New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 08:35 PM

Urdu Section ( 16 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Insightful Statements Made By Periyar about Islam اسلام کے متعلق پیریارکی اَنمول باتیں

ابھے کمار

13 ستمبر،2022

سماجی مصلح، مجاہد آزادی، مفکر اور محکوموں کے مسیحا ای وی راماسوامی کا یوم پیدائش ہر سال ۱۷ ستمبر کو یوم سماجی انصاف کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آج سے ۱۴۳ سال پہلے ان کی پیدایش مدراس پرسَی ڈینسی کے کوئمبٹور کے قریب اِروڈ میں ہوئی تھی۔اپنی پوری زندگی وہ برابری، عزت نفس، تنوع، اخوت اور عقل اور دلیل پر مبنی ایک نئے معاشرے کی تشکیل کے لیے لڑتے رہے۔ ان کی تحریک ذات برادری اور توہم پرستی کے بالکل خلاف تھی۔تبھی تو محبت سے عوام انہیں پیریار کہتے ہیں، جس کا مطلب بڑا انسان یا بزرگ آدمی ہوتا ہے۔

جنگ آزادی کے دوران پیریار کانگریس کی قیادت سے ناراض تھے کیونکہ یہ پارٹی سماجی انصاف کے پروگرام کو آگے بڑھانے میں کم دلچسپی رکھتی تھی۔وہیں پیریار اور دیگر محکوم طبقات کے لیڈروں کا ماننا تھا کہ بغیر معاشرتی مساوات کے سیاسی آزادی ادھوری ہے۔ پیریار کی سوچ یہ تھی کہ عدم مساوات کوختم کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ذات پات کو جڑ سے ختم کیا جائے اور اور توہم پرستی اور مذہبی پیشواوں کے استحصال کو بند کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تب ہی پچھڑوں اور دلتوں کو ان کے واجب حقوق مل پائےگیں۔پھر آگے چل کر پیریار نے عزت نفس کے لیے تحریک چلائی۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک مذہب کے اندر موجود برائیوں کو پوری طرح سے ختم نہیں کیا جاتا، تب تک محکوموں کا بھلا نہیں ہو سکتا۔

 ۱۹۲۰ کی دہائی میں تبدیلی مذہب کا معاملہ زور پکڑا۔ایک طرف محکوم طبقات برابری پانے کے لیے اسلام اور عیسائی مذہب کو قبول کر رہے تھے، وہیں دوسری طرف آریہ سماج کا شدھی آندولن مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے سرگرم تھا۔دھرم اورمذہب بدلنے کے نام پر کئی مقامات پر تنازعات کھڑے ہوئے اور تشدد کے واردات بھی رونما ہوئے۔اس پس منظر میں پیریار بھی اس اہم موضوع پر عوام کو خطاب کر رہے تھے۔ ۱۹۲۰ کے آخری سالوں سے لے کر ۱۹۵۰ کی دہائی تک انہوں نے اپنی تقریوں سے دلتوں اور پچھڑوں کو اسلام قبول کرنے اور نجات حاصل کرنے کی نصیحت کی۔ حالانکہ شر پسند اور فرقہ پرست عناصر اُس دور میں بھی اسلام کو ایک منفی چیز سمجھتے تھے۔ مگر پیریار کی رائے ان سے بالکل الگ تھی۔وہ اسلام کو تشدد پر مبنی مذہب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے اخوت کے اصول پر مبنی دین سمجھتے تھے۔ پیریار نے اس بات کو بھی سرے سے خارج کیا کہ اسلام کا پھیلنا کوئی منفی پیش رفت ہے۔

فرقہ پرستوں کے برعکس، پیریار کو اسلام کے اندر سے امید کی روشنی دکھتی تھی۔ انہوں نے اسلام کو اس کے نظریہ توحید، مساوات اور اخوت کے لیے خوب سراہا، جہاں ذات پات کی عدم مساوات کی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی وہاں مذہبی پیشوا کی کوئی کلاس ہی موجود ہے۔بار بار وہ اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ اسلام کی پناہ میں آجاؤ.

اسلام کے بارے میں سچی اور مخلصانہ بات کہنے کے لیے شدت پسندوں نے ان کونشانہ بنایا، مگر وہ ڈرے نہیں ۔بابا صاحب امبیڈکر کی طرح پیریار بھی مذہب کے سماجی پہلووٴں پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔پیریار کا کہنا تھا کہ جس مذہب میں سماجی بھلائی کا پیغام ہو، جہاں کا معاشرتی نظام اخوت اور بھائی چارہ پر مبنی ہو،جس مذہب میں توہم پرستی کی جگہ نہیں ہو، جہاں ذات، نسل، جنس کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جاتا ہو، ایسا ہی مذہب محکوموں کو نجات دے سکتا ہے۔ ذات پات کا جو سماجی نظام سماج میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے اس کے بارے میں امبیڈکر اور پیریار کا ماننا تھا کہ اسے ختم کرنے کے لیے مذہبی اصلاح کی اشد ضرورت ہے ۔

پیریار نے کہا کہ اسلام کے اندر انسانیت اور برابری پائی جاتی ہے۔ اس لیے دلتوں اور دیگر محکوموں کو اپنی نجات کے لیے اسلام قبول کر لینا چاہیے۔مہاتما گاندھی دوسری طرف تبدیلی مذہب کے مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سارے مذاہب کے اصول ایک ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے مذہب کو بدلنے سے اہم ہے کہ انسان اپنے قدیم مذہب کو زور سے پکڑے رہے۔مگر امبیڈکر اور پیریار کی رائے گاندھی سےالگ تھی اور وہ تبدیلی مذہب کو ایک انقلابی قدم مانتے تھے۔

اکتوبر ۱۹۲۹ میں اپنے آبائی وطن اِروڈ میں پیریار نے کہا کہ جن دلتوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ان کو آزادی مل گئی ہے۔ان کو اب ذات پات کی بنیاد پر امتیاز نہیں جھیلنا پڑےگا۔ان کو جہالت سے نجات ملے گی۔اب ان کے ساتھ چھوت چھات کا سلوک نہیں برتا جائےگا اور نہ ہی پانی پینے کے لیے انہیں اعلیٰ ذاتوں کے رحم و کرم پر رہنا ہوگا۔اسلام قبول کرنے کے بعد دلتوں نے نئی اجتماعی زندگی شروع کی ہے، جو مساوات اور اخوت پر مبنی ہے۔ اسلام میں داخل ہونے والے دلت نہ صرف اپنا سر اٹھا کر سڑکوں پر چل پائیں گے بلکہ ان کے روزگار کے مواقع بھی کھُل گئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی پسماندگی بھی دور ہوگی اور ان کی معاشرتی تنزلی بھی ختم ہوگی۔ ان کو مزید دھرم کے نام پر استحصال نہیں کیا جائےگا اور وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ بھی پائیں گے۔امبیڈکر کی طرح پیریار بھی تبدیلی مذہب کو نجات کا راستہ دیکھتے تھے۔ جہاں امبیڈکر نے اپنی وفات سے کچھ دنوں پہلے اپنے پیروکار کے ساتھ بدھ مت کو قبول کیا وہیں پیریار نے اسلام کو قبول کرنے کی بات بار بار دوہرائی۔ ۱۸ مارچ ۱۹۴۷ کو تریچیراپلی میں اسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے پیریار نے یہ واضح کر دیا کہ وہ ایک عاقل شخص ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی رسومات کو مذہب کا اہم ترین حصہ نہیں مانتےتھے۔امبیڈکر اور پیریار کے نزدیک دین کا سماجی پہلو اہم ترین ہے۔پیریار کو اسلام اس لیے پسند تھا کیوں کہ یہ انسانی فلاح اور بہبود پر زور دیتا ہے۔جس طرح حضرت محمد صاحب کو اسلام کی باتیں کہنے کے لیے مخالفت جھیلنی پڑی، کچھ ایسا ہی ان کے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ شدت پسند لوگ اسلام کے تئیں رائے رکھنے کے لیے پیریار کو مسلسل برا بھلا کہہ رہے تھے۔ پیریار نبی اسلام کے جشن ولادت میں بھی شریک ہوتے تھے۔

 مثال کے طور پر ۲۳ دسمبر ۱۹۵۳ کو چنئی میں ایسی ہی ایک میلاد النبی کی تقریب میں بولتے ہوئے پیریار نے کہا کہ محمد صاحب کا اہم پیغام مساوات کا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اللہ کی نظروں میں سارے انسان برابر ہیں۔جنم سے کوئی چھوٹا اور بڑا نہیں ہے۔ پیریار نے کہا کہ ان کا پیغام توحید اور اخوت کافی اہم ہے۔ پیریار نے یہ بھی کہا کہ محمد صاحب نے ہر بات پر فکر و غور کرنے کے لیے کہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی عقل کا استعمال کرنا چاہیے اور کسی کی باتوں کو آنکھ بند کر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے جو کہا وہ زمین پر بھی دیکھا گیا جو محمد صاحب کی عظمت ظاہر کرتی ہے۔حضورؐ کی شان میں پیریار نے کہا کہ آپ کے بعد کوئی بھی آپ جیسا اس دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا ، جس نے آپ سے بہتر نظریہ نوع انسان کو دیا۔

آج جس طرح سے مسلمان اور اسلام کے خلاف نفرت کاماحول بنایا جا رہا ہے،اس پس منظر میں پیریار کی یہ انمول باتیں کافی زیادہ معنویت رکھتی ہیں۔ آج تبدیلی مذہب کے ذاتی عمل کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلام قبول کرنے والے ہر انسان کے ساتھ زور زبردستی کی جاتی ہے۔ اسلام پھیلنے کے عمل کو منفی دکھایا جاتا ہے اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا جاتا ہے، جبکہ اگر کوئی مسلمان ہندو بنتا ہے تو اس کا جشن منایا جاتا ہے اور اسے گھر واپسی کا نام دیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بے قصور مسلم مذہبی لیڈروں فریب کے ساتھ اسلام پھیلانے کے الزام میں جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ہمیں پیریار کی ان اَنمول باتوں کو مزید جاننے اور انہیں گھر گھر پہنچانے کی ضرورت ہے۔

13 ستمبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/insightful-statements-periyar-islam/d/127957

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..