New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:05 AM

Urdu Section ( 14 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Al-Insan or The Man الانسان

 نصیر احمد، نیو ایج اسلام

 3 مارچ 2023

---------------------------------------------------------------------

 ہم حیاتیاتی طور پر خوشی، غم، لذت، درد، شرم، بیزاری، فرحت، غصہ، اضطراب اور خوف کے جذبات سے لیس ہیں جن سے ہمارے "نفس" کی تشکیل ہوتی ہے اور یہ ہمارے اخلاقی کی بنیاد اور غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔

 ---------------------------------------------------------------------

جن آیات میں الانسان کا ذکر ہے اس میں یہ بھی ہے کہ وہ لالچی، بخل، بے صبر، ناشکرا، قناعت پسند، حریص، بد اندیش، حسد کرنے والا، خوفزدہ اور شکی ہے۔ اسے خود کو محفوظ رکھنے والی جبلت بھی مانا جا سکتا ہے۔ ہماری جبلت میں خوشی تلاش کرنا اور درد سے بچنا شامل ہے۔ کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس میں الانسان کے خوبیاں بیان کی گئی ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی خوبی کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے ہیں۔

 یہاں تک کہ جانور بھی ایک خوبی ہے کہ سماجی رویہ ان کی جبلت میں شامل ہے جس کے ساتھ وہ پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اس کے بغیر پیدا ہوئے ہیں۔

 فکری اور علمی صلاحیتوں کے لحاظ سے انسان مستثنیٰ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اب تصور کریں کہ ان ہم خوبیوں کے بغیر پیدا ہوئے ہیں جن کے ساتھ جانور پیدا ہوتے ہیں اور ہمارے اندر بہت زیادہ علمی اور فکری صلاحیتیں ہیں، اور وہ تمام منفی خصلتیں بھی جن کے ساتھ ہم پیدا ہوئے ہیں، انسان اپنی جنس سمیت ہر کسی کے لیے کتنا خطرناک ہے۔

 ہم جن خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں وہ سب منفی ہیں۔ ہم حیاتیاتی طور پر خوشی، غم، لذت، درد، شرم، بیزاری، فرحت، غصہ، اضطراب اور خوف کے جذبات سے لیس ہیں جن سے ہمارے "نفس" کی تشکیل ہوتی ہے اور یہ ہمارے اخلاقی کی بنیاد اور غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔ لہذا، جب ہم اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جسے ہم نے صحیح سمجھا ہے، تو ہمیں اچھا لگتا ہے، ورنہ، ہمیں برا محسوس ہوتا ہے، ہمارے اندر احساس جرم پیدا ہوتا ہے اور ہم اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور دنیا یا آخرت میں اس کے نتائج سے پریشان اور خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اللہ نے اپنی آیات کے ذریعے ہمیں صحیح اور غلط کی تعلیم دی ہے۔ انسانی رویہ بڑی حد تک تربیت کی گنجائش ہے اور اسے صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔

 (96:1) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔

 (2) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔

 (3) تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم وا ہے۔

 (4) جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔

 (5) جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔

 (6) سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔

 (7) اس لئے کہ وه اپنے آپ کو بے پروا (یا تونگر) سمجھتا ہے۔

 (8) یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے۔

 اللہ کا دین یا زندگی گزارنے کا اخلاقی طریقہ وہ ہے جو اللہ نے انسان کو سکھایا ہے کہ وہ اللہ کی آیات کے بغیر نہ جانتا تھا اور نہ کبھی جان سکتا تھا۔ یہ ہر صحیفے کا ایک جزو لاینفک ہے۔ انسان کو ہر خوبی کو حاصل کرنا اور اپنے نفس پر قابو پانا ضروری ہے۔

 ہم جو اخلاق سیکھتے ہیں، اس سے ہم سب سے اعلیٰ ترین لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں یا حیوانوں سے بھی زیادہ ہوتی میں ڈوب سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اعلیٰ ترین خوبیاں اور بڑی بڑی برائیاں دونوں کے حصول کی صلاحیت موجود ہے۔ لہذا خوبیاں وہ نہیں ہیں جن کے ساتھ ہم پیدا ہوئے ہیں۔ بلکہ اچھا اخلاق سیکھنا پڑتا ہے جنہیں حاصل کیے بغیر ہم جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔

 (103:1) زمانے کی قسم۔

 (2) بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے۔

 (3) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔

 انسان جود بخود اخلاقی اقدار کیوں نہیں حاصل کر سکتا؟

 اوپر بیان کی گئی جبلتوں کو دیکھتے ہوئے، ہر اخلاقی اور معنوی اصول بیکار ہے اور ہم کبھی بھی اپنے طور پر کوئی اخلاقی اصول حاصل نہیں کر سکتے۔ صرف انسان ہی کو اللہ کی رہنمائی کی ضرورت درکار ہے جس کے بغیر ہماری غیر معمولی ذہنی صلاحیت ہمیں جارحانہ رویے میں درندوں سے بھی بدتر بنا دیگی اور ہماری نسلیں خود تباہ ہو جائینگی۔ بے دین اور منافقوں کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی بنیادی جبلت غالب رہتی ہے اور صرف ایک چیز جو انہیں حدود میں رکھتی ہے وہ ہے ملکی قانون کا خوف اور بدنامی کے سبب معاشی یا معاشرتی نقصان کا خوف۔ بصورت دیگر وہ انتہائی بد اخلاق اور بے شرم ہوتے ہیں۔

 بچوں کو خوش اخلاق کیسے بنائی؟

 چومسکی کا سب سے ٹھوس واحد خیال یہ ہے کہ زبان کی ایک عالمگیر صلاحیت ہے لیکن اس کا اظہار مختلف ثقافتوں میں مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ ہر بچہ دنیا کی تمام زبانیں سیکھ سکتا ہے لیکن جسے نیورولوجسٹ ابتدائی سالوں میں Synaptic pruning کہتے ہیں وہ بچے کے اندر اپنے اردگرد کی زبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے۔ ایک گانے والا پرندہ جو اپنی نشوونما کے اہم مرحلے میں دوسرے گانا گاتے ہوئے پرندوں کو نہیں سنتا وہ کبھی نہیں گا سکتا۔ زبان کا یہی اصول اخلاقیات کے لیے بھی کام کر سکتا ہے – درحقیقت دونوں کا آپس میں گہرا ربط ہے، جیسا کہ وہ دونوں انسانی تعامل پر منحصر ہیں۔

3 سال کی عمر تک، ایک بچہ ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے جو اسے فلٹر کیے بغیر سکھایا جاتا ہے۔ 3 سال کی عمر کے بعد، ایک بچہ نئے پیغامات کو فلٹر کرنا شروع کر دیتا ہے جو وہ پہلے ہی سیکھ چکا ہے۔ لہذا، 3 سال کی عمر کو عبور کرنے سے پہلے اپنے بچوں کے اندر اچھے اقدار اور معتقدات پیدا کر دیں۔ اس کے بعد، وہ کسی بھی اچھی تعلیم کی تمیز کر سکتے ہیں جو آپ انہیں برے کے ساتھ دینے کی کوشش کریں گے، جس کا سامنا ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول اور ان دوسرے بچوں کے ساتھ تعامل سے ہو، جن کی پرورش اچھی نہیں ہوئی ہے۔

 ہمیں انہیں ہمدردی اور سچائی، انصاف اور شفافیت اور وعدوں کی پاسداری کی تعلیم دینی چاہیے۔ انہیں خدا اور ہر جگہ اس کی موجودگی، اور آخرت میں جوابدہی کے بارے میں بتایا جائے۔ انہیں شائستگی اور اپنے آپ کو شائستگی سے ڈھانپیں کی خوبیاں سکھائیں ورنہ شرمندگی اٹھانے کے لیے تیار رہیں۔ اس سے ہر چیز درست رہتی ہے کیونکہ یہ ایک اچھے اخلاقی کردار کے لیے ایک مضبوط اور غیر متزلزل بنیاد فراہم کرتا ہے جو بچے کے ساتھ اس کی پوری زندگی رہے گا۔

 مذہب اور آخرت میں جوابدہی کے یقین سے ہٹ کر کوئی اخلاقیات اور نہیں ہے۔ دین سے ہٹ کر صرف منافقت اور لفاظی ہے جس میں بے دین مہارت رکھتے ہیں۔

جن بچوں کو ابتدائی زندگی میں ہی ایک مضبوط اخلاقی بنیاد کے ساتھ تربیت فراہم کر دی جاتی، وہ بچے خود بخود تمام برے اثرات کو ان اقدار کی بنیاد پر چھانٹ دینگے جن کی انہیں ایام طفولیت میں ہی تعلیم دی جا چکی ہے۔ ایک شخص جس نے ابتدائی زندگی میں ہمدردی کرنا سیکھ لیا ہے وہ جان بوجھ کر کبھی بھی کسی جاندار کو کو تکلیف نہیں دے گا۔

 انسانیت بمقابلہ حیوانیت

اگر ہم انسانیت کو وہی مانیں جس کے ساتھ ہم پیدا ہوئے ہیں، تو انسانیت حیوانییت سے بھی بدتر ہے کیونکہ حیوانات سماجی رویوں کی جبلت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جبکہ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہمیں ہر خوبی کو سیکھنا ضروری ہے۔ قرآن نے "انسانی اقدار" کو انسانیت نہیں کہا ہے کیونکہ یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جو انسان کی خصوصیات ہیں۔ ہمیں اخلاقی اقدار کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔

 انسانی اقدار کے معنی میں لفظ انسانیت کا غلط استعمال اس حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے کہ انسان انسانی اقدار کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے پہلے مرحلے میں انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔

 تو غالب کے بارے میں کیا خیال ہے:

بس کی دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا

 شاعری سے لطف اٹھائیں لیکن خوبصورتی سے کہے گئے الفاظ کو حکمت سمجھ کر کبھی غلطی نہ کریں۔

English Article: Al-Insan or The Man

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/insan-man-biologically-emotion-moral-immoral/d/129987

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..