New Age Islam
Tue Apr 29 2025, 09:07 PM

Urdu Section ( 5 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indian Ulema and Theologians of All Islamic Schools Must Curb Anti-Blasphemy Acts by Removing Their Roots from The Textbooks تمام مکاتب فکر کے علما کو چاہیے کہ توہین مذہب کے خلاف کارروائیوں کی جڑوں کو نصابی کتب سے خارج کریں

 غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

 24 اگست 2023

 مصر میں سنی اسلام کے عظیم ترین مذہبی ادارے جامعہ الازہر نے پاکستان کے کرائسٹ چرچ پر حالیہ خوفناک حملے کی مذمت کی ہے اور اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے: "ہم دنیا کے تمام انتہا پسندوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں"۔ یہ بات اب سبھی کے علم میں ہونا چاہیے کہ 16 اگست کو پاکستان میں انتہا پسندوں اور متعصب اسلام پسندوں نے ایک بڑی تعداد میں متعدد گرجا گھروں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگا دی کیونکہ مبینہ طور پر دو عیسائیوں نے قرآن پاک کی توہین کی تھی۔

 17 اگست کو جامعہ الازہر نے مشرقی پاکستان کے متعدد گرجا گھروں پر حملوں کی شدید مذمت کی اور بیان جاری کر کے اس طرح کی کارروائیوں کے مذہبی جواز کو یکسر مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا: قرآن پاک جس پر بعض حکومتوں کی سرپرستی میں بعض انتہا پسندوں نے حملے کیے، وہی کتاب ہے جو حکم دیتی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے۔ اور ان عبادت گاہوں میں کسی بھی قسم کی زیادتی یا تشدد نہ کیا جائے۔ حملہ آوروں نے کلیساؤں کے ساتھ وہی کیا جو قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں نے قرآن مجید کے ساتھ کیا، کیونکہ یہ دونوں ایسے گھناؤنے جرائم ہیں جو مذاہب کی حرمت، آسمانی کتابوں کے تقدس اور انسانی و اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں۔ ان مجرمانہ اور وحشیانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے، الازہر نے کہا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں ان تمام شدت پسندوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے جو اپنی مذموم انسداد توہین مذہب کارروائیوں میں دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں پر حملہ کرتے ہیں، خوا وہ حملہ قرآن پاک، گرجا گھروں یا کسی اور مذہبی مقامات پر ہو۔

 الازہر نے آخر میں کہا: "یہ مذہبی اور تعلیمی ادارہ مذہب کے تقدس کے تحفظ کے لیے تمام قانونی طریقہ کار کے استعمال پر زور دیتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی کارروائی کی جائے کہ اب دوبارہ اس قسم کی حرکت کبھی نہیں کی جائیگی، اور یہ کہ یہ کارروائیاں تعصب، نفرت اور اختلاف پر مبنی ہیں"

 ویسے پاکستان میں چرچوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں۔ نہ تو انسداد توہین مذہب کارروائیاں اور نہ ہی اس قسم کے حملے وہاں کے لیے کوئی نئی بات ہے۔ توہین مذہب کے قوانین کا بڑے پیمانے پر تعصب و تنگ نظری کے ساتھ استعمال پاکستان میں ایسے واقعات کو جنم دیتا ہے۔ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک اس خود ساختہ اسلامی ملک کی مذہبی اقلیتوں اور آزاد خیال فرقوں کا مقدر ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ پاکستان کے توہین مذہب قوانین امتیازی ہیں اور ان انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں جن کی بین الاقوامی معاہدوں میں ضمانت دی گئی ہے۔ تاہم، بنیاد پرست اسلامی تنظیمیں اور افراد جو توہین مذہب کے قوانین کو اپنے دین کا حصہ مانتے ہیں، تمام بین الاقوامی معاہدوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں۔

جب سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے ہی حکومت اقلیتوں پر طرح طرح کے شرعی قوانین کے نام پر جبر و تشدد، امتیازی سلوک اور مذہبی اذیت جیسے مظالم ڈھا رہی ہے۔ لیکن توہین مذہب کا قانون بلاشبہ سب سے برا ثابت ہوا ہے۔ اس نے ہندو، عیسائی، احمدیہ برادری اور شیعہ ہزارہ سمیت کم و بیش پاکستان کی تمام اقلیتی برادریوں کو متاثر کیا ہے۔ 1990 کی دہائی سے اب تک اقلیتی مسیحیوں کو جو کہ پاکستان کی آبادی کا محض 1.6 فیصد ہیں، متعدد انسداد توہین مذہب کے حملوں میں منظم طریقے سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ دوسری سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناطے عیسائیوں اور ان کے مقدس مقامات کو توہین مذہب کے وحشیانہ قوانین سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ لہٰذا توہین مذہب کے نام پر پاکستانی بنیاد پرستی مذہبی اقلیتوں کی روزمرہ کی زندگی کی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ توہین مذہب کے قانون کی تلوار ان کے سروں پر ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے، نہ صرف عدالتوں میں بلکہ سڑکوں اور عوامی مقامات پر بھی۔

 لیکن اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستانی توہین مذہب کی وبا اب نام نہاد 'اسلامی' ملک کے اندر محدود نہیں رہی۔ بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہوا ہے اور اس نے اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اب اپنا رخ ہندوستان کی جمہوری سیاست کی طرف کیا ہے، جس سے ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہوئے ہیں، اور مختلف سماجی اور موجودہ فرقہ وارانہ چیلنجوں نے سر اٹھایا ہے۔ کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک، بنیاد پرست تنظیموں نے ملک میں فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کے لیے نوجوانوں کو انسداد توہین مذہب کے انتہا پسند نظریہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ نوپور شرما کا واقعہ یاد رکھیں! یہ ایک آزمائش تھی جس نے واضح طور پر انسداد توہین مذہب کے پیچھے انتہاء پسندوں کی دیوانگی کی حد کو بے نقاب کیا ہے جو کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی پھیل چکی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ ٹی ایل پی کے بنیاد پرست سنی بریلوی اسلام پسندوں نے نوپور شرما کے گستاخانہ بیان کی حمایت کرنے پر کنہیا لال تیلی اور ادے پور کے ایک درزی کو قتل کر دیا۔

 کنہیا لال کا سر قلم کرنے والے دو دہشت گرد محمد ریاض انصاری اور غوث محمد نے اس بہیمانہ قتل سے قبل کھل کر اپنے مذہبی رجحان کو واضح کر دیا تھا۔ انہوں نے ہمیں پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو میں بتایا کہ وہ اصل گستاخ نوپور شرما کے ہزاروں حامیوں میں سے ایک کو قتل کرکے پیغمبر اسلام کی توہین کا بدلہ لینے جارہے ہیں۔ اب یہ کہنے کی کوشش نہ کی جائے کہ سنی بریلویوں کے ذیلی فرقوں میں توہین رسالت کے نام پر یہ دو قاتل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گورنر سلمان تاثیر کا قاتل اور دہشت گرد ممتاز قادری بھی ایک فرد ہی سمجھا جاتا تھا نہ کہ اس گروہ کا ترجمان جس سے وہ تعلق رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی انہیں اور ان کے لوگوں کو ایک "چھوٹا طبقہ" سمجھنے کی غلطی کی۔ لیکن ہم سب اس حقیقت اور افسوسناک صورتحال سے واقف ہیں جن کا وہاں کی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کو انسداد توہین مذہب کے حامی بنیاد پرستوں کے ہاتھوں سامنا ہے۔ قادری کو سنائی گئی سزائے موت سے پاکستان میں اس سے کہیں زیادہ ہنگامہ برپا ہوا تھا جو ہم نے سپریم کورٹ سے آسیہ بی بی کی بریت کے بعد کی ہنگامہ آرائی میں دیکھا۔ آسیہ بی بی کے فیصلے کے بعد کٹر سنی اسلام پسندوں کے ملک بھر میں ہونے والے مظاہرے اس ہنگامے سے بہت کم تھے جو قادری کو "غازی" اور "شہید ملت" قرار دینے کے لیے برپا کیے گئے تھے۔

 کیا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محض اتفاق کی بات ہے؟ انسداد توہین مذہب کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی کبھی کبھار کی ہماری مذمت سے مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اگر ہم واقعی اس کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس پیچیدہ مسئلے کو زیادہ احتیاط، تجسس اور باریک بینی کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ اب ہم ایک بات پوری ایمانداری سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں: انسداد توہین مذہب کے حامی انتہاپسند نہ صرف خود کو بلکہ پوری امتِ مسلمہ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہندوستان میں، وہ پوری امت مسلمہ کی پرامن شبیہ کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جسے سمجھدار اور غر متشدد مانا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم انسداد توہین مذہب کے نام پر تشدد کی مذہبی بنیادوں کا خاتمہ نہیں کرتے، تو ہم بھی پاکستانیوں کی ہی طرح انتہا پسند تصور کیے جانے لگیں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس صورت میں ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کے درمیان فرق مٹ جائے گا۔ وہ تمام خوبیاں اور نیک نامیاں جو ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے صبر اور استقامت کی بدولت دنیا بھر میں حاصل کی ہیں جس کے ساتھ وہ برسوں سے روزانہ اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں اور اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرتے آ رہے ہیں، سب ختم ہو جائیں گی۔

 یہ وہ سنگین صورتحال ہے جو ہم سے یہ بات واضح کرنے کا تقاضا کرتی ہے کہ کسی بھی توہین مذہب مخالف کارروائی کے لیے فقہی سطح پر حمایت ہمارے اور معتدل مسلم برادری کے طور پر ہماری بقا اور ساکھ کے لیے خطرناک ہے۔ لہٰذا، ہر طبقے کے علمائے کرام اور کلاسیکی اور جدید دونوں طرح کے ماہرین علوم اسلامیہ کو اسلامی ممالک سے نہ صرف توہین مذہب کے سخت قوانین کو منسوخ کرنے بلکہ مدارس اور اسلامی نصابی کتب سے توہین مذہب مخالف مواد کو ہٹانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمان انسداد توہین مذہب قوانین کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کریں۔ اصل میں ہماری پارلیمنٹ کو ایک قانون پاس کرنا چاہئے تاکہ ہندوستان میں اس تشدد کو روکا جاسکے اور ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی اور تشدد کے لئے پاکستانیوں کی طرح بدنام ہونے سے بچایا جائے۔ انسداد توہین مذہب کے حامیوں کو سزائیں دی جائیں تاکہ عوامی سطح پر اس کی حمایت اور اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔

 لیکن سب سے بڑا اور اہم کام ہندوستانی علماء کے کندھوں پر ہے۔ پاکستان میں، اسلامی مذہبی اداروں نے مسلم ممالک میں رہنے والے غیر مسلموں پر توہین مذہب کے قوانین کا اطلاق کیا ہے۔ بنیاد پرست بریلوی تنظیم 'تحریک لبیک پاکستان' (ٹی ایل پی) یا دیوبندی 'تحریک طالبان پاکستان' (ٹی ٹی پی) کی بات چھوڑیں، یہاں تک کہ معروف بریلوی اور دیوبندی علماء، مفتیان قاضیان اور مزید افسوسناک بات ہے کہ نام نہاد صوفی سنی علما بھی کھل کر یا چھپ کر اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام گستاخوں کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، بلا امتیاز سزائے موت دے۔ تحفظ ناموس رسالت کے نام پر ناموس رسالت کے تحفظ کے بہانے پاکستان میں کٹر اسلام پسندوں نے ختم نبوت کے اسلامی اصول کا ہمیشہ سے غلط استعمال کیا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، کہ جن کی حرمت کے دفاع کا دعویٰ انتہا پسند کرتے ہیں، کبھی بھی ان مشرکین مکہ کو سزائے موت نہیں دی، جنہوں نے آپ پر لعنت بھیجی، آپ کا مذاق اڑایا اور آپ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ یہاں تک کہ جب کافروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی 'جعل سازی' کا الزام لگا کر آپ کے ناموس کی بے حرمتی کی، تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اللہ کی اس ہدایت پر عمل کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کو 'گھڑنے' جیسے سنگین گناہ کی سزا صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

 "کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول نے خود اسے گھڑ لیا ہے؟ (اگر ایسا ہے تو) ان سے کہو: اگر میں نے اسے گھڑا ہے تو تم مجھے اللہ کے عذاب سے بچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (46:8)

 ہندوستانی مسلمانوں کے لیے افسوسناک بات ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور مدارس اپنے خطبوں اور اشتعال انگیز تقاریر میں کبھی بھی قرآن کی مذکورہ آیت کا حوالہ نہیں دیتے اور اپنے سامعین کو توہین مذہب پر انتقام لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک ذمہ دار قوم کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے ان کا کام مسلمانوں کو اس گھناؤنے، غیر انسانی، غیر اسلامی، اسلام دشمن، مسلم دشمن عمل سے باز رکھنا تھا۔ لیکن قرآن کی جگہ وہ توہین مذہب کے مسائل پر خطرناک متن اور ان کی شرح کی تبلیغ کرتے ہیں جن کا مطالعہ انہوں نے اپنے اپنے مدارس میں کیا ہوتا ہے، خواہ وہ بریلوی ہوں، خواہ دیوبندی یا اہل حدیث۔ ایک مسخ شدہ فرقہ وارانہ اسلامی نظریہ سے متاثر ہو کر، وہ گستاخوں، مرتدوں، اور یہاں تک کہ ان مسلمانوں کے بھی سر قلم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان کے مسلک کے بانی کے خیالات سے تھوڑی بھی روگردانی کرتے ہیں۔

English Article: Indian Ulema and Theologians of All Islamic Schools Must Curb Anti-Blasphemy Acts by Removing Their Roots from The Textbooks

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/indian-ulema-theologians-islamic-anti-blasphemy-textbooks/d/130828

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..