیع کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اتنی بڑی ابادی اور خطہ خدا کے پیغمبروں سے محروم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا، ہو سکتا ہے کہ مہاتما گوتم بدھ اور بھگوان رام/کرشن خدا کے پیغمبر ہوں۔ پس ان کے پیروکار یقینا اہل کتاب ہیں۔ اس لیے مسلمان مرد جب ہندو عورتوں سے محبت کرتے ہیں تو اس مخصوص اقلیتی رائے کو استعمال کرتے ہوئے ہندو عورتوں سے شادی کرتے ہیں۔ لیکن پھر وہ زیادہ تر لوگ عورتوں کو اسلام میں داخل کروا لیتے ہیں، کیونکہ اسی صورت میں نکاح کو مذہبی تقدس حاصل ہو گا کیونکہ نکاح کروانے والا قاضی یا مفتی ہندوؤں کو اہل کتاب نہیں مانتا اور نہ ہی اس نے ہندوؤں کے اہل کتاب ہونے کے بارے میں کبھی سنا ہو گا۔ مسلمان اس بات پر بھی خوش ہیں کہ انہوں نے اپنی برادری میں ایک اور رکن کا اضافہ کیا ہے۔ مسلمانوں میں اس نمبر گیم کی اپنی مخصوص جڑیں ہیں۔ وہ معیار پر مقدار کو ترجیح دیتے ہیں۔

 اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے ساتھ بھی جنوبی ایشیا میں شادی ان کو مسلمان بنا کر ہی کی جاتی ہے۔ اگرچہ قرآن اس بات کی تصریح نہیں کرتا کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان نکاح کس طرح کیا جائے، لیکن ان کو اسلام میں داخل کرنا ضروری ہے اس کی تصریح قرآن میں نہیں ہے، حالانکہ ان کے طریقے سے عبادت اور نماز ادا کرنا ممنوع ہے کیونکہ وہ خدا کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ اب بہت سے علماء اور فقہاء کے نزدیک یہ حکم ان اہل کتاب کے لیے مخصوص تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور نزول قرآن کے زمانے میں موجود تھے، لیکن اب اہل کتاب کے حالات اور ان کا مذہب اس حد تک بدل چکا ہے کہ اب اہل کتاب خواتین سے شادی کرنا جائز ہی نہیں رہا۔

 مسلم خواتین کے لیے کسی بھی ایسے مرد سے شادی کرنا ایک ممنوع ہے جو مسلمان نہیں ہے (القرآن 2:222)۔ اسلام ایسی شادی کو جائز نہیں قرار دیتا۔ مزید برآں، قوم مسلم میں بھی اس وقت ناراضگی پیدا ہو جاتی ہے جب ایک مسلم خاتون ایک ہندو مرد سے شادی کرتی ہے، جس سے قوم کا دوہرا رویہ اجاگر ہوتا ہے، جن کے پاس قوم سے باہر شادی کرنے والے مردوں اور عورتوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے معیارات مختلف ہیں۔ لہٰذا، قوم مسلم میں اس بین المذاہب شادی کی شدید مذمت کی جاتی ہے جس میں کوئی مسلمان عورت شامل ہو۔ اسلام کا ماننا ہے کہ خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے مرد اپنے مذہبی اقدار کو بچوں تک منتقل کرے، اس لیے اگر وہ کسی غیر مسلم سے شادی کرتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس صورت میں یقینی طور پر عورت کے مذہبی عقائد اور اقدار خاندان اور بچوں میں منتقل نہیں ہونگے، کیونکہ مرد بطور سربراہ خاندان کے، خواتین اور بیویوں پر ان کا تسلط ہوتا ہے۔ اسلام ایسی شادیوں کی اجازت دیتا ہے، حالانکہ بچوں کے عقائد، طلاق کے عمل اور ایسی شادی میں تنازعات پیدا ہونے کی صورت میں حل کرنے کے طریقہ کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

 بعض علماء کے نزدیک بین المذاہب شادیوں کی سرزنش کرنا ضروری ہے کیونکہ اب تو اہل کتاب بھی ہدایت کے راستے سے ہٹ چکے ہیں۔ پھر ان شادیوں کو بھی روکا جانا چاہیے جس میں مسلمان مرد غیر مسلم عورتوں کو بھگا کر شادی کرتے ہیں، اور بعد میں ان کا مذہب تبدیل کر دیتے ہیں۔ نیز اگر کوئی مسلمان یا غیر مسلم کسی ایسے معاشقے میں ملوث ہو جس کا نتیجہ شادی ہو، تو اس صورت میں تبدیلئ مذہب پر جبر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام مرد و عورت کے درمیان کسی بھی قسم کے خفیہ معاملات کو ممنوع قرار دیتا ہے سوائے شادی کے۔ صنف مخالف کے ساتھ نجی خفیہ قربت کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ لہٰذا اسلام کا معیار غیر عشقیہ شادی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ شادی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کی محبت میں پڑیں۔

 لہذا محبت کی شادی میں، محبت کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے، اسی طرح تبدیلئ مذہب کی بھی نہیں ہے۔ اگر مسلمان اور غیر مسلم شادی کریں تو شادی کی خاطر ایک دوسرے کا مذہب تبدیل نہ کریں بلکہ کھلی عدالت میں نکاح کریں اور اپنی شادی کا اندراج کروائیں۔ اس سے ان شادیوں سے پیدا ہونے والے لو جہاد اور اس طرح کے دیگر مسائل حل ہو جائیں گے۔ شادی کے وقت مذہب کو کیوں بیچ میں لایا جائے، جب کہ محبت کرتے وقت مذہب کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا؟ نیز بعد میں اس شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے پاس کسی بھی مذہب کو اپنانے کا اختیار ہونا چاہئے، نہ کہ ان پر کوئج خاص مذہب مسلط کر دیا جائے۔ تب ہی ایسی شادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل حل ہوں گے۔ مسلمانوں کو بھی مذہب تبدیل کرنے کی سوچ سے باہر آنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ دوسروں کا مذہب تبدیل کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔ اسلام کو غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنا فرض ہے لیکن صرف تعداد بڑھانا اسلام کا مقصد نہیں ہے۔ لہٰذا بین المذاہب شادیوں میں مذہب تبدیل کروانے کا عمل بند ہونا چاہیے۔

 English Article: Marrying Non-Muslims: In Interfaith Marriages the Proselytization Process Should Be Stopped

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/interfaith-marriages-proselytization/d/129162

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..