سہیل ارشد،
نیو ایج اسلام
17 مئی 2023
بھارت میں اکثر مسلم قیادت
کی عدم موجودگی کارونا رویا جاتا ہےاور مسلموں کے سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل کا
ذمہ دار مسلم قیادت کی عدم موجودگی کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ بھارت میں مسلم طبقہ اقلیت
میں ہے اس لئے اسے اپنے معاشی اور سیاسی حقوق کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے جیسا کہ ہر
ملک میں اقلیتوں کو کرنی پڑتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ سیاسی و معاشی حقوق کی جدوجہد
بغیر ایک طاقتور، منظم اور مؤثر قیادت کے نہیں کی جاسکتی۔لیکن کیا واقعی ایک جمہوری
نظام حکومت میں مسلموں کو ایک قائد یا لیڈر کی ضرورت ہے اور کیا واقعی مسلم طبقے کو
اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک قائد یا امیرالمومنین کی ضرورت ہے جس کے پیچھے پوری
قوم متحد ہوکر چلے اور اپنے حقوق حاصل کرے۔
کیا ملک کی دوسری اقلیتوں
کی ترقی اور معاشی ، سیاسی اور تعلیمی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایک منظم قیادت
ہے۔بھارت میں عیسائی ، سکھ اور دلت طبقوں کے بھی اپنے مسائل ییں لیکن ان کے حالات مسلموں
سے بہتر ہیں جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے بھی واضح ہوچکا ہے۔ اگر ایک منظم اور متفقہ
قیادت ہی مسلموں کے تمام مسائل کاحل ہے تو پھر آزادی کے بعد سے مسلموں کے پاس جیسی
قیادت تھی ویسی تو دوسری اقلیتوں کے پاس بھی نہیں تھی۔ مسلموں کی ملی تنظیمیں تھیں
جو آج بھی ہیں اور ان تنظیموں کے سربراہ مسلموں کے الگ الگ نظریاتی طبقوں میں بہت مقبول
تھے اور آج بھی ہیں اور حکومت پر ان کا اثر بھی تھا۔
آزادی کے بعد اور آزادی سے قبل
بھی ملی قائدین مسلموں کے ایک بڑے طبقے کی رہنمائی کرتے تھے اور وہ عام مسلموں کا اعتبار
قائم حاصل کرنے میں اس لئے کامیاب ہوئے تھے کہ یہ قائدین دینی علم کے ساتھ سیاسی بصیرت
بھی رکھتے تھے ۔ آزادی کے بعد ان ملی تنظیموں اور قائدین نے خود کو سیاسی دھارے سے
الگ کرلیا اور مذہبی معاملوں تک خود کو محدود کرلیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلموں میں سیاسی
قیادت کا خلاءپیدا ہوگیا۔ ملی قائدین کو سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے وقت صرف مسلموں
کے ووٹ کے لئے فتوی لینے کا ہی مصرف لیا اور مسلمان بھی الیکشن کے وقت انہی کی طرف
دیکھتے تھے کہ کیا اشارہ ہوتا ہے۔ اگر اس کو مسلم قیادت کہا جائے تو اس کا مطلب یہ
ہوگا کہ مسلم طبقہ ابھی تک قیادت کا صحیح تصور ہی نہیں قائم کرپایا ہے۔ آزادی کے بعد
مسلمانوں نے پے در پے کئی زخم کھائے اور انکے
ملی، سیاسی اور معاشی حقوق کی پامالی ہوئی حتی کہ ان کا قومی تشخص بھی خطرے میں پڑگیا،
انہیں اپنی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے کام کرنے کے مواقع ملنا تو دور ان کے لئے
اپنا وجود بچانا ہی مشکل ہوگیا۔ جبکہ وہ اس ملک کی ایک بڑی اقلیت تھے اور ملکی سیاست
میں وہ ووٹوں کی طاقت کے لحاظ سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتے تھے۔
آج بھی سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹوں
کی طاقت کو بے اثر کرنے کے لئے ملی قائدین کو سامنے لے آتی ہیں جبکہ دیگر سیاسی معاملات
میں یا ان کے ملی تشخص سے جڑے معاملات میں یہ ملی قائدین حکومت کی پالیسیوں پر اثر
انداز نہیں ہوسکتے۔
ملی قائدین کی اسی ناکامی
کی وجہ سے مسلموں کا ایک طبقہ ان سے بیزار ہونے لگا اور اپنے مسائل کے حل اور اپنے
تشخص اور اپنے وجود کو بچانے کے لئے اپنے فیصلے خود لینے لگا۔ اب مسلم طبقہ الیکشن
میں ملی قائدین کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت اور تجربے کی بنیاد پر ہی
فیصلے لیتا ہے۔ کرناٹک کے الیکشن کے نتائج مسلم طبقے کی خوداعتمادی کا ثبوت ہیں ۔ مسلمانوں
نے نام نہاد ملی قیادت کو ٹھکراکر قومی پارٹی کو متحد ہوکر کامیاب بنایا۔ تین سال قبل
شاہین باغ تحریک مسلم طبقے کی اسی بدلتی ہوئی سوچ اور خود اعتمادی کا اشاریہ بن کر
سامنے آئی تھی جب انہوں نے اجتماعی قیادت کا کامیاب تجربہ کرکے نام نہاد قومی و ملی
قیادت کو آئینہ دکھایا تھا۔اس تحریک نے مسلم خواتین کی طاقت کو بھی ثابت کیا جبکہ اس
سے قبل ملک میں ایک مفروضے اور بیانیہ کی اشاعت کی گئی تھی کہ مسلم خواتین ناقص العقل
اور سیاسی شعور سے عاری ہوتی ہیں۔انہوں نے اپنی ہمت ، استقلال اورجذبہء ایثار میں اکثریتی
خواتین کو بھی پیچھے چھوڑدیا اور دوسروں کے لئے ایک نظیر قائم کردی بعد میں اسی ماڈل
کو کسان تحریک نے اپنایا۔
شاہین باغ کا ماڈل اس لئے
سامنے آیاتھا کہ مسلم طبقے کو اپنی قومی و ملی قیادت پر بھروسہ نہیں تھا۔ انہوں نے
دیکھ لیا تھا کہ یہ ملی قائدین نازک موقعوں پر ان کے مفادات کا سودا کرلیتے ہیں یا
ہھر حکومت کے دباؤ کے آگے جھک جاتے ہیں۔ 1980 ء کی دہائی میں ایک بڑے ملی قائد نے بڑے
پیمانے پر ملک و ملت بچاؤ تحریک کا اعلان کیا تھا اور پورے ملک سے نوجوانوں کو اس تحریک
میں شامل ہونے اور اپنی بقا کے لئے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لئےللکارا تھا۔
ہزاروں نوجوان اس تحریک میں
شامل ہونے کے لئے گھروں سے سرسے کفن باندھ کر نکل پڑے تھےکہ اچانک وزیراعظم کے ساتھ
ایک خفیہ میٹنگ کے بعد اس تحریک کو واپس لے لیا گیا۔
گزشتہ برس سے مسلموں کی ایک
نئی قیادت کی شبیہہ ابھررہی ہے۔ کچھ دانشوروں ، سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کا ایک
گروہ مسلم قیادت کے اس خلاء کو پر کرنے کی کوشش کر رہا یے ۔ اس گروہ نے مسلموں کے مسائل
پر سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات سے مکالمہ شروع کیا ہے۔ لیکن اس گروہ کو وسیع تر مسلم
طبقے کی حمایت اور عقیدت حاصل نییں ہے کیونکہ مسلم۔طبقہ شعلہ فشاں خطابت اور عملی قیادت
میں فرق نہیں سمجھتا۔
مسلم طبقہ کو جذباتی اور مذہبی
نعروں کے اثر سے نکلنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ جبکہ دوسری طرف کسانوں کا ایک پریشر
گروپ مسلموں کے ہی دکھائے ہوئے راست پر چل کر تیار ہوچکا ہے اور اس پریشر گروپ کی قیادت
راکیش ٹکیت کر رہے ہیں۔ راکیش ٹکیت نے ایک سال تک کسا نوں کی کامیاب تحریک کی قیادت
کی۔ اس دوران انہوں نے کئی مشکل حالات کا سامنا کیا لیکن وہ کسانوں کے اعتماد پر کھرے
اترے۔نہ وہ کسی دباؤ کے آگے جھکے اور نہ ہی کسی لالچ میں آئے۔ راکیش ٹکیت ملک کے تمام
ہندوؤں کے قائد نہیں ہیں بلکہ صرف ایک طبقے کے قائد ہیں لیکن رفتہ رفتہ اس طبقے کا
دائرہ اثر وسیع ہورہا ہے۔اور اب اس نے پہلوانوں کی تحریک کو بھی حمایت دے دی ہے۔مسلمانوں
کے لئے بھی ایک قائد کی ضرورت نہیں ہےبلکہ شاہین باغ تحریک نے جو حلقہ تیار کیا تھا
اسی حلقے کا احیا کرکے اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اس حلقے میں سماج کے دوسرے طبقوں
کے مسائل اور معاملات کو بھی شامل کرنے ضرورت ہے ۔
مسلم دانشوروں کا گروہ صرف
بند کمرے میں مکالمہ کرکے مسلم طبقے کو قیادت نہیں دے سکتا۔اسے عوام کے ایک بڑے طبقے
کا اعتماد بھی حاصل کرنا ہوگا۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism