خواجہ عبدالمنتقم
18اکتوبر،2023
یاد آئیں گے ہم تم کو اے
اہل جہاں اکثر
ہم نے رخ ہستی پر وہ نقش
ابھارے ہیں
ابھی کل ہی ہم نے سرسید
احمد خاں کے یوم پیدائش پر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا۔ ان میں سے ایک
پہلوان کی دانشورانہ سوچ اور رویہ بھی ہے۔ دانشورانہ سوچ اور رویہ سے مراد ایک
ایسی سوچ جو اصلاحی ومبنی برمنطق ہو۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی 1946 ء میں اپنی
کتاب Discovery of India میں یہ کہہ کر اس تصور کی وکالت کی تھی کہ ہمیں پرانی ڈگر سے ہٹ
کر نئی نئی معلومات کی بنیاد پر ایک نئی راہ تلاش کرنی ہوگی جب کہ سرسید اس تصور
کی وکالت بہت پہلے کرچکے تھے۔اس اصطلاح کو بھارت کے آئین کی دفعہ 51A میں 1976 ء میں
’دانشورانہ رویے سے کام لے کر انسان دوستی اور تحقیقی واصلاحی شعور کو فروغ‘ الفاظ
کی شکل میں شامل کیا گیا۔
اگر سرسید احمد خاں،
جنہیں شخصیت حیائے ثانیہ کا درجہ حاصل ہے او رجنہیں مہاتما گاندھی جیسی عظیم ہستی
نے پیامبر تعلیم کہہ کر پکارا،نے محمڈن اینگلو او رینٹل کالج قائم کرکے میری مادر
علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد نہ ڈالی ہوتی او رمسلمانان ہند نے ان کا
ساتھ دینے کے معاملہ میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا تو مسلمان آج ہر شعبہ حیات میں
کتنے او رپسماندہ ہوتے اس بات کا اندازہ مسلمانوں کی تعلیمی واقتصادی پسماندگی سے
لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اگر سرسید اس دنیا میں نہ آتے تو
ہندوستانی مسلمان تعلیمی اعتبار سے یتیم ہوتے اور دیگر فرقوں کے مقابلے میں بہت
پیچھے رہتے او ررہے بھی۔
اگر آج سرسید زندہ ہوتے
تو وہ مسلمانوں کی خستہ حالی پر کف افسوس ملتے اور او رانہیں مخاطب کرتے ہوئے
کہتے:
’اے ہندوستانی مسلمانو! تم نے اپنی کمیونٹی کو اوپر اٹھانے کے لیے
وہ نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہئے تھا اور تم نے میری اور میرے ساتھیوں کی بتائی
ہوئی باتوں پر عمل نہیں کیا‘
وہ سرکاری اسکیموں پرنظر
ڈالنے کے بعد سرکاری حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے:
’جب یہ سرکاری اسکیمیں اس قدر فائدے مند ہیں تو ہندوستانی مسلمان
تعلیمی،اقتصادی، سیاسی او رسماجی اعتبار سے اتنے پسماندہ کیوں ہیں؟ وہ سلم اور
گندے علاقوں میں رہنے کے لیے کیوں مجبور ہیں؟ ان علاقوں میں طبی سہولیات اطمینان
بخش کیوں نہیں ہیں؟ ہندوستان کی آزادی کے بعد ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی
وہ تعلیمی اعتبار سے اس قدر پسماندہ کیوں ہیں؟ مرکزی اور ریاستی ملازمتوں میں ان
کی تعداد اس قدر کم ہے؟ کیا مسلمان چپراسی، ڈرائیور، مستری اور دیگر درجہ چہارم کی
ملازمتوں کیلئے بھی دستیاب نہیں ہیں؟ ریاستیں وفاقی نظام کا ناجائز فائدہ کیوں
اٹھارہی ہیں او راقلیتوں سے متعلق اسکیموں کی عمل در آمد کی میں دلچسپی کیوں نہیں
لے رہی ہیں؟
وہ مسلمانوں سے بھی ان سوالات کا جواب مانگتے:
’تمہیں اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ سرکاری عملے کا تمہارے ساتھ رویہ
صحیح نہیں رہتا۔ہوسکتا ہے کہ تمہاری بات کس حد تک صحیح ہو لیکن مجھے ذرا یہ تو
بتاؤ کہ تمہارے این جی اوز او رتمہارے نام نہاد رہنماؤں نے جو ہر دم تم سے ہمدردی
کا دم بھرتے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ کیا انہوں نے ان تمام رسمی
کارروائیوں کو پوراکرنے میں تمہاری مدد کی جو اس قسم کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے
کے لئے ضروری تھی۔ اگر نہیں تو سرکار سے گلہ کس بات کا؟ حالانکہ حکومت کا یہ فرض
ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کی فلاح وبہبود کا خیال رکھے۔ اس کے علاوہ وہ یہ سوال
بھی کرتے کہ کیا تم نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی پیشہ وارنہ تعلیم حاصل کی کہ
جس سے تمہیں روزگار ملنے میں آسانی ہوتی۔ میں نے ہمیشہ یہ بات کہی کہ دینی تعلیم
کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کرو لیکن تم نے میری نہیں مانی او رآج تم سب کا
نتیجہ بھگت رہے ہو۔ کیا تم نے زکوٰۃ اور وقف جائیداد وں کے معاملے میں ایماندار ی
سے کام لیا؟ اگر تم نے ان معاملات میں ایمانداری سے کام لیا ہوتا تو کیا آج تمہاری
اقتصادی حالت انتی خستہ ہوتی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تم میں سے کتنے ہی لوگوں نے ان
لوگوں کا ساتھ دیا جنہوں نے وقف جائیداد اوپر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا۔
وہ مسلمانوں کو درج ذیل
نصیحت سے قبضہ بھی کرتے:
’محض سیمینار کرنے، نعرے لگانے اور حکومت کی تنقید کرنے سے تمہارے
مسائل کا حل نکلنے والا نہیں۔ تمہیں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے عمل
اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی ملک میں تمہارے ساتھیوں او ربزرگوں نے ایسے بڑے بڑے کام
کیے ہیں جن پر مجھے بھی فخر محسوس ہوتاہے۔ کیا حکیم عبدالحمید نے اس دور میں جامعہ
ہمدرد قائم نہیں کی، جب پرائیویٹ یونیورسٹی قائم کرنے کا تصور بھی لگ بھگ بعید از
قیاس تھا؟ کیا عظیم پریم جی نے وپرو جیسا ادارہ قائم کرکے اپنا نام دنیا کی عظیم
شخصیتوں اور رؤسا میں شامل نہیں کرالیا؟ کیا اے پی جے عبدالکلام نے ہندوستان کو
ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے معاملے میں کلیدی کردار نہیں کیا؟ میں نے جب جب ملک کی
ترقی کی بات کی تو ہندو اورمسلمان دونوں کا نام لیا۔میرے زمانے میں تو دوقومی
نظریہ وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ اس وقت صرف ایک قوم تھی’ہندوستانی‘۔ اے
ہندوستانی مسلمانو! یہ ملک تمہارا ہے تم اس کے برابر کے شہری ہو۔ تمہیں یاد ہوگا
کہ مولاناابوالکلام آزاد نے آزادی کی جدوجہد کے دوران تمہیں اس بات کا یقین دلایا
تھا کہ تمہارے بغیر اس ملک میں کوئی بھی اہم فیصلہ نہیں لیا جائے گا۔ اس بات پر
ایمانداری سے کس حد تک عمل کیا گیا اس بات کا جواب تو حکومت ہنداور تمہارے رہنما
ہی دے پائیں گے۔مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے سچے مسلمان ہونے کے ناطے سچے
ہندوستانی بن کر زندگی کے ہر شعبے ومیدان میں، خواہ وہ شہری میدان ہو یا فوجی ملک
کے تئیں پوری وفاداری سے کام لیا۔ہندوستان میں ہر پانچواں آدمی تمہارا ہم مذہب ہے
لیکن ہر دوسرا آدمی تمہارا دوست یا پڑوسی ہے۔ تم سب سے مل کر رہو۔ ہندومسلم اتحاد
وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب ہم قوم کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہم ملک کے ہر باشندے کی
بات کرتے ہیں خواہ اس کا تعلق کسی بھی
مذہب سے ہو۔ میری زندگی کے دوران ملک تقسیم نہیں ہوا تھا۔ بعد میں یہ ملک ٹکڑوں
میں بٹ گیا۔ میں نے تو کبھی یہ نہیں چاہا تھا کہ یہ ملک ٹکڑوں میں بٹے۔میں تو سب
کے ساتھ مساوات او رانصاف کی بات کرتا تھا نہ کہ علیحدگی کی۔میرے مرنے کے بعد وہ
کون سے عوامل ہیں جن کے سبب ملک کی تقسیم ہوہی گیا او ر تم نے ہندوستان کو اپنا
وطن مان کر یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تو بالکل اسی طرح سے رہو جس طرح سے تم ملک کی
تقسیم سے پہلے رہا کرتے تھے۔ اب تمہیں اپنے ہندوبھائیوں کے ساتھ مل کر ایک منظم
ومہذب قوم کی طرح آگے بڑھنا ہوگا۔
18 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism