New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 09:32 AM

Urdu Section ( 11 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Iman and Yaqin: Faith In The Unseen And Certainty ایمان اور یقین: غیب اور عالم اخرت پر ایمان

 نصیر احمد، نیو ایج اسلام

 30 دسمبر 2022

 ایمان، پوشیدہ یا الغیب پر یقین کا نام ہے۔ علم غیب کے ماخذ کی صداقت کی تفتیش و تحقیق ہو سکتی ہے لیکن خود الغیب کے مندرجات کی صداقت پر کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم غیب پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ علم غیب کا سرچشمہ قرآن مجید ہے جو ایک علیم و خبیر خدا کے کلام سے متوقع تمام صفات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔

 یقین اس کا نام ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیا ہم غیب کا یقین کر سکتے ہیں؟ غیب کی اس تعریف سے یہ ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اعمال تو کر سکتے ہیں لیکن ہمارا ایمان چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو جائے، وہ علم الیقین کا فرجہ نہیں پا سکتا۔

 تو پھر علم الیقین، عین الیقین (مشاہدے یا تجربات علم پر مبنی علم) اور حق الیقین (مطلق سچائی) جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ انہیں عام طور پر یقین کے تین درجات کے تعبیر کیا جاتا ہے جن پر انسان قادر ہوتا ہے اور ایک بندہ پہلے درجے سے دوسرے درجے تک ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ غیب کے بارے میں حق الیقین حاصل کر لیتا ہے۔ یہ محض ایک فریب ہے۔ جہاں تک غیب کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صرف ایمان ہی ممکن ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ درحقیقت جہاں تک غیب کا تعلق ہے قرآن صرف ہمارے ایمان کی بات کرتا ہے نہ کہ یقین کی۔

 ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

 ہم قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔

 ہمیں یقین ہے کہ گنہگاروں کو جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا اور نیک لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔

 ہم اپنی قابل مشاہدہ کائنات کے بارے میں علم الیقین، عین الیقین یا حق الیقین رکھ سکتے ہیں لیکن عالم غیب کے بارے میں نہیں۔

 قرآن مجید کی تین اصطلاحات

 آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن ان اصطلاحات کو کس طرح اور کس معنی میں استعمال کرتا ہے اور آیا ان کا ہمارے علم کے ساتھ یقین سے کوئی تعلق ہے۔

حق الیقین قرآن میں دو مرتبہ آیا ہے۔

وَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ

(56:92) لیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہے۔

فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيمٍ

 (93) تو کھولتے ہوئے گرم پانی کی مہمانی ہے۔

وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ

 (94) اور دوزخ میں جانا ہے۔

 إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ

 (95) یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے۔

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ

 (96) پس تو اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر۔

 یہاں اللہ ہی اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ گنہگاروں کا جہنم کی آگ میں جلنا ہی اصل حقیقت (حق الیقین) ہے۔ ہم صرف ایمان ہی رکھ سکتے ہیں کہ یہ حق الیقین ہے لیکن خود ہمیں اس کا یقین نہیں ہے۔

 (69:38) پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو۔

 (39) اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے۔

 (40) کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے۔

 (41) یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے۔

 (42) اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔

 (43) (یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔

 (44) اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا۔

 (45) تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔

 (46) پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

 (47) پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے وا نہ ہوتا۔

 (48) یقیناً یہ قرآن پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے۔

 (49) ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس کے جھٹلانے والے ہیں۔

 (50) بیشک (یہ جھٹلانا) کافروں پر حسرت ہے۔

 وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ

 (51) اور بیشک (و شبہ) یہ یقینی حق ہے۔

 (52) پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر۔

 ایک بار پھر ان ایات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ قرآن حق الیقین کی کتاب ہے اور ہم صرف ایمان ہی رکھ سکتے ہیں کہ واقعی یہ حق الیقین کی کتاب ہے لیکن اس کا یقین نہیں کر سکتے۔

 علم الیقین اور عین الیقین قرآن میں صرف ایک بار سورہ 102 میں آتا ہے

 (102:1) یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔

 (2) یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت کرو۔

 (3) ہرگز نہیں تم عنقریب معلوم کر لو گے۔

 (4) ہرگز نہیں پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا۔

 كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ

 (5) ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لو!

 (6) تو بیشک تم جہنم دیکھ لو گے۔

 ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ

 (7) اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔

 (8) پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا۔

 جہنم کی آگ عین الیقین بن جائے گی مگر صرف آخرت میں وہ بھی اس وقت جب گنہگاروں کو جہنم کی آگ نظر آئے گی۔ اس وقت تک ہم اس پر صرف ایمان ہی رکھ سکتے ہیں یقین نہیں۔

 علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین صرف اسی چیز کے لیے ممکن ہے جو ہم دیکھ سکتے ہیں، مشاہدہ کر سکتے ہیں اور جن کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ان کا تعلق اس دنیا کی حقیقت سے ہو عالم غیب کی دنیا سے نہیں۔ ہم ان چیزوں پر یقین کر سکتے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں اس دنیا کے حوالے سے ہے۔ مثال کے طور پر، اب ہمارے پاس ہمارے جی اٹھنے کے ممکن ہونے کا علم الیقین ہے جو ہمارے جسم اور روح دونوں کے بغیر اور روح کے بغیر ممکن ہے، اور اس پر بھی کہ یہ کائنات ایک دن فنا ہو جائے گی اور ایک نئی کائنات تخلیق کی جائے گی جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہے۔ مذکورہ بالا مضمون میں انہیں مسائل پر بحث کی گئی ہے۔

 مومن اور کافر میں فرق

 ایک مومن کا عقیدہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ ہر چیز حق الیقین ہے جبکہ ایک کافر کا عقیدہ ہے کہ غیب کی باتیں "لغو" ہیں، لیکن ان کے اپنے عقائد کے بارے میں انہیں یقین نہیں ہوتا کیونکہ ان کا تعلق غیب سے ہے۔

 یہ سوال کہ آیا قرآن حکیم خدا کا کلام ہونے کی حیثیت سے متوقع معیارات پر پورا اترتا ہے، بہر حال اس پر کلام ہو سکتا ہے، اور اگر اس کا خطا سے پاک ہونا ثابت ہو جاتا ہے، تو ایک مومن کی عقلمندی ہے کہ وہ اپنے عقائد کو مضبوط کر لے، اور ایک کافر منکر بن جاتا ہے کیونکہ وہ زمین سے تعلق رکھتا ہے اور ایک اخلاقی زندگی گزارنے کے لیے کتاب اللہ کے جو مطالبات ہیں ان کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

 English Article: Iman and Yaqin: Faith In The Unseen And Certainty

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/iman-yaqin-faith-unseen-certainty/d/129298

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..