New Age Islam
Thu May 15 2025, 03:43 PM

Urdu Section ( 18 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hordes of Demons ...شیطانوں کے ہجوم

-------------------------------------------------------------------

پھل فروشوں اور دوکانداروں نے لوٹ مچارکھی ہے‘مسجدوں میں تراویح ہوتی رہتی ہے اور باہر اوباش نوجوانوں کے ٹولے ہڑدنگ مچاتے رہتے ہیں‘اپنی موٹرسائیکلوں میں پریشر ہارن لگواکربلاضرورت بجاتے پھرتے ہیں‘بلٹ موٹر سائیکل کا سائلنسرنکال کرپوری رفتارسےچلاتے ہیں جس سےآوازانتہائی خطرناک ہوجاتی ہے‘اس آواز سے بچے اور دل کے مریض بوڑھے ڈرجاتے ہیں۔اوباش نوجوان چوک چوراہوں اور مسجدوں کے آگے ٹولیاں بناکر راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔جبکہ ایسے لوگوں پر اللہ کے رسول نے پوری کائنات کی لعنت کی وعید سنائی ہے۔ آخر یہ کون ہیں؟ کیا یہ کسی دوسری قوم کے لوگ ہیں یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں؟

----------------------------------------------------------------

ودود ساجد

16 اپریل،2023

رمضان سے عین پہلے جو خوفناک زلزلہ آیا تھا اس کے جواب میں مسلم بستیوں میں قہقہے‘ شوروغوغا اور ہائو ہو دیکھنے کو ملا۔پڑوسی ملک کی پارلیمنٹ میں ایک ہندو ایم پی کی تقریر سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔اس نے رمضان کے دوران اصل شیطان کے مقید ہونے اور کروڑوں شیطانوں کے دندناتے پھرنے کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ہندوستان کی مسلم بستیوں کے نقشہ سے ذرہ برابرمختلف نہیں ہے۔

اس ہفتہ کا مضمون دوسرے موضوع پر تیار ہوا تھا۔اس کی آخری سطورپرکام باقی تھا کہ زیر نظر موضوع نے اپنی طرف کھینچ لیا۔11اپریل کی شام روزنامہ ’دینک جاگرن‘ کی سینٹرل ڈیسک سے ایک محترمہ کا فون آیا کہ رمضان مبارک کالم کے تحت روزہ پرآپ کا ’لیکھ‘ چاہئے۔میں نے کہا کہ آج تو مشکل ہے‘ کل دے سکتا ہوں۔خاتون نے لجاجت بھرے انداز میں کہا کہ سر آپ کا لیکھ آج ہی چاہئے‘ بس 200الفاظ میں لکھنا ہے۔میں نے وعدہ کرلیا اور آدھے گھنٹہ بعد 312الفاظ پر مشتمل ایک مختصر مضمون ہندی میں لکھ کر بھیج دیا۔

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ جاگرن سے کسی موضوع پر مضمون کی فرمائش آئی ہو۔اس سے پہلے ایک دو حساس موضوعات پرمجھ سے تفصیل سے مضامین لکھوائے گئے ہیں۔ پچھلے سال ’حجاب‘ جیسے حساس موضوع پر جاگرن نے مختلف مبصرین کی مختلف آراءشائع کیں تو مجھ سے بھی کہا گیا کہ آپ کو جو لکھنا ہے وہی لکھیں‘ اور وہی موقف سامنے رکھیں جو آپ کا ہے‘ اس میں کسی رورعایت سے کام نہ لیں۔میں نے کہا کہ میں حجاب کے معاملہ میں شریعت اور مسلمانوں کے مجموعی موقف کے خلاف نہیں جاسکتا۔جواب آیا کہ ہم وہی چاہتے ہیں کہ ہمارے لاکھوں قارئین کے سامنے حجاب کے تعلق سے وہ بات بھی جائے جو آپ کو درست لگتی ہے۔ میں نے عین شرعی احکامات ‘ حالات‘ تقاضوں اور ضرورت کے اعتبار سے حجاب پر ہندی زبان میں جو لکھا جاگرن میں لفظ بہ لفظ شائع ہوا۔میں نے حجاب کے مخالف شرپسندوں پر سخت تنقید کی اور سوال کیا کہ اگر یہ معاملہ حجاب اوڑھنے والی بچیوں اور اسکول وکالج انتظامیہ کے درمیان تھا تو ان اوباش قسم کے نوجوانوں کاحجاب سے کیا لینا دینا؟وہ بیچ میں کیوں آئے؟

