خالد اعظمی
14 اپریل 2020
ہندوستان میں مسلمانوں کو بحیثیت قوم حاشیے پر لگانے اور انہیں معاشی طور پر مفلوج کردینے کی در پردہ سازش آزادی کے بعد سے لگا تار چل رہی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف فسادات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ، اس کے ذریعہ مسلمانوں کے صنعتی مراکز اور انکی تجارت کو بتدریج کمزور کر نا اور ان کی آمدنی کے ذرائع ممکنہ حد تک محدود کردینے کا عمل تواتر کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ا س کے علاوہ سماجی طور پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کردینے کی عملی کوشش کبھی حکومت کی اعانت سے تو کبھی آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیمیں لگاتار کر رہی ہیں ۔ بابری مسجد کی مسماری، گیان واپی، متھرا عید گاہ اور اس ضمن کی دوسری عبادتگاہوں کے سلسلے میں ہندو تنظیموں کے جنگ جویانہ بیانات و اقدامات ، مسلمانوں کے زیر انتظام مساجد، اوقاف ،تعلیمی اداروں، مدارس و مکاتب پر بے جا قانونی بندشیں، علیگڑھ ، جامعہ ملیہ، جامعہ عثمانیہ اور دیگر جدید تعلیمی اداروں پر حکومتی اداروں کے ذریعہ یلغار اور انکی بنیادی حیثیت کو تبدیل کردینے کی لگاتار سازش، تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو دہشتگردی کے جھوٹے الزامات کے تحت جیلوں میں ٹھونس دینا ، انہیں جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کروا دینا ، ان کو پاکستان حمایتی یا پاکستانی چلے جانے کی دھمکی دینا، CAA اور NRC جیسے قوانین کی آڑ میں مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنانے یا انہیں دوئم درجے کا شہری بنانے کا عمل اور اس طرح کے بے شمار اقدامات جن کے ذریعہ حکومت اور اس کی ہمنوا تنظیمیں مسلمانوں کو پس دیوار دھکیلنے کے لئے کوشاں ہیں اور یہ سب اسکے عملی اقدام کی مختلف شکلیں ہیں ۔ اس ضمن میں حکومت کی مدد کے لئے مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ پوری طاقت سے میدان میں لایا گیا ہے جس کے ذریعہ عام ہندو اور سیکولر مزاج عوام کے ذہن کو مسموم کر کے انہیں مسلمانوں کی مخالفت کے لئے آمادہ کیا جا سکے۔
ہندوستانی عوام کی بڑی تعداد نیم خواندہ ہے اور ملکی مسائل و دیگر معاشی و تعلیمی صورتحال کا غیر جانبدارانہ یا ملکی مفاد کے تناظر میں تجزیہ کرنے سے قاصر ہے۔جس کا فائدہ بیشتر ٹیلی ویژن چینل سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور اخبارات کے مالکان اٹھا رہے ہیں اور مذکورہ ذرئع ابلاغ کے توسط سے عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے اور انہیں اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لئے جھوٹی خبریں، سیاق و سباق سے پرے تجزئےاور مباحثے، اور فیس بک ، وہاٹس ایپ پر بالکل جھوٹی اور بے سر و پا خبریں تواتر کے ساتھ پوسٹ کی جارہی ہیں جس کا صرف ایک مقصد ہے کہ عوام کو مسلمانوں سے متنفر کیا جائے ، ان سے بےزاری کا اظہار کیا جائے اور ملک کے ہر معاشی ، سماجی اور طب و صحت کے مسئلے کے ڈانڈے کسی نہ کسی صورت مسلمانوں سے ملا دئے جائیں۔ نا کام حکومتوں کا یہ نہایت آزمودہ نسخہ ہے ، وہ اپنی نا کا میوں کو چھپانے اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے غیر حقیقی واقعات اور عوامل کو مسئلہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں تاکہ عوام اصل مسائل پر توجہ نہ دے سکیں اور یوں حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ اس ضمن میں ہندوستانی مسلمان حکومتوں اور انکی ایجنسیوں کے لئے نرم چارہ ثابت ہوئے ہیں کہ ہر مسئلے کو توڑ مروڑ کر اسے کسی نہ کسی طرح مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے، ا س کے بعد ٹیلی ویژن اور پھر سوشل میڈیا کے ان پڑھ ، بیکار ، بے روزگار خود ساختہ صحافیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر انہیں گالی دینے کا عمل شروع ہوتا ہے اور یوں اصل مسئلے سے توجہ غائب ہو کر مسلمانوں پرمرکوز ہو جاتی ہے۔ کرونا وائرس کی موجودہ وبا کے تناظر میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا کا متعصبانہ چہرہ اور اس پر حکومت کی در پردہ حمایت اور زیادہ واضح انداز میں سامنے آئی جب تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز سے کرونا سے متاثر کچھ مریض سامنے آئے۔ خبر ملتےہی ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف جو طوفان بدتمیزی بر پا کیا گیا وہ اپنے آپ میں برادران وطن کے ایک مخصوص حصہ میں مسلمانوں ،کے خلاف پل رہے زہریلے ، فاسد اور وطن دشمن منصوبے کو واضح کرتا ہے۔ جس طرح سے کرونا وائرس کی آڑ میں تبلیغی جماعت کو ناکردہ گناہوں کے لئے مورد الزام ٹھہرایا گیا، اسی کی آڑ میں سوشل میڈیا پر بغیر روک ٹوک پوری مسلمان قوم کو کٹہرے میں کھڑا کر کے جس طرح انہیں غیر مناسب اور غیر مہذب الفاظ سے نوازا گیا وہ سوشل میڈیا پر متحرک پوری ٹیم کی ذہنیت اور ان کی مسلم دشمنی کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ کرونا وائرس اور تبلیغی جماعت کے پروپیگنڈہ کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی مہم بھی تواتر کے ساتھ چلائی جارہی ہے ، جس میں مسلمانوں سے تجارتی سامان نہ خریدنے کے ساتھ ان کے معاشی باییکاٹ، مسلم وین ڈروں کو ھندو سوسائٹیوں میں آنے پر روک ، مسلمانوں کے ہاتھوں سے کرنسی نوٹ نہ لینے اور مسلم مزدوروں کو کام پر نہ لگانے جیسی اپیلیں لگاتار شائع ہو رہی ہیں اور انکا خاطر خواہ اثر بھی دیکھنے میں آرہا ہے ۔ یہ ایک نہایت خطر ناک رجحان ہے جو ساؤتھ افریقہ کے نسلی عصبیت اور رنگ کی بنیادپر ہونے والے سماجی امتیاز کے طرز پرپنپ رہا ہے ۔ اگر اس رجحان پر بروقت روک نہیں لگائی گئی تو اس کے نتائج نہایت خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
مسلمانوں سے مذہب کی بنیاد پر تعصب اور بھید بھاؤ تو اس ملک میں لگاتار جاری ہے لیکن سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے اس تعصب کو مہمیز دینے کا کام کیا ہے، گئو رکشااور شہریت ترمیمی بل کے بعد اب کرونا وائرس کے نام پر جس طرح سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول تیار کیا جارہا ہے اسے مسلمانوں کے معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی مہم کے ایک حصہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔مسلمان تو نوکریوں میں ،خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی ، ویسے بھی بہت کم تعداد میں ہیں ۔ ابتدائی یا اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے اور دوسری برادریوں کے مقابلے میں بھی خاصی کم ہے، جسکی ساری تفصیل سچر کمیٹی رپورٹ میں واضح ہو چکی ہے ۔ مسلمانوں کا درمیانی اور نچلا درمیانی طبقہ گزر اوقات اور تلاش معاش کے لئے کسی نہ کسی طور پر تجارت اور خود روزگار سے جڑا ہوا ہے ۔ نیشنل سیمپل سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی شہری آبادی کا پچاس فیصد خود روزگار( self employment) سے جڑا ہوا ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ تناسب صرف تینتیس فیصد (%33)ہے۔ان اعدادوشمار کو یہاں دینے کی کوئی خاص افادیت نہیں ہے ، صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت چھوٹے کاروبار اور خود روزگار سے جڑی ہوئی ہے اور اس وقت کرونائی وبا اور تبلیغی جماعت کی آڑ میں جس طرح مسلمانوں کو پس دیوار اور حاشئے پر پہنچانے کی نفرت انگیز مہم سوشل میڈیا پر چلائی جارہی ہے ،اس سے مسلمانوں کا یہ طبقہ بہت زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ اطمینان اور راحت کی بات یہ ہے کہ خود ہندو برادران وطن کا ایک طبقہ اس طرح کی نفرت انگیز مہم کے خلاف ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف اور ملک کی سیکولر جمہوری اقدار کی موافقت میں لکھ رہے ہیں۔ اس دوران مسلم نوجوانوں کی ایک بہت مثبت تصویر یہ سامنے آرہی ہے کہ وہ نفرت کے جواب میں رفاہ عامہ اور سماجی خدمات کے کام میں بہت تندہی سے لگے ہوئے ہیں اور مسلمان قوم کی ایک مثبت تصویر برادران وطن کے سامنے آرہی ہے۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد جس طرح سے غریب بے سہارا مزدوروں کی وطن واپسی کا ایک سیلاب سڑکوں پر بے یارو مددگار جارہا تھا انکےلئے مسلمانوں نے بلا تفریق مذہب اور ذات جس طرح کھانے پینے اور دوسری سہولیات کا بندوبست کیا وہ سماجی خدمت کا ایک مثالی اور عملی مظاہرہ تھا ۔ مسلمانوں کی اسی رفاہی خدمت کی کاٹ کے لئے کرونا اور تبلیغی جماعت کے نام پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو ویلن بنا نے کی مہم چلائی گئی۔امید ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انکے سماجی بائیکاٹ کی یہ مہم دیر پا ثابت نہیں ہوگی اور مسلمان ملک و قوم کے لئے اپنی مثبت سماجی خدمات اور رفاہی کام جاری رکھیں گےکہ یہی نفرت کی مہم کا علاج ہے۔
14 اپریل 2020 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/india-corona-hit-media-muslims/d/121567
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism