ارشد عالم، نیو ایج اسلام
17 جون 2022
عام مسلمانوں نے اپنی خود
غرض قیادت کی قیمت چکائی ہے۔
اہم نکات:
1. حکومت نے جب اپنے
ترجمانوں کے خلاف کارروائی کر لی تو اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے
تھا۔
2. عربوں کو ان پریشانیوں
کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے وجود پر منڈلا رہی ہیں۔
3. مسلم قیادت نے عوام کو
تعلیم یافتہ کرنے کے بجائے ان کے درمیان توہین رسالت کے بیانیے کو ہوا دی۔
4. حکومت کی انتقامی
کارروائی کا خمیازہ بالآخر عام مسلمان ہی اٹھاتے ہیں۔
-----
Photo:
The Times of India
---
پیغمبر اسلام کے بارے میں
بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے غیر اخلاقی تبصرے کے بعد نام نہاد توہین
رسالت مخالف مظاہرے اب کم و بیش تھم سے گئے ہیں۔ جس چیز نے معاملات کو مزید بدتر
کر دیا وہ شرما کے خلاف مظاہروں کے درمیان بی جے پی کے ایک اور ترجمان نوین جندل
کا ایک انتہائی اشتعال انگیز اور قابل مذمت ٹویٹ تھا، جس نے آگ میں گھی کا کام
کیا۔ مسلمانوں کا غصہ اس وقت پھوٹ پڑا جب یہ بات سامنے آئی کہ نوپور شرما نے ٹائمز
ناؤ کی اینکر نویکا کمار کی اجازت سے قبل دو اور دیگر چینلوں پر پیغمبر اسلام کے
خلاف یہی باتیں کہنے کی کوشش کر چکی ہے۔ اسی دن جب شام 7 سے 8 بجے کے شو میں اس نے
اپنی زبانی شروع کی تو فوراً نیوز 24 کے اینکروں نے اسے روک دیا، اسی طرح ریپبلک
بھارت کے اینکر نے بھی ایسا ہی کیا جب اس نے 8 سے 9 بجے کے شو میں اپنا صرف ایک ہی
جملہ مکمل کیا تھا۔
ان انکشافات کے بعد یہ
واضح ہوگیا کہ شرما اس شام کے بڑے پیمانے پر دیکھے جانے والے پرائم ٹائم پروگراموں
میں مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار اور پرعزم تھیں۔ اور جیسا کہ
اس نے بعد میں دعویٰ کیا کہ یہ کوئی جذبات میں محض زبان سے نکلا ہوا کوئی کملہ
نہیں تھا۔
تاہم ہندوستانی مسلمانوں
کے لیے شاید یہ سوچنے کا وقت ہے کہ انہیں اس طرح کے احتجاجات سے کیا حاصل ہوا؟ اور
کیا یہ اپنے مسائل کو حل کرنے کا صحیح طریقہ تھا؟ کیا انہیں جال میں پھنس جانا
چاہیے تھا؟
سب سے پہلی اور اہم بات
بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے ترجمانوں کے نام نہاد توہین آمیز ریمارکس پر بین
الاقوامی ردّعمل کے بعد بیک فٹ پر تھی۔ اسے شرما کو مزید تفتیش تک معطل کرنا پڑا
اور نوین جندال کو پارٹی کی پرائمری رکنیت سے بھی برخاست کرنا پڑا۔ (کئی غیر بی جے
پی حکومت والی ریاستوں میں، اس کے خلاف شکایات اور ایف آئی آر بھی درج کی گئی
تھیں۔) ایک ایسی پارٹی کے لیے یہ واقعی ایک پسپائی کا لمحہ تھا جو اپنے موقف پر
ڈٹے رہنے کے لیے مشہور ہے۔ یہ بی جے پی کے لیے مزید شرمناک بات اس لیے بھی تھی
کیونکہ مسلم حکومتوں نے موجودہ حکومت کو اپنے ہی عملے کو ناراض کرتے ہوئے اپنے ہی
قومی ترجمانوں کو ’’فرینج‘‘ کہنے پر مجبور کیا تھا جو شرما اور جندل کی حمایت میں
پرزور طریقے سامنے آئے تھے۔
اس کے باوجود احتجاج ختم
نہیں ہوا۔ شاید اپنی ’فتح‘ سے حوصلہ پا کر ’مسلم قیادت‘ مختلف مقامات پر نوپور
شرما اور نوین جندل کی گرفتاری کے اپنے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یقیناً اسلامی
ممالک نے نوٹس لیا لیکن صرف ایک عربی نبی کے دفاع میں۔
اگر اس طرح کے اقدام کے
پیچھے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ روزانہ کیے جانے والے سلوک پر روشنی ڈالنا
تھا تو اس سے یہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ سوچنا حماقت ہے کہ یہ اسلامی ممالک
ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار سے واقف نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ
ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے جیساکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ چین اپنے مسلمان شہریوں
کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ لیکن انہوں نے اس پر خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہی
برسوں سے ان کی پالیسی رہی ہے۔
عربوں کو خاص طور پر
مسلمانوں کی حالت زار سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ وہ غیر عربوں کو برابر کا
درجہ نہیں دیتے۔ عرب عجم کی تقسیم گہری ہے جس میں عجم (غیر عرب) کا کام صرف عربوں
کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ عرب دنیا محض اس وجہ سے متحرک ہو گئی کہ یہ پیغمبر
اسلام (ایک عربی) کی توہین کا معاملہ تھا۔ جیسے ہی حکومت ہند نے اس معاملے کی
وضاحت کی اور معافی مانگ کی، ویسے ہی یہ معاملہ ان تمام مسلم ممالک کے لیے ختم
ہوگیا۔
ہندوستانی مسلمانوں سے
صورتحال کو سمجھنے میں چوک ہو گئی اور انہوں نے اس مسئلے پر احتجاج اور اشتعال
انگیزی جاری رکھی، جسے اب مسلم ممالک کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ نام نہاد اسلامی
ممالک کا پیغام بہت واضح تھا: ہمیں ہندوستانی مسلمانوں کی جان و مال کے نقصان سے
کوئی سروکار نہیں ہے۔ حکومت ان کے ساتھ جیسا چاہے معاملہ کر سکتی ہے۔ حکومت ہند کے
لیے بھی پیغام بالکل واضح تھا۔ وہ سمجھ گئے کہ 'نئی سرخ لکیر' کیا ہے۔ اور انہوں
نے بڑے پیمانے پر گرفتاریا کیں، گھروں کو منہدم کیا اور یہاں تک کہ رانچی جیسے
مقامات پر براہ راست گولی مار کر مسلمانوں کو اجتماعی سبق سکھانے کا فیصلہ بھی
کیا۔
بہر حال، غیر ملکی
حکومتیں کسی بھی ملک کا اندرونی معاملہ سمجھی جانے والی باتوں پر تبصرہ کرنے سے
گریز کرتی ہیں، جب تک کہ اس میں کوئی اور بات شامل نہ ہو۔ ہندوستانی مسلمانوں کا
حوصلہ بلند تھا اور جب بی جے پی نے ترجمانوں کے خلاف کارروائی کر دی تھی، تو
معاملہ وہیں ختم ہونا چاہیے تھا۔ لیکن، دیگر معاملات کی طرح، ہندوستانی مسلمانوں
نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا، اور اب نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ
جب توہین رسالت کا معاملہ آتا ہے تو ہمیں پڑھے لکھے مسلمانوں اور سڑک پر عام ملا
کے بیان میں شاید ہی کوئی فرق نظر آتا ہو۔ گویا کہ مسلمانوں کو تکلیف لگنے کا خاص
حق حاصل ہے، ہر طرف سے توہین رسالت کا بدلہ لینے کی صدائیں گونجنے لگیں۔ فرق صرف
اتنا تھا کہ اس کا بدلہ مجرم کو گرفتار کر کے لیا جائے یا اسے پھانسی پر لٹکانے کا
مطالبہ کر کے لیا جائے۔
People
chant anti-India slogans to condemn the derogatory references to Prophet
Muhammad in Karachi, Pakistan, Monday.(Photo | AP)
----
عام حالات میں، قوم کے
اندر زیادہ تعلیم یافتہ طبقے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عام لوگوں کو جذباتی ہونے
بجائے عقل و شعور کے ساتھ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے آمادہ کریں گے۔