میرے اس مضمون اور میرے موقف کی نہ صرف یہ کہ ستائش کی گئی بلکہ اسے انقلاب کےنام کے ساتھ کلیدی طورپرشائع کیا گیا۔مجھ سے کہا گیا کہ جس انداز سے آپ نے پورا قضیہ سامنے رکھا ہے اس انداز سے لوگ نہیں رکھتے۔جاگرن ہر برس رمضان میں پورے مہینے ’رمضان مبارک‘ کالم کے تحت مختلف شخصیات کی آراء شائع کرتا ہے۔لوگ اپنے اپنے طورپر روزہ کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔لیکن جس طبقہ کا عقیدہ اسلام نہیں ہے اسے آپ خالص عقیدہ کی بنیاد پر روزہ کی فرضیت اور افادیت نہیں سمجھا سکتے۔ اسے سائنسی اور سماجی توجیہات کے ذریعہ روزہ کی افادیت بتانے کا ہی کوئی فائدہ ہوگا۔اسلام کوئی’ یک رخی‘ مذہب نہیں ہے۔وہ ایک مکمل ہمہ جہتی نظام ہے۔وہ تمام خرابیوں اور نقائص سے پاک ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ذات باری تعالی اور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی مکمل واکمل ہے۔اس لئے روزہ جیسے حکم کی فرضیت محض مذہبی نہیں ہوسکتی۔تسلیم کہ دائرہ اسلام میں داخل ہرفرد کیلئے اللہ اور اس کے رسول کا ہر حکم لازمی طورپربلاچون وچراواجب العمل ہے۔لیکن ہر حکم کی بلاشبہ سائنسی اور سماجی توجیہات اور اس کی افادیات بھی موجود ہیں۔ہمیں موقع محل کے اعتبار سے توجیہات کا استعمال اور اظہار کرنا چاہئے۔

ملک میں مسلمانوں کے اوقاف کا مسئلہ اٹھا تو میں نے جاگرن میں مسلمانوں کے درست موقف کو سامنے رکھا۔کچھ مسلم مبصرین ایسے بھی تھے جنہوں نے حجاب کی طرح وقف کے اشو پر بھی حدسے تجاوز کیا اور وہ بھی لکھ دیا جو’دوسرے‘ بھی نہیں لکھتے۔شریعت کا مذاق اڑانے والوں کو ہرجگہ ’شاباشی‘ مل جاتی ہے اور وہ اسی کو اپنی قیمت سمجھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب آپ شریعت کو غیروں کی فہم کے پیرایہ میں رکھ کر پیش کرتے ہیں تو وہ اس کی افادیت اورمعقولیت کا اعتراف نہ بھی کریں تب بھی وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے۔یا مخالفت کی شدت میں کمی لے آتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ دوسروں کواسلام پہنچانےکا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔مجھے اس موقع پر پچھلے سال کے رمضان کی 27ویں شب کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔افطار اور مغرب کے فوراً بعد گھر کیلئے نکلنا تھا۔اتفاق سے اس روز نہ ڈرائیور اور نہ گاڑی۔کیب والے بھی ہڑتال پر تھے۔ جاگرن کے ایک غیر مانوس ساتھی نے آدھا راستہ طے کرادیا۔عشاء کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا اور کوئی کیب اور آٹو نہیں مل رہا تھا۔میں نے ایک پیٹرول اسٹیشن کے باہر کھڑی ہوئی ایک کیب کو امید بھری نظروں سے دیکھا اور اس کے آگے جاکر ڈرائیور سے کہا کہ بھائی مہارانی باغ تک چھوڑ دوگے؟اس نے درشتی کے ساتھ نفی میں جواب دیتے ہوئے گاڑی آگے بڑھادی۔اسی اثناء میں میرے منہ سے نکل گیا کہ بھائی جتنے پیسے کہوگے دیدوں گا‘میری نماز نکل جائے گی۔آگے جاکر اس نے بہت زور سے بریک لگایا اور ہاتھ کے اشارہ سے بلاکربڑی رعونت سے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔جب میں بیٹھ چکا اور اس نے گاڑی چلادی تو مجھے علم ہوا کہ وہ نشہ میں ہے اوراس کے گلے میں بجرنگ دل کا پٹہ پڑا ہوا ہے۔

اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے آپ کوکیوں بٹھایا؟میں کیا جواب دیتا ‘ میں نے کہا کہ بھائی آپ کا شکریہ! اس نے کہا کہ مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے۔مگر میں نے آپ کو اس لئے بٹھالیا کہ آپ نے کہا کہ میری نماز نکل جائے گی۔اب میں اس کی گرفت میں تھا۔اسٹیئرنگ اس کے ہاتھوں میں اورایکسیلیٹراس کے پائوں تلے۔وہ گاڑی بھی بہت تیز اور بے ترتیب چلارہا تھا۔اس نے پھر پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟میں نے کہا کہ ایک اخبار میں کام کرتا ہوں۔اس نے کہا کہ پھر تو جہاں گیر پوری اور اوکھلا کا پتہ ہوگا؟(ان دنوں دہلی کے جہاں گیرپوری میں فساد ہوا تھا اور بلڈوزر بھی چل رہا تھا)۔میں نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں۔اس نے کہا کہ سالوں نے پاکستان بنارکھا ہے۔اب میری مشکل بڑھ گئی تھی۔خاموش رہوں یا  بولوں۔اس نے پھر پوچھا کہ جہاں گیر پوری اور اوکھلاکے آتنکیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟میں نے ہمت کرکے پوچھا کہ کیاان علاقوں میں رہنے والے کسی مسلمان نے آپ کو کچھ کہا ہے؟اس نے کہا کہ سالوں نے آفت مچا رکھی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیسی آفت؟ تو وہ کچھ گالیاں دے کر خاموش ہوگیا۔اب میں نے مورچہ سنبھالا۔کچھ دیر تک سمجھایا۔سیاسی چالبازوں کی حرکتوں سے واقف کرایا۔آدم وحوا کا ذکر کیا۔قرآن کے کچھ انسانی پیغامات سنائے۔ میری منزل آتے آتے وہ رام ہوگیا۔میں نے اپنے بیٹے کو گاڑی لانے کیلئے فون کردیا تھا۔اس نے کہا کہ آپ بھی مسلمان ہولیکن مجھے آپ سے نفرت نہیں ہوئی لیکن جہاں گیر پوری اور اوکھلا والوں سے مجھے سخت نفرت ہے۔میں شکریہ اداکرکے اترنے لگا۔اس نے کہا کہ جب تک مہارانی باغ آپ کا بیٹا آپ کو لینے نہیں آجائے گا میں آپ کواترنے نہیں دوں گا۔بہرحال جب میں نے بیٹے کو دیکھا تو اس سے کہا کہ میرا بیٹا آگیا ہے اب میں اتر رہا ہوں۔وہ بھی نیچے اترا اور میرے پائوں چھونے لگا۔اس نے کہا کہ میرے لئےبھی پرارتھنا کرنا۔

روزہ پرجاگرن میں شائع ہونے والے اس مختصر مضمون کوسوشل میڈیا پر بھی میرے ہزاروں مداحوں نے بہت سراہا ہے۔میں نے لکھا تھا کہ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آخرصبح سے شام تک انسان کو بھوکا پیاسا رکھ کرایشور کو کیا حاصل ہوتا ہے؟میراجواب یہ ہے: روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے‘جس مقدس مہینہ میں روزہ رکھا جاتا ہے اسے رمضان کہتے ہیں۔رمضان عربی کا لفظ ہے۔اس کے معنی ’رک جانا‘ ہے۔یعنی ایک طرف جہاں چند گھنٹوں کیلئے کھانے پینے سے رک جانا ہے وہیں دوسری طرف لڑنے جھگڑنے‘ جھوٹ بولنے‘کم تولنے ‘ دھوکہ دینے ‘کسی کوتکلیف پہنچانےاور کسی کا حق مارنے سے بھی رک جانا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عام دنوں میں جب روزہ نہ ہو‘ ان تمام برے کاموں کی چھوٹ مل جاتی ہے۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس پورے مہینے میں ان تمام برے کاموں سے رکنے اور اچھے کاموں کو کرنےکی پریکٹس کرائی جاتی ہے تاکہ سال کے باقی 11 مہینوں میں بھی وہ اسی کا عادی رہے۔اسے مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ غصہ کی بات پر بھی غصہ نہ ہو‘ اسے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے تاکہ اسے غریبوں اور ناداروں کے دکھ درد کا بھی احساس ہو‘اگر روزہ رکھ کراس کے اندر غریبوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہ ہو تو اس کا یہ روزہ بلاشبہ محض بھوکا پیاسا رہنا ہوگا ۔

مجھے جہاں گیر پوری کا تو علم نہیں لیکن اوکھلا کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں اس کی روشنی میں اس’بجرنگ دل‘ کے حامی کیب ڈرائیورکو کیسے غلط ثابت کروں۔پچھلی تین دہائیوں میں ہزاروں واقعات کا شاہد ہوں۔ محض اسی ایک مہینہ میں تین واقعات تو میرے دفتری ساتھیوں کے ساتھ پیش آئے ہیں۔اوکھلا کی ایک جامع مسجد کے موذن کے بیٹے نے میرے دفتری ساتھی کے نوعمر بیٹے کومحض اس لئے لوہے کی راڈ سے ماراپیٹاکہ ایک روز پہلے اس نے موذن کے بیٹے کوتراویح کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے روکا تھا۔میرے ایک اور دفتری ساتھی کی موٹر سائیکل کواس علاقہ کا مکین ایک آٹو والا اس زور کی ٹکر مارکر بھاگ گیا کہ کئی دن تک وہ کام نہ کرسکے۔ایک اور سینئراور بردبار ساتھی کو پیدل چلتے ہوئےخالص مسلم آبادی میں نوعمر اوباشوں نے پہلےموٹر سائکل سے ٹکر ماری اور پھرانہی کو مل کر سب نے پیٹ ڈالا۔ایسے ایسے نہ جانے کتنے درجن واقعات ہر روز اوکھلا کی خالص مسلم بستیوں میں ہورہے ہیں۔پھل فروشوں اور دوکانداروں نے لوٹ مچارکھی ہے۔مسجدوں میں تراویح ہوتی رہتی ہے اور باہر اوباش نوجوانوں کے ٹولے ہڑدنگ مچاتے رہتے ہیں۔اپنی موٹر سائیکلوں میں پریشر ہارن لگواکربلاضرورت بجاتے پھرتے ہیں۔بلٹ موٹر سائیکل کا سائلنسرنکال کرچلاتے ہیں جس سےآوازانتہائی خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس آواز سے بچے اور دل کے مریض بوڑھے ڈرجاتے ہیں۔چوک چوراہوں اور مسجدوں کے آگے ٹولیاں بناکر راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں پر اللہ کے رسول نے پوری کائنات کی لعنت کی وعید سنائی ہے۔ آخر یہ کون ہیں؟ کیا یہ کسی دوسری قوم کے لوگ ہیں یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں؟

مسجدوں میں ائمہ انہی کو تو خطاب کرکے سمجھا سکتے ہیں جو مسجدوں میں آتے ہیں۔جو نوجوان سڑکوں پر غنڈہ گردی مچاتے پھر رہے ہیں انہیں کون سمجھائے گا؟ آخر ان کے ماں باپ بھی تو اسی علاقے میں رہتے ہوں گے؟رمضان سے عین پہلے جو خوفناک زلزلہ آیا تھا اس کے جواب میں مسلم بستیوں میں قہقہے‘ شوروغوغا اور ہائو ہو دیکھنے کو ملا۔پڑوسی ملک کی پارلیمنٹ میں ایک ہندو ایم پی کی تقریر سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔اس نے رمضان کے دوران اصل شیطان کے مقید ہونے اور کروڑوں شیطانوں کے دندناتے پھرنے کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ہندوستان کی مسلم بستیوں کے نقشہ سے ذرہ برابرمختلف نہیں ہے۔

 (wadoodsajid@inquilab.com)

16 اپریل،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hordes-demons/d/129590

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..