ڈاکٹر غلام زرقانی
16 ستمبر،2023
آگے بڑھنے سے پہلے میں
واضح کردوں کہ کہیں ہزار خرابیوں کے درمیان کسی خوبی کی موجودگی اور دوسری طرف
ہزار خوبیوں کے درمیان ایک برائی کا وجود حیرت و استعجاب کی کوئی بات نہیں، بلکہ
یہ عمومی جھلک ہمارے شب وروز کا حصہ ہے، جس کی مثال ڈھونڈنے کے لئے کہیں دور جانے
کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ حدیث کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں میری خواہش
ہوتی ہے کہ اگر کہیں کوئی حکمت ودانائی اور قابل ستائش کوئی خوبی دکھائی دے، تو
میں اسے اپنے مناظرین کے سامنے پیش کردوں۔ کیا عجب کہ زیادہ نہ سہی،چند احباب بھی
اسے اپنی معمولات حیات میں شامل کرلیں، تو میں سمجھوں گا کہ میری کوششیں بار آور
ہوگئی۔
میں اس وقت ہالینڈ سے
امریکہ کے سفر پر محوپرواز ہوں۔ کل اپنے ایک کرم فرما حاجی علی صاحب کے ساتھ
ہالینڈ کے شہر یوترخ کے دیہی علاقوں سے گزررہا تھا۔راستے میں جگہ جگہ بڑے بڑے
زراعتی فارم دکھائی دیے، جس کے کنارے سڑک سے متصل سیلقے سے گھر بنے ہوئے تھے۔موصوف
نے بتایا کہ یہ لوگ یہیں رہتے ہیں اور پھل،سبزیاں اور پھولوں کی کاشت کرتے ہیں۔ یہ
کسان بڑے تجارتی مراکز سے معاہدے کرلیتے ہیں، جن کی لاریاں مقرر اوقات میں آجاتی
ہیں اور ذمہ داران مناسب قیمت ادا کرکے چیزیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔تاہم چند ایسے
بھی چھوٹے کسان ہوتے ہیں، جو کسی سے معاہدہ نہیں کرپاتے او روہ اپنے ’طور پر ہی
چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے سامنے سڑک سے متصل ایک
الماری رکھی ہوتی ہے اور نیچے قیمت ڈالنے کے لیے ڈبہ۔ آنے جانے والے لوگ اپنی
گاڑیاں روک دیتے ہیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں لے کر بورڈ میں تحریر کردہ قیمت ڈبے
میں خود ہی ڈال دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہ خود کا دکانیں ہیں،
جن پر دکان دار نہیں ہوتے، بلکہ لوگ دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مطلوبہ سامان
لے کرمقررہ قیمت ڈبے میں جمع کردیتے ہیں۔ شاید آپ یہ کہیں کہ سامنے گھر میں بیٹھے
ہوئے وہ اپنی عارضی دکان پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ
یہ سرتاسردیانت داری کی اعلیٰ ترین مثال ہے، جو مغربی معاشرے کی تہذیب کا جزولانیفک
ہے۔ لوگ کسی طرح کی بیرونی دباؤ کے بغیر ہی اس پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح
میں نے کناڈا کے غیر آباد جنگلوں سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ شہد کشید کرنے والے سڑکوں
کے کنارے شیشے کے چھوٹے چھوٹے مرتبان شہد رکھ دیتے ہیں اور قیمت ڈالنے کیلئے ایک
ڈبہ۔ یہا ں تو دور دور تک کوئی آبادی ہوتی ہی نہیں ہے، لیکن لوگ کمال دیانتداری
کامظاہرہ کرتے ہوئے واجبی قیمت ڈبے میں ڈالتے رہتے ہیں۔
لگے ہاتھوں ایک او ر جہت
بھی سامنے رہے۔ غالباً دوتین سالوں پہلے کی بات ہے کہ ہالینڈ کے مرکزی شہر ایمسٹرڈ
یم میں ایک صاحب نے میری دعوت کی۔ وقت مقررہ پر وہ اپنی کار لے کر میرے عارضی
مستقر پر آگئے۔ جلدی جلدی میں نے تیاری کی اوران کے ساتھ آگے والی نشست پر بیٹھ
گیا۔کار محلے کی سڑکو ں سے گزرتے ہوئے بائی وے پر آگئی۔ موصوف کے آباء واجداد
ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں برطانوی حکومت نے بزورطاقت سورینام منتقل کیا۔
بتایا جاتاہے کہ اس زمانے میں چپوالی بڑی کشتیوں پر ٹھونس ٹھونس کر یہ لوگ سوا ر
کیے گئے اور نہایت ہی مشکل حالات سے گزرتے ہوئے کسی طرح سورینام پہنچے۔ اس طرح
سورینام میں اچھی خاصی تعداد میں ہندوستانی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ جب سورینام پر
ہالینڈ نے قبضہ کرلیا، تو دونوں ممالک کے درمیان آمد ورفت میں اضافہ ہوا۔ یہی وجہ
ہے کہ ہالینڈ میں بہت بڑی تعداد میں سورینام سے تعلق رکھنے والے مسلمان آباد ہیں۔
بہر کیف موصوف کے ساتھ دینی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ہم ایک محلے میں داخل
ہوئے اورچند گلیوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اتنے میں موصوف نے اپنی گاڑی
کنارے روک دی۔ دیکھا تو سڑک کے کنارے ایک باسکٹ میں بیگن، ٹماٹر، مرچ اور کدو
وغیرہ رکھے تھے۔ جناب نے دوچار چیزیں اٹھالیں اور دوبارہ کار میں آکر بیٹھ گئے۔
میں نے پوچھ لیا کہ آپ بغیر کسی سے پوچھے یہ چیزیں اٹھالیں۔ موصوف نے بتایا کہ
یہاں بڑی عمر کے لوگ وقت گزاری کے لئے اپنے گھر کے عقبی حصے میں سبزیوں کی کاشت
کرتے ہیں۔ جب انہیں محسوس ہوتاہے کہ یہ سب ان کی اپنی ضرورت سے زیادہ ہوگیا ہے تو
وہ اپنے گھر وں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، تاکہ جو چاہے اپنی خواہش کے مطابق انہیں لے
جائے۔ اس طرح یہاں کی تہذیب و تمدن کے آئینے میں ہمیں اجازت عام حاصل ہے، جس میں
کوئی مضائقہ نہیں۔
اندازہ لگائیے، کیا
ہندوپاک میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ لوگ گھروں میں کاشت کی ہوئی اضافی سبزیاں
اپنے گھروں کے سامنے رکھیں۔ اور اگر بفرض محال کہیں کوئی جیالہ ہمت کر بھی لے تویہ
ہرگز نہیں ہوسکتا کہ آس پڑو س کے لوگ صرف ضرورت کے مطابق دوچار چیزیں ہی اٹھائیں
گے، بلکہ توقع یہی ہے کہ وہ نہ صرف سارے کاسارا اٹھا کر لے جائیں گے،بلکہ ساتھ
ساتھ باسکٹ پر بھی ہاتھ صاف کرلیں گے۔ خیال رہے کہ یہ فرضی اندیشہ نہیں ہے، بلکہ
تجرباتی حقیقت ہے۔ معاف کیجئے گاکہ ہمارے یہا ں عام طور پر حرص و طمع کچھ اس قدر
عام ہوگیا ہے کہ لوگ دوسروں کی امداد واعانت کے حوالے سے کم سوچتے ہیں، بلکہ خواہش
یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہے، وہ سب کا سب ہمارے قبضے میں آجائے، خواہ دوسرے مستحق
بالکل محروم رہ جائیں۔
جب میں سوچتا ہوں تو دماغ
پھٹنے لگتا ہے کہ دیانتداری کے پس منظر میں کہاں ہم او رکہاں یہ لوگ؟ ہمارے یہاں
تاجر بھی اپنے خریداروں کو ٹھگنے کی کوشش کرتے ہیں اور خریدار بھی موقع کی تاک میں
رہتے ہیں کہ کسی طرح نظر بچا کر کوئی انہونی کرلی جائے۔ اسی لیے شاید یہ بات کسی
حد تک درست بھی ہے کہ باستثنا ئے چند، عام طور پرکچھ لوگ دھوکہ دیتے ہیں اور دوسرے
اس لیے دھوکہ نہیں دیتے کہ اب تک انہیں مناسب مواقع نہیں ملے ہیں۔ اور حیرت بالائے
حیرت تو یہ ہے کہ ایسی فریب دہی پر بجائے شرمندہ ہونے کے، اسے ہمارے معاشرے میں
نظر استحسان سے دیکھا جاتاہے اور جناب کو چالاک، ہوشیار اور دانش مند ہونے کے معزز
القابات سے یاد کیا جاتاہے۔ ہوسکے تو لمحہ بھر کے لیے غور کیجئے کہ اگر کسی برائی
پر ہم مجرم کی سرزنش کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کریں گے، تو کیا یہ امید کی جاسکتی
ہے کہ معاشرے میں بااخلاق نسل پروان چڑھے؟
16 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism