معصوم مرادآبادی
16نومبر،2023
غزہ پر جارحیت اور درندگی
کے چالیسویں روز اسرائیلی افواج نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے غزہ کی پارلیمنٹ
پرقبضہ کر لیاہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری
کے نتیجے میں الشفاء ہسپتال میں کئی نوزائیدہ بچوں سمیت 179 لوگ ملبے میں دفن
ہوگئے ہیں۔ وسائل کی کمی کے باعث ہسپتال میں ہی ان کی اجتماعی قبر بنادی گئی
ہے۔شاید یہ دنیا میں اب تک کی سب سے بڑی اجتماعی قبر ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ
ان سورماؤں کی بھی قبر ہے جو دنیا میں خطرناک اسلحوں کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتے
ہیں او راپنی پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہوئے ہیں۔ عالمی طبی تنظیم
کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ غزہ کے ہسپتال مقتل بن گئے ہیں، دنیا کو خاموش نہیں
رہنا چاہئے۔
غزہ میں گورکن کی خدمات
انجام دینے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس کی نیندیں اڑگئی ہیں اور کھانے پینے کے
قابل بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اس نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ساتھ
اتنے لوگوں کے لئے قبر یں کھودنی ہوں گی۔ کئی روز سے الشفاء ہسپتال کے ڈاکٹر او
رنرسیں کہہ رہی تھیں کہ اگر انہیں بجلی نہیں ملی تو ہسپتال میں موجود نوزائیدہ
بچوں کی موت ہوجائے گی۔ ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ نہ صرف متعدد مریض اور زخمی
بجلی و ایندھن کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے بلکہ قبل از قت پیدا ہونے
والے کئی نوزائیدہ بچوں کی بھی موت واقع ہوگئی۔ ہسپتال میں پانی، بجلی، کھانا او
رایندھن سبھی کچھ ختم ہوچکا تھا۔یعنی ہسپتال پر قبضہ کرنے سے پہلے اسرائیلی درندوں
نے اسے پوری طرح بے دست وپا کردیا تھا۔ جو زخمی او ربیمار ہسپتال میں زیر علاج
تھے، انہیں اسرائیلی فوج کی بمباری نے موت کی نیند سلادیا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے
آفیسر منیر البرش ’الجزیرہ‘ کے نامہ نگا ر کے سامنے یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر
رونے لگے کہ’ہسپتال کے صحن میں آوارہ کتے شہریوں کے مردہ جسم نوچ رہے ہیں، کیونکہ
بھاری بمباری کے بعد کوئی بھی ان کی تجہیز وتکفین کے قابل نہیں رہ گیا ہے۔جس وقت
یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تو اسرائیلی فوج اور اس کے ٹینک الشفاء ہسپتال میں داخل
ہوچکے ہیں۔ انہیں وہاں حماس کے زیر زمین ٹھکانوں کی تلاش ہے۔ اسرائیلی کارروائی کا
خاص نشانہ غزہ کے ہسپتال ہیں، جواب مردہ خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہر طرف لاشیں
ہی لاشیں ہیں اور تدفین نہ ہونے کی وجہ سے وہ خراب ہورہی ہیں۔
جی ہاں، یہ غزہ ہے جہاں
اسرائیل اپنے حامیوں کی مدد سے گزشتہ چالیس روز سے آگ برسا رہا ہے۔آخری درجے کی اس
درندگی او ربربریت میں اب تک 14ہزار بے گناہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد نئی
دہلی میں فلسطینی سفیر عدنان نے بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے گیا رہ ہزار مہلوکین کی
تعداد رجسٹرڈ ہے جب کہ تین ہزار لوگ بلڈنگوں کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔28ہزرا سے
زیادہ زخمی ہیں او رلاکھوں لوگ اپنے گھر بارسے محروم ہوچکے ہیں۔ غزہ اس وقت دنیا
کا سب سے بڑا قبرستان نظر آتا ہے، جہاں ہر طرف تباہی وبربادی کی داستانیں رقص
کررہی ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جو اس وحشت ودرندگی میں اسرائیل کے طرفدار ہیں، انہیں
نہ تو غزہ میں کمسن بچوں کی آہ وبکا سنائی دے رہی ہے او رنہ ہی وہ ان کے جسموں کے
چیتھڑوں کو دیکھ کر آبدیدہ ہیں۔ ان کے اندر انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ مغربی ملکوں کے
حکمرانوں نے بے حسی او ربے غیرتی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔اسلامی اور عرب ملک سرجوڑ
کر تو بیٹھے،لیکن ان کے پاس اپنی نسلوں کی بقاء او رتسلسل کی نہ تو طاقت ہے او رنہ
ہی ان کے اندر اتناحوصلہ ہے کہ وہ ایک وحشی درندے کا ہاتھ پکڑسکیں۔غزہ کے جس
ہسپتال میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے بچوں کی موت واقع ہورہی تھی او رجس کی سپلائی
پر اسرائیل نے پہرے بٹھا رکھے تھے وہ انہیں عرب ملکوں میں پیدا ہوتا ہے، لیکن اس
تیل پر بھی امریکہ اوراسرائیل کاقبضہ ہے۔ افسوس عرب ملکوں کا کنٹرول اپنی سرزمین
پر پیدا ہونے والے تیل پر بھی نہیں ہے۔گزشتہ ہفتہ ریاض میں جب غزہ کی صورتحال کا
جائزہ لینے کے لئے عرب اسلامی ملکوں کی کانفرنس منعقد ہوئی تو ہاں الجیر یا او
رلبنان نے یہ تجویز پیش کی کہ اسرائیل کو جاری تیل کی سپلائی میں تخفیف کردی جائے
او رجن مسلم ملکوں نے اس کے ساتھ سفارتی رشتے قائم کررکھے ہیں، وہ انہیں منقطع
کرلیں، لیکن اس تجویز کو نامنظور کردیا گیا، جب کہ یہ معمولی درجے کا احتجاج تھا
جو عرب ممالک کرسکتے تھے۔ متحدہ عرب امارات جیسا ملک اس تجویز کی مخالفت کرنے
والوں میں پیش پیش تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر محض بیان
بازی پر ختم ہوگیا او ریہ مسلم ممالک غزہ میں برستی ہوئی آگ کو بند کرانے میں اپنا
کوئی کردار ادا نہیں کرسکے۔ عرب ملکوں کی اس کمزوری نے آج یہ دن دکھائے ہیں کہ ایک
چھوٹا سا ملک مشرقی وسطیٰ کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے کہ اس نے عربوں کے سینے
میں ایک ناسور جیسی شکل اختیار کرلی ہے۔
غزہ پر جاری جارحیت کے
دوران اسرائیل نے درندگی او ربربریت کے سارے ہی ریکارڈ توڑ دئیے گئے ہیں۔ کوئی بھی
جگہ بمباری سے محفوظ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ نشانہ غزہ کے اسپتالوں کوبنا یاگیا ہے۔
غزہ کے 35 ہسپتال بمباری میں بالکل تباہ ہوچکے ہیں۔ ہسپتال، پنا گزین کیمپ، امدادی
ادارے او رمقامات ہوتے ہیں جہاں جنگ کے دوران بہت احتیاط برتی جاتی ہے، لیکن غزہ
میں اسرائیل درندوں نے سب سے زیادہ آگ ان ہی محفوظ مقامات پر برسائی ہے۔ کہا گیا
کہ ان اسپتالوں او رپنا ہ گزین کیمپوں کے نیچے حماس نے اپنی
کمیں گاہیں بنارکھی ہیں۔غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال کی مکمل تباہی اورتارا جی کے پیچھے
بھی یہی الزام تھا، لیکن وہاں حماس کا نام ونشان بھی نہیں ملا۔ یہ ایسا ہی الزام
تھا جیسا کہ عراق کے خلاف فوجی کارروائی کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے
صدام حسین پر لگایا تھا کہ انہوں نے عام تباہی کے ہتھیار چھپا رکھے ہیں، لیکن
امریکہ او ر اس کے اتحادیوں کو آخر تک وہاں کچھ
نہیں ملا، مگر اس دوران اسی طرح عراق کے اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جس طرح اب اسرائیل
نے غزہ کی بجائی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے جو طاقتیں اس وقت امریکہ کی پشت پر تھیں
وہی آج اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس وقت یہ سطریں لکھی جارہی
ہیں اسرائیل افواج نے الشفاء ہسپتال کو پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اسرائیل
ٹینک او ربکتر بندگاڑیاں وہاں داخل ہوچکی ہیں۔ فلسطین کے وزیر اعظم محمد اشتیہ
کاکہنا ہے کہ اسرائیل نے الشفاء ہسپتال کو غزہ پر اپنے کنٹرول کا عنوان بنا دیا
ہے۔انہوں نے کہا کہ الشفاء ہسپتال کے ساتھ غزہ کا دارالحکومت ہے او راس کے سقوط کا
مطلب غزہ کا سقوط ہے۔ یہ صرف زخمیوں، بیماروں، ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو قتل کرنے
کا بھونڈا جواز ہے۔انہوں نے کہا کہ اسپتالوں پر بمباری، ان کی بجلی کاٹنا او
رایندھن کو ان تک نہ پہنچنے دینا بین الاقوامی کے مطابق جنگی جرم ہے۔ جو بھی
اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے وہ بچوں او رخواتین کے خلاف جرائم میں برابر کا
مجرم ہے۔
16 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism