ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
8 جولائی 2022
نفرت پھیلانے
والے ہندوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے سے قوم مسلم کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے ان
کے اصل مشن کو نقصان ہوتا ہے
اہم نکات:
1. سابق مسلمانوں (Ex-Muslims) کی تحریک اسلام اور
مسلمانوں میں فرق کرتی ہے۔ ان کی پوری دلیل یہ ہے کہ اسلام کے اندر بنیادی تبدیلیاں
ضروری ہیں ورنہ مسلمانوں کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکے گی۔
2. انہوں نے ایسے علما
سے بات چیت کی ہے جو ابھی تک سابق مسلم برادری کی طرف سے اٹھائے گئے بہت سے سوالات
کا جواب نہیں دے سکے ہیں۔
3. آہستہ آہستہ عام مسلمان
بھی انہیں توجہ سے سننے لگے ہیں۔
4. اب سابق مسلمانوں کی
تحریک پاگل ہندو جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی نظر آتی ہے جو اس سے قبل مسلمانوں
کے بڑے پیمانے پر قتل کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
5. اس عجیب و غریب اتحاد
کی وجہ کچھ بھی ہو، اس سے صرف مسلمان اس تحریک سے برگشتہ ہوں گے، جس سے ان کے مقصد
کو نقصان پہنچے گا۔
-----
میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ میں نے
بہت سے مسلمانوں سے ملاقات کی ہے جو اسلام کی نوعیت اور اس کی تعلیمات کے بعض پہلوؤں
پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے اس لیے اس
کی بعض آیات سائنس کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ اگرچہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ
قرآن کی ایسی کچھ آیات سے مایوس ہو چکے ہیں جو اپنے پیروکاروں کو کافروں کے خلاف جنگ
کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان سوالات کا جواب کے بجائے، ما بعد قرآن ،
فقہ نے ایک ایسی آفاقی سچائی کا اعلان کر کے اسلامی بالادستی کے تصور کو مزید تقویت
بخشی ہے جو قیاس کے مطابق صرف اسلام کے اندر ہے۔ اختلاف رائے کی کمی، خواتین کی حیثیت،
مسلم معاشروں میں صحیفوں کے ماخذ سے متعلق
تنقیدی روایت کی کمی سے وہ اس پس وپیش میں ہیں
کہ آیا مسلم معاشرے کی اصلاح ممکن بھی ہے یا کہ نہیں۔ یہ مسلمان نماز اور روزہ
جیسے اسلامی معمولات پر بظاہر عمل کرتے ہیں، لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم بہت پہلے
ہی ایمان سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ انہیں بنیادی طور پر مذہب سے ان کا خاندان اور ان کی دوستیاں جوڑتی ہیں،
نہ کہ اسلام کا۔
لیکن اب ہندوستان میں مسلمانوں
کا ایک اور ایسا طبقہ دیکھا جا رہا ہے، جو اب اسلام کے اندر موجود تضادات پر یا اس
بات پر خاموش رہنے کو تیار نہیں ہیں کہ اسلام کے بعض مضامین تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ جماعت ہر طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے: مدرسہ سے تربیت یافتہ علماء، پیشہ ور افراد،
سماجی ماہرین اور طلباء۔ اسلام پر تنقید کرنے کا ان کا طریقہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن
یہ سب اس کے بارے میں بولنا ضروری سمجھتے ہیں جو انہیں مسلمانوں کی اس اولین جماعت
سے ممتاز کرتا ہے جنہوں نے اپنی بدگمانیوں کے باوجود شعوری طور پر خاموش رہنے کا فیصلہ
کیا۔ وہ خود کو سابق مسلمان کہتے ہیں اور اسلام کے اندر پائی جانے والی خرابیوں کے
بارے میں بڑھ چڑھ کر آواز اٹھاتے ہیں۔ سابق مسلمان ایک وسیع اصطلاح ہے لیکن جو چیز
انہیں متحد کرتی ہے وہ ان کا یہ خیال ہے کہ اسلام مسلم معاشرے اور پوری دنیا کے تمام
مسائل کا سرچشمہ ہے اور وسیع پیمانے پر اس کی تردید کے بغیر اس کی اصلاح نہیں کی جا
سکتی۔ مسلمانوں اور اسلام کے درمیان فرق کرتے ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ سابق کو لاحق کے
لیے 'رکاوٹ پیدا کرنے والا' نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے ان کی پوری سرگرمی اس مروجہ مذہبی
حکمت کو چیلنج کرنے پر مبنی ہے کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ اس کے بجائے وہ
صحیفوں کی مدد سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ کس طرح اسلام یا اسلامی تعلیمات اس کے بالکل
برعکس ہیں۔
کئی برسوں سے اس تحریک میں صرف
اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ آج ملک بھر میں ایسے کئی گروہ پھیلے ہوئے ہیں جو مسلمانوں
کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ ان کے مذہب کی خامیاں کیا ہیں۔ یہ سرگرمی زیادہ تر سائبر
اسپیس تک ہی محدود ہے کیونکہ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ اس طرح کی بحثیں اب بھی عوامی
سطح پر نہیں کی جا سکتیں۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر، یہ سابق مسلم چینلیں ایسے
علماء اور عام مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہی ہیں جنہیں اسلام کے بارے میں
کچھ تھوڑا بہت علم ہے۔ سابق مسلمانوں اور ممتاز اسلامی اسکالرز کے درمیان مباحثے ہوئے
ہیں اور عام مسلمان اپنی الجھنوں کو واضح کرنے کے لیے ان چینلوں پر آتے ہیں لیکن زیادہ
تر لوگ ان باتوں کو مسترد کرتے ہیں جنہیں وہ غلط نقطہ نظر سمجھتے ہیں۔ یہ آن لائن مناظرہ
کی ایک شکل ہے جس میں یہ طے کرنا واقعی مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا فریق جیتا اور کون
ہارا۔ لوگ اپنے تعصبات کی بنیاد پر اپنے اپنے
علماء کی فتح یابی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
لیکن یہ بات واضح ہے کہ تقریباً
تمام مسلم اسکالروں کے پاس سابق مسلم برادری کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ سوالات کے تسلی
بخش جوابات نہیں ہیں۔ ان سوالات کا تعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہو
یا روایتی اسلامی فقہ کے اختیار کردہ طریقہ کار سے ہو، یا اسلام میں خواتین کے مقام
سے، علمائے کرام اعتراضات کا تشفی بخش جواب دینے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ ان حالات
میں مفتی فضل ہمدرد جیسے کچھ علمائے کرام نے، جو پاکستان کی محفوظ حدود میں رہ کر
’’اسلام کی حفاظت کرتے‘‘ ہیں، بعض ممتاز سابق مسلمانوں پر ذاتی حملے کیے ہیں۔ لہٰذا،
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ قابل مذمت ہے اور اس سے روایتی مسلم علماء کی ایک انتہائی
بری تصویر ظاہر ہوتی ہے۔ اس رویے سے سابق مسلمانوں کے پیروکاروں میں اضافہ ہوا ہے اور
اب زیادہ سے زیادہ مسلمان ان کے چینلوں پر ان کی باتیں سننے کے لیے آ رہے ہیں۔
اس سے علمائے کرام کو مزید غصہ
آتا ہے کیونکہ وہ مسلم معاشرے پر اپنی پکڑ اور عزت میں کمی آنے سے ڈرتے ہیں۔ مایوسی
کے عالم میں، پاکستان کے ہی ایک اور مفتی ایک مشہور و معروف سابق مسلم کی اصل شناخت
حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا نام ساحل تھا۔ لیکن آخر کار ہوا یہ کہ یہ سابق مسلمان
باہر نکلا اور لائیو ٹی وی پر ان ملاؤں سے بحث کرنے لگا۔ یکجہتی کے طور پر، کچھ دوسروں
نے بھی واقعی خطرے کے احساس کے باوجود اپنا چہرہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ علمائے کرام
کو کسی اور حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اب تک اس تحریک کو روکنے کے لیے ان
کی تمام تکنیکیں رائیگاں گئی ہیں۔ جبکہ عام مسلمان آہستہ آہستہ ان چینلوں کو پسند بھی
کرنے لگے ہیں۔ تاہم، اس کی رفتار بہت سست ہے۔
سابق مسلم چینلز پر آج تک ان ہندوؤں
کی بھرمار ہے جو اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہیں یا جو اسلام کی بے عزتی
ہوتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونا چاہتے ہیں۔ اس سے سابق مسلم تحریک کے لیے ایک بنیادی مسئلہ
پیدا ہوتا ہے، جس کے بارے میں انہیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان پروگراموں کے سامعین
بنیادی طور پر صرف غیر مسلم ہیں تو وہاں صرف ایک مخصوص قسم کے سوالات ہی اٹھائے جائیں
گے۔ اگر سابق مسلمان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کو اسلام سے بچانا ہے تو
انہیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ وہ عام مسلمانوں کو اپنے پروگراموں میں لانے کے لیے
کیا کر رہے ہیں؟
اس کے بجائے، ہندو انتہا پسندوں
کے اندر پائے جانے والے انتہائی ناگوار عناصر کے ساتھ ایک عجیب سی صف بندی ہو رہی ہے۔
کچھ چینل جو کافی مقبول ہیں، انتہا پسند جماعت سے ایسے لوگوں کو مدعو کرنے میں کوئی
حرج نہیں سمجھتے جو کھلے عام یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانا
چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اسی ماحولیاتی نظام سے آتے ہیں جو مسلمانوں کا معاشی طور پر بائیکاٹ
کرنا چاہتے ہیں، ان کی لنچنگ پر جشن مناتے ہیں، ان کی اجتماعی قتل عام کا مطالبہ کرتے
ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ آج ہندوستان میں جو کچھ بھی گڑبڑی ہے وہ اسلام اور مسلمانوں
کی وجہ سے ہے۔ یا تو ایسے لوگوں کو اپنے پروگراموں میں مدعو کر کے یا ان کے پروگراموں
میں جا کر، سابق مسلمانوں کی تحریک ہندو اور مسلم قدامت پرستوں، دونوں کے درمیان توازن
نہ رکھ کر ایک بنیادی غلطی کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندو انتہا پسندوں
کے ساتھ کوئی بھی اتحاد مشکل ہے۔ اس معاملے میں، ایسا اس حقیقت کے پیش نظر ہو سکتا
ہے کہ سابق مسلمان انتہا پسند مسلمانوں کے حقیقی خطرے سے کسی نہ کسی صورت میں تحفظ
چاہتے تھے۔ لیکن ان لوگوں کو مدعو کرنا ایک بہت بڑی بات ہے جو مسلمانوں کو قتل کرنا
چاہتے ہں ۔
ایسی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کر کے،
سابق مسلمانوں کی تحریک اچھے مسلمانوں اور برے اسلام کے درمیان اپنی پہچان کھو رہی
ہے۔ یہ ہندو انتہا پسند جماعت، جو گوڈسے کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں، مسلم معاشرے کے
اندر اختلاف رائے کو تحفظ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ ان کے لیے سابق مسلمانوں
کی تحریک اسلام اور مسلمانوں کی بربریت کو اجاگر کر ایک اور طریقہ ہے۔ مختصر یہ کہ
وہ اس تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی کچھ فطری
برائیوں کی نشاندہی کرکے مذہبی خطوط پر سماج کو تقسیم کیا جا سکے۔ اس تحریک نے قوم
کے اندر جو بھی خیر سگالی حاصل کی ہے وہ ختم ہو جائے گی اگر وہ ایسے مسلم دشمنوں کو
اپنے چینلوں پر مدعو کرتے رہے۔
سابق مسلم تحریک مسلم قوم کے اندر
بعض تنقیدی بحثیں شروع کرنے کے ارادے سے شروع ہوئی ہے۔ یہ بہتر ہو گا کہ وہ اپنے اصل
مقصد پر قائم رہے نہ کہ ان لوگوں کے ساتھ گھل مل جائے جن کے مسلمانوں کے ساتھ جنون
نے مذہبی ہم آہنگی اور تکثیریت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
English
Article: Where is India’s Ex-Muslims Movement Headed?
Malayalam
Article: Where is India’s Ex-Muslims Movement Headed? ഇന്ത്യയുടെ എക്സ്
-മുസ്ലീം പ്രസ്ഥാനം എവിടെയാണ് നയിക്കുന്നത്?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism