کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
مسلمانوں کی تکفیر کرنا اور ان پر شرک کی تہمت لگانا خوارج کا شیوہ رہا ہے۔ فہم قرآن کے سلسلے خوارج کی عقلیں انحراف وضلالت کا شکار ہو گئیں اور بقول اہل علم اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے فہم وحی کے سلسلے میں اسلاف کرام کے منہج کی پیروی نہیں کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تکفیری گروہ اور منہج سے اپنی امت کو متنبہ کیا ہے چنانچہ حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ اس شخص سے خوف ہے جو قرآن پڑھنے والا ہوگا ، قرآن کا نور بھی اسے حاصل ہوگا ، اسلام کا حامی اور اس کا دفاع کرنے والا ہوگا ، مگر وہ قرآن کو بدل دے گا۔ایسا کرکے وہ قرآن سے جدا ہو جائے گا اور اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کی تہمت لگائے گا ۔حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں عرض کی یا رسول اللہ ! ان دونوں میں شرک سے کون زیادہ قریب ہوگا ، شرک کی تہمت جس پر لگائی گئی ہے وہ یا جس نے تہمت لگائی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ تہمت لگانے والا ۔(صحیح ابن حبان ، بقول ابن کثیر اس کی سند جید ہے )
بقول مولانا ضیاء الدین علیمی ، اس حدیث پر غور کرنے سے درج ذیل علامتیں سامنے آتی ہیں: (۱) یہ گروہ قرآن سے گہرا تعلق رکھنے والا اور اس کی خدمت کرنے والا ہوگا اور اس کی وجہ سے لوگوں کو ان حسن ظن ہوگا (۲) اس کو قرآن کی نورانیت سے کچھ حصہ حاصل ہوگا ، اس کی وجہ سے لوگوں کو اور زیادہ خوش گمانی ہوگی (۳) دین کے لیے بڑا جوش وجذبہ رکھنے والا ، اس کی حمایت اور دفاع کرنے والا ہوگا (۴) ان سب کے باوجود اس کے اندر ایک عجیب وغریب تبدیلی رونما ہوگی جس کی وجہ سے لوگوں میں ایک اضطراف پیدا ہو جائے گا ، وہ تبدیلی یہ ہوگی کہ وہ قرآن کے متوارث معانی سے منحرف ہو کر جداگانہ باطل تاویل کرے گا کیوں کہ وہ طرق استنباط سے ناواقف ہوگا ۔(۵) چنانچہ وہ اپنے پڑوسی کا کافر و مشرک قرار دے گا اور (۶) صرف اسی پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ وہ اس کے خلاف قتال کے لیے ہتھیار اٹھائے گا اور خوں ریزی وقتل عام کرے گا ۔
مذکورہ بالا حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دار نظر آنے والے شخص کی دین کے نام پر جس شدت اور اس کی جن تباہ کاریوں پر خوف کا اظہار کیا ہے وہ بالکل بجا ہے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام صورت حال میں شدت بالکل ہی پسند نہیں فرماتے تھے،حضرت معاذ بن جبل نے جوش عبادت میں امامت کے وقت فجر کی نماز میں طویل قراءت شروع کردی ، یہ صحابہ کرام پر شاق گزرا جس کی وجہ سے لوگ جماعت سے دور ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی سخت الفاظ میں تادیب فرمائی اور تین مرتبہ فرمایا فتان ، فتان ، فتان ۔ یعنی کیا تم لوگوں کو آزمائش میں ڈال دینا چاہتے ہو۔(بخاری ، باب اذا طول الامام ، حدیث ۷۰۱)
اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ عبادت میں تھوڑی شدت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قدر فکر مند ہو گئے تو آپ کو اس تکفیری شخص کے فتنے سے کتنا زیادہ اپنی امت پر خوف محسوس ہوا ہوگا ۔
حضرت ابن عباس اور خوارج کے درمیان مناظرہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب خوارج نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اے امیر المومنین نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھیں( یعنی تھوڑی تاخیر سے پڑھیں) تا کہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں اور ان سے بات کروں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا! مجھے ان لوگوں کا خوف ہے کہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ میں نے کہا انشاء اللہ ہرگز ایسا نہ ہو گا۔ چنانچہ میں نے یمن کا عمدہ سے عمدہ جوڑا زیب تن کیا اور پھر خوارج کے پاس آ گیا۔
وہ لوگ عین دوپہر کے وقت قیلولہ کر رہے تھے۔ چنانچہ میں ایسے لوگوں کے پاس گیا کہ ان جیسے میں نے کبھی نہ دیکھے وہ لوگ شدت و ریاضت سے عبادت خدا وندی کرتے تھے ۔ ان کے ہاتھ کثرت عبادت کی وجہ سے اونٹ کے بدن کی طرح پھٹے ہوئے تھے اور ان کے چہروں پر کثرت سجود کی وجہ سے نمایاں نشانات پڑھے ہوئے تھے۔ تا ہم میں ان کے پاس داخل ہوا۔ وہ لوگ کہنے لگے اے ابن عباس مرحبا! یہاں آپ کیوں تشریف لائے؟ میں نے کہا میں تمھارے پاس آیا ہوں تا کہ تم سے بات کروں! پھر میں بولا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے زمانے میں وحی نازل ہوتی تھی، لہذا صحابہ کرام وحی کی تاویل سے باخوبی واقف ہیں۔
بعض خارجیوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات مت کرو اور بعض نے کہا کہ ہم ان سے ضرور بات کریں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا مجھے بتاؤ! تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، ان کے داماد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والے (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر کیوں طعن و تشنیع کرتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ کے صحابہ کرام بھی ان کے ساتھ ہیں؟ خوارج بولے ہم تین باتوں کی وجہ سے طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ میں نے کہا بھلا وہ کیا کیا ہیں؟ کہنے لگے پہلی چیز یہ کہ انھوں نے اللہ کے دین کے معاملہ میں مَردوں کو منصف بنایا ہے، حالانکہ ارشاد باری تعالٰی ہے: حکم و فیصلے کا اختیار صرف اللہ کے لئے ہے (انعام: ۵۷)۔ میں نے کہا اس کے علاوہ اور کیا چیز ہے؟ کہنے لگے: حضرت علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کرتے ہیں اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی نہیں بناتے اور نہ ہی ان کے اموال کو غنیمت سمجھ کر تقسیم کرتے ہیں سو اگر وہ کافر ہیں تو لامحالہ ان کے اموال ہمارے لئے حلال ہیں اور اگر وہ مومنین ہیں پھر تو ہمارا ان کی طرف تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔
میں نے کہا ان دو کے علاوہ اور کونسی بات ہے جو طعن و تشنیع کے قابل ہے؟ کہنے لگے انہوں نے اپنے نام سے ”امیر المومنین“ لقب مٹا دیا ہے پس اگر وہ امیر المومینین نہیں تو امیر الکافرین ہوں گے۔ (معاذاللہ)
میں نے کہا اگر میں تمھیں اللہ کی محکم کتاب سے آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے احادیث پڑھ کر (بطور دلائل کے) تمھیں سناؤں تو کیا تم رجوع کر لو گے؟ کہنے لگے جی ہاں ہم ضرور کر لیں گے۔ میں نے کہا رہی تمھاری یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کے معاملے میں مَردوں کو حاکم بنایا ہے، سو اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
”اے ایمان والو(وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہے۔ جسکا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کر دیں۔“(مائدہ)
نیز شوہر اور اس کی بیویں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
‘‘اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مَرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کر لو’’۔ (نساء: ۳۵)
پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں آیا کہ مَردوں کے خون و جان کی حفاظت اور ان کے باہمی امور کی اصلاح کی خاطر مَردوں کو حکم و منصف بنانا زیادہ بہتر ہے یا ایک شکار کئے ہوئے خرگوش جسکی قیمت چوتھائی درہم ہے کے بارے میں مردوں کو حکم بنانا زیادہ بہتر ہے؟ کہنے لگے جی ہاں مردوں کی جان کی حفاظت اور ان کے باہمی امور کی اصلاح کے لئے مردوں کو حکم بنانا زیادہ بہتر ہے۔ فرمایا کیا میں اس اعتراض کے جواب سے بری الزمہ ہو گیا ہوں؟ کہنے لگے جی ہاں۔
فرمایا رہی تمھاری یہ بات کہ وہ قتال تو کرتے ہیں مگر فریق مخالف کی عورتوں اور بچوں کو قید نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے اموال مال غنیمت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تو مجھے بتاؤ کیا تم لوگ اپنی ماں کو قید کرو گے؟ اور پھر تم اس سے ایسے تعلقات کو حلال سمجھو گے جن کو تم لوگ دیگر عورتوں سے حلال سمجھتے ہو؟ اگر تمھارا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ( یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو جنگ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں) تمھاری ماں نہیں ہیں تو بلا شبہ تم نے کفر کا ارتکاب کر لیا چونکہ فرمان باری تعالٰی ہے: ”نبی علیہ السلام مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔“(احزاب:6)
پس تم لوگ دو طرح کی گمراہیوں میں منڈلا رہے ہو (عائشہ رضی اللہ عنہا کو قید کرنا روا سمجھو تو کفر اور اگر انھیں نبی کی بیوی نہ جانو تو کفر) پس ان میں سے جس کو چاہو ترجیح دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں اس اعتراض سے بازیاب ہو کر صحیح و سالم نکل گیا؟ کہنے لگے جی ہاں۔
فرمایا رہی تمھاری یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب مٹایا ہے، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کو شرائط صلیح طے کرنے اور لکھنے کی دعوت دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو یہ وہ معاہدہ ہے جسے محمد رسول اللہ نے طے کیا ہے۔ قریش کہنے لگے اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو ہم آپ کا راستہ قطعاً نہ روکتے اور نہ ہی آپ کے ساتھ قتال کرتے۔ لیکن صرف محمد بن عبد اللہ لکھو! (یعنی معاہدہ کے شروع میں جو نام کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ بڑھایا ہے اسے کاٹ دو)۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بخدا! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم میری تکذیب ہی کیوں نہ کرتے ہو۔ اے علی! لکھو: محمد بن عبداللہ (تفصیلات کے لیے دیکھئے : سنن ابی داؤد:۲۷۶۵، والمعجم الکبیر للطبرانی:۳۱۴/۱۰، ونصب الرایۃ: ۱۳۰/۳، ومجمع الزوائد: ۲۴۰/۶، و کنزالعمال:۳۰۱۵۳)
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بدرجہا افضل ہیں (یعنی جہاں نبی نے اپنے نام سے رسول اللہ کا لفظ مٹا دیا وہاں حضرت علی نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب مٹا دیا تو کونسا کفر ہو گیا)۔ ابن عباس نے فرمایا: کیا میں اس اعتراض سے بھی بری الزمہ ہو گیا؟ کہنے لگے جی ہاں۔
چنانچہ خوارج میں سے تقریباً بیس ہزار افراد نے رجوع کر لیا اور تقریباً چار ہزار اپنے حال پر بدستور قائم رہے بعد میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ (کتاب: حلیۃ الاولیاء ، مصنف: الامام الحافظ ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی رحمتہ اللہ)
حضرت عبد اللہ بن عباس کے خوارج کے ساتھ مناظرے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جس میں ہمیں چند نکتوں پر کی ہدایات ملتی ہیں: (۱) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ خود خوارج کے پاس جاکر ان کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو گئے (۲) آپ نے مناظرے کے شروع میں اپنے منہج کی خوبی اور ان کے منہج کا نقص واضح کر دیا کہ میرے پاس تو اصحاب رسول کی مختلف جماعتیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ایسی کوئی جماعت نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہی دین کو بہتر سمجھ سکتے ہیں (۳) سب سے پہلے مناظرے کے دوران ان کے تمام اعتراضات وسوالات کو بغور سنا پھر ان کے جوابات دئے (۴) خوارج کے یہاں بھی پہلا مسئلہ حاکمیت کا تھا اور آج بھی شدت پسند جماعتوں کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے (۵) خوارج جس طرح کے دلائل سے قائل ہو سکتے تھے انہی کو ان کے سامنے پیش کیا ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے خوارج کو شکست دینے کے لیے کوئی نیا منہج یا انکار حدیث کا سہارا لیا ۔
آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام شدت پسند تنظیموں کی اصلاح کی خاطر اہل علم آگے آئیں اور عوام کو مزید شدت پسندی کا شکار ہونے سے بچائیں اور توفیق اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہے ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/how-resolve-issue-khawarij-extremism/d/118266
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism