ڈاکٹر ساجد خاکوانی
30 جولائی،2021
ایک ہزار سالہ مسلمانوں
کے دور میں بے شمار سیاح پیدا ہوئے۔ اس زمانے میںحصول تعلیم میں سیاحت ایک طرح سے
سند کا درجہ رکھتی تھی ۔ابن بطوطہ نام کا مسلمانوں کا عظیم سیاح گزرا ہے۔ ان کا
پورا نام عبدابن عبدالمعروف ’’ ابن
بطوطہ‘‘ ہے۔13 فروری1307 ء کو مراکش کے ایک چھوٹے شہر ’’ نانگیر‘‘ میں پیدا ہوئے ۔
وہ قرون وسطیٰ کے عالمی شہرت کے حامل سیاح تھے۔انہوں نے ایک مایہ ناز سفر نامہ ’’
رحالہ‘‘ بھی تصنیف کیا۔ اس کتاب میں 000,75 میل طویل سفر کی روداد نقل کی ہے۔ یہ
سفر قافلوں کی شکل میں او رکبھی کبھی تنہا بھی کرتے رہے ۔ اس دوران انہوں نے
اسلامی ممالک دیکھے اور سمارٹا اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی سیاحت کی غرض سے
گئے۔ ابن بطوطہ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے، ان کا سارا خاندان محکمہ قضا
سے منسلک تھا، مقامی علاقے کے قاضیوں کی اکثریت ابن بطوطہ کے خاندان سے تعلق رکھتی
تھی۔ انہوں نے بھی اپنے بچپن اور آغاز شباب میں اسلامی فقہ و قضا کی تعلیم حاصل
کی۔ 1325ء میں جب ان کی عمر 21 برس کی تھی تو فریضہ حج کی ادائیگی سے انہوں نے
اپنی سیاحت کا آغاز کیا۔
ابن بطوطہ
------
اس دوران انہوں نے مصر،
شام اور حجاز کے متعدد شافعی المسلک فقہا سے بھی علم حاصل کیا اور اس فقہی مکتب
فکر سے متعلق جید علما کے درس میں شریک ہوئے ۔ اس تعلیمی کاوش کے باعث علم فقہ و
قضا میں انہیں ید طولیٰ حاصل ہوا او روہ کسی بھی عدالت میں منصب قضا کیااہم مقام
پر بیٹھنے کے قابل ہوگئے۔ منصب قضا کے لیے انہوں نے مصر کا انتخاب کیا، وہاں پہنچے
لیکن سیلانی طبیعت کو سیر و سفر پر آمادہ پایا اور طلب علم و تجارت کو حصول مقصد
کا ذریعہ بناتے ہوئے ملک ملک کے سفر پر چل نکلے اور اصولی طور پر یہ طے کرلیا کہ
ایک راستے سے دوبار ہ نہیں گزریں گے ۔ اس سفر کے دوران وہ بادشاہوں سے ، گورنروں
سے، سلطانوں سے اور حکمرانوں سے ملتے رہے۔ ان کے طویل اسفار کی داستانیں اس حکمران
طبقے کے لوگوں کے دلچسپی سے خالی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں ابن بطوطہ
جہاں اپنے تفصیلی حالات بہت ہی دلنشین انداز میں پیش کرتے وہاں اگلے سفر کے لیے
زادراہ کا انتظام بھی کر لیتے ۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں اخبارات او رمعلومات کے
دیگر ذرائع جو آج میسر ہیں نہیں ہوا کرتے تھے اور دوسری دنیاؤں کے حالات اسی طرح
کے سیاحوں کی زبانی ہی معلوم ہوتے تھے چنانچہ جب بھی کسی سیاح کی آمد ہوتی تو لوگ
،حکمران اور عوام سب کا جم غفیر ان کے گرد اکٹھا ہوجاتاتھا اور سیاحوں کی زبانی
ملک ملک اور قریہ قریہ کے حالات سے آگاہی حاصل کرتا ۔ایک طویل عرصے تک وہ افریقہ،
صحرائے عرب اور وسط ایشیائی علاقوں میں سیاحت کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے
ریگستانی اور دریائی و سمندری ہر طرح کے راستے طے کیے۔ ان کی تحریروں کے مطابق وہ
صحرائے گوبی سے اٹھنے والے طوفان ، چنگیزی سرداروں سے بھی ملے۔ تین سالوں تک حجاز
میں بھی قیام کیا لیکن ایک بار پھر سیلانیت غالب آگئی۔ اب کی بار انہوں نے سنا کہ
دہلی میں محمد بن تغلق نامی حکمران برسراقتدار ہے۔ اس بادشاہ کی علم دوستی او
رعلماء نوازی بہت مشہور تھی تب ابن بطوطہ نے دہلی کا قصد کیا او راس بادشاہ کے
دربار میں جانے کے لئے کمر ہمت باندھ لی۔
اس بار انہوں نے نئے راستوں کا انتخاب کیا اور
ترکی کے راستے وہ روسی علاقوں میں سمر قند بخارا سے ہوئے افغانستان او رپھر کوہ
ہند و کش کو عبور کر کے دریائے سندھ کے راستے جنوبی ایشیا میں داخل ہوئے۔ جب وہ
سرزمین ہند میں داخل ہورہے تھے تو خود ان کے مطابق یہ 12 ستمبر 1333 کی تاریخ تھی۔
ایک انداز ے کے مطابق انہوں نے اتنا طویل سفر ایک سال کی مختصر مدت میں طے کرلیا
تھا۔ دہلی میں آمد سے پہلے ہی ابن بطوطہ کا شہرہ یہاں پہنچ چکا تھا ۔ شاہ محمد بن
تغلق نے دہلی سے باہر نکل کر ابن بطوطہ کااستقبال کیا او رانہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔
بہت سے تحائف و ہدایہ پیش کئے گئے ۔ بادشاہ نے بطوطہ کی فضیلت علمی کے باعث انہیں
دہلی کا منصب قضا پیش کیا جس پر سالوں تک ابن بطوطہ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے
۔ شاہ محمد بن تغلق اپنے مزاج میں بیک وقت بہت رحم دل اور بہت ظالم بھی تھا۔
دشمنوں کو معاف کردینا اور دوستوں کو سولی پر لٹکا دینا اس کے ہاتھوں سے رونما
ہوتا رہتا تھا ۔ ابن بطوطہ اس کی اس فطرت سے بہت خائف رہتے۔ ایک بار جب بادشاہ نے
ابن بطوطہ کو مملکت چین کی طرف اپنا سفیر بنا کر بھیجا تو راستے میں ڈاکوؤں نے ان
کے قافلے کو آن گھیرا ۔ جان تو بچ گئی لیکن سرکاری تحائف لوٹ مار کی نذر ہوگئے۔
ابن بطوطہ سلطان کے خوف سے جزائر مالدیپ سدھار گئے او روہاں دو سال تک روپوش رہے،
تاہم اس دوران بھی قضا کا منصب ان کی طشتری میں موجود رہا۔ مالدیپ ، بنگال اور
آسام کی سیاحت اور اس کے حالات بھی انہوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھے ہیں۔ ان
ملکوں میں وہ سیاست میں بھی دخیل رہے، شاہی خاندان میں شادی بھی کی اور جنگوں میں
بھی حصہ لیتے رہے۔ ایک عرصے کے بعد سفر چین کا شوق ہوا، وہ ’’زیتان‘‘ کی بندرگاہ
پر لنگر انداز ہوئے اور وہاں کے مقامی مسلمان بادشاہ نے انہیں دریائی راستے سے چین
کی سیر کے لئے مدد فراہم کی او روہ اس وقت کے بیجنگ کا بھی نظارہ کر آئے۔ وہاں سے
وہ سمارٹا ، مالاہار اور آبنائے فارس کے راستے واپس بغداد پہنچے۔
بغداد سے شام او رپھر مصر سے ہوئے 1348 ء میں
انہوں نے اپنی زندگی کا آخری حج ادا کیا جس کے لیے انہوں نے حجاز مقدس کا سفر
مبارک کیا۔ لیکن اب تک انہوں نے دو مسلمان ممالک نہیں دیکھے تھے، چنانچہ 1350 ء کے
لگ بھگ انہوں نے غرناطہ کا ارادہ کیا جو مسلم اسپین کا آخری شہر تھا۔ اس کے بعد
وہ مغربی سوڈان سدھار گئے ۔ اس دوران انہوں نے ایک سال کا عرصہ افریقہ کے
ملک’’مالی‘‘ میں گزارا۔ ان کی تحریر یں اس زمانے کے افریقی حالات کا سب سے بڑا
مستند ذریعہ ہیں ۔ اب کی بار بڑھاپا ان کی دہلیز پر دستک دے رہا تھا او رجوانی
اپنی توانائیوں اور طاقتوں سمیت ساتھ چھوڑ رہی تھی ۔ واپس اپنے وطن مراکش میں
آگئے او ربادشاہ کے کہنے پر اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے لگے اور ساتھ ساتھ منصب
قضا بھی نبھاتے رہے۔ آخری عمر میں ان کی بینائی جاتی رہی اور 1368 ء میں یہ عظیم
سیاح داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ انہیں آبائی گاؤں میں ہی دفنا یا گیا۔ ان کی
کتاب ’’رحلہ‘‘ اپنی طرز کی واحد کتاب ہے۔ اپنے زمانے میں بڑی تفصیل سے درج ہیں۔
ابن بطوطہ 60بادشاہوں کو ، بہت سے وزیروں اور گورنروں کو ملے او رکم و بیش دو ہزار
افراد ایسے تھے جن کے ابن بطوطہ کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے۔ یہ افراد پوری
اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ ایشیاء ، افریقہ اور کچھ یورپ کے حصے ان کے پاؤں
تلے روندے گئے او رکتنے ہی سمندروں او ردریاؤں کی موجوں نے ابن بطوطہ کا نظارہ
کیا۔
30جولائی ،2021 ، بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism