مختلف مسالک و مکاتب فکر
کے کبار علماء کی آراء
مولانا ابوطالب رحمانی
(آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی جنرل باڈی کے رکن)
28 اگست، 2022
ایک عام سے عام مسلمان کے
لئے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ’ناموس‘ وقار اور احترام سے بڑھ
کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر کوئی انتہائی گرا ہوا انسان آپ کی شان اقد س میں گستاخی
کرتاہے تو ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا۔ یہ ایک
فطری بات ہے۔ یہ تقاضا ئے محبت ہے۔ لیکن اسلام ایک عظیم الشان دین ہے۔ شریعت
اسلامیہ ہر موقع پر ہماری رہ نمائی کرتی ہے۔ ہمیں ہر حال میں اپنے جذبات پر قابو
رکھنا ہے۔ یہ احساس اور رہ نمائی اسلام اور شریعت مطہرہ کی ہے۔ ہمیں اپنے غصہ کو
منفی رخ نہیں دیناہے۔ ہمیں اس غصہ کا مثبت استعمال کرنا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ
غصہ اور جذبات کے وقت منفی سے رکنا اور مثبت پر عمل کرنا ہر آدمی کے بس کی بات
نہیں ہے۔ یہا ں پر ہمارے علماء اکابرین ’فقہاء‘ اسلاف اور بزرگان دین کی ضرورت پیش
آتی ہے۔ ہمارے علماء واکابر کو آگے بڑھ کر خود ہی رہ نمائی کرنی پڑے گی۔ کوئی یہ
کہہ کر نہیں بلائے گا کہ ہماری رہ نمائی کیجئے۔ ایسے وقت میں جب لوگ غصہ اور جذبات
میں ہیں علماء کو ہی تھامنا پڑے گا۔ ہر ملک کا ایک قانون ہے۔ مسلمان کے لئے یہ
جائز نہیں ہے کہ جس ملک میں ر ہے اس کے لا اینڈ آرڈ ر کے لئے مسئلہ پیدا کرے۔ جس
نے گستاخی کی ہے اس نے ملک کے لا اینڈ آرڈر کے لئے ایک مسئلہ اور معاشرہ میں ایک
کشیدگی پیدا کی ہے۔ اگر مسلمان بھی اپنے جذبات او رنادانی میں لااینڈ آرڈر کے لئے
پیدا کردے تو یہ اس شیطان کے لئے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ ہر گز مناسب نہیں ہے کہ
مسلمان کوئی ایسا نعرہ لگائے جو قانون اور اصول کے خلاف ہو۔ کسی ایک آدمی کی سزا
زبان سے یا عمل سے کسی معاشرہ کو نہیں دی جاسکتی۔ قرن اولی میں حضرت ابوبکر صدیق
کی خلافت کے دوران جب جب تحفظ ناموس کے لئے آواز بلند ہوئی تو حکومت او رایک نظام
کے تحت ہوئی۔ ایسا نہیں ہوا کہ کوئی مسلمان کھڑا ہوا اور اس نے ہتھیار لہرا دئے
ہوں۔ تاریخ میں اگر ایسی کوئی نظیر ہو بھی تو وہ بھی اسلامی ضابطہ کے خلاف ہے۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں ایک نظام اور دستور باقی ہے۔ جو لڑائی لڑنی ہے
او رجو کوشش کرنی ہیں وہ قانون کے دائرے میں ہی کرنی ہوں گی۔ اگر قانون کے دائرے
سے ہٹتے ہیں تو تقصانات تو اپنی جگہ مگر یہ اسلامی احساسات اور اصولوں کے بھی
منافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا محمد رحمانی
(صدر مولانا ابوالکلام آزاد ویکٹنگ سینٹر)
”سر تن سے جدا“ جیسا نعرہ سراسر غلط اسلامی ہے او رایک عام آدمی
اگر اسلامی حکومت کے تحت بھی زندگی گزارر ہا ہو تو بھی اسے ایسے نعروں کی قطعاً
اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اس انداز کے نعروں پر اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سزا
متعین کر کے امن و سلامتی کی بحالی کو یقینی بنائے۔ جب اس طرح کے جذباتی جرم کی
اسلامی ممالک میں کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی تو غیر اسلامی ممالک میں
اس کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے۔(واضح رہے کہ اسلامی ملک میں شاتم رسول کی سزا قتل ہے
لیکن اس سزا کو نافذ کرنے کا حق قاضی اور حکومت کو ہے عام آدمی کو نہیں)۔مسلمانوں
کی ایسے احوال میں دینی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سیرت رسول اور سنت رسول کی پابندی او
ران کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دیں۔اللہ رب العالمین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا استہزا ء کرنے یا آپ کو گالیاں دینے والوں کے لئے فرما دیا ے ”انا کفینا ک
المستہزئین“ کہ ایسے ذلیل لوگوں کے لئے اللہ کافی ہے او ررب کائنات نے رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کو انہیں انظر انداز کرنے اور دین کی تبلیغ کرتے رہنے کا حکم دیا
ہے (تفصیل کے لئے سورہ حجرآیت 94تا 99)
مسلمانوں کی ایسے احوال
میں سیاسی ذمہ داری یہ ہے کہ اتحاد پیدا کریں اور مستقبل کے لئے مضبوط لائحہ عمل
بنائیں اور پوری مضبوطی کے ساتھ قانونی اقدامات کریں او رملکی قانون کے دائرہ میں
رہتے ہوئے مسائل کی پیروی کریں۔ یادرکھیں کہ خود مسلمان سنت رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے متعلق جس مجرمانہ غفلت کا شکار ہے او راپنے فقہی مسائل کو احادیث پر ترجیح
دینے کی خطرناک غلطی مسلسل انجام دے رہا ہے یہ بھی توہین رسالت کی ہی ایک شکل ہے۔
ایسی صورت حال پر ہمیں آیت کریمہ ”وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم
(الشوری:30)پر غور کرناچاہئے۔ یقیناً تمام مکاتب فکر کے قائدین کو متحدہ لائحہ عمل
تیار کرنا چاہئے اور مسلمانوں کی بھی کرنی چاہئے اور حکومت کے متعلقہ ذمہ دار ان
سے متحد ہوکر بات بھی کرنی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالعلی فاروقی
مہتمم مدرسہ فاروقیہ
کاکوری
جہاں تک اس نعرے کا
معاملہ ہے اس کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہوسکتی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اسلامی
شرعی قانون ہے ’تو ہین رسالت پر سزا او راس کا نفاذ اسلامی ملک میں ہوسکتا ہے
ہندوستان جیسے ملک میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔ اس قسم کی اشتعال انگیز
باتوں سے نقصان ہی ہوگا۔ شرعی طور پر اس کی کوئی اجازت نہیں۔ احتجاج تو ضرور
ہوناچاہئے لیکن اس کے لئے مناسب رویہ احتیار کرنا چاہئے اور جو انداز اختیار کیا
جارہا ہے وہ با لکل مناسب نہیں ہے۔احتجاج کے دوران سڑکو ں پر اشتعال انگیز نعرے
لگانے سے بات او ربڑھے گی۔ ذمہ داران اور حکمرانوں کو مناسب طریقے پر اطلاع دینی
چاہئے اور اخبارات کے ذریعے اور وفد کی شکل میں اپنا احتجاج ضرور درج کراناچاہئے۔
ہمارے ملک میں جو قانون ہے اس میں کسی کی بھی توہین کی اجازت نہیں۔ واضح طور پر
آئین میں موجود ہے کہ کسی بھی مذہبی پیشوا کی توہین نہیں کی جاسکتی۔حضرت نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمانوں کے لئے جتنی اہمیت ہے اس کے پیش نظر ہم یہ کہہ
سکتے ہیں کہ ارباب اقتدار کو ہماری بات سننی چاہئے اور اگر حکمران نہیں سنتے ہیں
تو ہم کو قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں باہم مشورہ کرکے کوئی مناسب
طریقہ اختیار کرناچاہئے لیکن خاموش نہیں رہناچاہئے۔ تمام مسالک او رتمام مکاتب فکر
کے علماء کو او ردوسرے طبقے کے لوگوں کو جمع کر کے لائحہ عمل ترتیب دینا بہت ضروری
ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم لوگ جمع نہیں ہوپاتے۔
---------------
مفتی عمر عابد ین قاسمی
مدنی
(نائب ناظم المعبد العالی الاسلامی، حیدر آباد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخی سنگین جرم ہے او راس طرح کی کوششیں ہندوستان میں صرف اور
صرف فرقہ پرستی کو ہوا دینے او رپورے ماحول میں زہر گھولنے کے لئے کی جارہی ہے۔
حکومت اور ملک سے حقیقی محبت رکھنے والوں کو چاہئے کہ ایسے مجرموں کے خلاف سخت
قانونی چارہ جوئی کی جائے ورنہ یہ ملک فرقہ واریت کی آگ میں خاکستر ہوجائے گا۔
اسلام اس بات کی تعلیمات دیتا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت وپرستش کی جائے اور دیگر
مذہبی پیشواؤں کے بارے میں کوئی گستاخی نہ کی جائے نظریات میں اختلافات کے باوجود
دیگر مذہبی مقدسات کی بے احترامی نہ کی جائے اور الحمد اللہ مسلمان بحیثیت قوم ان
ہدایات پر عمل کرتے رہے ہیں۔اسلامی قوانین کے مطابق سخت سے سخت جرم کی سزا نافذ
کرنے کے لئے اسلامی ریاست کا ہونا ضروری ہے اور عدالتی کارروائی کے ذریعہ ہی یہ
کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کسی جمہوری ملک میں ایسے نعرے لگانا جن سے قانون
شکنی، یا بذات خود سزا نافذ کرنے کا اظہار ہو، درست نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ایسے
حالات و حادثات میں حسب ذیل اقدامات کرنے چاہئیں۔
قانونی چارہ جوئی۔ملک گیر
سطح پر قانون دانوں اور دیگر کائیوں پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے، جو خاص طور پر Blasphemy کے واقعات کا نوٹس
لے، اور تمام تر امکانات کو پیش نظر رکھ کر قانونی اقدامات کرے۔ نیز ریاستی
حکومتوں سے قانون سازی کا مطالبہ کیا جائے۔ مقامی حالات اور نزاکتوں کو سامنے رکھ
منظم احتجاجی مظاہرے کیے جائیں۔ عوامی غم و غصہ اور احتجاج کا اپنا وزن ہوتا ہے،
مگر اس میں علاقائی نزاکتوں کو ضرور پیش نظر رکھا جائے۔مختلف سطح پر حکومت او
راعلیٰ عہدہ داران سے مشترکہ وفد ملاقات کرے او راپنے مطالبات پیش کرے۔ بین مذہبی
مذاکرات منعقد کیے جائیں۔ ماہ ربیع الاول اور دیگر مواقع پر سیرت نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم کے انسانی پہلو کو پیش کیا جائے، اس کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو
بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے۔ سماجی رویوں کو اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے
پیکر میں ڈھالا جائے۔ آئے دن اس طرح کے تکلیف دہ واقعات پیش آنے لگے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید رضا نوری
صدر ر ضا اکیڈمی،ممبئی
مسلمانوں کے نزدیک توہین
رسالت سے بڑھ کر کوئی بھی جرم نہیں ہے۔ توہین رسالت کے مرتکبین کے خلاف سخت سے سخت
احتجاج او رمظاہرے ہونے چاہئیں۔ مگر اس کے لئے حالات پر بھی نظر ہونی چاہئے۔
احتجاج قانون کے دائرے میں ہی ہوناچاہئے۔ ہندوستان میں یا ہندوستان کے باہر سزا
دینا صرف حکام کا کام ہے۔ عوام کا کام احتجاج او رقانونی کارروائی کرنا ہے۔ ایسے
نعروں سے پرہیز کرنا چاہئے جن پر نہ ہم
عمل کرسکتے ہیں او رنہ کرواسکتے ہیں۔ ہمیں ایک مضبوط تحریک چلا کر اہانت کے خلاف
قانون بنوانا چاہئے جس کے تحت کسی بھی مذہبی پیشوا کے خلاف توہین کرنے والوں کو کم
سے کم دس سال کی سزا دی جائے۔ 1974 میں جس طرح تمام مسالک کے مسلمانوں نے مل کر
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی مہم چلائی تھی اسی طرح گستاخان رسول کے خلاف
قانون بنوانے کے لئے بھی تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء او رمسلمانوں کو
تحریک چلانی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توہین رسالت ممکن ہی نہیں
مفتی اطہر شمسی
القرآن اکیڈمی کیرانہ،
شاملی
میرے نزدیک توہین رسالت
ممکن ہی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس قدر بلند ہے کہ کسی
سرپھرے کی مجال ہی نہیں ہے کہ وہ اس عظیم ہستی کی شان کو ادنیٰ درجہ میں گھٹا سکے۔
آپ جس طرف نظر اٹھائیں، ہر طرف اسی عظیم ہستی کا فیضان نظر آئے گا۔ خود قرآن نے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمادیا ہے ”اور ہم نے آپ کا ذکر بلند
کردیا“(4/94)۔یعنی آپ کا نام بلند کردیا۔ بھلا جس عظیم ہستی کا نام خود خالق
کائنات نے بلند کردیا ہو، کیا کسی مجرم کی مجال ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کی شان کو
ذرا بھی مجروح کرسکے؟ پیغمبر اسلام علیہ السلام کے بارے میں یہ بیان کہ نعوذ باللہ،
آپ کی توہین کردی گئی ہے عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقفیت یا اس کے گہرے
شعور کے فقدان کاثبوت ہے۔ ہاں کچھ سر پھرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں
گستاخانہ کلمات استعمال کرکے خود اپنے ذلیل ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔جن لوگوں
نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے دریدہ دہنی کرنے کی کوشش کی، ان
مجرمانہ بدتمیز یوں کاجواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح دینے کا حکم دیا گیا
اس کاعلم ہمیں قرآن کی سورۃ الحجر کی آیت نمبر 94-95 سے ہوجاتا ہے۔ جس کا
مفہوم یہ ہے: ”انفرادی اور اجتماعی زندگی
کے جن اصولوں کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ انہیں کھلم کھلا سنا دیجئے او رمشرکین
سے اعراض کیجئے۔ اس طرح آپ اپنے پروگرام پر جمے رہیے۔او رمذاق اڑانے والوں سے
نمٹنے کے لئے آپ کی طرف سے ہم ہی کافی ہیں“۔قرآن کی اس آیت میں صاف حکم دیا گیا ہے
کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ناکام کوشش کی جائے
ہمیں اعراض کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔سورۃ طٰہٰ کی آیت چالیس میں ارشاد ہے ”جو
لوگ اپنی زبان سے آپ کو تکلیف پہنچارہے ہیں، آپ ان کے جواب میں صبر کیجئے“۔لہٰذا
قرآن کی ان آیات کی روشنی میں ایسی بدتمیزی کا جواب صرف اور صرف صابرانہ حکمت عملی
ہے جس میں قانونی کارروائی بھی شامل ہے۔ سر تن سے جدا جیسے نعرے لگانا کتاب اللہ
اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔توہین رسالت کی ناکام کوششوں کا جواب
دو سطح پر دیا جانا چاہئے (1)متعلقہ شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے تاکہ سماج
میں کسی بڑے انتشار او ربد امنی کو روکا جاسکے۔ (2) ایسی جسارت کرنے والے ہر شخص
او رملک کے تمام باشندگان کے ساتھ ’اوپن ڈائلاگ‘ کے ذریعہ تمام ذرائع ابلاغ کا
استعمال کرکے ملک کے ہر شہری کے ساتھ مہذب اور جدید علمی اسلوب میں مکالمہ کا
دروازہ کھول دیا ئے تو ہر انسان کی نگاہ میں دودھ کا دودھ او رپانی کا پانی ہوجائے
گا۔(3)مسلمان خود سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرا القرآن اکیڈمی کیرانہ اپنے
محدود وسائل کے ساتھ انہیں خطوط پر کام کررہی ہے۔
28اگست،2022،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
English Article: Slogans like "Sar Tan Se Juda" Are Utterly Incompatible with Islam, Though Nothing Is More Valuable than the Honour of the Prophet for Us Muslims
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism