New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:21 PM

Urdu Section ( 17 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

New Age Islam Refuting So-Called Islamic Resistance Council’s Ideology نیو ایج اسلام نام نہاد اسلامک ریسسٹینس کونسل کے نظریے کی تردید کرتا ہے

 اسلامک ریسسٹینس کونسل سے وابستہ اراکین مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنا بند کریں اور غلط راستے سے باز آجائیں

 اہم نکات

1.      منگلورو حملہ اسلامی شریعت کے مطابق غیر قانونی ہے۔

2.      اسلام میں مندر یا کسی دوسری عبادت گاہ پر حملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

3.      جہادی گروہوں بشمول نام نہاد ’اسلامک ریسسٹینس کونسل‘ سے وابستہ افراد کو بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

4.      ہندوستان اس وقت ایک جمہوری ملک ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو مذہبی آزادیاں اور حقوق دیتا ہے۔ اس لیے یہ جنگ کی سرزمین یعنی دارالحرب نہیں ہے۔

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 10 دسمبر 2022

 -------

Islamic Resistance Council

-------

لوگوں کو امید تھی کہ ہمارے علمائے کرام ہندوستان کے خلاف جہاد کی دعوت دینے کے لیے قرآن کی آیات کا غلط استعمال اور ان کی غلط تشریح کرنے پر نام نہاد اسلامی مزاحمتی کونسل کا زبردست رد کریں گے۔ لیکن علمائے کرام کی طرف سے ہمیشہ کی طرح مکمل خاموشی دیکھنے کو ملی۔ مجھے دولتِ اسلامیہ کے نام نہاد خلیفہ بغدادی کا ایک بیان یاد آرہا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’اسلام کبھی بھی امن کا مذہب نہیں رہا، ایک دن کے لیے بھی نہیں، یہ ہمیشہ جنگ کا مذہب رہا ہے۔‘‘ یہی بیان کچھ ہندوستانی مسلم نوجوانوں نے بھی دیا تھا جو  ملک سیریا (شام) گئے تھے اور نام نہاد اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہوئے تھے۔ ان دونوں مواقع  پر اگرچہ میڈیا میں بڑے پیمانے پر بیانات آئے تھے لیکن ہمارے علمائے کرام نے مکمل طور پر  خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

 اطلاعات کے مطابق، اسلامی مزاحمتی کونسل (IRC) نے 19 نومبر کو منگلورو دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ہمارے ایک 'مجاہد بھائی محمد شارق نے کدری میں ایک ہندوتوا مندر پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو کہ منگلورو میں زعفرانی دہشت گردوں کا گڑھ ہے"۔

 "اگرچہ اس آپریشن کا مقصد پورا نہیں ہو سکا، لیکن پھر بھی ہم اسے اپنے مشن اور حکمت عملی کے نقطہ نظر سے ایک کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارا بھائی نہ صرف ان سے بچنے بلکہ ایک حملے کو انجام دینے میں بھی کامیاب ہو گیا باوجود اس کے کہ ریاستی اور مرکزی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس کے تعاقب میں تھیں‘‘۔

 اس میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ، ’’ہم ان لوگوں کو جواب دینا چاہتے ہیں جو پوچھتے ہیں کہ ’’تم نے حملہ کیوں کیا؟‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں فسطائی طاقتوں نے اس جنگ اور مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور ہم صرف حکومت کی بد ترین دہشت گردی کا جواب دے رہے ہیں۔ ہم صرف اس لیے جوابی کارروائی کر رہے ہیں کہ ہمارے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ ہمارے خلاف ہجومی تشدد ایک معمول بن چکا ہے، کیونکہ ہمیں دبانے اور ہمارے مذہب میں مداخلت کرنے کے لیے جابرانہ قوانین بنائے جا رہے ہیں، کیونکہ ہمارے بے گناہ بھائی جیلوں میں بند ہیں، کیونکہ آج عوامی مقامات ہماری نسل کشی کی پکار سے گونج رہے ہیں، اور اس لیے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں فساد اور جبر کا سامنا کرنے پر جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔"

 اپنے مقصد کو درست ثابت کرنے کے لیے، آئی آر سی نے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے، ’’جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وه مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے‘‘ (قرآن: 22:39)

 سوشل میڈیا پر آئی آر سی کے پیغام کا جائزہ لینے کے بعد، چند سوالات میرے ذہن میں ہیں جن کے جوابات دینے کی یہاں ضرورت ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملہ اسلامی شریعت  کے مطابق  درست ہے، جیسا کہ نام نہاد آئی آر سی نے دعویٰ کیا ہے۔ کیا مندر پر حملہ کرنا اسلام میں جائز ہے؟ کیا آئی آر سی کے ارکان کو جہاد کا اعلان کرنے کا اختیار ہے؟ ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کو دیگر چیزوں کے ساتھ ناانصافی اور ہجومی تشدد جیسے حالات کا سامنا ہے تو انہیں انصاف کیسے حاصل کرنا چاہئے؟ کیا اس صورت حال کے جواب میں مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کر جنگ لڑنی چاہئے یا انہیں ہندوستانی پولیس انتظامیہ اور عدالتوں سے انصاف کی اپیل کرتے رہنا چاہئے؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ موجودہ تناظر میں ہندوستان دارالامن (امن کی سرزمین) ہے یا دارالحرب (جنگ کی سرزمین) ہے؟

 ان تمام سوالوں کے جوابات باہم مربوط سوالات میں سے صرف ایک کا جواب دے کر تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، ہم عام قارئین کی آسانی کے لیے  ہر سوال کا جواب دیں  گے۔

 مزید برآں، یہ سچ ہے کہ ہندوستان کے امن اور اتحاد کو سبوتاژ کرنے، اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے اور پورے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں حالیہ برسوں میں کچھ لوگوں نے ہجومی تشدد کا سہارا لیا ہے۔ لیکن محب وطن مسلم اور غیر مسلم  ہندوستانیوں نے ایسے واقعات کی مذمت کی ہے۔ یقیناً ملک کی حفاظت کے لیے ہمیں ایسی زیادتیوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ ہمیں ان مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے اپنے داخلی  مسائل ہیں۔ تاہم، اس صورت حال کو "منگلورو دھماکے" کی حمایت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان ہمارا ملک ہے، اور اس کے مسائل ہمارے مسائل ہیں۔ ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ جانتے ہیں، اور ہم ہمیشہ اس بات سے واقف ہیں کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لینا کبھی بھی  درست طریقہ کار نہیں رہا ہے۔

 اسلامی قانون کے مطابق، مخالف جنگجوؤں کے خلاف "جہاد کا اعلان" کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کے حکمران کے پاس ہے۔ کسی دوسرے شخص یا گروہ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ عام مسلمانوں کو اپنے طور پر جہاد کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جنہیں برصغیر پاک و ہند میں عسکریت پسندی کا بانی مانا جاتا ہے اور اخوان المسلمین کو نظریاتی بنیاد فراہم کرنے والی شخصیت بالخصوص سید قطب بھی اس تصور کے حامیوں میں سے ایک ہیں۔ سید مودودی نے آزادی کے بعد جموں و کشمیر میں پاکستانی مداخلت کو جہاد سے تعبیر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں اسلام اور پاکستان سے غداری کرنے پر سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ جہاد چھپ کر نہیں لڑا جا سکتا بلکہ اس کا اعلان ریاست ہی کر سکتی ہے، وہ بھی تمام تعلقات منقطع کرنے اور ان تمام معاہدوں کو منسوخ کرنے کے بعد جن کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا ہے۔

 مصر کے مفتی اعظم شیخ ڈاکٹر شوقی ابراہیم علام اس سوال "جہاد کی دعوت دینے اور جنگ کا اعلان کرنے کا حق کس کو ہے؟" کا جواب یہ دیتے ہیں،

 "اسلامی قانون کے مطابق، صرف ایک مسلم حکمران کو جنگ کا اعلان کرنے اور جنگ کرنے کا اختیار حاصل ہے... مسلم حکمران ہر متعلقہ شعبے کے ماہرین مثلاً تکنیکی اور عسکری ماہرین اور سیاسی مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی جنگ کا اعلان کرتا ہے جو فوجی حکمت عملی کے لیے ناگزیر ہوں۔ البحوطی نے شرح منتہا الارادات میں کہا ہے: ’’حکمران کی اجازت کے بغیر حملہ کرنا حرام ہے کیونکہ اعلان جنگ کا فیصلہ کرنے کا حق دار صرف وہی ہے۔‘‘

 یہ دعویٰ واضح طور پر آئی آر سی کے جہادی ذہن کو مسترد کرتا ہے جس کے پاس ایسا کوئی  فرد  نہیں ہے جسے ہندوستانی مسلمانوں حکمران تسلیم کیا ہو۔

 ڈاکٹر شوقی علام کا کہنا ہے کہ، اسلامی حکومتوں کو ان معاہدوں اور وعدوں کو برقرار رکھنا چاہیے جن کو انہوں نے رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا اور جن پر دستخط کیا ہیں۔ انہیں بین الاقوامی امن اور سلامتی کے حصول کے لیے باقی دنیا کی اقوام کے ساتھ ثابت قدمی سے کام کرنا چاہیے، لیکن [صرف] دستخط کنندہ ممالک کے عزم کی حد تک۔ خدا فرماتا ہے: "اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو" [5:1]

 مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں، ڈاکٹر شوقی علام کہتے ہیں، ''معاہدہ کی اصطلاح سے مراد کسی خاص مسئلے پر دو فریقین کے درمیان وعدے ہیں۔ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں، تیونس کے مشہور عالم، ابن عاشور کہتے ہیں: "اس آیت میں معاہدوں سے مراد مکمل معاہدہ ہے۔ اس میں وہ معاہدات شامل ہیں جو مسلمانوں نے اپنے رب کے ساتھ کیے تھے جیسے شریعت کی پیروی کرنا … مومنین اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے درمیان بیعت کے معاہدے، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، چوری کرنا یا زنا نہ کرنا … مسلمانوں اور غیروں کے درمیان معاہدے اور ایک مسلمان اور دوسرے کے درمیان معاہدے۔" [التحریر و التنویر، 6/74]۔ (ڈاکٹر شوقی علام، The Ideological Battlefield, Egypt’s Dar al-Ifta Combats Radicalization, Jihad: Concept, history, and Contemporary Application, p.7-24)

 مذکورہ بالا کو پڑھنے کے بعد، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے ملک کی امن وسلامتی  کو برقرار رکھنے اور ہندوستانی آئین کے تحت اپنے ملک کے تحفظ و  بقا کے لیے ہمیشہ تیار رہنے کا عہد کیا ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے ملک میں کچھ شرپسند عناصر ان پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کریں، ان کے ظلم کو ختم کرنے کا واحد طریقہ عدالتی نظام کا استعمال ہے۔ جب ظلم و ستم کی بات آتی ہے، تو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مسلمان کبھی  دوسرے مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں، کبھی کبھی دوسرے مسلمانوں پر الزامات لگاتے ہیں، اور کبھی  دوسرے مسلمانوں کو قتل بھی کرتے ہیں۔ جی ہاں، ایسے حالات میں، متاثرہ شخص نظام عدلیہ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اور کبھی کبھار اسے انصاف مل بھی جاتا ہے، لیکن کبھی کبھار، بدعنوانی کی وجہ سے، انصاف حاصل کرنے کے لیے وہ جدوجہد کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر اسے انصاف نہیں ملتا ہے تو اسے صبر کرنا چاہیے کیونکہ اس میں اس کا ہی فائدہ ہے۔ اس قسم کا ظلم و ستم ہندوستان کے اندر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے، بشمول مسلم اکثریتی ممالک کے۔ بہت سے مسلم ممالک میں اسی طرح غیر مسلموں پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور ان کی مراعات چھین لی جاتی ہیں۔ یہ مسائل عدالتی نظام کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو اپنے طور پر انصاف کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلامی قانون کی نظر میں بھی مجرم اور سزا کا حقدار ہے۔

 ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد، آئی آر سی کے اراکین کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے، صحیح راستے پر لوٹنا چاہیے، اور مسلم نوجوانوں کو مزید گمراہ کرنا بند کرنا چاہیے کیونکہ ان کی حرکتیں ملک کے لیے، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے انتقامی کارروائی کے نتیجے میں مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں  ہی کو پہنچے گا۔ خلاصہ یہ کہ آئی آر سی کا نقطہ نظر مسلمانوں ہی  کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے وہ مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنا بند کریں۔ اس کے علاوہ، مجھے امید ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں نے آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسی معروف دہشت گرد تنظیموں کے نظریات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

 کیا ہندوستان امن کی سرزمین دارالامن یا دار الاسلام  ہے (یعنی  ایک ایسی سرزمین جہاں اسلام پر آزادانہ عمل کیا جاتا ہے)  یا جنگ کی سرزمین [دارالحرب] ہے؟

 دارالاسلام اور دارالحرب دونوں فقہی اصطلاحات ہیں جو اصل میں اسلام کے ابتدائی دور کے فقہاء نے اس وقت کے حالات کے مطابق دنیاوی معاملات اور تعلقات سے نمٹنے کے لیے وضع کیا تھا۔ تاہم، ان فقہا نے کسی بھی سرزمین کو دارالاسلام یا دارالحرب بننے کے لیے جو شرائط رکھی تھیں وہ انہیں امور کے ارد گرد گھومتی ہیں جنہیں ہم جدید دور میں 'بنیادی مذہبی حقوق، مثلاً آزادی مذہب و عبادت' قرار دیتے ہیں۔ جس سرزمین نے یہ مذہبی حقوق فراہم کیا اسے دارالاسلام قرار دیا گیا، جب کہ اسلام کے بنیادی تقاضوں پر پابندی لگانے والی زمین کو دارالحرب قرار دیا گیا۔

 تقریباً تمام بنیاد پرست گروہوں جس غلطی کا شکار ہیں وہ دارالحرب اور دارالاسلام کے تصور کے حوالے سے ہے۔ جہادی تحریک کے نظریہ سازوں کا کہنا ہے کہ اسلام کو ایک ریاستی مذہب کے طور پر غالب ہونا چاہیے اور کسی بھی ملک کے دارالاسلام بننے کے لیے اسلامی قانون کو قومی سطح پر نافذ کرنا ضروری ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ دارالحرب ایک ایسی سرزمین ہے جو اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور اسلام کو اس سرزمین پر بالادستی عطا نہیں کرتی۔

 یہ جہادی تعریف مکمل طور پر غلط ہے اور مرکزی دھارے کے علماء و فقہاء نے ان دونوں کی جو تعریفات وضع کی ہیں ان سے متصادم ہے۔ روایتی طور پر، اس بات سے قطع نظر کہ اس سرزمین پر مسلمانوں کی اکثریت ہے یا غیر مسلموں کی، "دارالاسلام" سے مراد ایسی سرزمین ہے جو اسلام کو اس کے بنیادی مذہبی حقوق فراہم کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس اصطلاح سے مراد ایسی سرزمین ہے جہاں لوگ آزادانہ طور پر اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ اس صورت میں اسلام کا بطور ریاستی مذہب کے رائج ہونا ضروری نہیں ہے۔ اور جس سرزمین پر اسلام کے بنیادی مذہبی حقوق مثلاً عبادت اور مذہبی رسومات کی آزادی پر پابند عائد ہو اسے دارالحرب کہا جاتا تھا۔

 اسلامی قانون کے کلاسیکی اور روایتی ادارے کے درج ذیل اقتباسات دارالاسلام اور دارالحرب کی جہادی تعریفوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان امن کی سرزمین ہے اور کسی گروہ کو ہندوستان کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے کا حق نہیں ہے۔

 روایتی اور کلاسیکی علماء کے مطابق، وہ ممالک جو نمازوں، رمضان کے سالانہ روزے، مساجد کی تعمیر، اذان  اور نماز ادا کرنے کا حق فراہم کرتے ہیں، اسلامی لباس پہننے کا حق اور مسلمانوں کو اسلامی ریتی رواجوں کے مطابق شادی کرنے کی اجازت دیتے ہیں انہیں 'دارالحرب' قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے ممالک، بعض عصری فقہاء کے نزدیک دارالامن ہیں، اور بعض کے نزدیک دارالاسلام ہیں۔

 مثال کے طور پر، عراقی جج اور مسلم سیاست اور قانون کے ماہر ابوالحسن الماوردی کہتے ہیں:

 "اسلام کی عوامی عبادات مثلاً مساجد میں باجماعت نمازیں اور اذانیں وہ معیار ہیں جن کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دارالاسلام اور دارالحرب کے درمیان فرق کیا ہے۔"

ملک شام کے ایک مشہور کلاسیکی عالم امام نووی، الماوردی کی دارالاسلام کی تعریف کی تائید کرتے ہیں اور اپنی قانون کی عظیم کتاب 'روضۃ الطالبین' میں لکھتے ہیں:

 ’’اگر کوئی مسلمان اپنے اسلام کا کھلے عام اعلان کرنے اور وہاں (غیر مسلم اکثریتی ممالک) میں رہنے کے قابل ہو تو اس کے لیے ایسا کرنا بہتر ہے، کیونکہ یہ کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے معیار پر پورا اترتا ہے۔‘‘

 حنفیوں، شافعیوں، مالکیوں اور حنبلیوں کی بھی فقہی کتابوں میں اسلامی عبادات مثلاً رسمی نماز، سالانہ روزہ، اذان وغیرہ کی کھلے عام اجازت دینے والے ممالک کو واضح طور پر دارالاسلام قرار دیا گیا ہے اگر چہ وہ غیر مسلم اکثریتی ملک ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر، شافعی علماء کا موقف ایک سنت پر مبنی ہے (جیسا کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے) کہ لڑائی یا جہاد ایسے علاقے میں نہیں ہونا چاہیے جہاں اذان کی آواز سنی جائے، کیونکہ اسلام پر آزادانہ عمل سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سرزمین عام طور پر مسلمانوں اور اسلام سے دشمنی نہیں رکھتی۔

 امام بخاری اور امام مسلم اس سلسلے میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں:

 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر فجر تک حملہ نہیں فرماتے تھے۔ اگر اپ اذان کی آواز سن لیتے تو جنگ کو موخر کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنتے تو فجر کے فوراً بعد ان پر حملہ کر دیتے۔‘‘ (صحیح بخاری)

 امام نووی اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بے شک اذان اس علاقے کے لوگوں پر حملہ کرنے سے منع کرتی ہے اور یہ ان کے اسلام کی دلیل ہے۔

 ہم نے ان بااثر ہندوستانی فقہاء اور علماء کی آراء کو بھی معلوم کیا ہے جن کی پیروی ہندوستانی مسلمان بشمول سنی-صوفی یا بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور سلفی، تمام لوگ کرتے ہیں۔ ان کی آراء کو تفصیل میں گئے بغیر، ان کی تفصیلی گفتگو کے نتائج کو بالترتیب حسب ذیل دیکھنا بہتر اور سود مند ہوگا۔

 1881ء میں مرزا علی بیگ بدایونی نامی شخص نے امام احمد رضا بریلوی کو تین سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ بھیجا جس میں پہلا سوال یہ تھا: کیا ہندوستان دارالحرب ہے یا دارالاسلام؟

 اس سوالنامے کے جواب میں امام احمد رضا نے ایک کتابچہ لکھا جس کا نام "اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام" ہے جو سب سے پہلے حسنی پریس بریلی نے 1927 میں ایک مقالے کی شکل میں شائع کیا اور بعد میں اسے "فتاوی رضویہ" میں شامل کر لیا گیا۔

 فتویٰ درج ذیل الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

 ’’ہندوستان دارالاسلام ہے، دارالحرب ہرگز نہیں۔ اور یہ حکم ہمارے عظیم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر مبنی ہے" (فتاویٰ رضویہ، جلد 14)

 امام احمد رضا کے انتہائی معتبر اور قریبی روحانی خلیفہ مولانا امجد علی اعظمی نے بھی بعد کے دور میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایسا ہی فتویٰ جاری کیا:

 ہندوستان دارالاسلام ہے۔ اسے دارالحرب کہنا بہت بڑی غلطی ہے" (فتاویٰ امجدیہ، جلد 3، مطبوعہ دائرۃ المعارف الامجدیہ، گھوسی، مؤناتھ بھنجن، یوپی)

 دیوبندی مکتب فکر کے علمبردار مولانا اشرف علی تھانوی کے مطابق ہندوستان دارالحرب نہیں بلکہ دارالاسلام ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛

 "عام طور پر دار الحرب کے معنی میں غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جنگ واجب ہے۔ لہٰذا اس معنی کے لحاظ سے بھی ہندوستان دارالحرب نہیں ہے، کیونکہ معاہدے کے شرائط کے تحت یہاں جنگ جائز نہیں ہے۔" (اشرفیہ، اشرفیہ پبلشنگ ہاؤس، بھون پولیس اسٹیشن، ضلع سہارنپور)

 وہ مزید لکھتے ہیں: "اور ہندوستان بھی صاحبین (امام ابو حنیفہ کے دو بڑے شاگرد امام محمد اور امام ابو یوسف) کے نزدیک دارالحرب نہیں ہے، کیونکہ اس میں اگرچہ شرک کے احکام رائج ہیں، لیکن اسلام کے احکام بھی یہاں بغیر کسی خوف اور خطرے کے عمل میں۔ اور یہ کہ دونوں قسم کے اصول و قاعدے کے ایک سرزمین یا ایک ملک میں آزادانہ طور پر موجود ہونے سے وہ ملک ’’دارالحرب‘‘ نہیں بنتا۔ اسی طرح ہندوستان امام ابوحنیفہ کے معیار اور قول کے مطابق دارالحرب نہیں ہے۔‘‘ (تحذیر الاخوان، مولانا تھانوی، مطبوعہ اشرف المطبعی، تھانہ بھون، سہارنپور، یوپی)

 سلفی غیر مقلد عالم اور محدث مولانا نذیر حسین بہاری (متوفی 1902) کی سوانح حیات میں سوانح نگار مولانا فضل حسین بہاری (متوفی 1916) لکھتے ہیں؛

 ’’انہوں نے (مولانا نذیر حسین بہاری) نے کبھی ہندوستان کو دار الحرب نہیں کہا‘‘  (فضل حسین، الحیات بعد الموت، مطبوعہ الکتاب انٹرنیشنل مرادی روڈ، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر، نئی دہلی)

 مرکزی خلافت کمیٹی کے بانی (1919) مولانا عبدالباری فرنگی محلی لکھنوی (متوفی 1926) لکھتے ہیں:

 "ہم ہندوستان کو دارالاسلام مانتے ہیں" (مکتوب مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مطبوعہ اخبار مشرق، گورکھپور)

 مذکورہ بالا مذہبی رہنماؤں اور ہندوستانی مسلمانوں کے علمبرداروں نے ہندوستان کو اس شرط کے تحت دارالاسلام قرار دیا کہ یہاں مسلمان اپنی مذہبی رسومات بشمول نماز، اذان، نماز عید اور رمضان کے روزوں کے لیے بالکل آزاد ہیں ۔

 ان ہندوستانی فقہاء اور علماء نے ابتدائی اسلامی فقہا کی تعمیل میں یہ شرط نہیں رکھی کہ کسی ملک کو دارالاسلام بننے کے لیے اسلام کا ریاستی مذہب ہونا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ملک بنیادی مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اسلام اس ملک کا سرکاری مذہب ہے یا نہیں، وہ ملک دارالاسلام ہے نہ کہ دارالحرب۔

 ہندوستان اس وقت ایک جمہوری ملک ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو مذہبی آزادی اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ یہ جنگ کی سرزمین [دارالحرب] نہیں ہے۔ لہٰذا، جہادی نظریات کے حامل افراد، خاص طور پر جو پراسرار گروپ سے جڑے ہوئے ہیں، جسے "اسلامک ریسسٹینس کونسل" کہا جاتا ہے، انہیں ہندوستان کے خلاف اپنے مبینہ "جہاد" کا اعلان کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنا چھوڑ دیں اور اپنی تباہی و بربادی کے راستے سے منہ موڑ لیں۔

------------

 English Article: Another Unpardonable Silence of Indian Ulema: New Age Islam Refuting So-Called Islamic Resistance Council’s Ideology; IRC Reportedly Attempted to Attack a Hindu Temple and Called for Jihad against India

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/indian-ulema-refuting-islamic-resistance-ideology-temple/d/128648

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..