افسوس، کہ پڑھا لکھا ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایسے کسی کردار میں نہیں دیکھتا
اور اس طرح کے معاملات میں مزید تشدد کے ساتھ اپنا رویہ پیش کرتا ہے۔
ہم نے مسلم کارکنوں کے
ایک فعال مگر گمراہ گروپ کی پیش رفت دیکھی ہے جسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ
ان کی احمقانہ کارروائی کے نتائج کیا ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کارکن مراعات
یافتہ ہیں اور اسی لیے وہ عام مسلمانوں کی تکالیف دیکھنے سے معذور ہیں۔ آخر یہ عام
مسلمان ہی ہیں جن کے سبزی کے ٹھیلے پھینک دیے جاتے ہیں، جن کے مکانات زمین بوس کر
دیے جاتے ہیں اور جنہیں پولیس محض شک کی بنیاد پر اٹھا کر لے جاتی ہے۔ چند استثناء
کے علاوہ، یہ کارکن، جو پوری مسلم قوم کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں، اعلیٰ ذات کے
مسلمانوں کے عددی طور پر چھوٹے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس طبقے اور
ذات نے اپنی ان سیاسی ترجیحات کی وجہ سے پوری قوم کو محکومی اور پسماندگی کی
موجودہ حالت میں ڈال دیا ہے، جس میں اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت کے حالات زندگی
کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے۔
توہین مذہب جیسے مسائل کے
بارے میں قوم کو آگاہ کرنے کے بجائے انہوں نے اس بیانیے کو ایک آلہ کار کے طور پر
طول دیا جس کا نتیجہ آج عام مسلمان بھگت رہے ہیں۔ اگر ان کارکنوں کے دل میں واقعی
مسلم مفاد کا خیال ہے، تو انہیں توقف کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے زیادہ
اہم کیا ہے: مسلمانوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا یا بین الاقوامی میڈیا میں
تھوڑی جگہ حاصل کر لینا۔
رانچی میں پولیس کی گولی
سے مارے گئے نوجوان مدثر کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی ماں کے پاس دنیا کے سامنے
یہ اعلان کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ اس کا بیٹا شہید ہوا ہے۔ وہ بہت غریب
ہے اور پولیس کے خلاف قانونی جنگ نہیں لڑی سکتی۔ اور وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ سول
سوسائٹی کے افراد بھی زیادہ دیر تک میرے ساتھ نہیں کھڑے رہنے والے نہیں۔ اس کی
واحد امید یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اسلامی نظریہ میں غرق کر دے اور اس
سے سکون، اطمینان اور سماجی سرمایہ حاصل کرے۔ اس کے آنسو میں اتنی طاقت ہے کہ ملک
میں بہت سے مروجہ بیانیوں کا پردہ چاک کر سکے: پولیس کی بربریت اور ان کی مکمل
فرقہ واریت جس کی مختلف رپورٹس میں نشاندہی کی گئی ہے۔ لیکن ایسے مسائل کو تہذیب
وتمدن کے دائرے میں رہ کر ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔
افسوس ہمارے کارکنوں اور
حکومت کے لیے بھی اس کی ماں کی واحد پہچان ایک مسلمان ہونا ہے۔ وہ اس بڑی مسلم قوم
کی علامت بن چکی ہے جو ایک دشمن حکومت اور خود غرض تنگ نظر اشرافیہ کے درمیان
پھنسی ہوئی ہے۔
English
Article: What Have Indian Muslims Gained From The
Anti-Blasphemy Protests?
Malayalam
Article: What Have Indian Muslims Gained From The
Anti-Blasphemy Protests? മതനിന്ദ വിരുദ്ധ പ്രതിഷേധങ്ങളിൽ നിന്ന് ഇന്ത്യൻ
മുസ്ലീങ്ങൾക്ക് എന്ത് നേട്ടമാണ് ഉണ്ടായത്?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism