New Age Islam
Sat May 24 2025, 06:38 AM

Urdu Section ( 18 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Humanity Needs a Rebel/ Ubermensch انسانیت کو ایک انقلابی/ فوق البشر بننے کی ضرورت ہے

سمیت پال، نیو ایج اسلام

 15 جولائی 2022

 ایک ایسا انقلابی چاہیئے جو ہر مذہب کی قدیم راویات پہ سوال اٹھائے، جو بھی مذہبی کتابوں میں لکھا گیا ہے اسے جدت کی روشن میں پرکھے اور جو بات انسانیت کے حق میں نہ دیکھے اسے ماننے سے صاف انکار کر دے۔

 اہم نکات:

 1.  جب مذاہب اور ان سے متعلقہ امور کی بات آتی ہے تو نامعلوم کا خوف اور مطمئن ہونے کا نامرد احساس دونوں ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔

 2.  اجتہاد کی روح قانون کی کتابوں میں موجود ہے اور اس پر شاذ و نادر ہی عمل کیا جاتا ہے۔

 3. انسانی ذہن مذہبی اور صحیفائی کوڑے دان کا ایک تھیلا ہے۔

 ------

 "تمام مذاہب کو سوڈا واٹر کی بوتلوں کی طرح ہلانا چاہیے۔"

 -ناظم حکمت، 'ہکایلر'

 آج کل، میں مشہور ترک-پولش شاعر اور ناول نگار ناظم حکمت کی 'اے سیڈ اسٹیٹ آف فریڈم'۔ کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں، حکمت معانی کو واضح کرنے کے لیے حکایات کا استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ درحقیقت، حکایت کا استعمال تعلیم کا ایک بہت ہی موثر طریقہ رہا ہے، جسے تمام فارسی صوفیاء نے پسند کیا ہے۔ رومی اور خاقانی، اور شیخ سعدی نے بھی اپنے بوستان اور گلستان میں حکایات سے کام لیا ہے۔ درحقیقت حکایت تصوف میں تعلیم دینے کا ایک مشروع طریقہ رہا ہے۔ حکمت نے ایک نامعلوم کے جبلی خوف اور ہمارے اوپر اس کے منفی نتائج کو واضح کرنے کے لیے ایک بہت ہی فکر انگیز حکایت بیان کی ہے۔

 ایک عقلمند بادشاہ تھا۔ اس کے اپنے وزیر اعظم نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا: اس نے کچھ راز پڑوسی ملک کے دشمنوں تک پہنچا دیے۔ وزیراعظم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس کی صرف ایک ہی سزا تھی اور وہ تھی موت۔ لیکن بوڑھے بادشاہ نے اس شخص سے ہمیشہ پیار کیا تھا۔ اسے موت کی سزا سنائی گئی لیکن بوڑھے بادشاہ نے اسے ایک موقع دیا۔ اخری روز اس نے پورے دربار شاہی کو جمع کیا۔ ایک طرف اسے مارنے کے لیے بندوق تیار تھی، دوسری طرف ایک سیاہ دروازہ تھا۔ اور بادشاہ نے کہا، "تم یا تو مرنے کا فیصلہ کر سکتے ہو- تو تمہیں تو مرنا ہی ہے- یا تم اس کالے دروازے میں داخل ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہو۔ یہ تمہارے اوپر ہے۔" وزیر اعظم نے پوچھا، "اس سیاہ دروازے کے پیچھے کیا ہے؟" بادشاہ نے کہا، "اس کی اجازت نہیں ہے، کسی کو نہیں معلوم، کیونکہ اس سے پہلے کسی نے اسے نہیں چنا، میرے والد کے زمانے میں، میرے دادا کے دور میں، کئی بار موقع دیا گیا تھا، لیکن کسی نے اس کا انتخاب نہیں کیا اور کسی کو معلوم نہیں ہے۔ کسی کو اجازت نہیں ہے، یہاں تک کہ میں بھی نہیں جانتا، میرے پاس چابی ہے، لیکن جب میرے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا، "میں دروازہ کھولوں گا اور تم اندر جا سکتے ہو پھر میں اسے بند کر دوں گا۔ اس میں مت دیکھو۔" لیکن تم دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ تم اس کا انتخاب کر سکتے ہو۔ تم یہ جان سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہے۔ یہ تم پر ہے۔"

وزیر اعظم کافی غمگین اور دل برداشتہ ہوا اور پھر بندوق کا انتخاب کیا۔ اس نے کہا مجھے بندوق سے مار دو۔ میں سیاہ دروازے کے پیچھے نہیں جانا چاہتا۔" وزیر اعظم مارا گیا، ملکہ بہت متجسس تھی، اس نے کسی طرح بادشاہ کو قائل کیا کہ اس کے پیچھے کیا ہے، بادشاہ ہنس پڑا، اس نے کہا، "میں جانتا ہوں، پیچھے کچھ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے صرف آزادی ہے؛ یہاں تو ایک کمرہ بھی نہیں ہے۔ یہ دروازہ پوری دنیا کے لیے کھلتا ہے۔ وہاں کچھ بھی نہیں ہے، لیکن ابھی تک کسی نے اسے منتخب نہیں کیا ہے۔"

 لوگ نامعلوم کو منتخب سے پہلے موت کا انتخاب بھی کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ نامعلوم کو منتخب کرنے سے پہلے دکھی ہونا بھی گوارہ کر لیتے ہیں۔ نامعلوم خود موت سے زیادہ خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ اور آزادی ایک نامعلوم دروازہ ہے۔ آزادی کا مطلب ہے نامعلوم میں جانا، یہ نہ جاننا کہ کوئی کہاں جا رہا ہے، یہ نہ جاننا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ یہ ایک سیاہ دروازہ ہے۔ شاذ و نادر ہی، کبھی کبھی کوئی یسوع، زرتھوسٹر یا بدھ دروازہ کا انتخاب کرے گا۔ سب کے سب بندوق کا ہی انتخاب کریں گے۔

 یہ نامعلوم کا واضح خوف اور مطمئن یقین کا ایک معمولی احساس ہے جو ہم میں سے بیشتر کو غیر یقینی کے دائرے میں جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے کیونکہ بے یقینی ہمیں خوفزدہ کرتی ہے۔ ہم سب اجنبی راستوں پر چلنے سے خوف کھاتے ہیں۔ ہم اس سے آگے جانے کی ہمت نہیں کرتے جو ہماری نفسیات میں سرایت کیا گیا ہے یا جن کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہم ان ذہنی نفسیاتی رکاوٹوں کو توڑنے سے ہمیشہ ہچکچاتے ہیں اور ہمت جٹانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اس میدان میں جا سکیں اور کائنات کی خوفناک وسعتوں کو دیکھ سکیں۔ ہم اپنے خوفزدہ نفسوں کے غلام ہیں۔ امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے کہا تھا، 'صرف ایک انسان، جو باہمت ہو، نامعلوم میں ڈوب سکتا ہے اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ واپس آ سکتا ہے۔' ہاں، صرف ایک انسان، جو باہمت ہو، نامعلوم کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ باقی سب رینگتے پھر رہے ہیں اور اپنی رگوں اور شریانوں میں مہم جوئی اور بہادری کے جھونکے کے بغیر بس جینے کی خاطر جی رہے ہیں۔

 جب مذاہب اور ان سے وابستہ امور کی بات آتی ہے تو نامعلوم کا یہ خوف اور مطمئن ہونے کا ایک کمزور احساس دونوں ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔ ہم گہرائی میں جانے اور سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں ستایا جانے لگے۔ اجتہاد کی روح قانون کی کتب میں موجود ہے اور اس پر شاذ و نادر ہی عمل کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے مذاہب، دیوتاؤں، کتابوں، قابل احترام شخصیات، گروؤں، رسوم و رواج اور معمولات پر یقین کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہم خود کو مطمئن محسوس کرتے ہیں اور اپنے آرام کے دائرے سے باہر آنے کی ہمت نہیں کرتے۔

پاکستان کے عظیم ناول نگار انتظار حسین نے فیض احمد فیض کو بجا طور پر لکھا، "ایک ایسا انقلابی چاہیئے جو ہر مذہب کی قد

 ہمیں، خاص طور پر آج کے صحیفے کے پابند اسلامی معاشرے کو، جوش ملیح آبادی جیسے باغی (یا انقلابی، جسکا خیال ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی پیش کیا تھا تھا) کی ضرورت ہے، جس نے گرج کر کہا تھا، 'بشر کے ذہین پر قرنوں سے جو مسلط ہیں/بدل رہا ہوں گمانوں میں ان یقینوں کو۔ یا ساحر لدھیانوی جیسا انسان چاہیے جس نے کہنے کی جسارت کی، "عقائد وہم ہیں، مذہب خیال خام ہے، ساقی/ازل سے ذہن انسان، بستہ اوہام ہے، ساقی"۔ ہاں، انسانی ذہن مذہبی اور صحیفائی کوڑے دان کا ایک تھیلا ہے جسے نکال کر باہر پھینک دینا چاہیے۔

English Article: Humanity Needs a Rebel/ Ubermensch

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/humanity-rebel-ubermensch/d/127503

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..