ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
29 اپریل 2021
مذہبی نشانے پر ہونے کے
باوجود ، مسلمان ان سخت حالات میں ہر ایک
کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
اہم نکات:
1. کچھ عرصہ پہلے ، انہیں کورونہ جہاد میں ملوث ہونے کی حیثیت سے
بدنام کیا گیا تھا۔ وائرس کو پھیلانے والے
مسلمان ہیں کی تصاویر کو سوشل
میڈیا پر گردش کیا جارہا تھا۔
ان سب کے باوجود ، مسلمان
ذات پات اور نسل سے قطع نظر ہر کسی کی مدد
کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
گہری نظر رکھنے والے ان مسلمانوں کے لئے ، اسلام انسانیت کی خدمت کے
بارے میں ہے ، خواہ وہ انسان کسی بھی دھرم اور عقیدے سے منسلک ہو ۔
------
کووڈ ۱۹ کی دوسری لہر نے
واقعتا ملک کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا
کوئی دن نہیں گزرتا جب ہم اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کے وائرس کے شکار ہونے کی خبر
نہیں سنتے ہیں۔ وائرس سے لڑنا ایک بات ہے ، لیکن صحت کا بنیادی ڈھانچہ ، ایک اور بات ہے۔
آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسے مریضوں کی تکلیف دہ کہانیاں ہیں جنہیں
ہسپتال کے بیڈوں سے محروم رکھا گیا یا مناسب آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس کے لئے
ہانپ رہے ہیں۔ اگر حکومت لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں حساس ہوتی تو ایسی بہت ساری
موتوں کو روکا جاسکتا تھا۔
چونکہ لفظ حکومت کو سسٹم سے بدلنا فیشن بن گیا ہے ، لہذا ہم یہ
کہیں کہ اس سسٹم کے پاس اس واقعہ کی پہلے
سے سمجھ نہیں تھی۔ کچھ تو اس کی خود اعتمادی اور تکبر کا نتیجہ تھا کہ
دانشوروں کی طرف سے دی جانے والی انتباہات
پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔بلکہ اس سے بھی برا یہ ہوا کہ ان لوگوں ہی کا مذاق
بنایا گیا ۔دلیل یہ دی گئی تھی سب کچھ قابو میں ہے ۔اور جو شخص بھی اس بات سے متفق
نہیں ہوا، اسے ہندوستان مخالف قرار دیا
گیا اور اس
کے نتیجے میں وہ معاوضہ حاصل کرنے والے
ٹرولوں (paid trolls) کے حملے کی زد
میں آگئے۔ آج حقیقت واضح ہو چکی
ہے اور ہمارے اندر یہ تلخ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ صحت کا نظام ختم
نہیں ہوا بلکہ اسے محض بے نقاب کر دیا گیا ہے۔
اس برے حالات میں ہمیں کچھ ایسی بھی خبریں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو
ہماری روح میں قوت و تازگی بخشتے ہیں اور
مشترکہ انسانیت پر ہمارے اعتماد کو مستحکم بناتے ہیں۔ اقلیت میں رہنے والے خاص طور پر مسلم برادری کے لوگ ذات یا
نسل سے قطع نظر ہر کسی کی امداد کرنے کی
کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ واقعی بیشتر
مسلمانوں کے لئے ایک مشکل گھڑی ہے کہ جب وہ رمضان کے مقدس مہینے میں دن بھر روزہ رکھتے
ہیں۔ پہلے کے مقابلے اب کورونا وائرس زیادہ مہلک ہے۔ کھلے میدان میں جان جوکھم میں ڈال کر ضرورتمندوں کی مدد کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ
انسانی اقدار کے ساتھ ایک خاص قسم کی ہمت اور عزم ہو۔ایسے حالات میں جب قریبی رشتہ دار بھی اپنے
کووڈ مریضوں سے دور بچتے رہے ، مسلمانوں
اور سکھوں نے بڑی تعداد میں رضاکارانہ طور پر ان کی دیکھ بھال اور مدد کی پیش کش کی۔ خاص طور پر
مسلمان سلامی کے مستحق ہیں کیونکہ وہ رمضان کے اس مہینے میں بھوکے پیاسے رہ کر بھی
دوسروں کی خدمت کے لیے میسر ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی جو شخص آج اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ہے تو سمجھ لیجیے وہ شخص اپنی انسانیت یا انسان دوستی سے محروم ہے۔
میرے کہنے کا ذرہ برابر بھی یہ
مقصد نہیں کہ صرف اقلیت میں رہنے والے لوگ ہی ضرورتمندوں کی مدد کرنے کی کوشش میں اپنی جان کو خطرے میں
ڈال رہے ہیں۔ تمام مذہبی روایات سے تعلق رکھنے والے نیک نیت لوگ براہ راست یا
بالواسطہ لوگوں کی مدد کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں۔ اور اس طرح کی
تمام کوششوں کو خاص طور پر سراہا جانا چاہئے خاص طور پر اس وقت جب ‘سسٹم ’ تقریبا
ناکام ہو چکا ہے۔ تاہم جب بات
اقلیتوں کی ہوتی ہے تو ریاست سے واحد
گفتگو جو ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں وہ انضمام کے معاملے میں ہے۔ مذہبی اقلیتوں
کو ہندوستانی معاشرے میں کم مربوط سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے وہ خصوصی پالیسیوں
کا ہدف ہیں۔ جاری وبائی امراض نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی اس ملک
کی مذہبی اقلیتوں سے زیادہ مربوط نہیں ہے۔
باوجودیکہ انہیں باطل قرار دیا گیا ، ان کا طنز کیا گیا اور انہیں مجرم قرار دیا
گیا لیکن پھر بھی ان کی طرف سے ساتھی
شہریوں کے لئے کی جانے والی بے لوث خدمت
کا صرف یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ یکجہتی اور دوسروں سے مضبوط رشتہ رکھنے کے معاملے
میں ایک یا دو سبق ضرور سکھا سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان کے اس عزم پر اثرانداز ہوتے ہیں وہی حقیقت میں اس ملک میں اجنبی روحیں ہیں۔
اقلیتیں بھی دہائیوں سے نفرت اور منظم امتیاز کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔
ایک وقت تھا جب سکھوں کو دہشت گرد سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ اس کے بر عکس ثابت
ہو گئے ۔ اب یہ مسلمان ہیں جنہیں اکثر و بیشتر اقتدار میں رہنے والوں کی طرف سے چلائی جا رہی خطرناک مہم کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ زیادہ دنوں
پہلے کی بات نہیں کہ مسلمانوں کو کورونا جہاد میں ملوث ہونے کی حیثیت
سے ذلیل و رسوا کیا گیا تھا ۔ دائیں بازو کے ہندو سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی تصاویر بناکر اس بات
کو پھیلا رہے تھے کہ مسلمان ہی کرونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ مسلمان یہ
نہیں بھولے ہیں کہ انہیں صرف چھ ماہ قبل ہی کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور
وہ نہیں بھولے ہیں کہ حالیہ دہلی فساد میں
ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ یہ نہیں بھولے کہ ان کے بہت سے ساتھی مسلمان سخت
الزامات کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔ وہ
ڈاکٹر کفیل کے کیس نہیں بھولے ہیں جنہیں جیل میں ڈال دیا گیا باوجودیکہ گواہی نے
اس بات کو ثابت کر دیا تھا کہ وہ لوگوں کی جانیں بچا رہے تھے۔مختصر یہ کہ وہ یہ
نہیں بھولے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے
کہ وہ مسلمان ہیں۔
پھر بھی ، اس سب باتوں کو
چھوڑ کر ، مسلمان نہ صرف اپنی برادری کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ ضرورتمند کسی بھی برادری کا ہو ، جو بھی ان کی مدد مانگتے ہیں وہ ان کی مدد کر رہے
ہیں۔ مسلمانوں کی اس غیر معمولی ہمت ، ہمدردی اور قربانی کو آنے والے طویل عرصے تک
یاد رکھنا چاہئے۔
-----
ناگپور کے پیارے خان کا ذکر
کرنا تو بہت ضروری ہے جنہوں نے مختلف اسپتالوں میں ضروری آکسیجن کی فراہمی کے لئے تقریبا ۸۵ لاکھ روپے
خرچ کر دیے ۔ افراد پر مشتمل کئی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو رضاکارانہ طور پر ان
لاشوں کا انتم سنسکار کر رہی ہیں جن کا کوئی نہیں یا جنہیں ان کے کنبہ اور رشتہ
داروں نے چھوڑ دیا ہے ۔ متھورا ، مظفر نگر
، اندور ، دہلی اور دوسری جگہوں پر ، ایسے افراد اور گروہ اپنی جان کی حفاظت کا سوچے بغیر چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔
ادارہ جاتی طور پر ، مسلمانوں نے اپنی بہت سی مساجد کو کووڈ ٹریٹمنٹ مراکز میں تبدیل کر دیا ہے اور تمام مذاہب کے لوگوں کو
ان سہولیات تک پہنچنے کی مکمل آزادی
دے رکھے ہیں۔ کچھ وقت پہلے یہی مسلمان ہیں جن کو ان کی ظاہری شکل و صورت اور وضع قطع کی وجہ سے ناپسند کیا جارہا
تھا۔ لیکن اس سے قطع نظر ، وہ اسی لباس اور اسی وضع قطع کے ساتھ انسانیت کی خدمت
جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج وہ جن لوگوں نے
انہیں ان کے کپڑوں سے پہچانا تھا اور معاشرے کو پولرائز کرنے کی کوشش کی ، انھیں
اپنا سر شرم سے جھکا لینا چاہئے۔
اسلام کے اسکالرز کی ایک نئی نسل، جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہے ، جو یہ سوچتے ہیں کہ ایک مسلمان غیر مسلم کے
لئے جو بھی کرتا ہے وہ یا تو اسے تبدیل کرنے یا تباہ کرنے کے لئے ہے۔ بیشتر دائیں بازو کے ہندو ، جو مسلمانوں کے
تئیں نفرت رکھنے کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں
، انہیں آج اس طرح کی ترقی پر بہت مایوس ہونا چاہئے۔ اسی طرح وہ تیسرے درجے والے
ملا بھی مایوس ہوں گے جنھوں نے ایک طویل عرصے سے یہ تبلیغ کی تھی کہ کسی مسلمان کو
غیر مسلموں کے ساتھ کوئی یکجہتی نہیں کرنا چاہئے۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کے لئے ،
‘حقیقی’ مسلمان وہ ہیں جو صرف دوسرے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں اور ہر ایک کو ان کے
دائرے سے خارج کرتے ہیں۔
تاہم جو مسلمان دوسروں کی بے لوث مدد کر رہے ہیں وہ
گہری نظر رکھنے والے ہیں۔ ساتھی انسانوں کی
مدد کے لئے ان کا یہ عزم اور حوصلہ جس جگہ سے آتا ہے وہ ہے اسلام کی ان کی اپنی سمجھ اور اپنی تشریح ۔ ان کے لئے اسلام پوری طرح انسانوں کی خدمت کے بارے میں ہے ، خواہ
وہ انسان کسی بھی دھرم یا
عقیدے سے منسلک ہو۔ یہ اسلام اپنے بہترین مقام پر ہے اور
وہ مسلمان جو اس نظریہ کے پابند ہیں وہ اس
کے بہترین سفیر ہیں۔
-----
URL for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/india-salute-muslims/d/124758
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/india-salute-muslims/d/124796
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism