مرزا صہیب اکرام
24 جولائی 2023
ابن صفی
--------
جنوری ۱۹۵۲ء میں کسی کے وہم و خیال
میں بھی نہیں تھا کہ ایک نوجوان کی لگن جس کو بہت سوں نے دماغی فتور اور دیوانے کی
بڑ کہا تھا، رنگ لانے کے سفر پر ہے۔دلیر مجرم کا ہیرو فریدی جو بعد میں کرنل فریدی
بنا اس تقسیم کا روحِ رواں بنا ۔ جاسوسی دنیا کے آغاز پر ایسا لگا جیسے ادب و
جاسوسی کی جو دنیا بیابان اور ویران تھی، جس باغ کے پھولوں پر پیار محبت ، امن،
سکون اور پاکیزگی کے پھول توڑ کر فحش
نگاری اور چربہ سازی پروان چڑھ چکی تھی، اب اُس کو نیا آب و دانہ مل گیا ہے ۔ ادب
پر طاری جمود ختم ہو گیا تھا ۔ فریدی کی شہرت چار سُو پھولوں کی مہک کی مانند پھیل
کر ماحول کو مسحور و معطر کر رہی تھی ۔ بے جان جسموں اور بند دماغوں کی بے چینی کو
ختم کرنے کےلئے ادب کا شہزادہ جنم لے چکا تھا۔ اردو ادب کا پہلا باقاعدہ جاسوس
کرنل فریدی کی صورت وارد ہو چکا تھا ۔ فریدی کی آمد شیر کی طرح تھی ۔ ابن صفی نے
اردو ادب کو ایک ایسے ذائقے سے متعارف کروایا تھا جو اس سے پہلے کسی نے چکھا نہیں
تھا ۔ فریدی کی آمد سے نہ صرف اردو ادب میں جاسوسی کی داغ بیل پڑی بلکہ اس کے
ساتھ ساتھ جاسوسی بطور صنف قابل عزت قرار پائی ۔
فریدی نے قانون، انصاف ،
مساوات، نفسیات اور فلسفہ کے ایسے پھول کھلائے جس نے چمن کی تمام بوسیدگی کو نیست
و نابود کر کے تازہ ہواؤں کے رخ گلشن کی طرف کر دیئے ۔ اردو جاسوسی ادب سے
عریانی، فحاشی ،لچر پن اور مغربی تراجم نے دم توڑ دیا۔ اب قارئین اچھا، معیاری اور
بھرپور جاسوسی ادب چاہنے لگے تھے ۔
ایک دنیا فریدی و حمید کی
دیوانی ہو چکی تھی۔
مگر کہتے ہیں کہ خوشی کی عمر
کم نہ ہو تب بھی وہ امتحان کافی لاتی ہے۔ فریدی
بام عروج پر تھا، ادبی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن چکا تھا، اس کی شہرت نے
تمام حدود کو عبور کر لیا تھا ،اس کی سلطنت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ وہاں کوئی
دراڑ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور یہ طے تھا کہ آنے والا ہر دور سنجیدہ،
بردبار، باوقار اور نفاست و عظمت کے پیکر فریدی ہی کا ہوگا ۔
لیکن بڑے مصنفین کے ذہن
میں کیا ہوتا ہے یہ قارئین نہیں جان سکتے ۔ ابن صفی کے لافانی ذہن میں کئی کردار
چپ چاپ اپنا وجود پانے کی سعی کر رہے تھے ۔ان کے ذہن میں آنے والی نسلوں کے لئے
ایک ایسا سرپرائز تھا جس کے خواب تو بہت سوں نے دیکھے مگر عملی شکل صرف ابن
صفی نے دی۔نئے کردار سوچتے سبھی ہیں مگر
ایسے کردار تخلیق کرنا آسان نہیں ہوتا جو ہر قاری کو اپنی زندگی کا حصہ محسوس
ہونے لگیں ۔ ابن صفی نے چھوٹے بڑے لاتعداد ایسے کردار تخلیق کئے جو زندہ و توانا
تھے لیکن ان میں سب سے اوپر کرنل فریدی کا شہرہ آفاق کردار تھا ۔ کیونکہ یہ ابن
صفی کی طرح اردو جاسوسی ادب کا ’’پہلا آدمی‘‘ تھا ۔
۱۹۵۵ءکا
وہ دن اردو ادب کی تاریخ میں بڑی ہی اہمیت کا حامل تھا، جب کوچہ و بازار فریدی
فریدی کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھےمگر تب اچانک تاریخ کا دھارا بدلنے کے لئے
علی عمران ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی صفحہ قرطاس پر ابھرا۔ ’’خوفناک عمارت‘‘ کیا ادب
کو ملی ایسا لگا جیسے دنیائے ادب کی ادھوری عمارت مکمل ہو گئی ۔ عمران معصومیت
،حماقت ، شرارت و ذہانت کا ایک انمول نمونہ تھا جس نے دنیائے ادب کے ہر زندہ دل
قاری کو چھو لیا۔ عمران دشمن پر کبھی شیر، کبھی عقاب، کبھی لومڑی اور کبھی موت کا
عفریت بن کر ٹوٹنے لگا۔ عمران میدان میں کیا آیا گویا بہار آگئی،گل و گلزار جوان
ہو گئے۔ خود دیوانہ تھا بے پروا تھا مگر اس نے ادب اور ادب پرور افراد کو اپنا
دیوانہ بنا لیا ۔عمران کی کہانی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ بعض کردار صرف اس لئے
لکھے جاتے ہیں تاکہ ان سے ادب کو زندگی عطا ہو ۔عمران ویسا ہی کردار تھا ۔
ایک طرف فریدی اپنی عظمت
و کردار کی بلندی پر براجمان تھا ۔ اس کا سنگھاسن مضبوط تر تھا اورادبی دنیا میں
صرف ’’جاسوسی دنیا‘‘ کا راج تھا ۔ دوسری طرف چنگیزی خون اپنی لازوال سلطنت ’’عمران
سیریز‘‘ کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ادب پرور اور سخن کے دلدادہ افراد سوچ رہے تھے کہ
جلد فریدی و عمران ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر امن فروشوں اور انسانیت کے
دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹیں گے ۔ پھر وہ وقت آیا جب فکشن کے یہ دو عجوبے اور
آسمان ادب کے دو سورج ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امن عالم کی حفاظت کے لئے نکل پڑے۔
بظاہر اس یدھ کا آغاز
’’زمین کے بادل‘‘ میں شروع ہوا۔ مگر یہ تو ایک بہانہ بنا ۔ بہت عرصے سے ادبی دنیا
بٹ چکی تھی ۔ بس یہ آخری ضرب تھی ۔ جس کے بعد عمرانیت اور فریدیت کے پیروکار سر
عام ایک دوسرے کے خلاف میدان ادب میں لاؤ لشکر کے ہمراہ آنے لگے ۔زبان و قلم کے
نشتر ایک دوسرے کو چبھونے لگے ،فریدی و عمران کی عظمت و کردار پر صفحات کے صفحات لکھے جانے لگے ۔ ہر فریق پاگل پن کی
حدوں کو عبور کر چکا تھا۔مگر مقابلہ کہاں ختم ہونے کو تھا ۔ ایک دوسرے پر دھوپ میں
چھاؤں کرنے والے ، پیاس بجھانے والے ، جان قربان کرنے والے ایک دوسرے کی شکل کے
روادار نہ رہے۔یہ قارئین کی اپنے محبوب کرداروں سے محبت کی عجیب داستان ہے ایسی
کوئی مثال اردو ادب میں کبھی نہیں آئی ۔
ہر گزری دہائی کے ساتھ
دنیا کے انداز بدل رہے تھے۔ ادب میں روز دوستی دشمنی کے پیمانے تبدیل ہو رہے تھے ۔
کہیں جنگوں کا خاتمہ ہو رہا تھا کہیں امن اور کہیں جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔
فیشن ، رنگ ، ادب ، کتاب ، کہانی ، ڈرامہ ، فلم ہر چیز تغیر پزیر تھی ۔ مگر کچھ
نہیں بدل رہا تھا تو وہ تھا عمرانیت اور فریدیت کا جنون ۔
آج فریدی و عمران کو ادب
کے آسمان پر ستر سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہےمگر ان کے چاہنے والے نسل در نسل
اپنی دوستی اور مخالفت آگے بڑھا رہے ہیں۔آج بھی پہلے دن کی طرح ان کے خیالات کئی
شکلوں میں تازہ ہیں۔ دونوں طبقات اپنے اپنے موقف پر چٹان کی طرح ستر سال سے کھڑے
ہیں ۔ہر دور کی بحث کا خاتمہ کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی نہج پر ضرور ہوتا ہے،علم و
ادب کے سمندر میں غوطہ زن بہت سے کتابی تیراک ایسے ثبوت اور ناقابل تردید شواہد
نکال لاتے ہیں کہ کسی ایک فریق اور نظریے کو پسپا ہونا پڑتا ہے مگر یہاں معاملہ ہی
الٹ ہے ۔عمران کے چاہنے والے عمران کی کھوج میں نکل کر واپس لوٹتے ہیں تو وہ
فریدیت کے چند محاسن بھی تراش لاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس دشمنی کا بھی ایک
معیار ہے۔ اسی طرح فریدی کے چاہنے والے جب زمانوں کی خاک چھان کر موتی ڈھونڈتے ہیں
تب وہ ساتھ ہی ساتھ عمرانیت کے ایسے پوشیدہ پہلو بیان کر جاتے ہیں کہ قارئین انگشت
بدنداں رہ جاتے ہیں ۔
انسان اپنے آغاز سے
قبیلوں اورعلاقوں میں تقسیم رہا مگر وقت کی رفتار نے اس تقسیم کو ختم نہ سہی
،کمزور ضرور کیا، اب فریدی و عمران کی تقسیم
نے ادب پرور افراد کو ایسا بانٹا ہے جو کسی طرح جڑنے کا نام نہیں لے رہے، عمران و فریدی ایک دوسرے کی نہ ضد ہیں نہ دشمن
، نہ مخالف ، نہ ہی یہ سمندر کے دو کنارے تھے ، مگر بعد والوں نے ان کو اپنی حد تک
جدا کر دیا ہے ۔وہ دونوں تو انسانیت کیلئے قربان ہو جانے والے دو ایسے انسان ہیں
کہ اگر کبھی وقت آن کھڑا ہوتا تو ایک دوسرے پر قربان ہو جاتے۔
فریدی و عمران ایک دوسرے
کی تکمیل ہیں۔ اگر کسی ایک کو گرایا جائے تو دوسرا بھی اپنا وجود کھو دے گا ۔ یہ
ایک دوسرے سے جدا نہیں کیے جا سکتے کیونکہ فریدی پھول ہے تو عمران اس کی خوشبو ،
فریدی باغ ہے تو عمران بہار ، فریدی بادل ہے تو عمران برسات ، فریدی پیاس ہے تو
عمران آب ، فریدی نغمہ ہے تو عمران سرور ،فریدی شمع ہے تو عمران پروانہ ، فریدی
سحر ہے تو عمران طلسم۔ الغرض یہ ابن صفی کے جہان کی بنیاد ہیں۔ دو ایسے ستون ہیں
جن پر اردو جاسوسی ادب کی عمارت کھڑی ہے ۔
دونوں ایک دوسرے سے باہم
منسلک ہیں اس لئے چاہ کر بھی ان کا ذکر الگ دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔فریدی
و عمران دو نام ضرور ہیں ،دو مکمل کردار ضرور ہیں مگر یہ دونوں مل کر ادب کو معنی
عطا کرتے ہیں ۔
چند لوگ کسی ایک کردار کی
محبت و عظمت کی خاطر دوسرے کو گرا کر نہ ادب کی خدمت کرتے ہیں نہ ہی ابن صفی کے
قلم کا قرض اتار رہے ہیں ۔جس کردار سے محبت ہو اس کے فنی محاسن ضرور بیان کریں مگر
دوسرے عظیم کردار کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش میں مبتلا لوگ ابن صفی صاحب کو سمجھ
ہی نہیں پائے ۔ابن صفی اردو ادب کے بے تاج
بادشاہ ہیں اور سری ادب کے بانی ہیں۔ ان کا قلم ان کو تمام لکھاریوں میں ممتاز
کرتا ہے تو اس کے پیچھے ان کا ایک کردار نہیں ہے بلکہ فریدی و عمران دونوں مل کر
ان کو عظمت عطا کرتے ہیں۔ جب کسی ایک کو گرانے کی جسارت کی جاتی ہے تب اصل میں ابن
صفی کے قلم کو جھکانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ابن صفی کے سچے چاہنے والے اور ان کی
تخلیق کردہ پراسرار دنیا میں چھپے خزانے تلاش کرنے والے اگر اتنے سطحی ہوتے چلے
جائیں گے تو ابن صفی کا عظیم مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ ابن صفی کے قلم کا عروج کرنل
فریدی اردو جاسوسی ادب کا ’’ پہلا آدمی ‘‘ تھا جس سے ابن صفی نے شروعات کی تھی ۔
اسی طرح ان کے قلم کا لافانی حسن علی عمران تھا جو اردو جاسوسی ادب کا’’ آخری
آدمی‘‘ قرار پایا ۔ابن صفی کا یہ مقام دوسروں سے بلند تر ہے کہ انہوں نے جاسوسی
ادب کے پہلے اور آخری دونوں کرداروں کو تخلیق کیا ۔ نہ فریدی سے پہلے کوئی تھا نہ
عمران کے بعد کسی کی جگہ بنی ۔
فریدیت و عمرانیت دونوں
ادب کی معراج اس لئے ہیں کہ دونوں کردار انسانیت کے بلند ترین اسباق ہیں ۔ ہمارا
بطور انسان اور بطور قاری یہی فرض ہے کہ ابن صفی کے سبق کو نہ صرف پڑھیں بلکہ اسے
اپنی روح کا حصہ بنا کر اچھا انسان بننے کی کوشش کریں۔ ایسے انسان جو رنگ و نسل ،
شکل و صورت اور زبان و کلام کی جگہ اپنے کردار سے بلند نظر آئیں ۔ ایسے انسان جو
غلطیوں سے سیکھ کر مثبت راہوں پر چلنے کا حوصلہ نہ کھوئیں ۔
سری ادب کے پہلے اور
آخری آدمی کے پہلے اور آخری کردار کا یہی سبق ہے کہ انسانیت کی معراج انسان کو
انسان سمجھنے میں ہے ۔اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا اور ابن صفی کی تخلیقات کو
محبتوں کو پروان چڑھانے کے لئے پڑھنا اور پھیلانا ہی ادب کی خدمت ہے ۔
24 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism