New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 01:11 AM

Urdu Section ( 26 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indian Muslims Are Forging A New Path Towards Secularism ہندوستانی مسلمانوں کی تیاری جمہوریت میں سیکولرازم کا ایک نیا راستہ

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

9 اپریل 2024

چونکہ  وہ اب مابعدِ اسلام پرستی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، وہ آزادی، انصاف اور مساوات کے آئینی اصولوں کو اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ ملا رہے ہیں۔

اہم نکات:

1. بڑھتی ہوئی پسماندگی اور کم ہوتی سیاسی نمائندگی کے باوجود، ہندوستانی مسلمانوں نے بڑی حد تک بنیاد پرستی سے دوری اختیار کی ہے۔ اس کے بجائے، اب وہ مذہبی اصلاحات پر سماجی و اقتصادی خدشات کو ترجیح دے رہے ہیں اور حقوق پر مبنی نقطہ نظر اپنا رہے ہیں۔

2. یہاں تک کہ اسلام پسند گروہ بھی اب حقوق کی بات کرنے لگے ہیں، سوائے اس کے کہ  پرسنل لاء اور مذہبی معمولات جیسے، بعض شعبوں میں مذہبی اخلاقیات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

3. الغرض، ہندوستانی مسلمان آئینی اقدار کو مذہبی عقائد کے ساتھ ملا کر، سیکولر سیاست کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔

-------

شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن، جیسے اقدامات کے خلاف مظاہروں نے ہندوستان کے سیاسی بیانیےمیں، سیکولرازم کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر جن احتجاجی مظاہروں کی قیادت مسلمانوں نے کی، اب وہ  طلباء، سول سوسائٹی کے گروپوں اور سیاسی جماعتوں میں زور پکڑ چکے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلم کارکنوں نے مذہبی بیان بازی کے بجائے، آئینی حقوق کی زبان استعمال کی ، جس کی ضمانت بنیادی طور پر تمام شہریوں کو حاصل ہے۔

بڑھتی ہوئی پسماندگی اور کم ہوتی سیاسی نمائندگی کے باوجود، ہندوستانی مسلمانوں نے بڑی حد تک بنیاد پرستی سے دوری اختیار کی ہے۔ اس کے بجائے، اب وہ مذہبی اصلاحات پر سماجی و اقتصادی خدشات کو ترجیح دے رہے ہیں، اور حقوق پر مبنی نقطہ نظر اپنا رہے ہیں۔یہ تبدیلی تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں واضح ہے، جہاں زیادہ تر مسلم بچے مذہبی اداروں کے بجائے سیکولر اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں۔

یہاں تک کہ اسلام پسند گروہ بھی اب حقوق کی بات کرنے لگے ہیں، سوائے اس کے کہ  پرسنل لاء اور مذہبی معمولات جیسے بعض شعبوں میں مذہبی اخلاقیات کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہ تبدیلی جماعت اسلامی ہند جیسی تنظیموں کے اندر بدلاؤ میں بھی ظاہر ہے، جو سیکولر جمہوریت کو مسترد کرتی تھی، لیکن اب  مذہبی تکثیریت اور جمہوری اصولوں کی بات کرنے لگی ہیں ۔

مزید برآں، مسلم جماعتیں دیگر پسماندہ برادریوں کے ساتھ اتحاد قائم کر رہی ہیں، جس کی مثال بھیم آرمی کے چندر شیکھر آزاد جیسے لیڈروں کی حمایت سے عیاں ہے۔ تاہم، سماجی و اقتصادی مفادات میں تفاوت کی وجہ سے، مسلمانوں اور ہندو دلتوں کے درمیان اتحاد ابھی کچھ کمزور ہے۔

الغرض، ہندوستانی مسلمان آئینی اقدار کو مذہبی عقائد کے ساتھ ملا کر سیکولر سیاست کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔مرکزی دھارے کی لبرل سیکولرازم سے ان کی دوری نے، جس میں اکثر ان کے سماجی و اقتصادی تحفظات کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا، شراکتی جمہوریت کے تصور میں نئی جان ڈالی ہے۔ جمہوری فریم ورک کے اندر اپنے حقوق کی بات کر کے، وہ ہندوستان کے ایک مزید جامع اور مساوات پر مبنی مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

لوگ عام طور پر سوچتے ہیں کہ جب اکثریت پسند  سیاست کا غلبہ ہوگا،  تو ہندوستانی مسلمان مزید انتہا پسند ہو جائیں گے۔ لیکن بنیادی حقوق پر یہ توجہ،اس نظریہ  کے خلاف ہے۔ فرقہ وارانہ پالیسیوں کی وجہ سے حکومت ہر روز مسلمانوں کے خلاف مزید معاندانہ رویہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جس کے سبب ا ن کی سماجی اور معاشی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ نہ صرف اس بات سے واضح ہے  کہ، قانون کی خلاف وزری کی صورت میں پولیس والے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، بلکہ یہ قانون میں بھی لکھا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، "آبادیاتی توازن کو برقرار رکھنے" کے لیے، گجرات میں ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ، نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے گجرات کے شہری علاقوں میں زمین خریدنا اور بیچنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

اس کے علاوہ، ابھی لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد آزادی کے بعد سے سب سے کم ہے۔ کل 543 ممبران پارلیمنٹ میں سے صرف 25 مسلمان ہیں، جو کہ گزشتہ لوک سبھا سے چھ زیادہ ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ مسلمان ہندوستان کی آبادی کا صرف 14.2 فیصد ہیں، ایوان زیریں میں ان کی تعداد محض 4.5 فیصد ہے۔ جنوری 2018 میں بی جے پی کے 1,418 ایم ایل اے میں سے صرف چار مسلمان تھے۔ تاہم اس کے بعد سے ہندوستان کی شمالی اور مغربی ریاستوں میں پارٹی کی طاقت میں کمی آئی ہے۔

مزید، آج یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان سب سے پسماندہ ہیں (وہ ہندو قوم پرستوں کے لیے ہندوستانی معاشرے کا "پانچواں کالم" ہیں) ، اس کے باوجود انہوں نے بنیاد پرستی کا راستہ اختیار نہیں کیا ، سوائے جموں و کشمیر اور کیرالہ کے چند نادر معاملات کے۔ درحقیقت، حالیہ جمہوریت نواز مظاہروں سے پتہ چلتا ہے، کہ ہندوستان کے مسلمان تہذیب کے دائرے میں رہ کر،  اور بعض اوقات تخلیقی طور پر انہیں مذہبی عنوان سے ملا کر، سیکولرازم کی ایک نئی پہچان تخلیق کر رہے ہیں۔

حقوق پر مبنی آئین کی زبان

اس سے گزشتہ برسوں میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے: ہندوستانی مسلمان اب حقوق کی زبان کو ان مذہبی اور اخلاقی کاموں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جن پر اسلامی اصلاح پسند زور دیتے ہیں۔

تقریباً تمام معاملے میں، اب مسلم خواتین کی تنظیموں نے انسانی حقوق کے علم کا استعمال کیا ہے۔ جس کی ایک مثال بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن ہے، جس نے ،خواتین کو درگاہوں میں داخل ہونے سے روکے جانےکے خلاف، اور خواتین کو زندگی میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ "غیر مذہبی" مسلم جماعتوں نے، نمائندگی کی سیاست کے ذریعے، مسلمانوں میں ذات پات کی بنیاد پر، سماجی و اقتصادی پسماندگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی کام کیا ہے، مثلاً پسماندہ، جو کہ بہار، اتر پردیش اور مہاراشٹر میں نچلی ذات اور دلت مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔

جمہوریت کے حق میں مظاہرے اب ہندوستان کے بہت سے حصوں میں ہو رہے ہیں، جن کے پیچھے زیادہ تر مسلم خواتین ہیں، جن کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ عوامی سطح پر بی آر امبیڈکر، ایم کے گاندھی اور ساوتری بائی پھولے کی تصویریں لگانا، ہندوستانی آئین کا پری ایمبل پڑھنا، اور قومی پرچم لہرانا، اب ان کے  مذہبی عقائد سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، کہ محمد اقبال کی انقلابی شاعری کے پیچھے  " مغرب کا طوفان"  تھا، لیکن "ہندوتوا کا طوفان" مسلمانوں کو سیکولر بنا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے پہلے سیکولرازم کی حمایت ہی نہیں کی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئینی اور سیکولر اقدار کی اب فعال حمایت دیکھنا، ایک نئی اور انوکھی بات ہے۔

اس حقوق پر مبنی زبان کو زیادہ اعتماد کے ساتھ بولنے کے لیے، مسلمان اخلاقی تبدیلی پر کم اور سماجی، سیاسی اور تعلیمی معاملات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں، زیادہ تر مسلمان بچے آزاد اسکولوں میں جا رہے ہیں، اس کے باوجود کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔ 2006 میں، 7 سے 19 سال کی عمر کے صرف 7فیصد مسلم بچے جنہیں اسکول جانا چاہیے تھا، مدرسے گئے تھے۔ مدرسے میں جانے والوں میں سے بھی،  آدھے لوگ باقاعدہ اسکول گئے اور مذہب کی تعلیم الگ سے لی۔

یہاں تک کہ اسلام پسند بھی حقوق کی زبان استعمال کرنے لگے ہیں، حالانکہ وہ اکثر آئینی نظریات پر مذہبی اخلاقیات کو اہمیت دیتے ہیں، خاص طور پر جب بات پرسنل لاء اور مذہبی معمولات کی ہو۔

نئی علامات اور ایک نیا نام

گجرات میں کام کرنے والے دو اسلامی اصلاح پسند تنظیموں کا میرا مطالعہ، جو کہ ایک ایسی ریاست ہے، جو ہندو قوم پرست سیاست کی تجربہ گاہ بنائی گئی، اس واضح تبدیلی کی تصدیق کرتا ہے، کہ اب معاشی مسائل کو اصلاحی سرگرمیوں پر فوقیت دی جائے۔ مثال کے طور پر، یہ تنظیمیں مسلم چیریٹی اسکول چلاتی ہیں، جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس روم، اور جز وقتی مذہبی تعلیم کا انتظام بھی ہے۔ ان اسکولوں میں  ریاست کا لازمی نصاب نافظ العمل ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک باقاعدہ اسکول اور جز وقتی مدرسہ دونوں ہیں ۔ ان کا مقصد واضح ہے: مسلم بچوں کو نئی مہارتیں سیکھنے، اور تعلیم کی ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کرنا، کیونکہ حکومت انہیں ایک طویل عرصے سے نظر انداز کر رہی  ہے۔ اس طرح، یہ اسلامی بنیاد پرست، سیکولر جدیدیت کا جواب اپنے طور پر دے رہے  ہیں، اور ان کی پشت پناہی کے لیے اسلامی دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ مذہبی ہی ہمیشہ درست ہوتا ہے، اس پر  اپنے کچھ عقائد کو ترک کرکے، وہ سیکولر خیالات کو اپنانے کی ایک نئی اخلاقی وجہ تلاش کرتے ہیں۔

میرے نتائج بھی وہی ہیں جو عرفان احمد نے، اپنی 2009 کی کتاب اسلامزم اینڈ ڈیموکریسی ان انڈیا میں بیان کیے تھے۔ عرفان احمد کی کتاب اس بارے میں ہے، کہ کس طرح 1941 میں قائم ہونے والی ایک اسلامی تنظیم جماعت اسلامی ہند، کی اقدار میں تبدیلی آئی ہے، جو کہ کافی دلچسپ ہے۔ جماعت اسلامی برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت سیکولر جمہوریت اور قوم پرستی کے خلاف تھی۔ لیکن 1990 کی دہائی سے، وہ مذہبی آزادی، رواداری اور جمہوری نظام پر یقین کرنے لگے۔ چونکہ جماعت اسلامی کی تاریخ، تحریک پاکستان کی حمایت سے بھری ہوئی ہے، اور یہ مانا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی، اپنے اسٹوڈینٹ گروپ، اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے ذریعے، دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، اس لیے جماعت اسلامی کے نظریہ میں یہ تبدیلیاں کافی اہمیت کی حامل ہیں۔

ہندوستان میں، یہ جماعت، اسلامی ریاست کی تشکیل کے اپنے مقصد سے دستبردار ہو چکی ہے، اور اب اپنے اراکین کو سماجی علوم، صحافت اور عوامی خدمت میں، اکثر سول سوسائٹی کی تنظیموں کی مدد سے، کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس رجحان کو مسلمانوں کے مسائل پر کام کرنے والی، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا اور اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، کے طرز عمل، کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، ایک بدلتی ہوئی مسلم سیاسی جماعت کی ایک مثال ہے۔

چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے لوگوں کے انداز میں یہ تبدیلی، آہستہ آہستہ مسلم جماعتوں کو، ایسے دوسرے پسماندہ گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دے رہی ہے، جنہیں ایک جیسے خطرات اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہ رجحان اس بات سے عیاں ہوا ہے، کہ اکثر مسلمانوں نے بھیم آرمی کے سربراہ کے طور پر چندر شیکھر آزاد کی حمایت کی ہے۔ تاہم، مسلمانوں اور ہندو دلتوں کے درمیان شراکت داری، ابھی بھی پوری طرح سے کھل کر عمل میں نہیں آئی ہے، کیونکہ مسلم جماعتوں  پر اعلیٰ ذات والوں کا غلبہ ہے، جن کے سماجی اور معاشی اہداف، دلت کی قیادت والی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔

ان سب باتوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ، چونکہ  مسلمان اب مابعدِ اسلام پرستی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، جہاں اب مذہبی عقائد، آزادی، انصاف اور مساوات کے آئینی اصولو کے ساتھ ملا  دیے گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا سیکولرازم کے مین اسٹریم لبرل برانڈ سے اعتماد ختم ہو گیا ہے، کیونکہ اسے یا تو مذہبی قدریں پسند نہیں تھیں، یا پھر عوامی سطح پر مذہب کو دیکھنا، انہیں بالکل ہی پسند نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے  انہوں نے، سیکولرازم کی اس علاقائی قدروں کو زیادہ کھلے دل سے قبول کیا۔

خلاصہ یہ کہ، سیکولرازم کے لبرل حامیوں نے مسلمانوں، اور خاص طور پر نچلی ذاتوں اور دلت مسلمانوں کے معاشی مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کے بجائے، انہوں نے سیکولرازم کی حمایت میں بے معنی دلائل پیش کیے، جن کا عوام پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔ اور اس سے بھی برا یہ ہوا کہ، مسلمانوں کو قدیم اور فرسودہ سوچ کا حامل بتایا جانے لگا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی جمہوریت نواز تحریکوں نے، ان خامیوں کو سامنے لا کر، سیکولر اور شراکتی جمہوریت دونوں کو ایک نئی زندگی بخشی ہے، حالانکہ ابھی یقینی طور پر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

English Article: Indian Muslims Are Forging A New Path Towards Secularism Within The Framework Of Indian Democracy

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/indian-muslims-path-secularism-indian-democracy/d/132205

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..