نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
22 اگست 2023
1. عینی شاہدین نے بتایا
کہ سعودی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 90 افراد ہلاک کیے گئے ہیں۔
2. ایتھوپیا کے لوگ ملک میں مسلح تصادم کی زد میں
ہیں۔
3. سعودی افواج دور دراز
کے سرحدی علاقوں میں پناہ کے متلاشیوں کو قتل کر رہی ہیں۔
------
Ethiopian
migrants reach Yemen in 2019. (Nariman El-Mofty/AP)
------
انسانی حقوق کی بین
الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پیر کے دن ایتھوپیا کے پناہ گزینوں اور پناہ کے
متلاشیوں کی بدترین صورتحال پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اپنی رپورٹ میں اس نے سعودی
عرب پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے کیونکہ رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز نے ایتھوپیا کے ان مہاجرین اور پناہ گزینوں کا قتل
عام کیا جو سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب
نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں سینکڑوں مہاجرین کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ پیر کو
نیویارک سے جاری ہونے والی 73 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب
کی سکیورٹی فورسز نے جدید ترین ہتھیاروں سے ان پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا ہے۔
انسانی حقوق پر محقق اور کارکن نادیہ ہرڈمین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے سیکیورٹی
حکام دور دراز سرحدی علاقوں میں ایتھوپیا کے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو قتل کر
رہے ہیں اور پوری دنیا ان کی ان کرتوتوں سے لاعلم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ
سرحدوں پر تعینات حکام کو اس بات کا مکمل علم ہے کہ وہ جن کو قتل کر رہے ہیں وہ غیر
مسلح شہری ہیں۔ سعودی حکومت نے اب تک اس رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق
بہت سے لوگ نامساعد حالات، جنگ یا شورش کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں
پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے 2022 میں
ایک اعدادوشمار جاری کیا تھاق جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب میں تقریباً ساڑھے
سات لاکھ مہاجرین مقیمناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ساڑھے چار لاکھ پناہ
گزین بغیر کسی قانونی دستاویزات کے مملکت کے حدود میں داخل ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹس
واچ نے کہا کہ تارکین وطن یمن کے راستے سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں
جہاں سے وہ خلیج عدن کے راستے سے داخل ہوتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی موجودہ
رپورٹ ایتھوپیا سے آنے والے تارکین وطن کے علاؤہ مزید 42 افراد کے انٹرویو پر مبنی
ہے۔ ان تارکین وطن نے 2022 میں سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ رپورٹ
تیار کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے 350 ویڈیو اور تصاویر
استعمال کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سرحدی علاقوں کی شناخت کے لیے سیٹلائٹ امیجوں کا
بھی استعمال کیا گیا۔ ایک پناہ گزین نے ایچ آر ڈبلیو کو بتایا کہ 170 افراد کے ایک
گروپ کو سعودی فورسز نے اس وقت نشانہ بنایا جب انہوں نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی۔
ان میں سے 90 لوگ مارے گئے اور اس نے لوگوں کو لاشیں اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ اس نے
بتایا کہ اس نے چاروں طرف لاشیں بکھری ہوئی دیکھی ہیں۔
واضح رہے کہ نومبر 2020
سے ہی ابی احمد کی سربراہی میں ایتھوپیا کی حکومت اور شمالی علاقہ ٹائیگرے کے
علیحدگی پسندوں کے درمیان مسلح تصادم جاری ہے۔ ٹائجگرائن مسلح گروپ صومالی نژاد
لوگوں کے لیے خود ارادیت کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ستمبر 2020 میں، انہوں نے حکومت
کی مخالفت میں ٹائیگرے میں انتخابات کرائے اور اپنے لیے بڑی کامیابی درج کرائی۔
لیکن ابی احمد حکومت نے انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو
ناجائز قرار دے چکے ہیں۔ نومبر میں، Tigrayan People's
Liberation Front (TPLF) نے سیرو میں فوجی اڈے پر حملہ کیا۔ اس کے جواب میں ابی احمد
حکومت نے TPLF کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دی جس کے نتیجے میں بے تحاشہ لوگ
مارے گئے اور لاکھوں لوگ داخلی طور پر بے گھر ہو گئے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق، 2021
میں، امریکہ نے ٹائیگرایوں کے خلاف اس تصادم کو نسلی صفائی کا نام دیا تھا، اور ان
رپورٹوں میں بڑے پیمانے پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا
ہے۔ مارچ 2021 میں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے
ایتھوپین ہیومن رائٹس کمیشن (EHRC) کے ساتھ ٹائیگرے میں
مبینہ زیادتیوں اور حقوق کی خلاف ورزیوں کی چھان بین کے لیے مشترکہ تحقیقات کا
اعلان کیا، حالانکہ اقوام متحدہ میں اس کی پیشکش کے بعد رپورٹ کی غیر جانبداری اور
درستگی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ فروری 2021 میں اکسم قتل عام کے
واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد، اقوام متحدہ نے اعتراف کیا کہ اس کے انسانی
حقوق کے تفتیش کاروں کو ایک ایچ آر سی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اکسم جانے کا اختیار
نہیں تھا۔ مشترکہ رپورٹ میں اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ ای این ڈی ایف،
ٹائیگرائن عسکریت پسند گروہ، اور تنازع میں شامل دیگر افواج نے انسانی حقوق کی
مختلف سطحوں پر خلاف ورزیاں کی ہیں۔ رپورٹ میں درج جرائم میں عصمت دری کو جنگ کے
ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا، بچوں کے خلاف تشدد اور نسل کشی شامل ہیں۔ 2021
کے اوائل میں تنازعہ کے فریقین کی مذمت کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
تجویز کو ہندوستان، روس اور چین کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے فوری طور پر مسترد کر
دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیاں ای این ڈی ایف، اریٹیرین
افواج، ٹائیگرائن افواج اور دیگر علاقائی افواج پر مزید قتل عام اور اجتماعی قتل
کے واقعات (اکثر بم دھماکو کے ذریعے) انجام دینے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔
ٹائیگرائن فورسز نے جون
2021 میں ای این ڈی ایف سے چھین کر علاقائی دارالحکومت میکیل پر دوبارہ قبضہ کر
لیا۔ ایک ماہ بعد، ادیس ابابا نے قومی پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا —
جو وزیر اعظم ابی احمد نے بھاری اکثریت سے جیت لیا تھا۔ ٹی پی ایل ایف نے ملک کے
پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اور پارلیمنٹ میں حزب مخالف نے
ابی حکومت پر کچھ ریاستوں میں انتخابی نگرانوں پر پابندی لگانے کا الزام لگایا۔
بعد ازاں، 2021 کے موسم گرما میں، ابی نے تمام مستطیع شہریوں سے ٹائیگرائن افواج
کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا کیونکہ جنگ کی عفار اور امہارا کے علاقوں
میں پھیلنا شروع ہو چکی تھی اور ادیس ابابا پہنچنے والی ہی تھی۔ نومبر 2021 میں،
ٹائیگرائن فوجیوں اور اتحادی اورومو کے عسکریت پسند دارالحکومت کے پچاسی میل کے
اندر تک گھس گئے لیکن حکومت ان ڈرون حملوں کی بدولت انہیں واپس شمال کی طرف مجبور
کر دیا جو اس نے عرب امارات، ترکی اور ایرانی سے خریدے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے
بعد میں رپورٹ کیا کہ جنوب کی طرف بھاگتے ہوئے ٹائیگرائن فوجیوں نے امہارا علاقے کے
قصبوں پر قبضہ کیا اور درجنوں شہریوں کو ہلاک کر دیس۔
ایتھوپیا کی داخلی کشمکش
کو بڑھاتے ہوئے، سوڈان کے ساتھ اس کے سرحدی تصادم کے بڑھنے کا خطرہ 2020 سے قائم
ہے، جب سوڈان نے میکیل جنگ کا استعمال کر کے ٹائیگرے سے متصل زرخیز زمین کے ایک
ٹکڑے پر علاقائی تنازعہ کو دوبارہ جنم دیا۔ یہ تنازعہ 2021 میں ملہک ثابت ہوا اور
اس کے نتیجے میں سرحد کے ایک حصے پر دوہری عسکری کاری ہوئی۔
گولی باری میں اب تک
50,000 شہری مارے جا چکے ہیں اور 50,000 ٹائیگرین علاقے سے فرار ہو چکے ہیں۔ انہوں
نے سوڈان اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ سوڈان میں ان کے لیے پناہ
گزین کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
مئی 2023 تک 3.1 ملین
افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور 9,30,000 افراد نے جنوبی سوڈان، اریٹیریا اور صومالیہ
میں پناہ لے رکھی ہے۔ 7 ملین افراد کو امداد کی ضرورت ہے کیونکہ صحت، غذائیت،
صفائی اور پانی کی فراہمی کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔
ان حالات میں مہاجرین کے
مسئلے پر سعودی عرب کا نقطہ نظر مایوس کن ہے۔ سعودی عرب کا انسانی حقوق کے حوالے
سے ریکارڈ پہلے ہی بہت خراب ہے کیونکہ یہ ان تمام انسانی حقوق کے کارکنوں اور
صحافیوں کا سر کچل دیتا ہے جو ایم بی ایس کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ محمد بن
سلمان پر صحافی خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کا بھی الزام ہے حالانکہ اس نے ان کے
قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ اسلامی برادری کے خود ساختہ سرپرست سعودی عرب
نے ایتھوپیا اور یمن کے پناہ گزینوں کے تئیں غیر حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کو
خوراک، رہائش اور دیگر شہری سہولیات فراہم کرنے کے بجائے یہ ان بے سہارا، معصوم
مہاجرین کو، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، قتل کر رہا ہے۔ دنیا کو سعودی
عرب کے پناہ گزینوں کے ساتھ غیر انسانی اور غیر اسلامی سلوک پر جواب طلب کرنا
چاہیے۔
--------------
English
Article: Human Rights Watch Accuses Saudi Arabia of Massacre
of Hundreds of Ethiopian Refugees Trying to Cross Border from The War-Torn
Country
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism